پورنو گرافک بلاس فیمی مغرب کا ناپاک ایجنڈا ہے جس کا
مقصد ہماری نوجوان نسل کے دل سے نبی پاک ﷺ کی عقیدت
اور محبت کو نکالنا اور اسلام سے دور کرنا ہے : آصف حمید
توہین رسالت کے مجرموں کو بچانے کے لیے لبرلز، قادیانی اور
بھینسا گروپ کے لوگ جھوٹا پروپیگنڈا پھیلا رہے ہیں:قیصر احمد راجہ
کمیشن ایک بہانہ ہے، 295-Cاصل نشانہ ہے: عبدالوارث گِل
’’پورنوگرافک بلاسفیمی اور اسلام آباد ہائی کورٹ کا متنازعہ فیصلہ ‘‘
پروگرام ’’ زمانہ گواہ ہے ‘‘ میں معروف تجزیہ نگاروں اور دانشوروں کا اظہار خیال
میز بان : وسیم احمد باجوہ
مرتب : محمد رفیق چودھری
سوال: کافی عرصہ سے شل میڈیا پر توہین مذہب کے کیسز رپورٹ ہورہے تھے ، FIAنے اس پر ایکشن لیا اور 700 سے زائد لوگوں کو گرفتار کیا ، ان پر اسلام آباد ہائی کورٹ میں مقدمات چل رہے ہیں ۔ اب اس معاملے کی تحقیقات کے لیے ایک کمیشن بھی بنا دیا گیا ہے ۔ اصل حقائق کیا ہیں ؟
قیصر احمد راجہ: اس کیس کے حوالے سے حقائق جاننا بہت ضروری ہے کہ کیونکہ اس حوالے سے بہت زیادہ غلط فہمیاں پھیلائی جارہی ہیں ۔ قومی کمیشن برائے انسانی حقوق بھی 767افراد کی گرفتاری کا بتا رہا ہے ۔ حالانکہ یہ تعداد کم ہے ۔ اسی طرح اب اسلام آباد ہائی کورٹ نے بھی 400 مقدمات کا لکھ دیا ہے ۔ حالانکہ اس وقت تک صرف 117 مقدمات ہیں ۔ جب ایسے بڑے ادارے اتنی بڑی غلطیاں کر رہے ہیں تو عام عوام کا کیا ہوگا ۔ حالانکہ یہ بہت حساس معاملہ ہے اور پوری انسانی تاریخ میں اس قدر بدترین گستاخی اور توہین مذہب کے کیسز سامنے نہیں آئے۔ یہ بدترین لوگ ہیں جو پورنو گرافک بلاس فیمی کے مرتکب ہورہے ہیں ۔ یہ لوگ فحش ویڈیوز اور تصاویر پر صحابہ کرامؓ، اُمہات المومنینؓ، اہل بیتؓاورانبیاء کرام ؊ کے نام لکھتے ہیں ،اسی انداز سےقرآن مجید کی بھی توہین کرتے ہیں ، برہنہ ہو کر نماز پڑھتے ہیں اور جسم کے مخصوص اعضا پر مقدس نام لکھتے ہیں اور پھر اس پورنو گرافک مواد کو سوشل میڈیا پر شیئر کرتے ہیں ۔ بہت سے لوگوں نے اس طرح کے کیسز کو رپورٹ کیا ۔ آخر کار قرآن بورڈ جو کہ حکومت پنجاب کا ادارہ ہے ، نے اس کے خلاف FIRدرج کروائی اور FIAنے پہلے پہل تقریباً 65 افراد کو گرفتار کیا ۔ پھر FIA نے ہی اس طرح کے کیسز کو دیکھنے کے لیے آئین و قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے ایک ترتیب بنائی ۔ اس کے بعد مزید لوگ پکڑے گئے ۔ FIAنے اس بات کو یقینی بنایا کہ کوئی بھی ایسا ملزم گرفتار نہ ہو جس کے خلاف پختہ ثبوت نہ ہوں ۔ FIAنے ہر ملزم کے حوالے سے ثبوتوں پر مشتمل رپورٹ جمع کروائی جسے گرفتار کیے گئے ملزمان نے تسلیم بھی کیا ۔ اب تک ایک بھی ایسا کیس نہیں ہے جسے عدالت میں چیلنج کیا گیاہو ۔ حتیٰ کہ ملزمان کے والدین بھی تسلیم کر رہے ہیں لیکن ایک دوسرا گروہ ہے جس میں لبرل بھی ہیں ، قادیانی بھی ہیں ، بھینسا گروپ کے لوگ بھی ہیں انہوں نے ان مقدمات کو متنازعہ بنانے کے لیے اور توہین مذہب کے ملزمان کو بچانے کے لیے ایک مخالف بیانیہ تشکیل دیاکہ لوگوں کو ہنی ٹریپ کرکے پیسے لیے جارہے ہیں وغیرہ وغیرہ ۔ پنجاب پولیس کی اسپیشل برانچ کی ایک نام نہا درپورٹ لیک کی گئی جسے FIAنے جھوٹ قرار دیا لیکن بین الاقوامی میڈیا اور این جی اوز نے اس جھوٹ کی بنیاد پر پروپیگنڈا پھیلانا شروع کردیا اور اس بنیاد پر بعض لوگ حکومت کے پاس پہنچ گئے کہ تحقیقاتی کمیشن بنایا جائے ۔ اب اسلام آباد ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا ہے کہ ایک کمیشن بنایا جائے ۔
سوال: ملزمان کے وکلاء کا یہ کہنا کس حد تک درست ہے کہ ان لوگوں کو ہنی ٹریپ کرکے توہین رسالت کے کیس میں پھنسایا گیا ہے ؟
عبدالوارث گِل: مغرب کا اصول ہے کہ جھوٹ اتنی بار بولو کہ وہ سچ لگنے لگے ۔اسلام آباد ہائی کورٹ میں18 دنوں میں تقریباً 23 سماعتیں ہوئی ہیں اور اس دوران بار بار ایک ہی بات کو دہرایا گیا اور میڈیا کے سامنے بھی بیان کیا گیا کہ ملزمان کو ہنی ٹریپ کیا گیا ۔ ان کا کہنا ہے کہ پہلے ملزم کو توہین رسالت پر مبنی ایک تصویر بھیجی گئی ، ملزم کے استفسار کرنے پر بتایا گیا کہ ہم نے تو نہیں بھیجی ، واپس بھیجوکہ دیکھیں کیا ہے ؟جب ملزم نے واپس بھیجی تو اسے توہین مذہب کے الزام میں گرفتارکرلیا گیا ۔ اسی ایک بیانیہ کو باربار بیان کرکے عوام میں یہ تاثر پھیلایا گیا کہ یہ کوئی بلاس فیمی بزنس گروپ ہے جو لوگوں کو ٹریپ کرتاہے ۔ لیکن جب ان سے پوچھا گیا کہ کوئی ایک ملزم دکھا دیں جس کو صرف ایک بار شیئرنگ پر پکڑا گیا ہو تو کوئی ثبوت ان کے پاس نہیں تھا۔ اس وقت تک توہین مذہب کے جتنے ملزموں کو بھی گرفتار کیا گیا ہے اُن میں سب وہ لوگ شامل ہیں جو کم ازکم چھ ماہ تک مسلسل توہین مذہب کے مرتکب ہوتے رہے ہیں ۔ اسی طرح ایک ملزم بھی ایسا نہیں ہے جسے اب تک پیسے لے کر چھوڑا گیا ہو یا عدالت نے اسے بری قرار دیا ہو ۔ اگر پیسوں کے لیے ٹریپ کیا جاتا تو امیرطبقہ کے لوگوں کو کیا جاتاجبکہ جو لوگ گرفتار ہوئے ہیں وہ سب مڈل کلاس یا غریب ہیں ۔ اہم بات یہ ہے کہ ملزمان پر مقدمہ توہین مذہب اور توہین رسالت کا ہے ، ملزمان کے وکلاء اور حمایتی اس پر کوئی بات نہیں کرتے ،وہ بار بار انٹرپمنٹ فاراریسٹ (گرفتاری کے لیے جال میں پھنسانا) پر بات کرتے ہیں ۔ حالانکہ پوری دنیا میں ملزمان کو پکڑنے کے لیے انٹرپمنٹ فار اریسٹ سٹرنگ آپریشن ہوتے ہیں ۔
