اداریہ
رضاء الحق
روحانی نہیں، شیطانی مشن!
گزشتہ دنوں اسرائیل کے چینل آئی 24 کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے ناجائز صہیونی ریاست اسرائیل کے وزیراعظم نتن یاہو نے کہا کہ وہ عظیم تر اسرائیل ( گریٹر اسرائیل ) کے ویژن کو بہت قریب محسوس کرتا ہے۔ اُس نے خود کو ایک ’’تاریخی‘‘ اور روحانی مشن‘‘ پر قرار دیا ۔اُس کا کہنا تھا کہ ’’ وہ دنیا بھرکے یہودیوں کی نسلوں کی نمائندگی کر رہا ہے جو یہاں(مقبوضہ فلسطین) آنے کا خواب دیکھتے ہیں۔‘‘ حقیقت یہ ہے کہ نتن یاہو کی باقی لاف زنی ایک طرف، اُس کا یہ کہنا کہ وہ دنیا بھرکےیہودیوں کو مقبوضہ فلسطین میں لا کر آباد کرنے کا داعی ہے، اُن تمام مسلم خصوصاً عرب ممالک کے منہ پر ایک زناٹے دار تھپڑ سے کم نہیں جو آج بھی ’’ دو ریاستی حل‘‘ کا ترانہ پڑھتے تھکتے نہیں۔ کیونکہ دنیا بھر سے یہودیوں کو اس خطے میں لا کر آباد کرنے کا ایک مطلب یقیناً گریٹر اسرائیل کا قیام ہے، تو دوسری طرف اس کا مطلب فلسطینیوں کو اُن کے علاقوں سے نکال باہر کر کے دنیا بھر سے لائے گئے یہودی آباد کاروں کو ناجائز طور پر بسانا بھی ہے۔
’’ عظیم تر اسرائیل‘‘ ( گریٹر اسرائیل ) سےنتن یاہو کی مراد 1902ء میں بابائے صہیونیت تھیوڈور ہرزل کی شائع ہونے والی کتاب ‘‘Altneuland’’ (Old-New Land) ہے، جس میں(اُس وقت کے مطابق)تفصیلی نقشوں اور بارڈروں کے ذریعےگریٹر اسرائیل کے خدو خال پیش کیے گئے ہیں۔ تھیوڈور ہرزل کےمنصوبہ اور نتن یاہو کے ’’روحانی‘‘ نہیں ’’شیطانی‘‘ مشن کے مطابق، گریٹر اسرائیل میں درج ذیل علاقے شامل ہوں گے: مقبوضہ مغربی کنارہ، محصور بلکہ تباہ حال غزہ، گولان کی پہاڑیوں سمیت شام کا ایک حصّہ ، مصر کا جزیرہ نما سینا ،لبنان،اردن ،ترکی کا کچھ حصہ، یمن کی سمندری پٹی، متحدہ عرب امارات، عراق کا دریائے فرات تک کا حصّہ اور سعودی عرب کے بعض علاقے۔یہود ان جغرافیائی حدود کو یہودی ریاست اسرائیل کی بائبل میں موجود سرحدیں (Biblical Boundaries) قرار دیتے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ اُن کے اِس خواب کی حقیقت اتنی ہی صائب ہے جتنی اُن کی تحریف شدہ آسمانی کتب اور صحیفے۔یقیناً بنی اسرائیل کی تاریخ میںوہ دور بھی گزرا ہے جب انہیں تمام جہان والوں پر فضیلت دی گئی تھی۔ ’’اے اولادِ یعقوب ! یاد کرو میرے اُس انعام کو جو میں نے تم پر کیا اور یہ کہ میں نے تمہیں فضیلت دی تھی اہلِ عالم پر۔‘‘ ( البقرہ: 122) (بقول جدید یہودیوں کے Chosen People of the Lord) اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اللہ کے رسول حضرت داؤد ؑ کے دور میں ارضِ فلسطین کواُس دور کی اُمتِ مسلمہ کی حیثیت میں بنی اسرائیل کے حوالے کر دیا گیا تھا: ’’اے برادران قوم ! اس مقدّس سرزمین میں داخل ہوجاوٴ جو اللہ نے تمہارے لیے لکھ دی ہے ۔‘‘ (المائدہ:21)۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤدd کے کلامِ اطہر کے ذریعے ہی اِس کی شرط بھی مقرر کر دی تھی۔ ’’اور زَبور میں ہم نصیحت کے بعد یہ لکھ چکے ہیں کہ زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہوں گے۔‘‘ (الانبياء:105)
