(منبرو محراب) توہینِ رسالت ؐو مقدسات - ابو ابراہیم

11 /

توہین ِ رسالت ؐو مقدسات

گھناؤنی سازش اور بے حسی

مسجدجامع القرآن ، قرآن اکیڈمی لاہور میں امیر تنظیم اسلامی محترم شجاع الدین شیخ حفظ اللہ کے18جولائی 2025ء کے خطاب جمعہ کی تلخیص

مرتب: ابو ابراہیم

خطبہ ٔمسنونہ اور تلاوتِ آیاتِ قرآنی کے بعد!
آج ہمارا ملک جن مسائل اور مصائب کا شکار ہے اس کی بہت سی وجوہات ہیں لیکن ایک بنیادی وجہ وہ بھی ہے جس کو قرآن میں بیان فرمایا گیا ہے :
’’بحر و بر میں فساد رونما ہو چکا ہے‘لوگوں کے اعمال کے سبب  تا کہ وہ انہیں مزہ چکھائے ان کے بعض اعمال کا‘تا کہ وہ لوٹ آئیں۔‘‘(الروم :41)
سورۃ الروم مکی سورت ہے اور اِس میںاُس دور کے حالات بیان ہوئے جب روم اور فارس کے درمیان ایک بڑی جنگ ہوئی تھی اور بہت تباہی اور قتل و غارت گری کا معاملہ ہوا تھا لیکن اِس میں رہنمائی قیامت تک کے لوگوں    کے لیے ہے ۔قرآن مجید پوری نوع انسانی کے لیے  کتابِ ہدایت ہے ۔ عموماً جب بھی کسی معاشرے میں تباہی اور بربادی کا معاملہ ہوتاہے ، جنگیں شروع ہوتی ہیں ، قتل و غارت گری ہوتی ہے ، آندھیاں ، طوفان یا زلزلے آتے ہیں یا وبائیں ، قحط سالی ، چوری ، ڈاکے اور دیگر کئی طرح  کے فتنہ اور فساد برپا ہوتے ہیں تو اس کے پیچھے ایک بنیادی وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ مجموعی سطح پر اس معاشرے کے لوگوں  کے اعمال میں بگاڑ پیدا ہو گیاہوتاہے ۔یہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے ایک اجتماعی سزا ہوتی ہے جس کا اثر اس معاشرے کے اچھے اور بُرے تمام لوگوں پر پڑتا ہے ۔ وہ تمام قومیں جن پر عذاب آئے اُن کے حالات جب ہم قرآن میں پڑھتے ہیں تو معلوم ہوتاہے کہ ان قوموں  میں مجموعی سطح پر اعمال اور اخلاق میں کوئی انتہائی بڑا بگاڑ پیدا ہوگیا تھا ۔ جیسا کہ شعیب علیہ السلام کی قوم شرک کے ساتھ ساتھ ناپ تول میں کمی کے گناہ میں بھی مبتلا ہو چکی تھی۔ حضرت لوط علیہ السلام کی قوم ہم جنس پرستی کے مہلک اور گھناؤنے جرم میں مبتلا تھی ، فرعون نے رب ہونے کا دعویٰ کیا اور سیاسی جبر کے تحت بنی اسرائیل کو غلام بنا رکھا تھا اور ان پر مظالم کر رہا تھا ۔ اِسی طرح دیگر کئی قوموں کے بارے میں بیان ہوا ہے کہ اُن میں شرک بھی تھا ، سیاسی ، معاشی اور معاشرتی سطح کے جرائم بھی تھے ، اخلاقی جرائم بھی تھے ۔ اللہ نے ان پر عذاب نازل کیے ۔ نوح علیہ السلام کی قوم پرآسمان و زمین سے اس قدر پانی بھیجا گیا کہ ساری قوم غرق ہوگئی۔ فرعون اور اُس کا لشکر سمندر میں غرق ہوئے ، شعیب علیہ السلام کی قوم پر زلزلے اور زور دار چیخ کا عذاب مسلط ہوا ۔ آسمان سے شعلے بھی اُن پر برسائے گئے ہیں۔