سوال: کہاجارہا ہے کہ توہین مذہب کے ان ملزموں کو جو لوگ بچانے کی کوشش کررہےہیں ان کے پیچھے مغرب کی این جی اوز ہیں اور وہ ان کو فنڈنگ بھی کر رہی ہیں ۔ اس بات میں کتنی صداقت ہے؟
آصف حمید:یہ مغرب کا دیرینہ ایجنڈا ہے جس کو اقبال نے بھی بیان کیا ؎
وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا
روح محمد اس کے بدن سے نکال دونبی اکرم ﷺ سے مسلمانوں کا ایمان کی بنیاد پر جو رشتہ ہے، وہ ایک مسلمان کی اصل طاقت ہے جو ابلیس اور اس کے پیروکاروں کو کھٹکتا ہے۔ کیونکہ بے عمل سے بے عمل مسلمان بھی ناموسِ رسالتﷺ پر سمجھوتہ نہیں کرتا بلکہ مرنےمارنے کے لیے تیار ہو جاتاہے ۔ اس لیے ابلیس کے پیروکاروں کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ اس رشتہ کو کمزور کیا جائے ۔ اسی لیے جھوٹے مدعیان نبوت کا ایک سلسلہ شروع کیا گیا۔ جیسا کہ برصغیر میں مرزا غلام احمد قادیانی کو کھڑا کیا گیا ، غلام احمد پرویزجیسے منکر حدیث کو کھڑا کیا گیا ۔ ایک نے جہاد کے خلاف فتویٰ دیا اور دوسرے نے احادیث مبارکہ سے مسلمانوں کا تعلق توڑنے کی کوشش کی۔ اسی طرح گستاخانہ خاکے بنانے کا سلسلہ شروع کیا گیا ، نبی اکرم ﷺ کی نجی زندگی پرگستاخانہ حملےکیے گئے تاکہ لوگوں کے دلوں میں ایمان کمزور ہو ۔ قرآن نے کفار کے اس ایجنڈے کو بے نقاب کیا ہے :
’’یہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے منہ (کی پھونکوں) سے بجھا کررہیں گے اور اللہ اپنے نُور کا اتمام فرما کر رہے گا ‘خواہ یہ کافروں کو کتنا ہی ناگوار ہو۔‘‘ (الصف:8)
پہلے صرف کبھی قرآن پاک کے جلے ہوئے نسخے نظر آتے تھےیاکوئی زبان سے گستاخانہ کلمات کہتا تھا تو اس کو پکڑ کرسزا دی جاتی تھی لیکن اب جو پورنو گرافک بلاس فیمی کا سلسلہ شروع ہوا ہے، ذلیل ترین حرکت ہے۔ کسی خبیث ترین آدمی کےذہن میں بھی کبھی ایسا خیال نہیں آسکتا جس طرح کی توہین کی باتیں اب سامنے آرہی ہیں ۔ یہ شیطانیت اور حیوانیت کی انتہا ہے اور اس کا ہدف صرف اور صرف اسلام ہے اور ان کا مقصد مسلمانوں کو اذیت دینا ہے ۔ سورۃ الاحزاب کی آیت 57میں بیان ہے :
’’بےشک جو ایذا دیتے ہیں اللہ اور اس کے رسولؐ کو ان پر اللہ کی لعنت ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ نے اُن کے لیے ذلت کا عذاب تیار کر رکھا ہے۔‘‘
