اللہ، اُس کے رسولؐ اور جہاد سے محبت
مسز کلثوم شبیر
اللہ تعالیٰ نے انسانی فطرت میں کئی قسم کے داعیات رکھے ہیں جن میں سے ایک محبت کا جذبہ ہے اور ایک نفرت کا۔ محبت کا جذبہ مثبت ہے جبکہ نفرت کا منفی۔ انسان اس چیز سے محبت کرتا ہے جسے وہ پسند کرتا ہے۔ ایک مومن کی شدید ترین محبت اللہ تعالیٰ سے ہوتی ہے۔ {وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلہِ ط}(البقرہ:165) ’’جو لوگ صاحبِ ایمان ہوتے ہیں ان کی شدید ترین محبت اللہ کے ساتھ ہوتی ہے۔‘‘
سوال یہ ہے کہ اس محبت کا عملی اظہار کیسے ہوتا ہے؟ اللہ تعالیٰ کی محبت کا عملی مظہر اطاعتِ رسولﷺ ہے۔ فرمایا: ’’کہہ دیجئے (اے محمدﷺ)! اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو تو میرا اتباع کرو، اللہ تم سے خود محبت کرنے لگے گا۔‘‘(آل عمران: 31)
انسان کا معاملہ یہ ہے کہ وہ بالعموم دنیا اور اس کے سازو سامان اور علائق دنیوی کی محبت میں گم ہو کر رہ جاتا ہے۔ جیسا کہ سورہ آل عمران میں فرمایا: ’’ لوگوں کو اُن کی خواہشوں کی چیزیں یعنی عورتیں اور بیٹے اور سونے اور چاندی کے بڑے بڑے ڈھیر، اور نشان زدہ گھوڑے اور مویشی اور کھیتی بڑی زینت دار معلوم ہوتی ہیں(مگر) یہ سب دنیا کی زندگی کے سامان ہیں، اور اللہ کے پاس بہت اچھا ٹھکانا ہے۔‘‘(آل عمران: 14)
عورتوں کی محبت کے بارے میں فرمان نبویﷺ ہے: ’’میرے بعد مردوں کے لیے عورتوں سے بڑھ کر ضرررساں فتنہ کوئی نہیں۔‘‘
بیٹوں کی محبت کو قرآن مجید صرف دُنیاکی زینت قرار دیتا ہے۔بالعموم اُن کی حد سے بڑھی ہوئی محبت شریعت سے روگردانی کا سبب بن جاتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں بیٹوں کو بیٹیوں پر ترجیح دی جاتی ہے یہاں تک کہ جائیداد کی تقسیم کے وقت لڑکیوں کو بالکل نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔
سونا چاندی جسے ہم بہت پسند کرتے ہیں، جمع کر کے رکھنا اور اُسے اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرنا، آخرت میں دردناک عذاب کا باعث ہو گا۔ سورۃ التوبہ میں فرمایا:’’جو لوگ سونا چاندی جمع کر کے رکھتے ہیں اور اللہ کی راہ میں ان کو خرچ نہیں کرتے، سو آپؐ ان کو بڑی دردناک سزا کی خبر سُنا دیجئے کہ اس روز ان کو دوزخ کی آگ میں تپایا جائے گا، پھر ان سے ان لوگوں کی پیشانیوں، ان کی کروٹوں اور اُن کی پُشتوں کو داغا جائے گا (اور کہا جائے گا) یہ ہے وہ جس کو تم نے اپنے واسطے جمع کر کے رکھا۔ سو اب اپنے جمع کرنے کا مزہ چکھو‘‘۔(آیت:34،35)
یہاں ذہن میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا کسی چیز سے محبت کی ہی نہ جائے۔ ایسا نہیں ہے، بلکہ اصل بات یہ ہے کہ یہ محبتیں اللہ اور رسولؐ اور اُس کی راہ میں جہاد سے محبت کے تابع رہیں۔ چنانچہ اِسی سورۃ التوبہ کی آیت24 میں فرمایا گیا:’’آپؐ کہہ دیجئے، اگر تمہارے باپ اور بیٹے اور بھائی اور عورتیں اور برادری اور مال جو تم نے کمائے ہیں اور سوداگری جس کے بند ہونے کا تمہیں ڈر ہے اور حویلیاں جن کو تم پسند کرتے ہو، تم کو زیادہ پیاری ہیں اللہ اور اس کے رسولؐ سے اور اس کی راہ میں جہاد سے تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم بھیجے اور اللہ نافرمانوں کو ہدایت نہیں دیتا۔‘‘
