(منبرو محراب) آزادی کے تقاضے اور ہمارا طرزِعمل - ابو ابراہیم

10 /

آزادی کے تقاضے اور ہمارا طرزِعمل


(قرآنی تعلیمات کی روشنی میں)


مسجدجامع القرآن ، قرآن اکیڈمی لاہور میں امیر تنظیم ِاسلامی محترم شجاع الدین شیخ   حفظ اللہ کے15 اگست 2025ء کے خطابِ جمعہ کی تلخیص

مرتب: ابو ابراہیم
 
خطبہ ٔمسنونہ اور تلاوتِ آیاتِ قرآنی کے بعد!
14اگست کا دن ہمارے ملک میں اور بیرونِ ملک بھی پاکستانیوں نے جشن آزادی کے طور پرمنایا ۔ بعض لوگوں نے پورا ہفتہ لانگ ویک اینڈ کے طور پر منایا اور کچھ سیر وتفریح کے مواقع کے طور پر اِن دنوں کو استعمال کرتے رہے ۔ لیکن جشن منانے کے اس سارے عمل کے دوران ہمیں وہ مقصد کہیں نظر نہیں آیا جس کے تحت اِس مملکت خداداد کے حصول کی تحریک چلائی گئی، عظیم تر قربانیاں پیش کی گئی تھیں اور ہندوؤں کی تمام تر مخالفت کے باوجود رمضان کی 27 ویں شب کو یہ ملک اللہ نے عطا کیا تھا ۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے : 
’’اور یاد کرو جبکہ تم تھوڑی تعداد میں تھے اور زمین میں دبا لیے گئے تھے،تمہیں اندیشہ تھا کہ لوگ تمہیں اُچک لے جائیں گے‘تو اللہ نے تمہیں پناہ کی جگہ دے دی اور تمہاری مدد کی، اپنی خاص نصرت سے اور تمہیں بہترین پاکیزہ رزق عطا کیا‘ تاکہ تم شکر ادا کرو۔‘‘(الانفال:26)
یہ آیت اِس تناظر میں نازل ہوئی جب مکہ میں مسلمان اقلیت میں تھے اور اُنہیں ظلم و جبر کے تحت دبالیا گیا تھا ، لیکن ڈاکٹر اسراراحمدؒ اس کی ایک تاویلِ عام مسلمانانِ ہند کے تناظر میں بھی پیش کیا کرتے تھے ۔ قرآن بہرحال پوری انسانیت کے لیے کتابِ ہدایت ہے لہٰذا اس میں ہمارے لیے بھی سبق ہے ۔ خود اللہ تعالیٰ  قرآن میں فرماتاہے :
{لَقَدْ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکُمْ کِتٰـبًا فِیْہِ ذِکْرُکُمْ ط اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ(10)}(الانبیاء )’’(اے لوگو!) اب ہم نے تمہاری طرف یہ کتاب نازل کر دی ہے‘ اس میں تمہارا ذکر ہے،تو کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے؟‘‘ 
مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ فرماتے تھے کہ ہمارے اسلاف اس قرآن حکیم کو ایک آئینے کے طور پر لیتے تھے اور اپنی تصویریں اس میں تلاش کرتے تھے ،اگر اچھی لگتی تو اللہ کا شکر ادا کرتے تھے اور مزید کی توفیق مانگتے تھے اور اگر قابل اصلاح پہلو سامنے آتا تو پھر اپنی اصلاح  کرتے تھے ۔ اس معنی میں یہ قرآن ایک زندہ کلام ہے۔ سیدنا علی؄فرماتے تھے :جب میں اللہ سے باتیں کرنا چاہتا ہوں تو نماز میں کھڑا ہوتا ہوں لیکن جب میں چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھ سے کلام کرے تو میں قرآن مجید پڑھتا ہوں ۔ لہٰذا یہ قرآن ہم سب کے لیے قیامت تک کے لیے رہنمائی ہے ۔ قرآنی آیات کی تاویل خاص اسی تناظر میں کی جاتی ہے جس میں وہ نازل ہوئی تھیں لیکن تاویل عام میں موجودہ دور کے حالات میں بھی رہنمائی لی جاسکتی ہے ۔ جن حالات میں تحریک پاکستان کا آغاز ہوا وہ کچھ ایسے ہی تھے جیسے مکہ میں مسلمانوں کو درپیش تھے ۔ ہندوستان میں بھی مسلمان اقلیت میں تھے اور خدشہ تھا کہ ہندو اکثریت اور انگریزوں کے گٹھ جوڑ کے ذریعے انہیں دبا لیا جائے گا یا مٹا دیا جائےگا ۔ پوری دنیا میں سیکولر ازم کا ڈنکا بج رہا تھا اور کہا جارہا تھا کہ ریاست اور مذہب کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے ۔ ان حالات میں تحریک پاکستان کا نعرہ تھا :’’پاکستان کا مطلب کیا: لا الٰہ الا اللہ ۔‘‘ مسلمانان ِ برصغیر کا مطالبہ تھا کہ ہمیں ایک علیحدہ سرزمین چاہیے جہاں ہم اپنی زندگیاں اسلام کے سنہری اصولوں  کے مطابق گزار سکیں جبکہ ہندو اکثریت ہندوستان کی تقسیم کے خلاف تھی ، لیکن تمام تر مخالفتوں کے باوجود اللہ تعالیٰ نے ہماری خواہش کو پورا کیا اور ایک علیحدہ وطن عطا کردیا ۔ اب بندگی کا تقاضا تھا کہ ہم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے اور اس وطن میں اسلام کو غالب اور نافذ کرتے۔ امام راغب اصفہانی  ؒ فرماتے ہیں:’’ شکر دل سے بھی ہوگا ، زبان سے بھی ہوگا ، اپنے پورے وجود سے بھی ہوگا ۔‘‘ صحابہ کرام ؓ نے تو شکر کے طور پر اپنی پوری زندگیاں دین کے غلبے کے لیے وقف کردیں اور اللہ کے نبی ﷺ کے مشن کو روئے زمین پر پھیلایا ۔ اس کے برعکس ہم نے کیا کیا ؟ جس عہد کی بنیاد پر اللہ تعالیٰ سے ملک حاصل کیا تھا اُس عہد سے ہی پھر گئے ، اللہ کے دین سے بے وفائی اور غداری کی ۔ اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
’’اے اہل ایمان! مت خیانت کرو اللہ سے اور رسول (ﷺ) سے‘اور نہ ہی اپنی (آپس کی) امانتوں میں خیانت کروجانتے بوجھتے ۔‘‘(الانفال :27)
یہ آیت نازل تو مکہ مکرمہ کے تناظر میں ہوئی تھی لیکن محسوس یہ ہوتا ہے کہ گویا عین ہمارے اس طرزعمل پر تنبیہہ کی گئی ہے۔ ہم نے ہی جانتے بوجھتے اللہ سے عہد کرکے پھر خیانت کی ۔ مسلم شریف کی روایت ہے، اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا :  منافق کی چار نشانیاں ہیں : جب بات کرے گا تو جھوٹ بولے گا ، جب وعدہ کرے گا تو خلاف ورزی کرے  گا ، امانت میں خیانت کرے گا ، جب جھگڑا کرے گا تو گالیاں دے گا ۔ یہ سب آج ہمارا قومی مزاج بن چکا ہے ۔ جو جس قدر بڑے عہدے پر ہے وہ اتنا ہی زیادہ خائن ہے ، سیاستدان وعدے کچھ اور کرتے ہیں لیکن اسمبلی میں جاکر مغرب کا ایجنڈا پورا کرتے ہیں ۔ صحابہ کرام ؇ کی جماعت نے وعدہ خلافی نہیں کی لہٰذا اللہ تعالیٰ نے انہیں رَّضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ کا سرٹیفیکیٹ دیا ۔ ہمیں بھی اللہ تعالیٰ نے انہی جیسے حالات سے نکال کر ایک علیحدہ وطن دیا تھا لیکن ہم نے خیانت کی ، اللہ کے دین سے ہی منہ موڑ لیا ۔ جشن آزادی مناتے ہوئے جو ہوائی فائرنگ کی گئی اس کی وجہ سے کتنے گھر اُجڑ گئے ، کتنے بچے یتیم ہوگئے ، ایک گورنر سٹیج پر کھڑے ہوکر ٹھمکے لگا رہا تھا ، کیا یہ ملک اس لیے حاصل کیا تھا ؟کہتے ہیں کہ سوا گھنٹے آتش بازی کرکے ریکارڈ قائم کر دیا ۔ کیا قوم کا پیسہ اس طرح برباد کرنا خیانت نہیں ہے ؟کیا پاکستان اِن عیاشیوں کے لیے لیا تھا ؟ ہمارے باپ دادا نےاس قدر عظیم قربانیاں صرف اس لیے دی تھیں کہ آئندہ نسلوں کو فلموں ، ڈراموں ، بے پردگی ، بے حیائی اور ناچ گانے کے ذریعے اخلاق باختہ کر دیا جائے ؟  آج ہمارا پورا معاشی نظام اللہ اور اس کے رسول ﷺ  سے جنگ کی بنیاد پر کھڑا ہے ، پورا سیاسی نظام اللہ سے بغاوت پر مبنی ہے ، پورا معاشرتی نظام اللہ کے دین سے سرکشی پر آمادہ ہے ۔ شادی بیاہ کے مواقع پر دیکھ لیں ، کن خرافات اور غیر شرعی کاموں میں قوم ملوث ہوتی ہے ، کس طرح کی بےپردگی اور مخلوط ماحول میں ناچ گانا اور بے حیائی کا طوفان ہوتاہے ۔ کیا اس لیے اللہ نے پاکستان عطا کیا تھا ؟ہمیں تو بچپن سے یہ پڑھایا گیا تھا: پاکستان کا مطلب کیا : لاالٰہ الا اللہ ۔ علامہ اقبال نے فرمایا تھا اگر ہمیں علیحدہ خطہ زمین مل گیا تو دورِ ملوکیت میں اسلام کے چہرے پر جو بدنما داغ پڑگئے تھے انہیں دھوکراسلام کا ایک اصولی نمونہ دنیا کے سامنے پیش کریں گے ۔ اقبال نے فرمایا تھا ؎
ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے
ساری زمین ہمارے لیے مسجد بنائی گئی ہے ، اس ساری زمین پر اللہ کے دین کو قائم کرنا اللہ کے رسول ﷺ کا مشن ہے ۔ قائداعظم اور علامہ اقبال کا خواب پاکستان کو عہد حاضر کی اسلامی فلاحی ریاست بنا کر دنیا کے سامنے ایک نمونہ پیش کرنا تھا ۔ پاکستان ہماری منزل نہیں بلکہ نشان منزل ہے ۔ لیکن آج ہماری ترجیحات میں دین شامل ہی نہیں ہے ۔ اگلی آیت میں فرمایا: ’’اور جان لو کہ تمہارے اموال اور تمہاری اولاد فتنہ ہیں‘اور یہ کہ اللہ ہی کے پاس ہے بڑا اجر۔‘‘(الانفال:28)
قارون کا واقعہ قرآن میں بیان ہوا ،پوری قوم اُس نے اپنے ذاتی مفادات کے لیے بیچ دی تھی ۔ آج ہمارا بھی یہی حال ہے ، اپنے بیوی بچوں کے بہتر مستقبل کے نام پر پوری قوم کا پیسہ ہڑپ کیا جارہا ہے ، ملکی مفادات کا سودا کیا جارہا ہے ، بیوروکریٹس کی ملک سے باہر بڑی بڑی جائیدادیں نکل رہی ہیں، جزیرے خریدے جارہے ہیں۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا :’’ ایک وقت آئے گا جب قومیں تم پر اس طرح ٹوٹ پڑیں گے جس طرح کھانے پر دعوت دی جاتی ہے ۔‘‘ پوچھا گیا :یا رسول اللہ ﷺ ! کیا اُس وقت ہم تعداد میں کم ہوں گے ۔ فرمایا : ’’تم تعداد میں  بہت زیادہ ہوگے مگر حیثیت سمندر کے جھاگ کی مانند ہوگی ،   تمہارا رعب دشمن کے دل سے اُٹھ جائےگااورتمہارے دل میں وہن ڈال دیا جائے گا ۔ پوچھا گیا :وہن کیا ہے ؟  فرمایا :((حب الدنیا و کراھیۃ الموت ))۔