(اداریہ) مقبوضہ کشمیر اور مقبوضہ فلسطین - رضا ء الحق

11 /

اداریہ


رضا الحق


مقبوضہ کشمیر اور مقبوضہ فلسطین


5 اگست 2019ء کا دن تاریخِ عالم کے سیاہ ترین ابواب میں ایک اور بھیانک باب کا اضافہ تھا، جب غاصب بھارتی حکومت نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت والی آئینی شق 370 اور35Aکو بیک جنبش قلم ختم کر دیا اور مقبوضہ کشمیر کو بھارتی آئین کے تحت ہی دی گئی خصوصی حیثیت کو آناً فاناً ختم کر کےکم و بیش ڈیڑھ کروڑ نفوس پر مشتمل جموں،وادی اور لداخ کو یونین ٹیریٹریز قرار دے دیا اور انہیں بھارت میں ضم کر لیا گیا۔ مقبوضہ کشمیر کو جو پہلے ہی مقبوضہ فلسطین کی طرح مسلمانوں کی ایک جیل تھی اُسے مزید جہنم کدہ بنا دیا۔ مقبوضہ کشمیرکی تنظیم نو کے نام پرنیا قانون منظور کر لیا گیا اور اُس کے تحت ہزاروں افراد کو قید کرکے ان کی نقل و حرکت پر پابندیاں عائد کر دی گئیں۔ پورے خطے کو لاک ڈاؤن کا شکار کیا گیا اور تمام تر ذرائع نقل و حرکت اور مواصلات معطل کر دیئے گئے۔ بھارتی حکومت کے اس وحشیانہ اقدام کے تحت 5 اگست 2019ء کے بعد سے مقبوضہ کشمیر میں سینکڑوںمسلمان بچوں، عورتوں،بوڑھوں اورجوانوں کو نہایت بے دردی سے شہید کرکے اپنی سفاکیت کا سرِ عام مظاہرہ کیا گیا۔عورتوں اور بچوں سمیت سینکڑوں کو پابند سلاسل کر دیا گیا اور وہ افراد گنتی سے باہر ہیں جنہیں ایسے کالے قانون کی زد میں لایا گیا جس کی رو سے کسی بھی شخص کو بغیر کسی الزام کے غیر معینہ مدت تک قید میں رکھنے کی اجازت ہے۔سر عام درندگی اور وحشت کا بازار گرم کیا گیا اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ ہسپتالوں میں ادویات اور دیگر ضروری وسائل کی قلت کے سبب اَن گنت مریض اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ڈاکٹر بھی بے بسی کی تصویر بن کر رہ گئے ۔ المیہ یہ ہے کہ مظلوم کشمیریوں کاکوئی پُرسان حال نہیں۔ مقبوضہ کشمیر کی سیاسی قیادت کو بھی جیلوں میں بند کر رکھا ہے۔ اِس اندوہناک سانحہ کو وقوع پذیر ہوئے چھ برس گزرنے کو ہیں اور اب تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مسلم دنیا اور پاکستان بھی شاید بھارت کے 5 اگست 2019ء کے مجرمانہ اقدام پر مکمل بے حسی کا شکار ہو چکے ہیں۔
حقیقت میں آزادی کا جذبہ ایک ایسا جذبہ ہے کہ انسان سر ہتھیلی پر رکھ کر آگے بڑھتا ہے۔ پھر یہ کہ آزادی کو اگر مذہب کا انجکشن لگ جائے تو موت کو گلے لگانا خواہش بن جاتی ہے۔ گویا شہادت مطلوب و مقصود بن جاتی ہے۔ ماضی قریب میںافغان طالبان اور آج غزہ کی مثالیں سامنےہیں۔ ایک نیوز چینل کےاینکر نےایک امریکی سے انٹرویو کے دوران پوچھا کہ امریکہ ایک عظیم قوت ہے لیکن وہ افغان طالبان سے شکست کیوں کھا رہی ہے توامریکی کا جواب تھا:" "They want to die and we want to live۔ کچھ ایسا ہی معاملہ غزہ کے مظلوم لیکن غیور مسلمانوں کا ہے اور یہی کامیابی کا اصل راز ہے۔ کشمیری مسلمان بھی اب اُس نہج پر پہنچتے جا رہے ہیں کہ آزادی یا موت! لہٰذا کشمیری اگرچہ تکلیف میں ہیں، بدترین تشدد کا شکار ہو رہے ہیں لیکن بھارتی تشدد سے آزادی کا جذبہ مزید بڑھتا جا رہا ہے۔ البتہ دشمن کے عزائم بھی واضح ہیں۔ اُس کا ظلم اُسے درندگی کی بھی بدترین سطح پر لا چکا ہے۔ یہ اسفل سافلین کے لشکر ہیں جو انسانیت پر بدنما داغ ہیں۔
ہمارے ہاں کی انسانی حقوق کی نام نہاد تنظیمیں مغرب کا نمک حلال کر رہی ہیں۔5ا گست 2025ء کو بھی گزشتہ چھ سالوں کی طرح اُن کی پُراسرار خاموشی برقراررہے گی۔ اُنھیں صرف اُس وقت چیخنا ہوتا ہے جب اندرونِ سندھ کوئی ہندو لڑکی اپنی مرضی سے مسلمان ہو کر شادی کرتی ہے ، کسی شاتم رسول کو سزا ہوتی ہے یا سوشل میڈیا پر بدترین توہینِ رسالتﷺ و مقدسات میں ملوث انسان نما شیطانوں کو گرفتار کیا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں قادیانیوں کے غم میں بھی گھلتی رہتی ہیں۔ اُدھر57 مسلم ممالک کو چُپ لگی ہے۔ وہ حساب کتاب میں مصروف ہیں۔ متحدہ عرب امارات کی 150ارب ڈالر کی بھارت سے تجارت ہے جو اگلے سال مزید بڑھ کر 200ارب ڈالر ہو جائے گی۔ سعودی عرب بھارت میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ اُن کی آنکھوں پر تو ڈالر کے پردے پڑ ے ہیں لہٰذا اُنھیں مسلمان بھائیوں کے خون سے رنگے ہوئے مودی کے ہاتھ دکھائی نہیں دیتے۔ لیکن یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ پاکستانیوں کو بھی اُمت مسلمہ کی یاد صرف اُس وقت ستاتی ہے جب وہ دیوالیہ ہو رہا ہوتا ہے وگرنہ مشرف کے دور سےہماری خارجہ پالیسی کا بنیادی ستون ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ ہے۔ بہرحال یہ مقبوضہ کشمیر کی صورتِ حال کانوحہ ہے جو ہم گزشتہ چھ برس سے پڑھ رہے ہیں۔
بظاہر غاصب بھارتی حکومت اپنے ننگِ انسانیت عزائم کی تکمیل پر بغلیں بجا رہی ہے لیکن وہ بھول بیٹھی ہے کہ تاریخِ اقوام عالم کے اوراق واشگاف الفاظ میں اور ببانگِ دہل گواہی دے رہے ہیں کہ جب بھی دنیا کے کسی خطے میں کسی بھی حریت پسند قوم کو جابرانہ ہتھکنڈوں سے کچلنے کی کوشش کی گئی اور انہیں ان کے جائز حق سے محروم کرنے کی مکروہ سازشیں رچائی گئیں تو اس قوم کے بہادر مرد زَن اور بچے اپنی آزادی کے حصول کی خاطر سیسہ پلائی دیوار میں تبدیل ہوگئے اور وقت کے ساتھ ساتھ مزید منظم و مربوط ہو کر کامیاب و کامران ٹھہرے، چاہے اس کے لیے انہیں کتنی ہی بھاری قیمت کیوں نہ چکانا پڑی ہو۔ آج بھی اقوامِ عالم انگشت بدنداں ہیں کہ کس طرح معصوم و مظلوم کشمیری، مقبوضہ علاقوںمیں بھارتی جبر و استبداد کا پوری بہادری سے مقابلہ کر رہے ہیں اور بھارتی قابض افواج کی شعلہ اگلتی بندوقوں کے سامنے اپنی جانوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے سینہ سپر ہیں۔ اہلِ مغرب دنگ ہیں کہ کس طرح معصوم کشمیری بچے بھارتی بندوقوں سے نکلتے چھروں کے سبب اپنی قیمتی آنکھوں کو چھلنی کرا کر بھی اپنے بلند و بالا مقصد سے پیچھے ہٹنے کو قطعاً تیار نہیں۔ اور وہ غاصب قوتوں کو سر عام للکار رہے ہیں۔ اُنہیں یقین ہے کہ بھارتی استبداد اُنہیں کبھی بھی جھکا نہیں سکتا اور اُنہیں یہ مکمل یقین بھی ہے کہ باطل کا سر اللہ کے فضل و کرم سے نگوں ہو کر رہے گا اورجلد فتح کا سورج اُن کے حق میں طلوع ہوگا۔ بھارتی سامراج کے حصے میں رات آئے گی اور مظلوم کشمیریوں کے آنگنوں میں دن چڑھے گا اور پوری دھرتی پر رحمتِ سکینہ کا نزول ہوگا۔ ان شاء اللہ!
جہاں تک بھارت اور اسرائیل کے گٹھ جوڑ کا تعلق ہے تو بہرحال جس طرح ہر موڑ پر اسرائیل کی مکمل پشت پناہی کی گئی اُسی طرح اہلِ مغرب نے تو روزِ اول سے بھارت کا ہی ساتھ دیا ہے ۔ پہلگام کا فالس فلیگ اور اس کےبعد بھارت کے اقدام سب کے سامنے ہیں۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کی خصوصی عنایت تھی کہ پاکستان کے آپریشن ’’بنیان مرصوص‘‘نے دشمن کے ہوش گم کر دیئے۔ لیکن بھارت تو اب اسرائیل اور امریکہ کے کیمپ میں مکمل طور پر جا چکا ہے اور وہ اُن کی ہر بات کو تسلیم کرے گا۔ہمارے نزدیک پاکستان پر امریکہ اور اسرائیل کی پشت پناہی کے ساتھ بھارتی جارحیت کا معاملہ ابھی ٹلا نہیں۔ یہ بھی یاد رہے کہ اسرائیل کی نظربد اسلامی ایٹمی پاکستان پر مرکوز ہے۔1967ء میں اسرائیلی وزیراعظم ڈیوڈ بن گوریان نے پاکستان کو اپنا اصل دشمن قرار دیا تھا۔ موجودہ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو ماضی قریب میں پاکستان کے ایٹمی دانت توڑنے کی خواہش کا کھلم کھلا اظہار کر چکا ہے۔یہود (اسرائیل) اور مشرکین (ہنود) کے اِس گٹھ جوڑ کے حوالے سے قرآن پاک میں اللہ رب العزت ہمیں متنبہ کرتا ہے:(ترجمہ)’’تم لازماً پاؤ گے اہلِ ایمان کے حق میں شدید ترین دشمن یہود کو اور اُن کو جو مشرک ہیں ،‘‘ (سورۃ المائدہ:82 )