جو لوگ مشرکین کی موالات (دوستی) یا دنیوی خواہشات میں پھنس کر احکامِ الٰہیہ کی تعمیل نہ کریں، اُن کو حقیقی کامیابی کبھی نہیں مل سکتی۔ حدیث میں ہے کہ تم جب بیلوں کی دُم پکڑ کر کھیتی باڑی پر راضی ہو جائو گے اور جہادچھوڑ بیٹھو گے تو اللہ تم پر ایسی ذلت مسلط کر دے گا جس سے کبھی نہ نکل سکو گے یہاں تک کہ اپنے دین (جہادفی سبیل اللہ) کی طرف واپس آئو۔ آج اس ذلت کا مشاہدہ ہم زمینی اور آسمانی آفات کی صورت میں کر رہے ہیں۔
قرآن مجید کی مذکورہ بالا آیت میں ہمیں دنیا کے ساز و سامان اور علائق دنیوی سے محبت کرنے سے منع نہیں کیا گیا بلکہ اِس کے ذریعے ایک ترازو ہمارے ہاتھ میں تھما دیا گیا ہے کہ خود دیکھ لو، کون سا پلڑا بھاری ہے۔ کیا اوّل الذکر آٹھ محبتیں، آخر الذکر تین محبتوں کے تابع ہیں؟ جو مطلوب ہیں یا معاملہ اُلٹ ہے۔ انسان اپنا محاسب خود ہے۔ قابل غور امر یہ ہے کہ اگر ان آٹھ چیزوں (باپ، بیٹے، بھائی، عورتیں، برادری، مال، سوداگری اور حویلیوں) کی محبت، ان تین محبتوں (اللہ، اس کے رسولؐ اور جہاد) کے بالمقابل آجائیں تو ہم کِس کا انتخاب کرتے ہیں، ترجیح کِس کو دیتے ہیں؟ یہ ٹکرائو ہماری روز مرہ زندگی میں قدم قدم پرآتا ہے اور اکثر و بیشتر ہمارا جھکائو دُنیوی رشتوں اور مال و متاع کی طرف ہی ہوتا ہے۔ اقبال نے بہت خوب کہا ہے ؎
یہ مال و دولتِ دُنیا یہ رشتہ و پیوند
بتانِ وہم و گماں لا الٰہ اِلا اللہ
ایک طرف ان بُتانِ وہم وگماں کی کشش و محبت ہوتی ہے تو دوسری طرف حبِّ الٰہی و حبّ رسولؐ اور جہاد۔ گویا ؎
ایماں مجھے روکے ہے تو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ میرے آگے ہے کلیسا میرے پیچھے
ان محبتوں میں توازن صرف اور صرف تدبر و تذکر قرآن اور سنتِ رسولؐ پر عمل سے ہی ممکن ہے۔ اور انہی دونوں سنگہائے میل پر شیطان گھات لگائے بیٹھا ہے، کیونکہ وہ مومن کے ایمان کی دبی ہوئی چنگاری سے بھی خائف رہتا ہے۔ ؎
ہرنفس ڈرتا ہوں اس امت کی بیداری سے میں
ہے حقیقت جس کے دیں کی احتسابِ کائنات
مست رکھو ذکر و فکر صبح گاہی میں اسے
پختہ تر کردو مزاج خانقاہی میں اِسے
شیطان انسان کا دشمن ہے۔ قرآن سے دُور رکھنے کے لئے شیطان نے مسلم نوجوان پر کاری وار کیے ہیں۔ انہیں عمل سے دُور کر کے بخشش کے آسان راستے سجھا دیئے ہیں۔ مثلاً وہ آج نوجوان کو مذموم علوم کی طرف متوجہ کرتا ہے (مثلاً یہ ہفتہ کیسا رہے گا اور ہاتھ کی لکیریں کیا کہتی ہیں) محبت کے نام پر یہودیوں، عیسائیوں کی رسومات کی پیروی کا راستہ دکھاتا ہے ، جس کی مثالیں برتھ ڈے، ویلنٹائن ڈے، فادر ڈے، مدر ڈے ہیں۔ افسوس کہ آج ہم نے قرآن مجید کو محض قسمیں کھانے، سنہرے غلافوں میں لپیٹ کر جہیز میں دینے، اور برکت و وظائف کے طور پر قرآن خوانی تک محدود کر دیا ہے۔ اس سے ہدایت لینا چھوڑ دیا ہے۔