حدیث میں ہے کہ جب تم میں حیاء نہ رہے تو پھر جو چاہو کرو ۔ یعنی حیا ایسی چیز ہے جو انسان کو بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے جب حیا نہ رہے تو پھر بندہ پستی میں گرتا چلا جاتاہے ۔ آپ اندازہ کیجئے کہ توہین مذہب کے کسی ایک ملزم کو بھی صرف ایک شیئرنگ پر نہیں پکڑا گیا،بلکہ FIA جیسے ریاست کے ذمہ دار اداروں نے پوری تحقیق کے بعد ان ملزمان کو گرفتار کیا ہے لیکن اس کے باوجود مغرب نواز ، لبرل اور دین بیزار طبقہ بلاس فیمی بزنس گروپ کا پروپیگنڈا کررہا ہے ، یہی اصل میں بلاس فیمی پروٹیکشن گروپ ہے ۔ جبکہ مغرب میں مسلمانوں کو بغیر کسی تحقیق اور ثبوت کے پکڑ کر قتل کر دیا جاتاہے لیکن اس پر یہی طبقہ بالکل خاموش رہتا ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ توہین رسالت کے مجرموں کی جو لوگ تائید کر رہے ہیں، وہ بھی توہین رسالت کے مرتکب ہیں ، بالکل ایسے ہی جس طرح 295C کا غلط استعمال کرنے والا توہین رسالت کا مرتکب ہوتاہے ، ایسے لوگوں کو بھی سزا دی جانی چاہیے ۔ اس پورے معاملے پر دینی طبقہ ، مذہبی جماعتیں اور علماء کھڑے ہوں اور ناموس رسالت و مقدسات کا دفاع کریں ۔
سوال: 295 سی کے بارے میں کہا جاتاہے کہ یہ ایک ایسا قانون ہے جس کے تحت ابھی تک توہین رسالت کے کسی ایک بھی ثابت شدہ مجرم کو سزا نہیں دی گئی ۔ اس کی کیا وجہ ہے ؟
قیصر احمد راجہ: 295 سی کےتحت جب تک مقدمہ چلتا ہے تو ملزم کو جیل میں رکھا جاتا ہے اور مجرم ثابت ہونے پر سزائے موت سنائی جاتی ہے لیکن بدقسمتی سے ہم کچھ ایسے بین الاقوامی معاہدات میں پھنسے ہوئے ہیں کہ سزا پر عمل درآمد نہیں کر پاتے ۔ جیسا کہ GSP+کی جو حالیہ ایکسٹینشن ہوئی ہے، اس کے تحت ہم نے 30 کے لگ بھگ معاہدے سائن کیے ہیں جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہم اسلامی سزائیں نہیں دے سکتے ۔ لیکن دوسری طرف ممتاز قادری شہیدکو سزائے موت دی جاتی ہے اور اس پر عمل بھی کیا جاتاہے ۔ اصل میں یہ منافقانہ طرزعمل ہے جس کی مرتکب ہماری مغرب نواز اشرافیہ ہورہی ہے اور یہ دہرا معیار ثابت کرتاہے کہ 1947ء میں ہمیں آزادی نہیں ملی بلکہ غلامی کی ایک اور قسم میں دھکیل دیا گیا جہاں باہر سے آکر ہمیں کوئی بتائے گا کہ کونسا قانون بننا چاہیے اور کونسا نہیں ۔
آصف حمید:اقبال کا بڑ اپیارا شعر ہے :
فکر عرب کو دے کے فرنگی تخیلات
اسلام کو حجاز و یمن سے نکال دوفرنگی تخیلات میں ایک تو نام نہا د اظہار رائے کی آزادی ہے۔ لیکن یہ صرف مسلمانوں کے خلاف بولنے اور توہین مذہب کی حد تک ہے جبکہ دوسری طرف مغرب میں برطانیہ کے بادشاہ کی توہین کی اجازت نہیں ہے ۔ اسی طرح ہولو کاسٹ پر کوئی بات کرے تو اسے گرفتار کیا جاتاہے ۔ یہ مغرب کا دہرا معیار ہے ۔
سوال: توہین مذہب کے ملزمان کے وکلاء نے الزام لگایا ہے کہ دوران حراست ملزموں پر اتنا تشدد کیا گیا کہ ان میں سے 4 کی ہلاکت ہو گئی ۔ اس بات میں کتنی صداقت ہے ؟