بنی اسرائیل کی تاریخ اللہ تعالیٰ اوراُس کے نبیوںؑ و رسولوںؑ کی حکم عدولی بلکہ اُن کے قتل تک سے اٹی پڑی ہے۔ قرآنِ پاک کی سورۃ البقرہ کےپانچویں رکوع سے شروع ہو کر پندرھویں رکوع کے اختتام تک (یعنی 10 رکوع مسلسل) اللہ تعالیٰ اپنے بے پناہ فضل و کرم کے علی الرغم بنی اسرائیل کے کالے کرتوتوں کے باعت اُن پرتفصیلی فردِ جرم عائد کر کے اُنہیں چنیدہ اُمت سے معزول کر کے مغضوب علیہمقرار دیتا ہے۔ اُن کی جگہ محمد عربیﷺ کی اُمت کو انسانیت کے لیے تا قیامِ قیامت چنیدہ اُمت قرار دیا گیا۔ اُمت محمد ﷺ کے ذمّے لگایا گیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے دین کو قائم و نافذ کرکے نہ صرف اپنا فرضِ منصبی پورا کریں بلکہ تمام انسانیت پر اتمامِ حجت بھی کر دیں۔ تحویلِ قبلہ سے متعلق آیات اور نبی اکرم ﷺ کا سفرِ معراج میں تمام انبیاء کرام fکی امامت کرانا اِس Change of Guard کی قوی ترین حجتیں ہیں کہ اب اُمت ِوسط بنی اسرائیل نہیں بلکہ نبی اُمّی محمد کریم ﷺ پر ایمان لانے والی اُمتِ مسلمہ ہوگی۔ رہا معاملہ یہود و نصارٰی کا تو اُن کے نصیب میں مسلمانوں کی ہر نماز کی ہر رکعت میں غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْهِمْ وَ لَا الضَّآلِّیْنَ ٹھہرا۔
واپس آتے ہیں نتن یاہو کے ’’تاریخی‘‘ اور ’’روحانی‘‘ مشن کی طرف۔ غیروں کے ملکوں اور اداروں سے کیا گِلا، مسلم ممالک کا اِس شیطانی بیان پر ردعمل ملاحظہ فرمائیں: اردن کی وزارت خارجہ نے نتن یاہو کے بیان کو ’’خطرناک اور اشتعال انگیز کشیدگی قرار دیا ہے جو ریاستوں کی خودمختاری کے لیے خطرہ اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی ہے۔‘‘ فلسطینی انتظامیہ (محمود عباس) نے ان بیانات کو ’’فلسطینی عوام کے جائز حقوق کی خلاف ورزی‘‘ اور ’’ایک خطرناک اشتعال انگیزی اور کشیدگی‘‘ قرار دیا، جو ’’علاقائی سلامتی کے لئے خطرہ ہے۔‘‘ قطر کی وزارت خارجہ کا کہنا تھا کہ یہ بیانات ’’قابض حکام کے تکبر، بحرانوں اور تنازعات کو ہوا دینے‘‘ اور ’’ریاستوں کی خودمختاری کی کھلم کھلا خلاف ورزی پر مبنی نقطہ نظر‘‘ کی عکاسی کرتے ہیں۔ سعودی عرب نے ’’توسیع پسندانہ خیالات اور منصوبوں‘‘ کو مسترد کردیا اور ’’فلسطینی عوام کے سرزمین پر اپنی آزاد، خودمختار ریاست قائم کرنے کے تاریخی اور قانونی حق‘‘ کا اعادہ کیا۔ عرب لیگ نے اسرائیل کے ’’جارحانہ اور توسیع پسندانہ رجحانات‘‘ کی مذمت کرتے ہوئے متنبہ کیا کہ وہ ’’اجتماعی عرب قومی سلامتی کے لئے سنگین خطرہ‘‘ ہیں۔ پاکستان کےدفترِ خارجہ نے اپنے بیان میں کہا کہ ’’پاکستان اسرائیلی قابض قوت کے حالیہ بیانات کی شدید مذمت کرتا ہے اور اُنہیں مکمل طور پر مسترد کرتا ہے، جن میں نام نہاد گریٹر اسرائیل کے قیام کا حوالہ دیا گیا ہے اور غزہ سے فلسطینیوں کو زبردستی بے دخل کرنے کے منصوبے ظاہر کیے گئے ہیں۔‘‘ ’’یہ بیانات اسرائیل کی جانب سے قبضے کو مستحکم کرنے اور امن کی کوششوں کو نظرانداز کرنے کے ارادے کو ظاہر کرتے ہیں۔‘‘ پاکستان نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ ’’فوری طور پر اقدام کرے تاکہ خطے میں مزید عدم استحکام کو روکا جا سکے اور فلسطینی عوام کے خلاف جرائم کا خاتمہ کیا جا سکے۔‘‘ پاکستان نے تمام ممالک سے اپیل کی کہ وہ ’’ایسے اشتعال انگیز تصورات کو دوٹوک انداز میں مسترد کریں، جو بین الاقوامی قانون، اقوامِ متحدہ کے منشور کے اصولوں اور متعلقہ قراردادوں کی صریح خلاف ورزی کے مترادف ہیں۔ پاکستان فلسطینی عوام کے حقِ خود ارادیت اور1967ء سے قبل کی سرحدوں پر مبنی آزاد ریاستِ فلسطین کے قیام کی حمایت کا اعادہ کرتا ہے، جس کا دارالحکومت القدس الشریف ہو۔‘‘
نتن یاہو کے اِس قدر عریاں بیان پر بھی عرب اور دیگر مسلم ممالک نے روایتی زبانی جمع خرچ سے آگے بڑھ کر اسرائیل کے خلاف عملی کارروائی کا ذکر بھی زبان پر لانے کی ’’جرأت نہ‘‘ کی؟
البتہ اسرائیل کے ساتھ سفارتی اور تجارتی تعلقات پر حرف نہیں آنے دیا گیا۔مصّر اور اُردن نے ناجائز صہیونی ریاست اسرائیل کو پانی ،خوراک اور بجلی کی ترسیل جاری رکھی۔ متحدہ عرب امارات، بحرین، عمان، سوڈان اور مراکش میں سے کسی نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات منقطع نہیں کیے۔ ترکیہ جو اسرائیل کے ساتھ تجارت کرنے والا شاید سب سے بڑا مسلم ملک ہے، اس نے چند اشیاء کی اسرائیل سے برآمد پر پابندی اور کچھ کی برآمد میں کمی کے اعلان کے سوا کوئی بڑا عملی قدم نہیں اٹھایا۔ 2023ء میں ترکیہ اور اسرائیل کی باہمی تجارت کا حجم 6.8ارب ڈالر تھا، جس میں سے76 فیصد ترکی کی برآمدات پر مشتمل تھا۔ترکیہ کے 7اکتوبر2023ء کے بعد کے بعض اقدامات نے اسرائیل کے ساتھ تجارت کو کم تو کیا ہے، لیکن آج بھی غزہ پر بمباری کرنے والے اسرائیلی ٹینکوں، لڑاکا طیاروں، بحری بیڑوں، ڈرونز اور دیگر مشینری کے لیے خام تیل کی اسرائیلی ضرورت کو ایک بڑی حد تک ترکیہ پورا کرتا ہے۔
اِسی دوران اسرائیلی وزیر خزانہ بیزلیل سموترچ نے مقبوضہ مغربی کنارے میں3ہزار4سوگھروں (فلسطینیوں سے چھینی زمین پر صہیونی آبادکاریوں) کی تعمیر کی حمایت کرتے ہوئے وزیر اعظم نتن یاہو سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مغربی کنارے (یہودیہ و سامریہ) کا اسرائیل سے الحاق کرے۔یہ تعمیرات مشرقی یروشلم کے قریب مقبوضہ علاقے ای ون میں کی جائیں گی، گویا مسلم ممالک کا ترانہ ’’دو ریاستی حل‘‘ کا ڈھکوسلہ اور دجل تو گیا کوڑے کے ڈھیر میں!