قارون کو زمین میں دھنسا دیا گیا ۔   قوم ِلوط پر پتھروں کی بارش ہوئی ، اُنہیں اندھا کیا گیا اور اُس بستی کو اُٹھا کر پٹخ دیا گیا اور بحر مردار میں غرق کر دیا گیا ۔ ان تمام واقعات سے یہ سبق حاصل ہوتاہے کہ قو موں پر جب بھی عذاب آتے ہیں تو اُس کی بنیادی وجہ اس قوم کے لوگوں کے بُرے اعمال ہوتے ہیں ۔ ان عذابوں کاایک مقصدتو اعمالِ بد میں مبتلا لوگوں کو سزا دینا ہوتاہے ۔جیسا کہ اس آیت میں فرمایا :
{لِیُذِیْقَہُمْ بَعْضَ الَّذِیْ عَمِلُوْا }(الروم :41)
    ’’تا کہ وہ اُنہیں مزہ چکھائے ان کے بعض اعمال کا۔‘‘
یہ بھی اللہ کی شان کریمی کا بیان ہےکہ اللہ تعالیٰ ہر ایک گناہ کی وجہ سے لوگوں کو نہیں پکڑتا ۔ اگر ہر گناہ پر پکڑنے پر   آ جائے تو زمین پر کسی جاندار کو اللہ باقی نہ چھوڑے ۔ جیسا کہ قرآن میں فرمایا :
{وَلَوْ یُـؤَاخِذُ اللہُ النَّاسَ بِظُلْمِہِمْ مَّا تَرَکَ عَلَیْہَا مِنْ دَآبَّۃٍ وَّلٰـکِنْ یُّؤَخِّرُہُمْ اِلٰٓی اَجَلٍ مُّسَمًّی ج}(النحل:61) ’’اور اگر اللہ (فوراً) پکڑ کرتا لوگوں کی ان کے گناہوں کے سبب تو نہ چھوڑتا اس (زمین) پر کوئی بھی جاندار‘ لیکن وہ مہلت دیتا ہے انہیں ایک وقت ِمعیّن تک۔‘‘
لیکن جب کسی قوم کے گناہ حد سے بڑھ جائیں اور مجموعی طور پر وہ قوم سیدھے راستے سے ہٹ جائے توپھر اللہ تعالیٰ اُن کی تنبیہ کے لیے پہلے چھوٹے چھوٹے عذاب بھیجتا ہے اور پھر انہیں پوری طرح سزا دیتا ہے تاکہ وہ اپنے اعمال کا مزہ چکھیں ۔ ایک بنیادی وجہ تو یہ بھی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ بعض سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ آزمائشیں ، مصائب ، تکالیف اور مشکلات تو اللہ کے رسولوں ؑ پر بھی آتی رہیں، انہیں بھی بہت سخت سے سخت حالات سے گزرنا پڑا حالانکہ انبیاء و رسل تو معصوم ہوتے ہیں۔اسی طرح اللہ کے نیک لوگوں پر بھی آزمائشیں آتی ہیں ۔ بنیادی طور پر یہ دنیا امتحان کی جگہ ہے ،اور اس دنیا کی زندگی کا مقصد امتحان ہے ۔ جیسا کہ فرمایا :
’’جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون اچھے اعمال کرنے والا ہے۔‘‘ (الملک:2)
کبھی سورۃ الانبیاء میںاللہ فرماتا ہے:
’’ہر جان موت کا مزہ چکھنے والی ہے اور ہم برائی اور بھلائی کے ذریعے تمہیں خوب آزماتے ہیں اور ہماری ہی طرف تم لوٹائے جاؤ گے۔‘‘(الانبیاء:35)