عبدالوارث گِل:ابھی تک ایک بھی ایسی درخواست سامنے نہیں آئی جس میں ملزم کے لواحقین نےکہا ہوکہ ملزم پر تشدد ہوا ہے اور نہ ہی کسی ایسے ملزم کا نام سامنے آیا ہے جس کی تشدد سے موت ہوئی ہو ۔ یہ ایک پروپیگنڈا ہے۔ عدالتیں قانون کی محافظ ہوتی ہیں ، ان کی کوشش ہونی چاہیے کہ قانون کا نفاذ ہو ، قانون کی بالا دستی ہو لیکن اگر عدالتوں کا رویہ ایسا ہو گا جیسا کہ اس کیس میں سامنے آیا ہے کہ ایک جج صاحب کہہ رہے تھے کہ ایسا ہوا ہوگا ۔ کیا مطلب ہے ایسا ہوا ہوگا؟ یہ ایک فریق کے الفاظ تو ہو سکتے ہیں لیکن جج کے نہیں ۔ جج تو منصف ہوتاہے اُس کو پوری چھان بین کے بعد کہنا چاہیے کہ ایسا واقعی ہوا ہے ۔ یہ بڑی ایک عجیب سی صورتحال ہے ۔ اسی وجہ سے جب عوام کا اعتماد عدالتوں سے اُٹھ جاتاہے تو اس کے بعد لوگ قانون کو اپنے ہاتھ میں لیتے ہیں ۔ اب کمیشن بنانے کا مقصد کیس کو مشکوک بنانا ہے اور شک کی بنیاد پر ملزمان کو ضمانتیں مل جائیں گی اور پھر انہیں ملک سے فرار کروا دیا جائے گا ۔ایسا بھی ہو سکتاہے کہ ملزمان کو معصوم اور مظلوم بنا کر دنیا کے سامنے پیش کرنے کے لیے 400 میں سے کسی ایک ملزم کو خود تشدد کرکے ماردیا جائے اور الزام لگایا جائے کہ پاکستان میں بڑا ظلم ہو رہا ہے ۔ اس کا مقصد 295سی کو نشانہ بنا کر ختم کرنا ہوگا ۔ میں عرصے سے یہ بات کہہ رہا ہوں کہ کمیشن ایک بہانہ ہے، 295 سی اصل نشانہ ہے۔
آصف حمید: پاکستان میں ہزاروں بے گناہ لوگ پولیس مقابلوں کے نام پر قتل کر دیے جاتے ہیں ، اس پر یہ نام نہاد این جی اوز اورمغرب نواز لوگ کوئی آواز بلند نہیں کرتے ۔ اس کیس میں 4 ملزموں کی ہلاکت کا پروپیگنڈا ایسے کر رہے ہیں جیسےواقعی ایسے ہوا ہو ۔ حالانکہ ان کے پاس کوئی ثبوت بھی نہیں ہے ۔
قیصر احمد راجہ: اگر عدالت میں کوئی ویڈیو پیش کی جاتی ہے تو اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا ہے جو تشدد کے نشان ہیں وہ پیدائشی ہیں ، جعلی ہیں یا اصلی ہیں ، کس نے تشدد کیا ، کہاں پر کیا گیا ، پاس کون تھا ، ویڈیو کس نے بنائی اور کس نے اپ لوڈ کی ۔ یہ ساری باتیں معلوم کرنا قانوناً عدالت کا کام ہے ۔ اس کے بعد عدالت فیصلہ دے سکتی ہے کہ واقعی تشدد ہوا ۔ لیکن اس کیس میں عجیب معاملہ ہوا کہ محض ایک ویڈیو کی بنیاد پر عدالت نے کہہ دیا کہ تشدد ہوا ہے، یہ بھی نہیں پوچھا کہ بندہ کون ہے ؟ حالانکہ میڈیکل آفیسر نے موت کی وجہ طبعی بتائی ہے ۔