آج کا نوجوان اپنے دین کی اصل حقیقت کہاں سے سمجھے اور کیونکر سمجھے؟ جبکہ پیدا ہوتے ہی ماں کی شفیق گود میں ایمان مفصل و مجمل، آیت الکرسی اور شش کلمات کی لَوری سننے کی بجائے وہ آیا کی تربیت اور موسیقی کے سازوں کی لوری کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔ ننھے سے ذہن کو کچھ اِس طور سے مغربی تعلیم کے سپرد کیا جاتا ہے کہ ذرّوں پر ڈاکٹریٹ (Ph.D) کرنے والے کو ساری عمر قرآن و سنت اور دینِ اسلام کی بنیادی معلومات کو سمجھنے کی بھی فرصت نہیں ملتی۔
ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزر گاہوں کا
اپنے افکار کی دُنیا میں سفر کر نہ سکا
اسی تعلیم اور مغربی کلچر کا کیا دھرا ہے کہ آج کسی کو دولت کی ہوس ہے تو کسی کو اقتدار کا نشہ، کوئی حق تلفی کا رونا رو رہا ہے تو کسی کو انتقام کی آگ نے پاگل کر رکھا ہے، غرض یہ دجالی اور پر فتن دور قیامت صغریٰ کا نقشہ پیش کر رہا ہے۔ آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ یہ ہمارے لیے لمحۂ فکریہ ہے کہ آج ہم اتنے ذلیل کیوں ہیں۔
خوار از مہجوریٔ قرآں شُدی
شکوہ سنج گردشِ دوراں شُدی
اللہ تعالیٰ اسی قرآن کے ذریعے بہت سی اقوام کو ترفع بخشتا ہے اور بہت سوں یا اکثر کو اسی کے ذریعے ذلیل و خوار کرتا ہے۔ ہم جو بے روزگاری، بد امنی، بے سکونی کا رونا رو رہے ہیں، اس کا اصل سبب ’’ترکِ قرآن‘‘ ہے۔ آج شدت سے احتیاج ہے ایسے مخلص لوگوں کی جو مسلمانوں کا رشتہ قرآن سے جوڑیں اور انہیں یہ سبق پڑھائیں کہ
جزبہ قرآں ضیغمی روباہی است
فقر قرآن اصل شہنشاہی است
اب بھی وقت ہے کہ ہم سنبھل جائیں اور سورۃ الزمر میں اُمید کی اِس کرن کا سہارا لیں جس میں ربِ ذوالجلال ہم گناہ گاروں کو بخشش کی امید دلاتا ہے:’’(اے پیغمبر میری طرف سے لوگوں سے) کہہ دو کہ اے میرے بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہونا۔ اللہ تو سب گناہوں کو بخش دیتا ہے (اور) وہ تو بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘(آیت: 53)
اور تجدیدِ عہد کے طور پر اس ’’العروۃ الوثقٰی‘‘ کو تھام لیں جو کبھی نہ ٹوٹنے والی ہے یعنی قرآن حکیم۔ یہی وہ مضبوط رسی ہے جو شیطان کے بنے ہوئے جال کی تمام رسیوں کو عصائے موسیٰ کی طرح نگل جائے گی۔ اور یہی وہ مضبوط راستہ ہے جو انسان کو انسان سے اور انسان کو اپنے خالق سے ملانے کا واحد ذریعہ ہے۔ یہی وہ راستہ ہے جس کے ذریعے ہم تمام مصائب سے نجات پا سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اگر تم ایسا کرو گے تو وہ آسمان کے دہانے کھول دے گا اور زمین بھی سونا اُگلے گی۔