… بے تاب تو فلک پر
عامرہ احسان
ملک سپر سیلاب کی گرفت میں ہے۔ لاکھوں ایکڑ پر کھیت، باغات، گھر، تعمیرات، سڑکیں، پل ڈوب گئے۔ دیہات بہہ گئے۔ حکومت آبادی کے انخلا میں جتی ہوئی ہے۔ ناگہانی آفت، اتنی ناگہانی بھی نہیں۔ آثار ہمہ جہت نمایاں تھے۔ زمینی، آسمانی، ایمانی۔ اب نہ ہم خشک سالی پر نمازِ استسقاء کا اہتمام کرتے ہیں نہ غرقابی پر استغفار و دعا کا۔ رجوع الی اللہ کی کیفیت عنقا ہے۔ حالانکہ قبل از اسلام مکہ کے جاہل عرب خشک سالی پر ابو طالب کے پاس آئے کہ اللہ سے دعا کیجیے۔ ابو طالب محمد صلی اللہ علیہ وسلم، جو ابھی بچے تھے، کو لے کر خانہ کعبہ گئے۔کڑکتے سورج والا آسمان تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیوار کعبہ سے ٹیک لگا کر کھڑا کر دیا۔ روایات میں ہے، یہ بچہ ابر آلود سورج کی مانند معلوم ہوتا تھا۔ آسمان پر بادل کا ایک ٹکڑا نہ تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے آسمان بادلوں سے ڈھک گیا۔ شادابی لیے بھرپور بارش برسی۔ جس پر آپؐ کی شان میں ابوطالب نے خوبصورت اشعار کہے۔
مگر اب ہم آسمان سے ناتہ توڑ چکے۔ آسمان والے سے رجوع جاتا رہا! اب جو نگاہ اٹھا کر دیکھا تو چاند کی آنکھوں میں خون اترا ہوا تھا۔ ماہِ کامل ، بدر! جب ہم ایمانی امتحانوں میں سرخرو نہ ہو سکے (پوری اُمّت بشمول کلمے پر حاصل کردہ ایٹمی پاکستان) تو غزہ کا خونین عکس چاند نے منعکس کر دیا۔ 20ہزار بچوں کا قتلِ عام۔ بچوں کی تنظیم سیو دی چلڈرن کے مطابق ہر گھنٹے میں ایک بچہ قتل! پوری دنیا رو دی۔ زمین دھمک رہی ہے بین الاقوامی مظاہروں سے قدموں تلے۔ مگر یہ سب غیر مسلم ہیں! الاماشاء اللہ … زمین پر دم بخود اور سانس سلب کرنے والے مناظر ہیں اور مسلمانوں پر موت کا سناٹا! یہ 7،8سالہ بچہ جو منظر دیکھ رہا ہے آپ بھی دیکھ لیجیے۔ اُس کے سامنے کرسی پر باپ بیٹھا ہے اور اُس کا سر اُڑ چکا ہے۔ قریب سیڑھیوں پر عبایا پوش ماں کی لاش پڑی ہے۔ اُس کے رشتہ دار تو لامنتہا ہیں۔ 2ارب ! مسلم! چچا، ماموں، خالہ، پھوپھی پورے گلوب پر۔ لیکن اس کی حیرت، دکھ اور زبان پر تالا ڈال دینے والے اس منظر میں کوئی بھی پرسانِ حال نہیں! چاند گہنا گیا۔ ماہِ کامل کی روشنی پر دو رنگ نمایاں تھے۔ سرخ اور کاپر (Copper)، تانبے کا رنگ۔ سائنسی وجوہات تو بلاشبہ چاند گرہن کی اپنی ہیں۔ مگر یہ سائنس ارض و سما کے مالک کی تخلیق ہے۔ ہم نے صرف اسے سمجھنا، برتنا سیکھ لیا ہے۔ غلط برتتے ہیں تو ردِعمل میں موسمیاتی بحران ہمیں پٹخ دیتے ہیں۔ پانی،ہوا، بادل، کڑک ، گرج، برس کر ہمیں ہماری اوقات بتا دیتے ہیں۔ اس لیے ان کی سائنس کی خدائی کا تذکرہ ، جو اسرائیل اور ناہنجار ٹرمپ کے ہاتھوں وحشت اور درندگی کا عفریت بن چکا۔ اللہ کا تو صرف یہ ایک سورج جس جیسے 250ارب سورج صرف ہماری اِس ایک کہکشاں میں ہیں۔ اس سورج میں ہماری زمین جیسی 10لاکھ زمینیں فٹ ہو سکتی ہیں۔سورج کا درجۂ حرارت 27ملین فیرن ہائٹ اس کے مرکز میں اور 10ہزار فیرن ہائٹ سطح پر ہے۔ اس کے سامنے پھدکتا مینڈک نما اسرائیلی وزیر غزہ کو دھمکاتا ہے کہ ہم جہنم کے دروازے تم پر کھول دیں گے!