عبدالوارث گِل:سوال یہ بھی ہے کہ عدالت کا فوکس اس بات پر کیوں نہیں ہے کہ ملزمان نے واقعی توہین کی ہے۔ حالانکہ ڈی این اے اور فرانزک رپورٹ سمیت تمام ثبوت موجود ہیں ۔عدالت پنجاب فرانزک لیبارٹری کی بات سننے کے لیے تیار نہیں ہے ، PTAنے جو رپورٹ پیش کی ہےکہ ہم نے اتنی ویب سائٹس بند کی ہیں جن پر واقعی توہینِ رسالت کا ارتکاب ہورہا تھا اس پر توجہ دینے کے لیے عدالت تیا رنہیں ہے، FIAاور سائبر کرائم کی رپورٹس پر توجہ دینے کو تیار نہیں ہے۔ اس کے برعکس بے معنی اور فضول باتوں میں لگ کر کیس کو الجھا رہی ہے ۔ لوگ کہتے تھے کہ پاکستانی عدالتوں میں انصاف کا قتل ہوتا ہے ، ہم یقین نہیں کرتے تھے لیکن اب ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے ۔
سوال: سوشل میڈیا کے حوالے سے کہا جاتاہے کہ یہ ایسا شتر بے مہار بن چکا ہے کہ جس کے منہ میں جو بات آتی ہے وہ کہہ دیتا ہے ، جو چاہتاہے کچھ بھی لکھ دیتاہے ۔لہٰذا کوئی رولز اینڈ ریگولیشنز ہونی چاہئیں ، کوئی قانون بننا چاہیے ۔ لیکن جب پاکستان کے ذمہ دار اداروں نے بڑی محنت سے ثبوت اکٹھے کیے اور کچھ لوگوں کو گرفتار کیا تو ہمارا سیکولر ، لبرل اور مغرب نواز طبقہ اس کے خلاف کھڑاہوگیا ۔ ایسا کیوں ہے؟
آصف حمید:جن و انس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی بندگی کے لیے پیدا کیا ہے جیسا کہ قرآن مجید میں فرمایا :
{وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ D} (الذٰرِیٰت)’’اور مَیں نے نہیں پیدا کیا جنوں اور انسانوں کو مگر صرف اس لیے کہ وہ میری بندگی کریں۔‘‘
اس کے برعکس مغرب میں آزادی کا جو نعرہ بلند کیا گیا، وہ اصل میں اللہ کی بندگی سے آزادی کا نعرہ ہے ۔اب یہ مغربی ایجنڈا ہمارے معاشرے میں بھی پھیل رہا ہے اور جس کے ہاتھ میں موبائل ہے وہ جو چاہتا ہے لکھتا ہے۔ اصل حقیقت لوگ بھول جاتے ہیں کہ اس دنیا میں خیر اور شر کی جو جنگ چل رہی ہے ، اس میں ہم کس صف میں کھڑے ہیں ۔ مغرب نے جو ٹیکنالوجی میں ترقی کی ہے اس کو مغرب نے خیر سے زیادہ شر اور برائی کے شیطانی ایجنڈے کو پھیلانے کے لیے استعمال کیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہمارے معاشرے میں بھی برائی اور بے حیائی کو بہت عام سی چیز سمجھا جارہا ہے ۔ حالانکہ ایک مسلمان کی نجات اللہ کی بندگی میں ہے ۔ اگر اس پہلو کو مدنظر رکھا جائے تو پھر سوشل میڈیا سمیت ہر مغربی ٹیکنالوجی کو اللہ اور اس کے رسول ﷺکی متعین کی ہوئی حدود کے اندر رہ کر استعمال کریں گے ۔ ورنہ ہم بھی شیطان کے راستے پرکھڑے ہوں گے کیونکہ اللہ کی بندگی سے آزادی، سرکشی اور بغاوت کا نعرہ سب سے پہلے اُسی نے لگایا تھا ۔ اسی ایجنڈے کے تحت آج نوجوانوں کے ذہن بدلے جارہے ہیں ، پورے کےپورے معاشرے بدلے جارہے ہیں ۔ اسی سوشل میڈیا کے ذریعے رائے عامہ کو ہموار کیا جاتاہے اور ملکوں کے اندر خانہ جنگیاں کروائی جاتی ہیں ۔ جبکہ دوسری طرف اگر آپ غزہ کی بات کریں ، مظلوم فلسطینیوں کی حمایت کریں تو آپ کو وارننگز آنا شروع ہو جاتی ہیں ۔ چاہے ججز ہوں ، وکلاء ہوں ، حکمران ہوں یا عوام ہوں ،بحیثیت مسلمان ہم سب کو ان باتوں کو سمجھنا چاہیے ۔