اس دنیا میں ہر طرح کے حالات اور مشکلات انسان پر آتی ہیں تاکہ اس کو آزمایا جاسکے کہ وہ اللہ کے بتائے ہوئے راستے پر چلتا ہے یا پھر صراط مستقیم کو چھوڑ کر گمراہی کا راستہ اختیار کرتاہے ۔ اللہ کے پیغمبروں پر جو مشکل حالات آتے ہیں یا سخت آزمائشیں آتی ہیں ، ان کا مقصد یہ ہوتاہے کہ لوگوں کے لیے ایک مثال قائم ہو جائے تاکہ لوگ مشکل سے مشکل اور سخت سے سخت حالات میں بھی صراط مستقیم کو نہ چھوڑیں، جس طرح اللہ کے پیغمبروں نے مشکل سے مشکل حالات میں بھی اللہ تعالیٰ کے دین کو سربلند کرنے کی جدوجہد کی اور اس کی تبلیغ کی۔اِس سے جنت میں اُن کے درجات کو بھی بڑھایا جاتاہے ۔ اسی طرح جب کسی معاشرے میں لوگوں کے اجتماعی اعمالِ بد کی وجہ سے مصائب اور عذاب آتے ہیں تو اس معاشرے کے    نیک لوگوں پر بھی اِس کے اثرات پڑتے ہیں لیکن اگر وہ اللہ کے دین پر قائم رہیں اور صبر کریں تو اُنہیں آخرت میں اتنا ہی زیادہ اجر بھی ملے گا ۔ پھر احادیث مبارکہ سے بھی پتہ چلتا ہے کہ کئی مرتبہ نیک لوگوں پر آزمائشیں ، مصائب ، آلام اور بیماریاں آتی ہیں تو وہ اُن کی نجات ، بخشش اور درجات میں بلندی کا باعث بن جاتی ہیں ۔ اللہ اُن کے گناہوں کو معاف کردیتاہے اور وہ آخرت میں پاک و صاف ہو کر پیش کیے جائیں گے ۔
بعض احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی بندے کو کوئی بلند درجہ مرتبہ عطا کرنا چاہتا ہے لیکن اس کے اعمال ایسے نہیں ہوتے کہ وہ اس بلند درجے کو حاصل کرلے لہٰذااللہ تعالیٰ اس کو کسی سختی میں مبتلا کرتا ہے ، اُسے تکلیفوں اور آزمائشوں سے گزرنا پڑتا ہے اور اُسے صبر کی توفیق بھی دیتاہے ۔ان سارے حالات سے گزرنے کے بعد وہ اُس بلند مرتبہ کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے ۔ اسی وجہ سے علماء نے لکھا ہے کہ اگر کسی شخص کو بُرے حالات میں دیکھو ، سخت آزمائش میں دیکھو تو اُس پر مت ہنسو کہ اس کی حالت تو ایسی ہوگئی ، اس کے ساتھ فلاں ہوگیا ۔  ہو سکتاہے کہ اللہ تعالیٰ اُس کو کوئی بلند مرتبہ دینا چاہتا ہو ۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کسی کو خوشحالی دے کر بھی آزماتاہے ۔ لہٰذا کسی کو خوشحال دیکھ کر ، عیاشیوں میں مبتلا دیکھ کر یہ گمان مت کرو کہ اللہ اس سے راضی ہے ۔ اللہ نے فرعون اور قارون کو بھی تو نوازا تھا ۔ ایک بہت مشہور حدیث بھی ہے :
((الدُّنْيَا سِجْنُ الْمُؤْمِنِ وَجَنَّةُ الْكَافِرِ)) (رواہ المسلم)’’یہ دنیا مومن کے لیے قید خانہ ہے اور کافر کے لیے جنت ہے ۔‘‘
کئی مرتبہ ایسا نظر آتا ہے کہ اللہ کے فرمانبردار اور نیک لوگ مشکلات میں ہوتے ہیں جبکہ اللہ کے باغی، نافرمان اوردین دشمن بڑےعالی شان محلوں میں شاہانہ زندگی گزار رہے ہوتے ہیں ۔ مگر اس بات کو مت بھولیے کہ کافروں کے لیے اس دنیا کی چند روزہ زندگی میں مہلت دی گئی ہے جبکہ مومن کے لیے آخرت کی دائمی جنت ہے جہاں کبھی موت نہیں آئے گی ، کبھی مشکلات اور مصائب نہیں آئیں گی ۔ 