‘‘ آج دنیا سے محبت اور موت سے نفرت کی وجہ سے پوری دنیا میں اُمت پر ذلت اور رسوائی مسلط ہو چکی ہے ۔ ہم سب اپنے گریبانوں میں جھانک کر دیکھ سکتے ہیں کہ کیا ہم موت کے لیے تیار ہیں ؟ کیا آخرت کی جوابدہی کے احساس ہمارے دلوں میں ہے ؟ کیا اللہ کا دین ہم سب عوام ، حکمرانوں ، مقتدر حلقوں کی ترجیحات میں شامل ہے ؟نام نہاد جمہوریت کو بچانے کے لیے دینی سیاسی جماعتیں بھی فوراً متحرک ہو جاتی ہیں ، کیا اللہ کے دین کے لیے بھی تحریک چلانے کا سوچا ہے ؟ معلوم ہوا کہ دین ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔ صرف مال اور دنیا ہماری ترجیح میں ہے ۔ جبکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دنیا کا مال و دولت اور اولاد تمہارے لیے آزمائش ہیں ۔ جبکہ آخرت میں ہمیں اپنا اپنا حساب دینا ہے ۔ جیسا کہ فرمایا :
{وَکُلُّہُمْ اٰتِیْہِ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ فَرْدًا(95)}(مریم) ’’اور قیامت کے دن سب کے سب آنے والے ہیں اُس کے پاس اکیلے اکیلے۔‘‘
اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے سامنے ہم نے ایک ایک کرکے پیش ہونا ہے ۔ اگر اللہ کے رسول ﷺپوچھیں  گے کہ میرا خون تو دین کے لیے طائف کی گلیوں میں اور اُحد کے میدان میں بہا ہے ، اپنے پیارے صحابہ ؇کی لاشیں اُٹھائی ہیں ، میرے گھر میں دو دو مہینے تک چولہا نہیں جلتا تھا ، تم نے اس دین کے لیے کیا کیا ہے ؟تو اس وقت ہمارے پاس کیا جواب ہوگا ؟مسلم حکمرانوں کو فکر ہے امریکہ ناراض نہ ہو جائے ، ٹرمپ ناراض نہ ہو جائے، اللہ ناراض ہوتا رہے ، اللہ اور اُس کے رسول ﷺ کے ساتھ جنگ جاری رہے ، بے حیائی کا طوفان چلتا رہے ، ظلم اور جبر کا نظام چلتا رہے تو کوئی پرواہ نہیں ہے ۔ کیا اسی مقصد کے لیے پاکستان حاصل کیا تھا ۔ زیر مطالعہ آیات میں آگے فرمایا : 
{وَّاَنَّ اللّٰہَ عِنْدَہٗٓ اَجْرٌعَظِیْمٌ (28)}(الانفال)
’’اور یہ کہ اللہ ہی کے پاس ہے بڑا اجر۔‘‘
اگر ہم اللہ کے دین کے ساتھ وفا کریں گے ،    اللہ کے نبی ﷺ کے مشن کے لیے اپنی زندگیاں کھپائیں گے تو اس کا اجر ہمیں آخرت کی دائمی کامیابی کی صورت میں ملے گا ۔ لیکن اس دنیا میں بھی ہمارے مسائل کم ہو جائیں گے ۔ جیسا کہ آگے فرمایا :
’’اے اہل ایمان! اگر تم اللہ کے تقویٰ پر برقرار رہو گے تو وہ تمہارے لیے فرقان پیدا کر دے گا‘اور دور کر دے گاتم سے تمہاری برائیاں (کمزوریاں) اور تمہیں بخش دے گا۔ اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔‘‘
اِس احساس کے ساتھ زندگی بسر کرنا کہ میرا اللہ مجھے دیکھ رہا ہےاور میں نے اپنے ہر عمل کا حساب دینا ہے ، تقویٰ کہلاتاہے۔ حضورﷺنےفرمایا:تقویٰ دل میں ہوتا ہے ۔ یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اگر ہم تقویٰ پر قائم رہیں گے تو اللہ تعالیٰ ہمارے گناہ بخش دے گا ، ہماری کمزوریاں دور کردے گا اور ہمیں حق و ناحق ، جائز و ناجائز کا فرق سمجھا دے گا ۔ 