اب غزہ شہر، لاکھوں کی آبادی، جہاں پناہ لیے ٹینٹوں میں پڑی ہے، اسے نشانہ بنا رہے ہیں ۔ غزہ کی علامت دو بڑی اپارٹمنٹ بلڈنگز لمحوں میں زمین بوس کرکے قوم ِعاد و ثمود کی مانند اپنی قوت پر نازاں ہیں۔ بموں کا دھواں چاند پر چھا گیا۔ چاندخونیں ہوا بے گناہوں کے لہو سے تانبے (کاپر) کا رنگ چڑھ گیا جو اشارہ ہے میڈیااور مواصلاتی ذرائع کی ساحری اور جھوٹی خدائی کا۔ کاپر، سمارٹ فون، کیبل نیٹ ورکس، جہازوں، ڈرونوں، خلائی سیارچوں، مشینری، بجلی کے آلات کا اہم ترین جزو ہے۔ یہ بھی اپنے غلط استعمال پر چاند پر جا پہنچا۔ گلوب کے 7ارب افراد نے نئے تناظر میں خونیں چاند جس پر کاپر کا نارنجی عکس چھایا تھا، کا مشاہدہ کیا۔ سرخ چاند اُس وقت بنتا ہے جب زمین سورج اور چاند کے درمیان آجاتی ہے۔ سورج کی روشنی زمین کی فضا سے گزرتی ہے ۔ روشنی منتشر ہو جاتی ہے ۔ صرف سرخ لہر (Wavelength) بچتی ہے۔ چاند کی سطح روشن کرنے کو! زمین اب لہو رنگ جو ہو چکی ! وہ غم جو با شعور مسلمانوں کا دل چیر رہا تھا۔ غیر مسلم بھی بے قرار ، دیوانے ہو کر قربانیاں دے رہے ہیں، چاند ان کا شریک غم ہو گیا۔ اقبالؔ لکھ گئے۔
میں مضطرب زمیں پر، بے تاب تو فلک پر
تجھ کو بھی جستجو ہے مجھ کو بھی جستجو ہے!
ہمیں تو دانائے راز اور عقدے حل کرنے والے کی جستجو ہے۔ کیا غضب ہے کہ دو بلڈنگیں (ٹوئن ٹاور) جب نیویارک میں گریں۔ 3ہزار جان سے گئے تو پوری دنیا 65ملکوں کی بارات لیے پہلے افغانستان جیسے بے سروساماں ملک پر چڑھ دوڑی۔ پھر اس کی آڑ میں 5مسلمان ممالک تباہ ویران کیے۔ پورا مشرقِ وسطیٰ ہلامارا، گریٹر اسرائیل کی بنیادلگے ہاتھوں جبھی رکھ دی! آج بھی گلوب پر میانمر سے لے کر بنگلہ دیش ، مقبوضہ کشمیر، بھارتی مسلمان، غزہ، شام، یمن، سوڈان، لیبیا، مالی تک نظر دوڑا ئیے۔ یہ شاخسانہ دو بلڈنگوں اور 3ہزار گوروں کی موت کا ہے۔ اس پر کروڑوں کی جان گئی یا شکنجے میں آئی۔ مغربی اسلحے کی صنعت نے جیبیں بھریں اور زمین ہمہ نوع بارود سے پھاڑ کر گلیشیئر بشمول قطبین کی برف پگھلا کر دنیا جہنم زار بنا دی۔ غزہ پر مرکزی کردار اسرائیل اور امریکہ کا ہے۔ اور پوری دنیا (غیر مسلم) واویلا کناں! مسلمان؟ عبداللہ بن ابی، رئیس المنافقین کو شرما دینے والے۔ فوجیں موجود ، بلکہ مسلمانوں کے دفاع کے لیے بنی خصوصی فوج بھی غائب۔ غزہ کے ہمسایہ مسلم ممالک سب دم سادھے، خونِ مسلم کے تماشائی۔ ہسپتال ان کے بھرے ہیں خوش خوراکی کی انتہا کے مارے موٹے، توندیل، رئوسا کا علاج کروانے کے لیے۔ غزہ کے بچے ڈھانچے ہیں بھوک اور مسلط کردہ قحط سے۔