گویا یہودیوں کے ساتھ ساتھ ہندوؤں کا مسلمانوں کا بدترین دشمن ہونے کا بھی ہمیں قرآن پاک سے معلوم ہوا، اس لیے کہ آج کی دنیا میں ہندو ہی ایسے کھلے مشرک ہیں جو بتوں کو سامنے رکھ کر پوجتے ہیں جبکہ باقی سب شرک بالواسطہ ہے۔بھارت اور اسرائیل کا گٹھ جوڑ اگرچہ کئی دھائیوں سے چل رہا ہے لیکن 7 اکتوبر2023ء کے بعد سے غزہ پر مستقل اسرائیلی درندگی کے بعد جس طرح کھل کر سامنے آیا ہے کہ بھارتی اسلحہ اور ڈرونز بلکہ بعض ذرائع کے مطابق فوجی بھی فلسطینیوں کی نسل کشی میں صہیونیوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں وہ عالمِ اسلام کی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہونا چاہیے۔ پھر یہ کہ اب تو بھارت کشمیر میں اسرائیلی آباد کاری کا ماڈل استعمال کر رہا ہے تا کہ مسلمانوں کو اکثریت سے اقلیت میں بدلا جا ئے۔ ناجائز صہیونی ریاست اسرائیل مسلسل 22ماہ سے غزہ کے مظلوم و مجبور مسلمانوں کو اپنی وحشیانہ بمباری کا نشانہ بنا رہی ہے۔ رپورٹس کے مطابق شہداء 70 فیصد عورتوں اور بچوں پر مشتمل ہیں۔ اول تو اسرائیل امدادی سامان کو غزہ میں داخل ہونے ہی نہیں دیتا اور جس تھوڑے سے سامان کو داخلے کی اجازت مل جاتی ہے تو وحشی صہیونی امداد حاصل کرنے کے لیے قطاریں بنائے غزہ کے مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ گویا درندگی میں بھارت اسرائیل کا شاگرد ہے۔
اِس صورتحال میں ہمارے کرنے کا اصل کام یہ ہے کہ ہم کشمیریوں کے اِس نعرے کی طرف توجہ دیں جوو ہاں صبح و شام گونجتا رہتا ہے ’’پاکستان سے رشتہ کیا: لا الٰہ الا اللہ‘‘۔ یہ ہے وہ رشتہ، یہ ہے وہ اصل بندھن، جس سے کشمیر بنے گا پاکستان کا نعرہ حقیقت میں عملی شکل اختیار کر سکتا ہے۔ لیکن یہ رشتہ تبھی طے ہو گا اور یہ بندھن تب ہی بندھے گا جب پاکستان جو ایک آزاد ملک ہے اور لا الٰہ الا اللہ کے نعرے پر ہی حاصل کیا گیا تھا، وہاں اسلام کا نظامِ عدلِ اجتماعی عملی طورپر نافذ ہوگا۔ یقین کیجیے اگر پاکستان ایک اسلامی فلاحی ریاست بن جائے تو کشمیر کی تحریک آزادی ایسی قوت پکڑے گی کہ بھارت اگر اپنی تمام فوج ملک کی سرحدوں سے نکال کر کشمیر میں جمع کر دے تب بھی کشمیریوں کی آزادی میں رکاوٹ پیدا نہیں کر سکے گا۔ صرف اس بات سے اندازہ کیجیے کہ آج جبکہ پاکستان مالی لحاظ سے دیوالیہ ہوا چاہتا ہے، سیاسی لحاظ سے ابتری کا شکار ہے۔ صوبائی تعصبات بھی سر اُٹھائے ہوئے ہیں اور درجنوں دوسرے مسائل کا شکار ہے۔ اس کے باوجود اگر کشمیری اپنا رشتہ پاکستان سے جوڑ رہے ہیں اور اپنا خون بے دریغ بہا رہے ہیں تو کل اگر پاکستان اسلامی فلاحی ریاست بن جائے، پھر یہاں میرٹ ہو، انصاف ہو، مساوات ہو، طبقاتی اور صوبائی فرق مٹ جائیں۔ فرد اور معاشرہ سے لے کر حکومت اور ریاست سب حقیقی معنوں میں اللہ کی بندگی اختیار کر لیں تو پھر کشمیر کو پاکستان بن جانے سے کون روک سکے گا؟اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم پاکستان کو کب ایک حقیقی اسلامی فلاحی ریاست بناتے ہیں۔ یقین رکھیے، کشمیر کو آزاد ہوتے کوئی وقت نہیں لگے گا۔ اِن شاء اللہ!