آج ہم انفرادی سطح پر بھی اور قومی سطح پر کنفیوژ ہیں ، سمجھ نہیں آرہی کہ اپنے مسائل کو کیسے حل کریں ۔ جس قوم کے پاس قرآن ہو ، اللہ کے رسول ﷺ کی سنت ہو وہ کبھی کنفیوژ ہو سکتی ہے ؟مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے دلوں میں اللہ کا خوف نہیں ہے ، ہمارے حکمرانوں اور مقتدر لوگوں کے دلوں میں خدا کا خوف نہیں ہے ۔ انہیں اپنی کرسی اور اقتدار کا خوف ہے ، امریکہ کا خوف ہے لیکن اللہ کا خوف نہیں ہے ۔ 
بتوں سے تجھ کو امیدیں خدا سے نو امیدی
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے؟
جب اللہ کا خوف دل میں پیدا ہو گا تو سارے مسائل حل ہو جائیں گے ۔ 
یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات
 78 برس ہو گئے، ہم امریکہ کو چھوڑنے کو تیار نہیں ہیں، بیڑا غرق کر دیا ہم نے اپنے ملک کے سیاسی اورمعاشی نظام کا۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے :
’’اور جس نے میری یاد سے اعراض کیا تو یقیناً اُس کے لیے ہو گی (دنیا کی)زندگی بہت تنگی والی‘اورہم اُٹھائیں گے اُسے قیامت کے دن اندھا (کرکے)۔وہ کہے گا : اے میرے پروردگار! تُو نے مجھے اندھا کیوں اٹھایا ہے‘ جبکہ مَیں (دنیا میں) تو بینائی والا تھا۔ اللہ فرمائے گا کہ اسی طرح ہماری آیات تمہارے پاس آئیں تو تم نے اُنہیں نظر انداز کر دیا‘ اور اسی طرح آج تمہیں بھی نظرانداز کر دیا جائے گا۔‘‘ (طٰہٰ:124تا126)
یہاں ذکر سے مراد قرآن ہے ۔ جس نے قرآن کو چھوڑا اس کی معیشت بھی تنگ ہو جائے گی ، آج ہم اسی وجہ سے IMFاور امریکہ کے غلام بنتے چلے جارہے ہیں ، ان کی تمام شرائط کو مان کر اپنے ملک کی سیاسی ، معیشت اور معاشرت کا بیڑا غرق کر رہے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی خبردار کر دیا تھا :
{وَلَنْ تَرْضٰی عَنْکَ الْیَہُوْدُ وَلَا النَّصٰرٰی حَتّٰی تَــتَّبِعَ مِلَّـتَہُمْ ط}(البقرۃ:120)’’اور(اے نبیﷺ! آپ کسی مغالطے میں نہ رہیے) ہرگز راضی نہ ہوں گے آپؐ سے یہودی اور نہ نصرانی جب تک کہ آپؐ پیروی نہ کریں ان کی ملت کی۔‘‘
ہماری حکومتیں چاہے سول ہوں یا فوجی IMFسے قرض لے کر خوش ہوتی ہیں اور وکٹری کے نشان بنائے جاتے ہیں، گویا وہ اعلان کر رہے ہوتے ہیں کہ ہم اللہ اور اُس کے رسول ﷺ کے ساتھ جنگ جاری رکھیں گے ۔ جبکہ اللہ تعالیٰ اعلان کر رہا ہے کہ جو میرے قرآن سے منہ موڑے گا اُس کی معیشت تنگ ہو جائے گی ۔یہ حکم مسلمانوں  کے لیے ہے ورنہ دولت تو فرعون ، قارون اور شداد کو بھی ملی تھی ، کافر کے لیے صرف دنیا ہے جبکہ مومن کے لیے اگر تقویٰ اختیار کرے تو دنیا و آخرت دونوں ہیں ۔ 
اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسول ہاشمی