  بعض اوقات لوگوں پر کچھ مشکلات اور مصائب اس لیے بھی آتی ہیں تاکہ وہ توبہ کرلیں ، سیدھے راستے پر آجائیں ۔ جیسا کہ زیر مطالعہ آیت میں آخر میں فرمایا : {لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُوْنَo} ’’تا کہ وہ لوٹ آئیں۔‘‘(الروم )
یعنی اپنی اصلاح کرلیں ، گناہوں اور سرکشی کا راستہ چھوڑ دیں اور صراط مستقیم پر آجائیں ۔اس آیت کا یہ حصہ آج کے بیان کا مرکزی موضوع ہے ۔ 
آج ہمارا ملک جن حالات سے گزر رہا ہے اور ہماری قوم جن مصائب کا شکار ہو چکی ہے ان پر ہمیں غور وفکر کرنے کی ضرورت ہے ۔ کبھی سیلاب آرہے ہیں ، کبھی خشک سالی کا عذاب نازل ہوتاہے اور کبھی بارشیں ہوتی ہیں تو شہر وں میں سیلاب کا منظر ہوتاہے ۔ اس کی ایک بنیادی وجہ ہماری حکومتوں اور انتظامیہ کی نااہلی بھی ہے ، دریاؤں اور ندی نالوں کے کناروں پر دھڑا دھڑا مارکیٹس بن رہی ہیں ، زمینوں پر قبضے کیے جارہے ہیں،وہاں تعمیرات ہو رہی ہیں ، رہائشی منصوبے بن رہے ہیں لہٰذا جب برسات کا موسم ہوتاہے تو پھر تباہی مچتی ہے۔ اسی طرح ڈیموں کی تعمیر کا معاملہ بھی ہے جس میں ہماری حکومتوں کی طرف سے بہت کوتاہی رہی ہے ۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ بحیثیت مجموعی ہماری قوم کی دین سے سرکشی اور اللہ کی نافرمانی بھی ایسا اجتماعی جرم ہے جس کی وجہ سے بھی کئی مصائب عذاب بن کر نازل ہورہے ہیں ۔ جیساکہ گزشتہ دنوں کراچی کے ایک علاقے میں مسلسل 40 دن تک زلزلے کے جھٹکے محسوس ہوتے رہے ۔ یہاں تک کہ لوگ گھروں سے باہر نکل کر کھلے میدانوں میں راتوں کو سوتے رہے ۔اسی طرح دیگر علاقوں میں بھی زلزلوں کے جھٹکوں کی خبریں میڈیا کے ذریعے آتی ہیں۔ اسی طرح خوف اور مہنگائی کا عذاب ہے ، عالمی سطح پر جنگوں کے حالات ہیں ، لیکن ہماری قوم کا مزاج یہ ہے کہ سبق سیکھنے کے لیے تیار نہیں ہے بلکہ جب سمندر میںطوفان آنے والا ہوتاہے تو ساحل پر جمع ہو کر موج مستی میں مگن ہوتے ہیں پولیس کے منع کرنے کے باوجود سمندر میں جاکر وکٹری کے نشان بناتے ہیں ۔ یعنی ہم توبہ کرنے کے لیے ، اللہ سے معافی مانگنے کے لیے تیار نہیں ہے ۔ جبکہ اللہ کے رسول ﷺ کا اسوہ یہ تھا کہ جب کبھی تیز ہوائیں  چلتی تھیں یا گہرے بادل چھا جاتے تھے ، زلزلہ ہوتا تھاتو فوراً سجدے کی حالت میں چلے جاتے تھے اور اللہ سے گڑگڑا کر دعائیں مانگتے تھے اور توبہ و استغفار کرتے تھے ۔ اسی طرح جب بارش ہوتی تھی تو تب یہ دعا فرماتے تھے :
((اَللَٰهُمَّ صَيِّبًا نَّافِعًا))’’اے اللہ! اس کو بہت برسنے والا اور نفع بخش بنادے۔‘‘
یعنی ایسی بارش عطا فرما جو نفع دینے والی ہو ، فائدہ دینے والی ہو۔اور جب بارشیں بہت شدید ہو جاتی تھیں تب بھی آپ ﷺ  دعا مانگتے تھے :