سوال: سماعت کے دوران ایک الزام یہ بھی لگایا گیا کہ وکلاء کا ایک گروپ FIAکے ساتھ مل کر پیسے بٹورنے کے لیے لوگوں کو توہین رسالت کے جرم میں پھنسا رہا ہے ۔ اس میں کتنی سچائی ہے اور کتنا فریب ہے ؟
قیصر احمد راجہ:مخالفین کی جانب سے اصل الزام تویہی تھا، باقی جتنی بھی بحث ہوئی وہ اس جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کے لیے تھی ۔ کمیشن کی ڈیمانڈ بھی اسی وجہ سے تھی۔ اس الزام کی بنیاد سپیشل برانچ کی ایک رپورٹ کو بنایا گیا ۔ حالانکہ سپیشل برانچ تو روزانہ کی بنیاد پر خبریں متعلقہ اداروں کو بھیجتی ہے اور یہ ان اداروں کا کام ہوتاہے کہ وہ اس خبرکی جانچ پڑتال کریں کہ وہ سچی ہے یا جھوٹی ہے۔ لیکن اس کیس میں بغیر کسی تحقیق کے اس خبرکی بنیاد پر عدالت نے کمیشن بنانے کا فیصلہ دے دیا۔ حالانکہ رپورٹ میں کوئی باقاعدہ ثبوت نہیں تھا ۔صرف اتنا لکھا ہوا تھا کہ’’ایک سورس کے مطابق‘‘۔ سورس جھوٹا بھی ہو سکتا ہے۔ سپیشل برانچ کے سربراہ فیصل راجہ نے عدالت میں باقاعدہ کہا کہ ہم نے اس پر تحقیق نہیں کی ۔ محض ایک سورس کی خبر تھی جو ہم نے FIAکو بھیج دی ۔ FIAنے تحقیق کے بعد عدالت کو رپورٹ پیش کی کہ یہ سب جھوٹ ہے ۔ اس کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مخالفین کے کیس کو خارج کر دیا جاتا لیکن بجائے اس کے عدالت نے جھوٹ کو سہارا دیا۔ ملزمان کے وکیل نے ایک اور جھوٹا الزام لگایا کہ FIA کی رپورٹ کے مطابق بلاس فیمی بزنس گروپ 8کروڑ روپے لے چکا ہے ۔ہم نے ثبوت کے طور پر حوالہ نمبر مانگا لیکن آج تک نہیں دیا گیا ۔ اسی طرح ایمان مزاری نے بھی ایک جھوٹ گھڑا کہ 14،14 لاکھ روپے لیے گئے ہیں لیکن بعد میں انہوں نے بھی بیان بدل لیا کہ یہ تو چندہ تھا۔ FIAنے جب تحقیق کی تو پتا چلا کہ ملزمان کے والدین نے صاف انکار کر دیا کہ ہم سے کسی نے پیسے نہیں مانگے ۔
آصف حمید:اللہ کے دین کا اپنا مزاج ہے ، وہ برائی اور بے حیائی کے کاموں کی تشہیر نہیں چاہتا ۔ اگر زنا کی حد لگتی ہے تو تب بھی دین کہتا ہے کہ اس کو عام نہ کیا جائے ۔ اس کیس کے حوالے سے PTAنے ایک کانفرنس بلائی تھی جس میں علماء بھی شریک ہوئے تھے اور میں بھی شریک تھا۔ اس میں طے ہوا تھا کہ والدین اپنی اولادوں کو اس فتنہ سے بچانے کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کریں اور اسی وجہ سے فون کی bell میں PTAکی جانب سے ایک سائلنٹ میسج جاری ہوتا تھا کہ انٹرنیٹ استعمال کرتے ہوئے والدین اپنے بچوں پر نظر رکھیں کہ وہ کسی غیر اخلاقی ویب سائٹ پر نہ جائیں ۔ اسی طرح علماء سے بھی کہا گیاکہ وہ عوام میں اس حوالے سے شعور اجاگر کریں ۔ امیرتنظیم اسلامی شجاع الدین شیخ تو تواتر سے یہ بات کرتے ہیں کہ خود کو اور اپنے گھر والوں کو جہنم کی آگ سے بچاؤ ۔
سوال: ہمارے ہاں یہ بات زبان زد عام ہےکہ 295سی کے قانون کا غلط استعمال ہوتا ہے ۔ حالانکہ 295 سی کے ہر کیس میں FIRکے اندراج سے لے کر اعلیٰ عدلیہ میں سماعت تک جس قدر احتیاط کی جاتی ہے کسی اور کیس میں نہیں کی جاتی ۔اگر یہ قانون کسی سطح پر غلط استعمال ہوتا ہے تواس کی بہتری کے لیے کیا تجاویز دیں گے ؟
عبدالوارث گِل:دنیامیں کون سا ایسا قانون ہے جس کا غلط استعمال نہیں ہوتا ، کیا اس کا یہ مطلب ہےکہ قانون ختم کر دیا جائے۔ 295سی جب تک ہے تب تک یہاں امن و سلامتی ہے ۔ اقلیتیں اور مسلمان سب محفوظ بھی ہیں۔ جب کہیں توہین مذہب کا الزام لگتا ہے تو SPلیول کا آفیسر اس کی تحقیقات کرتاہے ۔ پختہ ثبوت ملنے کے بعد FIRدرج ہوتی ہے ۔ اس کے بعد بھی ملزم کے پاس موقع ہوتاہے کہ وہ لوہر کورٹ یا ہائی کورٹ میں خود کو بے قصور ثابت کرے ۔ اس کے بعد سپریم کورٹ بھی پورا موقع دیتی ہے ۔ بصورت دیگر اگر یہ قانون ختم کر دیا جاتاہے تو پھر عوام قانون کو ہاتھ میں لیں گے اور موقع پر لوگوں کو سزائیں دیں گے اورہو سکتا ہے کہ کئی بے گناہ لوگ بھی مارے جائیں ۔ کئی بیرونی قوتیں چاہتی ہیں کہ پاکستان میں بدامنی اور انتشار پھیلے اور تباہی اور عدم استحکام پیدا ہو تو وہ اس صورتحال سے فائدہ اٹھائیں گی ۔ لیکن جب تک 295سی ہے تو ملک ان سازشوں سے محفوظ رہے گا اور لوگوں کی جانیں بھی محفوظ رہیں گی ۔
آصف حمید:اگر کہیں 295سی کا غلط استعمال ہورہا ہے تو اس کی تحقیق ہونی چاہیے اور جھوٹا الزام لگانے والے کو اسی قانون کے تحت سزا دی جانی چاہیے ۔ اگر ایسا ہوگا تو جھوٹا الزام لگانے والا سو بار سوچے گا ۔ لیکن اگر ایسا نہیں ہورہا تو اس کا مطلب ہے کہ ہمارا نظام شفاف نہیں ہے ۔ اس میں قانون کا تو کوئی قصور نہیں ہے ۔ حالیہ کیس میں اگر جھوٹے الزمات ثابت ہو جاتے تو مخالف گروہ نے اب تک آسمان سر پر اُٹھا لینا تھا لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا ۔ دینی طبقہ نے مکمل انحصار عدالت پر کیا ہے ۔ لہٰذا عدالت کو بھی چاہیے کہ وہ قانون کے نفاذ کو یقینی بنائے تاکہ عوام کا اعتماد بحال رہے ۔
tanzeemdigitallibrary.com © 2025