ایک بڑا سوال تو یہی ہے کہ پوری دنیا کے سامنے ناقابلِ یقین نسلی صفایا، قتل عام ہو رہا ہے۔ ایک ریاست کھجور کی گٹھلی کے برابر ہے اور دوسرا دنیا کا بدمعاشِ اعظم مگر اول جلول کردار جس کی کوئی کل سیدھی نہیں۔ ان کی دیوانگی کو لگام دینے والا کوئی ایک بھی نہیں؟ فریقین میں طاقت، قوت کا تناسب ایک اور ننانوے کا ہے۔ یہ سب 2سال سے بلا تعطل رواں دواں ہے؟ اسرائیلی،امریکہ یورپ کی تائیدکا فا ئدہ اٹھاتے ہر حد پار گیا ہے۔ لبنان، شام، ایران پر حملوں کے بعداس نے قطر میں مذاکرات کی آڑ میں یک جا کیے جانے والی حماس قیادت کو نشانہ بنایا۔بین الاقوامی قانون اور سعودی عرب کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے قطر کی خودمختاری پر کاری ضرب لگا ئی۔امریکی تائیداور شراکت کے ساتھ رہائشی ریڈ زون میں کیے گئے اس حملے سے صورتحال کو سنگین تر کر دیا۔حماس کے مطابق ان کی قیادت بچ گئی۔خلیل الحیہ کا بیٹا اور ایک معاون شہید ہوئے۔ایک قطری سیکورٹی افسر شہید اور کئی زخمی ہوئے۔کل چھ شہادتیں۔قطر نے شدید ردِعمل کا اظہار کرتے ہوئے اِسے مجرمانہ،بزدلانہ قرار دیاجسے قطر ہرگز برداشت نہیں کرے گا۔ٹرمپ کے دورے میں انہوں نے کھربوں ڈالر دے کر اسے نوازا۔یہ ہے اس کا بدلہ!(پاکستان کے لئے اہم سبق!) دنیا بھر سے مذمتی بیان جاری ہوئے ہیں اس حملے پر۔امتحان غزہ کا نہیں۔ حتیٰ کہ دجالچے ٹرمپ اور یاہو کا بھی نہیں۔ اُمّت کا ہے!چھٹائی ہو رہی ہے۔ جنت کے آبادکار منتخب ہو رہے ہیں۔ لشکرِ عیسیٰ ؑ اور لشکرِ دجال چھٹ کر الگ ہو رہے ہیں۔ ’تخلیق آدم اور قیامت کے مابین (آمدِ) دجال سے بڑا واقعہ کوئی نہیں۔‘ (مسلم) ہمیں اپنا محاسبہ کرنا ہے۔ دنیا، اس کے کیریئر، اموال و اسباب سب دھرے رہ جائیں گے اور ہم پلک جھپکتے میں (اِلَّا کلمحٍ بالبصر) دنیا سے نکل جائیں گے۔ ایک مکمل بھرپور حقیقی زندگی منتظر ہو گی۔ دنیا بند مٹھی میں ریت کی طرح پھسل جائے گی۔ آخرت ہماری بھی ہے۔ اہل غزہ کی بھی۔ دنیا بالآخر صعیدًا جُرُزًا۔ چٹیل میدان رہ جائے گی۔ حق پہچاننا۔ اس پر استقامت، ہرقربانی کی تیاری، یا اہلِ غزہ نے دی یا مغربی عوام نے! اللہ ان میں ہر فرد کو ایمان کا نور عطا کرے جو سمندر کے سیاہ پانیوں میں راتوں کو گھپ اندھیرے میں کشتی بھرے جا رہے ہیں ’ہمارے‘ بھائیوں کی مدد کو! جو انہی کی خاطر گرفتاریاں دیتے ، کیریئر دائو پر لگاتے، زخم کھاتے لاکھوں کی تعداد میں دو سال سے سڑکوں پر ہیں۔
ادھر ہماراپاکستان ایک معجزے کے سوا کچھ نہیں!تاہم اس وقت ہم قہرِ الٰہی کی زدمیں ہیں۔ہر قسم کی آسمانی زمینی بچھاڑ نے ہمیں پانی پانی کر دیا!علماء قوم کو استغفار پر متوجہ کریں،خصوصی اہتمام رجوع الی اللہ کا۔ یہی ہماری فرسٹ ایڈ ہے۔