جس طرح مسلم اُمہ باقی قوموں میں خاص ہے ، اسی طرح پاکستان دیگر مسلم ممالک میں خاص ہے کیونکہ یہ واحد ملک ہے جو جدید دور میں اسلام کے نام پر بنا ہے ۔ باقی کسی مسلم ملک نے دعویٰ نہیں کیا ، ہم نے دعویٰ کیا تھا کہ ہم یہاں اسلام کو نافذ و غالب کریں گے ۔ اللہ تعالیٰ  فرماتاہے: {وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(139)} (آل عمران)’’اور تم ہی سربلند رہو گے اگر تم مؤمن ہوئے۔‘‘ 
  اللہ کے رسول ﷺ فرماتے ہیں کہ کسی کو پنج وقتہ نمازکے لیے آتے ہوئے دیکھو تو اُس کے ایمان کی گواہی دو ۔ اسی طرح آپ ﷺ نے تین مرتبہ فرمایا :اللہ کی قسم وہ مومن نہیں ہے جس کی حرکتوں سے اُس کا پڑوسی محفوظ نہیں ۔ مسلمان کی تعریف یہ ہے : جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں ۔ان کسوٹیوں پر آج ہم اپنے آپ کو پرکھ سکتے ہیں کہ ہم ایمان والے ہیں یا نہیں ۔ حضور ﷺ نے فرمایا : مومن وہ ہے جس کو دیکھ کر اللہ یاد آئے۔ کیا آج ہمیں دیکھ کر کسی کو اللہ یاد آتاہے ؟ صرف داڑھی رکھ لینے اور جبہ و دستار پہن لینے سے مومن نہیں بن جاتا ۔ کردار و عمل دیکھ کر اللہ یاد آئےگا ۔ 
اسی طرح اجتماعی سطح پر ہمارے مسائل حل نہیں ہوں گے جب تک ہم اجتماعی مسائل کی اصل جڑ کو نہیں پکڑیں گے اور وہ جڑیہ ہے کہ ہم نے اللہ کے دین سے بے وفائی کی ہے ، اس کا ازالہ کریں ، رب کے حضور اجتماعی توبہ کریں اور جس وعدے پر یہ ملک حاصل کیا گیا تھا اس کو پورا کریں ۔ اسلام نافذ ہوگا تو اللہ کی رحمتیں بھی نازل ہوں گی ۔ اللہ تعالیٰ فرماتاہے :
{وَلَـوْ اَنَّـہُمْ اَقَامُوا التَّوْرٰىۃَ وَالْاِنْجِیْلَ وَمَـآ اُنْزِلَ اِلَـیْہِمْ مِّنْ رَّبِّہِمْ لَاَکَلُوْا مِنْ فَوْقِہِمْ وَمِنْ تَحْتِ اَرْجُلِہِمْ ط} (المائدہ:66)’’اور اگر انہوں نے قائم کیا ہوتا تورات کو اور انجیل کو اور اس کو جو کچھ نازل کیا گیا تھا ان پر اِن کے رب کی طرف سے‘تو یہ کھاتے اپنے اوپر سے بھی اور اپنے قدموں کے نیچے سے بھی۔‘‘
یہ سابق اُمت کی بات ہورہی ہے لیکن اس میں  سبق ہمارے لیے بھی ہے ۔ اللہ تعالیٰ زمین و آسمان سے رزق کے دروازے کھول دیتاہے جب اُس کے بندے اُس کے دین کے ساتھ مخلص ہو جاتے ہیں ۔ یہ اصول اُن کے لیے ہے جو مسلمان ہونے کے دعویدار ہیں ورنہ کافروں کے لیے تو دنیا جنت ہے ، لیکن آخرت کا دائمی خسارہ ہے ۔ مسلمان کو اگر دنیا و آخرت کی کامیابی چاہیے تو اُسے اللہ کے دین کے تابع ہونا ہوگا ۔ اللہ کے دین کو اپنی ذات ، اپنے گھر ، اپنے خاندان ، اپنے معاشرے ، اپنی سیاست ، اپنی عدالت ، اپنی معیشت اور اپنی معاشرت سمیت زندگی کے تمام گوشوں میں نافذ کرنا ہوگا ۔ اللہ تعالیٰ فرماتاہے :
{ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّۃًص}(البقرۃ:208) ’’اسلام میں داخل ہو جائو پورے  کے پورے۔‘‘ 