((اَللّٰھُمَّ حَوَالَیْنَا وَلَا عَلَیْنَا، اَللّٰھُمَّ عَلَی الْاٰکَامِ وَالْجِبَالِ وَالْاٰجَامِ وَالظِّرَابِ  الْاَوْدِیَۃِ وَمَنَابِتِ الشَّجَرِ))(رواہ البخاری) ’’یا اللہ! اب ٹیلوں، پہاڑوں، پہاڑیوں، وادیوں ، باغوںاور درختوں کی جڑوں کو سیراب کر۔ ہمارے اردگرد بارش برسا ،ہم سے اسے روک دے۔‘‘
       یہ اللہ کے رسول ﷺ کا اُسوہ ہے اور اللہ تعالیٰ نے قرآن میں واضح فرمایا دیا ۔ 
{لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ} (الاحزاب :21)’’(اے مسلمانو!) تمہارے لیے اللہ کے رسول ؐمیں ایک بہترین نمونہ ہے ‘‘
ہمیں آپ ﷺ کے اُسوئہ مبارک پر عمل کرنے کا حکم دیاگیا ہے مگر آج ہمارا طرزعمل کیاہے ؟ کیا آج اتنے مصائب اور عذابوں کے باجود بھی ہمارے اندر رجوع   الی اللہ کا خیال پیدا ہورہا ہے ؟ اللہ کی طرف پلٹنے کااور اللہ سے معافی مانگنے کا خیال پیدا ہورہا ہے ؟ 
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ آج ہمارا ملک اور قوم جن مشکل حالات سے دوچار ہے ، ا س کی بہت ساری وجوہات ہیں لیکن ایک بڑی وجہ مجموعی طور پر ہماری قوم کا دین سے باغیانہ اور سرکشی پر مبنی طرزعمل ہے ، اس پر ہمیں اللہ تعالیٰ سے توبہ کرنی چاہیے اور جس مقصد کے لیے یہ ملک حاصل کیا گیا اس کی طرف پیش قدمی کی جائے،یعنی مملکتِ خداداد پاکستان کو حقیقی معنوں میںاسلامی فلاحی ریاست بنایا جائے ۔ اسی میں ہماری دنیوی اور اُخروی نجات ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو سمجھنے کی توفیق عطافرمائے ۔ آمین ! 
ناموسِ رسالتؐ
اب ایک بہت اہم مسئلہ پر ہم محتاط انداز میں کلام کرنا چاہتے ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ حکمرانوں تک بھی  ہماری بات جائے اور وہ بھی اپنے گریبانوں میں جھانکیں کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے حکمران ہونے کی حیثیت سے کیا اُن کی ذمہ داری نہیں بنتی کہ وہ ناموسِ رسالت ﷺ ، قرآن کریم اور دیگر مقدسات کی حرمت اور ناموس کے تحفظ کو یقینی بنائیں ؟ سوشل میڈیا پر ایک بہت بڑا فتنہ برپا ہے کہ ناموس رسالت ﷺ ، قرآن مجید ، امہات مومنین ؓ اور صحابہ کرامؓ اور اہل بیتؓ کی شان میں گستاخیاں کی جارہی  ہیں اور توہین مذہب و مقدسات کی بدترین شکل ہے کہ   بے حیائی اور فحاشی پر مبنی مواد ( ویڈیوز اور تصاویر ) کے ذریعے یہ گستاخیاں کی جارہی ہیں۔ یہ بدترین شیطانی ہتھکنڈے ہیں جن میں ہماری نوجوان نسل کو مبتلا کیا جارہا ہے جس کی وجہ سے اُن کی دنیا اور آخرت دونوں برباد ہورہےہیں اور سب سے بڑھ کر وہ توہین ِمذہب ، توہین ِرسالتؐ ، توہین ِقرآن اور توہین ِصحابہ و صحابیات اور توہین مقدسات کے مرتکب ہو کر بدترین عذاب کو دعوت بھی دے رہے ہیں ۔ یہ بہت بڑا فتنہ ہے جس کی وجہ سے آج حکومت بھی پریشان ہے ، FIAبھی پریشان ہے ، PTAبھی پریشان ہے ۔ 