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ کم و بیش 57 مسلم ممالک میں بسنے والے 2ارب مسلمان مسجد الاقصیٰ کی پکارپر لبیک کہیں ۔ قرآن کو اپنا امام بنائیں ۔ سیرت وسنتِ رسولﷺ کو دانتوں سے پکڑ لیں ۔ تاریخِ اسلامی کا بغور مطالعہ کریں اور اس سے سبق سیکھیں۔ جولائی1099ء میں صلیبیوں نے القدس شریف کو مسلمانوں سے چھین لیاتھا۔ 1187ءمیں سلطان صلاح الدین ایوبی ؒ نے معرکہ حطین میں صلیبیوں کو شکست فاش دے کر ارضِ فلسطین کو دوبارہ آزاد کروا یا۔ 1099ء سے 1187ء کے دوران ہونے والے واقعات ،مسلمانوں کی جدوجہد ، اُس دور کے سیاسی معاملات ، وفاداری اور بے وفائی کی داستانوں کا مطالعہ کریں۔ یقین جانیے ، اُن 88 سالوں کے دوران جب بیت المقدس پر صلیبیوں کا قبضہ رہا، آج کے دور کا عکس بھی صاف نظر آئے گا ۔
ہماری پستی اور ذلت و خواری کی اصل وجہ ہی یہ ہے کہ ملکی اور عالمی دونوں سطحوں پر ہم نے مسلکی اختلافات سے بلند ہو کر اسلامی نظام کے نفاذ کو ہدف نہیں بنایا۔ پاکستان اسلام کے نام پر قائم ہوا تھا اور اُس کی بقاء، سلامتی اور سالمیت بھی اسلامی نظام کے نفاذ میں ہی مضمر ہے۔ یہی معاملہ عالمی سطح پر بھی ہے۔ ایک طرف سعودی عرب ہے تو دوسری طرف ایران۔ اسرائیل، امریکہ اور بھارت کے ابلیسی اتحاد ثلاثہ کو شکست دینی ہے تو آپس میں اتفاق اور حقیقی ایمان کی بنیاد پر قائم ایک اسلامی اجتماعیت کا قیام ناگزیر ہے جو معمولی ملکی مفادات کو تج کر کے ایک بڑے مشن کے لیے کام کرے۔ غزہ سمیت دینا بھر کے مظلومین کی اخلاقی، معاشی اور عسکری مدد کرے۔ ظالموں کو اُن کے ظلم سمیت جڑ سے اُکھاڑ پھینکے۔ اللہ کا ایسے نظام کو قائم کرنے کی جدوجہد کرنے والوں سے وعدہ ہے کہ ’’اور نہ کمزور پڑو اور نہ غم کھاؤ اور تم ہی سربلند رہو گے اگر تم مؤمن ہو۔‘‘ ( آل عمران: 139) اور ’’اے اہل ِایمان ! اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو اللہ تمہاری مدد کرے گا اور وہ تمہارے قدموں کو جما دے گا۔‘‘ (سورۃ محمد: 07)
اللہ تعالیٰ پاکستان سمیت دنیا بھر کے مسلم ممالک کی حکومتوں اور مقتدر حلقوں کو اَس کی توفیق عطافرمائے۔ آمین!