اس مقصد کے لیے ہم نے پاکستان لیا تھا لیکن آج اِس ذلت ، رسوائی ، انتشار اور تباہی کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اللہ سے کیا ہوا عہد پورا نہیں کیا ۔ اللہ کے دین سے بے وفائی اور غداری کی ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں کبھی زلزلوں کے ذریعے ، کبھی سیلابوں کے ذریعے اورکبھی تباہ کن بارشوں کے ذریعے جھنجوڑتا  ہے کہ ہم باز آجائیں اور اللہ کے دین کی طرف رجوع کرلیں ۔ جوحالات آج ہماری قوم کے ہیں ، اللہ تعالیٰ خود فرما رہا ہے :
’’کیا ابھی وقت نہیں آیا ہے اہل ایمان کے لیے کہ ان کے دل جھک جائیں اللہ کی یاد کے لیے اور اُس (قرآن) کے آگے کہ جو حق میں سے نازل ہو چکا ہے؟اور ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جنہیں پہلے کتاب دی گئی تھی‘ جب ان پر ایک طویل مدت گزر گئی تو ان کے دل سخت ہو گئے ۔اور ان کی اکثریت اب فاسقوں پر مشتمل ہے۔‘‘(الحدید:16)
یہ سب آزمائشیں اور مصائب اس لیے ہیں کہ ہم قرآن کے سامنے جھک جائیں ، یعنی اللہ کے احکامات پر عمل پیرا ہو جائیں ۔ یہ کوئی معمولی کتاب نہیں ہے ۔ اس کے بارے میں  اللہ نے فرمایا :{لَــوْ اَنْزَلْنَا ہٰذَا الْقُرْاٰنَ عَلٰی جَبَلٍ لَّرَاَیْـتَہٗ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْیَۃِ اللہِ ط} (الحشر:21)’’اگر ہم اس قرآن کو اُتار دیتے کسی پہاڑ پر تو تم دیکھتے کہ وہ دب جاتا اور پھٹ جاتا اللہ کے خوف سے۔‘‘
لیکن کیا قرآنی احکامات کی خلاف ورزیوں پر ہمارے دلوں میں کوئی حرکت ہوتی ہے ؟اللہ کی نافرمانیوں کو دیکھتے ہوئے بھی کبھی رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں ؟کم ازکم 13 اگست کی رات اور 14 اگست کے دن جو کچھ ہمارے ملک میں ہوتاہے، اس سے تو نہیں لگتا کہ ہمارے دل میں اللہ کا خوف بھی ہے ، کیا ان کھیل تماشوں اور اللہ کی نافرمانیوں کے لیے لاکھوں کروڑوں مسلمانوں نے اپنےگھر بار لٹائے تھے اور اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے تھے ؟سیدنا عمر ؄یروشلم کا چارج لینے گئے تو قریبی ساتھیوں نے مشورہ دیا کہ تھوڑا کپڑوں کو ٹھیک کرلیجئے ۔ آپؓ نے فرمایا :عمرکو عزت کپڑوں کی وجہ سے نہیں ملی ، اسلام کی وجہ سے ملی ہے ۔ اسی طرح ہمیں بھی اگر عزت ملی ہے ، علیحدہ وطن ملا ہے تو اسلام کی وجہ سے ملا ہے ، اگر اسلام کے ساتھ وفا کریں گے تو آئندہ بھی عزت ملے گی اور اگر اسلام سے بے وفائی کریں گے تودنیا و آخرت دونوں میں ذلیل و خوار ہوں گے ۔ 
{اِنْ تَنْصُرُوا اللہَ یَنْصُرْکُمْ وَیُثَبِّتْ اَقْدَامَکُمْ(7)} (محمد)’’اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو اللہ تمہاری مدد کرے گا اور وہ تمہارے قدموں کو جما دے گا۔‘‘
  یہی تنظیم اسلامی کی بنیادی دعوت ہے کہ اللہ کی بندگی اختیار کرو ،اللہ کی بندگی کی دعوت دو ، اور دین کے نفاذ کے لیے اجتماعی جدوجہد کرو ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ، خصوصاً ہمارے حکمرانوں اور مقتدر لوگوں کو بھی ہدایت عطا فرمائے ۔ آمین!