ریاستی اداروں کے اعلیٰ عہدیداران ، ججز ، وکلاء ، علماء سب پریشان ہیں ۔ حکومتی اداروں نے علماء سے بھی کہا ہے کہ وہ اپنے خطابات میں عوام کو اِس حوالے سے پیغام دیں کہ اپنی اولاد کو اس فتنہ سے بچانے کی کوشش کریں ۔ حکومتی اور ریاستی اداروں ، علماء ، اہل علم اور دیگر کئی شعبوں کے لوگوں نے کوشش کی ہے کہ اس پورے معاملے  کی چھان بین کی جائے اور مکمل تحقیقات کروائی جائیں کہ اس پورے فتنہ کے پیچھے کون ہے اور ملک کے اندر سے کون کون سے عناصر اس میں ملوث ہیں ۔کم و بیش700 افراد  کوگرفتار کیا گیاہے ، عدالتوں میں مقدمات بھی چل رہے ہیں اور کچھ لوگوں کو سزائیں بھی ہوئی ہیں ۔ ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ تحقیقات شفاف ہوں اور جس پر جرم ثابت ہو اُس کو قرارواقعی سزا دی جائے ۔ آئین کی دفعہ 295سی کا اطلاق ہونا چاہیے ۔ 
درحقیقت یہ مغرب کا ایجنڈا ہے کہ مسلمانوں کے دلوں سے روح محمد ﷺ کونکال دو ، دین کی محبت اور ایمان سے محروم کردو ۔ مغرب کے اِس ناپاک ایجنڈے کے دفاع میں ہمارے بعض سیکولر اور لبرل لوگ اس معاملے کو الجھا رہے ہیں ، مختلف الزامات لگا رہے ہیں ۔ جن لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے یا جن کے مقدمات عدالتوں میں زیر سماعت ہیں ان کو بے قصوراور مظلوم ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، اُن سے پیسے لینے کے الزامات لگائے جارہے ہیں ۔ اس طبقہ کو عدالت میں ثبوت پیش کرنے کا کہا گیا اور متواتر 18 دن تک ان کے الزامات نشر ہوتے رہے۔ گستاخوں کے وکلاء 18دن میں کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہ کرسکے لیکن بدترین توہین رسالت و مقدسات  کو کھول کھول کر بیان کیا گیا ۔جب مدعیان علیہ کی   طرف سے وکلاء پیش ہوئے اوراُن کی طرف سے دلائل دینے کی باری آئی تو جج صاحب نے فوراً سماعت لپیٹ دی کہ اب کمیشن بنایا جائے گا ۔ مدعیان علیہ کا موقف یہ ہے کہ اب ہم ان سب لوگوں کے خلاف عدالت میںجائیں گے جو اس کیس کو الجھا رہے ہیں اور جو توہین ِرسالت ؐکے مجرموں کو تحفظ دے رہے ہیں ، چاہے وہ ججز ہوں ، یا کوئی بھی ہوں ۔ سوشل میڈیا پر بھی ججز کے طرزعمل پر لوگ سوالات اُٹھا رہے ہیں کہ یہ یک طرفہ اور جانبدارانہ کارروائی ہوئی ہے ۔ اللہ کے رسول ﷺ کا فرمان ہے جب تک دونوں فریقوں کی بات نہ سن لی جائے اُس وقت تک کوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہیے لیکن اس کیس میں عدالت نے مدعیان علیہ کا موقف سننا بھی گوارا نہیں کیا اور کمیشن بنانے کا فیصلہ جاری کردیا ۔ پوری قوم جانتی ہے کہ آج تک جس معاملے میں بھی کمیشن بنایا گیا ہے اُس پر مٹی ڈالی گئی ہے اور ثابت شدہ مجرموں کو تحفظ دینے کے لیے کمیشن بنائے جاتے ہیں۔ یہ کارروائیاں ہمارے ملک میں ہوتی رہیں ، توہین ِرسالتؐ کے مجرموں کو ملک سے باہر فرار کروا دیا جاتا رہا ہے ۔ درحقیقت لبرل طبقہ کی جانب سے یہ ساری کوششیں 295 سی کو غیر موثر کرنے کے لیے ہو رہی ہیں۔ ہمارے قانون میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرارد دیا گیا ہے ، یہ بات بھی مغرب اور اس کے ایجنٹوں کو برداشت نہیں ہورہی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک سینکڑوں گرفتاریاں  ہوئیں، عدالتوں کی جانب سے اُنہیں توہین مذہب اور  توہین رسالت کا مجرم بھی قرار دیا گیا لیکن اس کے باوجود آج تک قانون کے مطابق کسی کو سزا نہیں دی گئی ۔پھر عام لوگ قانون کو اپنے ہاتھ میں لیتے ہیں ۔ ہم حکمرانوں سے کہنا چاہیں گے کہ اگر آپ مجرموں کو قانون کے مطابق سزا نہیں دیتے تو آپ خود لوگوں کو مجبور کر رہے ہیں کہ وہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لیں کیونکہ معاملہ کسی عام انسان کا نہیں بلکہ امام الانبیاء ،رحمۃ للعالمین ، حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی ناموس کا ہے ۔ کسی سیاستدان یا طاقتور اداروں کے کسی اعلیٰ عہدیدار کی شان میں گستاخی کر دی جائے تو سافٹ ویئر اپ ڈیٹ کیا جاتاہے ، جیل میں ڈالا جاتاہے۔     نبی اکرم ﷺ کی شان میں گستاخیاں کرنے والوں پر جرم ثابت ہو جاتاہے تو پھر بھی مجرم کو چھوڑ دیا جاتاہے اور ملک سے فرار کروا دیا جاتاہے ۔ روزِ محشر نبی پاک ﷺ کی شفاعت کیسے پاؤ گے ؟ اس حوالے سے سنجیدگی کے ساتھ غورو فکر کرنے کی ضرورت ہے ۔ یہ کرسی ، یہ اقتدار ،یہ عہدے زیادہ دیر برقرار نہیں رہیں گے ۔ جوسیکولراور لبرل قسم کے لوگ اِن مجرموں کی حمایت میں کھڑے ہیں، انہیں بھی سوچنا چاہیے ۔ بحیثیت انسان اور بحیثیت اُمتی روز محشر آپ کو اللہ کے حضور پیش ہونا ہے ۔ کیا جواب دو گے ؟
شروع میں سورۃ روم کی آیت کا مطالعہ ہم نے کیا۔اللہ فرماتاہے ، خشکی و تری میں لوگوں کے کرتوتوں کی وجہ سے فساد پھیل گیا تاکہ اللہ ان لوگوں کو ان کے بُرے اعمال کا مزہ چکھائے ۔ آج ہمارے ایسے اعمال اللہ    کے عذاب کو دعوت دینے والے ہیں ، عدالتوں کے فیصلے آنے کے باوجودہم سود کا نظام ختم نہیں کررہے ، اللہ اور  اس کے رسول ﷺ کےساتھ جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں ،  اللہ کے دین اور شریعت سے بغاوت اور سرکشی پر مبنی قانون سازیاں کیے جارہے ہیں ۔ اللہ اور اس کے    رسول ﷺ ، صحابہ و صحابیات ، قرآن و دیگر مقدسات کی توہین کرنے والوں کو سرے عام تحفظ دیا جارہا ہے ۔    یہ سب کرنے کے بعد اللہ کی مدد کیسے آئے گی ، اللہ کی رحمت کیسے ہم پر نازل ہوگی ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین !