نارمل ریاست یا سپیشل ریاست
ڈاکٹر ضمیر اختر خان
قیام پاکستان کے تقریباً 78 سال بعد16 اگست 2025ءکو پاکستان کے ایک معروف صحافی ڈاکٹرخالد جاوید جان نے ’’نارمل ریاست‘‘ کے عنوان سے ایک کالم لکھاہے۔ اس میں موصوف نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ ریاستوں کا بننا، ٹوٹنا ایک تاریخی عمل ہے، جیسے دیگر مخلوقات پیدا ہوتی ہیں اور مرجاتی ہیں۔ وہ لکھتے ہیں: ’’دنیا کی تاریخ میں بہت سی ریاستیں اور ملک وجود میں آئے اور بہت سے مٹ گئے۔ کیونکہ خالقِ کائنات نے اپنی دیگر تخلیقات کی طرح کرۂ ارض تخلیق کیا تھا۔ ریاستیں اور ممالک نہیں۔ یہ تو انسان کی اپنی تخلیق کردہ اختراعات ہیں جن کا عقیدے یا نظریے سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔‘‘
کسی درجے میں اُن کی یہ بات درست ہے کہ ریاستیں اور ممالک اللہ کے بنائے ہوئے نہیں ہیں بلکہ انسانی ساختہ ہیں۔ البتہ اس مفروضے سے انہوں نے جو نتیجہ برآمد کیا ہے وہ محل نظر ہے۔ ان کا یہ کہنا کہ ریاستیں چونکہ انسان کی اپنی تخلیق کردہ اختراعات ہیں اس لیے ان کا عقیدے و نظریے سے کوئی تعلق نہیں ہوتادرست نہیں ہے۔ موصوف کا یہ خیال کسی عقلی یا نقلی دلیل پر مبنی نہیں ہے بلکہ یہ ان کامحض خیالِ خام ہے کون نہیں جانتا کہ دنیا کی اکثروبیشتر ریاستیں کسی نہ کسی نظریے کی بنیاد پر قائم ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ پچھلی صدی میں ایک بہت بڑی ریاست USSR دنیا کے نقشے پرموجود تھی جس میں کمپیونزم کا نظریہ رائج تھا۔ امریکہ جیسا بڑاملک بھی مغربی جمہوریت کے نظریے کا علمبردار ہے۔ ہمارے پڑوس میں امارتِ اسلامیہ افغانستان ہے۔اسی کے ساتھ اسلامی جمہوریہ ایران ہے۔ اسی طرح اور بہت سے ممالک نظریات کی بنیاد پر قائم ہیں۔
ایک طرف محترم خالد جاوید نے ریاست کے لیے کسی نظریے کو مسترد کیاہے مگر دوسری طرف وہ یہ بھی لکھتے ہیں کہ ’’البتہ کسی ریاست کے قائم ہو جانے کے بعد اس کی فلاح و بہبود اور بقا اس کا سب سے بڑا نظریہ ہوتا ہے، یہ ایک نارمل ریاست کی نشانی ہے، جس میں مذہبی اور دیگرمعاشی نظریات وقت کی ضرورت کے تحت بدلتے رہتے ہیں۔‘‘
اپنے اس خود ساختہ فلسفے کی وضاحت کے بعد موصوف پاکستان کے بارے میں اپنا مخصوص نقطۂ نظر بیان فرماتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’پاکستان کا معاملہ اس کے برعکس ہے۔ یہاں ریاست کو دوسری عام ریاستوں کے آفاقی اصولوں کے مطابق ایک نارمل ریاست بنانے کی بجائے مختلف نظریات ،عقائد اور ترجیحات کاحامل بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔ اور ریاست اپنی اصلی شکل کی بجائے نظریاتی دھند میں کھو کر رہ گئی ہے۔ اسی نظریاتی کشمکش نے صرف 23سال کے بعد ہی اس ملک کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔ اس نظریاتی کشمکش نے آج تک ہمیں اس بُری طرح سےاپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے کہ 78سال گزرنے کے باوجود ہمیں اپنی ریاست کے مستقبل کے خدوخال واضح طور پر دکھائی نہیں دے رہے۔‘‘
یہ ہے اصل بات جس کے لیے موصوف نے ’’نارمل ریاست‘‘ کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ اُن کے نزدیک پاکستان کی موجودہ دگرگوں صورت حال کا اصل سبب نظریاتی کشمکش ہے۔ ہم ذیل میں محترم قلم کار کی خدمت میں پاکستان کے حوالے سے کچھ گزارشات پیش کرنا چاہتے ہیں:
1۔ پہلی بات یہ ہے کہ پاکستان ایک نارمل نہیں بلکہ ایک سپیشل ریاست ہے۔ جس نظریاتی کشمکش کا ذکر خالد صاحب نے کیا ہے وہ اس ملک میں حکمرانی کرنے والوں اور آزاد منش لوگوں کا پیدا کردہ ہے جبکہ بانیانِ پاکستان کے ہاں کوئی ابہام اور مغالطہ نہیں تھا۔ ہرایک اس حقیقت سے بخوبی آگاہ تھا کہ پاکستان ایک اسلامی ملک ہوگا۔ 14 اگست 1947ء سے پہلے اس نام کی کوئی ریاست دنیا میں موجود نہیں تھی۔ جن حالات میں یہ ریاست وجود میں آئی وہ بھی نارمل نہیں تھے۔ایک طرف انگریزی استعمار کی غلامی کے بندھن تھے اور دوسری طرف ہندوؤں جیسی متعصب قوم کے ظلم وجبر کا خوف تھا۔ایسے میں انگریزوں اور ہندوؤں سے اپنے علیحدہ اسلامی تشخص کی بنیادپر آزادی کی تحریک شروع کی گئی جواللہ کے فضل وکرم سے کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔
2۔ ریاست پاکستان کی ایک اور نمایاں ترین خصوصیت جس کی وجہ سے ہم نے اِسے سپیشل قرار دیا ہے، یہ ہے کہ ’’پاکستان اسلام کے نام پر قائم ہوا تھا‘‘ چنانچہ یہ ’’ظاہر و باہر‘‘حقیقت ہے جس سے انکار ممکن نہیں، بجز اس کے کہ کوئی سخت ڈھٹائی ہی پر اُتر آئے اور حقیقتِ واقعی کے انکار پر کمر کس لے۔ اس کی حیثیت اُس نوشتۂ دیوار کی ہے، جو ہر شخص کے سامنے رہتی ہو اور جس سے صرفِ نظر ممکن نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ یہ بات پوری دنیا میں تسلیم کی جاتی ہے، قطع نظر اس سے کہ کسی کو پسند ہو یا نا پسند!۔‘‘ (استحکام پاکستان، تالیف ڈاکٹر اسرار احمدرحمہ اللہ: ص54)
3۔ یہ بھی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ "پورے برصغیر کے مسلمانوں کو مسلم لیگ کے جھنڈے تلے جمع کرنے والا نعرہ بہرصورت ’’پاکستان کا مطلب کیا؟ ’’لاالہ الا اللہ‘‘ ہی تھا اور اس سے ہر گز کوئی فرق واقع نہیں ہوتا کہ اس کے الفاظ بزرگوں نے متعین کیے تھے یا نوجوانوں نے ترتیب دے لیے تھے۔ پھر بات صرف ایک نعرے کی نہیں ہے بلکہ اُن واضح وغیرمبہم اور واشگاف وبرملا بیانات و اعلانات کی ہے، جن کے ذریعے پاکستان کے بانی و مؤسس اور تحریکِ پاکستان کے ’’قائداعظم‘‘ نے مسلمانوں کی قومیت کی اساس ’’مذہب‘‘ کو، پاکستان کی منزل ’’اسلام‘‘ کو اور پاکستان کا دستور ’’قرآن‘‘ کو قرار دیا تھا اور قیامِ پاکستان کا مقصد یہ بیان کیا تھا کہ ہم پاکستان کے ذریعے عہدِ حاضر میں اسلام کے اُصول حریت، مساوات اور اخوت کی جدید تفسیر اور عملی نمونہ پیش کرنا چاہتے ہیں۔ اِس حقیقت سے انکار کوئی نہایت ڈھیٹ شخص ہی کر سکتا ہے کہ اِن اعلانات کے بغیر نہ مسلم لیگ ایک عوامی جماعت بن سکتی تھی، نہ برصغیر پاک و ہند کے طول و عرض میں بسنے والے مسلمان ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو سکتے تھے۔ (ایضاً،ص 55)
4۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ’’تحریک پاکستان اصلاً ایک قومی تحریک تھی اور اُس کا اصل جذبہ محرکہ ایک ’’چھوٹی قوم کا یہ ’’خوف‘‘ اور ’’خدشہ‘‘ تھا کہ اُس سے کئی گنا زیادہ بڑی قوم اُس کے ساتھ برابری اور انصاف کا معاملہ نہیں کرے گی، بلکہ سیاسی اعتبار سے اُسے ’’محکوم‘‘ بنانے کی کوشش کرے گی، معاشی سطح پر اُس کا استحصال کرے گی اور سماجی و معاشرتی اور تہذیبی و ثقافتی اعتبار سے اُس کے تشخص کو ختم کرنے کی کوشش کرے گی۔ یعنی اپنی ہزار سالہ غلامی کا انتقام لے گی۔ لہٰذا اِس تحریک نے جنگل کی آگ کی طرح وسعت اختیار کر لی اور اپنے جداگانہ تشخص کی ضمانت اور اپنے سیاسی و معاشی حقوق کی حفاظت کے لیے برصغیر کی پوری مسلمان قوم مسلم لیگ کے جھنڈے تلے جمع ہو گئی، اور اس نعرے سے برصغیر کا طول و عرض گونج اُٹھا کہ ’’مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آ!۔‘‘(ایضاً،ص57، 58)
اگر یہ کہا جائے کہ تحریک پاکستان کا اصل جذبۂ محرکہ ایک قومی جذبہ تھامگراِس قومی جذبے کی اساس اس کا نظریہ تھا تو غلط نہ ہو گا۔ اسی نظریاتی جذبے نے جملہ تہذیبی و ثقافتی، سماجی و معاشرتی اور معاشی و سیاسی محرکات کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔اس بات کوڈاکٹراسراراحمد ؒنے نہایت جامع اندازمیں یوں بیان فرمایاہے۔ لکھتے ہیں:
’’برصغیر کے مسلمان نہ کسی نسل کی بنیاد پر ایک قوم تھے، نہ زبان کی بنیاد پر، پھر نہ اُن کا لباس ایک تھا، نہ اکل و شرب کے ذوق اور طور طریقے ایک تھے، بلکہ اُن کو ایک قوم بنانے والی کوئی قدر مشترک تھی تو صرف ایک یعنی مذہب! یہی وجہ ہے کہ اگرچہ تحریک مسلم لیگ اصلاً ایک مذہبی تحریک نہ تھی، نہ ہی اِس کی اصل قیادت مذہبی لوگوں پر مشتمل تھی، لیکن اُسے مسلمانانِ ہند میں ایک قومی وحدت کے شعور کو بیدار اور اُجاگر کرنے کے لیے سب سے زیادہ انحصار مذہبی جذبے پر کرناپڑا اور برصغیر کے مسلمانوں کی اکثریت کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کے لیے ’’بنتی نہیں ہے بادۂ و ساغر کہے بغیر! ‘‘ کے مصداق مذہبی نعرہ لگانا پڑا یعنی: ’’پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الا اللہ‘‘۔
5۔ ہمیں اس بحث میں جانے کی ہرگز کوئی ضرورت نہیں ہے کہ اِس نعرے میں وہ قیادت مخلص تھی یا غیرمخلص، اس لیے بھی کہ نیتوں کا حال صرف اللہ کے علم میں ہے اور ہمیں لوگوں کی نیتوں کو زیر بحث لائے بغیر ساری گفتگو حقائق و واقعات ہی کے حوالے سے کرنی چاہئے، اور اس لیے بھی کہ کسی عوامی تحریک کے ضمن میں اصل فیصلہ کسی خاص یا چند اشخاص کے خیالات و نظریات کی بنیاد پر نہیں ہوتا، بلکہ اِس اساس پر ہوتا ہے کہ اُس میں عوام نے شمولیت کس بناء پر اور کس تصور کے تحت کی۔
پاکستان کی اصل اساس سوائے دین و مذہب کے اور کوئی نہیں ہے، اور پاکستان کی واحد جڑو بنیاد صرف اور صرف اسلام ہے۔ اور جس طرح حضرت سلمان فارسی ؓ کے بارے میں روایت ہے کہ جب اُن سے نام دریافت کیا جاتا تووہ اوّلاً صرف ایک لفظی جواب دیتے ’’سلمان!‘‘ اور اگر عرب کی روایت کے مطابق مزید پوچھا جاتا تھا کہ ’’مسلمان ابن؟‘‘… تو جواباً ارشاد فرمایا کرتے تھے: ’’سلمان ابن اسلام‘‘ یعنی میری ولدیت اسلام ہے۔ اسی طرح پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جس کی ولدیت اسلام ہے۔‘‘(ایضاً،ص ،58، 59)
خالد صاحب کی ایک اور پریشانی بھی سامنے آئی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ دنیا پر جو مختلف ادوار گزرے ہیں اُن میں مذہبی ریاستوں کا دور بھی گزرا ہے۔ لیکن اس دوران دوسرے مذاہب کے ساتھ اور اپنے مذہب کے اندر گروہی کشمکش کی وجہ سے انسانی تاریخ میں جو خون خرابہ اور فسادات ہوئے ہیں، اُنہوں نے ہی حکمرانوں اور دانشوروں کو مجبور کیا کہ وہ مذہب کو ریاست کی بنیاد نہ بنائیں بلکہ ریاست کا تصّور ہر انسان کی، چاہے اُس کا مذہب ، فرقہ یا نظریہ کچھ بھی ہو ،فلاح و بہبود پر استوار کیا جائے۔‘‘
6۔ ہمارے ممدوح اور ان کی طرح کے دیگردانشوروں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اسلام کو دیگرانسانی ساختہ مذاہب پر قیاس کر کے اِس نتیجے پر پہنچ جاتے ہیں کہ مذہب کا تعلق ریاست سے نہیں ہونا چاہیے۔ یہ نقطۂ نظردیگر مذاہب کے حوالے سے توٹھیک ہے کیونکہ ان میں زندگی کے جملہ معاملات کے لیے رہنمائی موجود ہی نہیں ہے مگراسلام وہ نظام حیات ہے جواس زمین پر انسان کے سفرِحیات کے شروع ہوتے ہی اللہ تعالیٰ نے خود انسان کو عطا فرمایا تھا۔ تاریخ انسانی کے ہردور میں اللہ کے جلیل القدر انبیاء ورسلf، اسلام کے اصولِ حیات کے مطابق انسانی زندگی کے جملہ معاملات یعنی عقائد،عبادات،سماجی رسوم، معاشرت، معیشت، سیاست چلاتے رہے ہیں۔ نبی اکرمﷺ پر دین اسلام کو اللہ تعالیٰ نے مکمل فرماکراور اس پر عمل درآمد کروا کر قیامت تک کے لیے جاری فرما دیا ہے۔ اس ضمن میں ایک حدیث نبوی قولِ فیصل کی حیثیت رکھتی ہے۔ آپ نے فرمایا:
آپﷺ فرماتے ہیں:’’ کہ بنی اسرائیل کے انبیاء ؑ سیاست کیا کرتے تھے، جب کوئی نبی وفات پاتا تواس کی جگہ دوسرا نبی لے لیتا تھا، اور میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا اورعنقریب خلفاء ہوں گے، اور بکثرت ہوں گے۔‘‘ (صحيح البخاری )
7۔ مضمون کے آخر میں خالد صاحب لفظ ’’اقلیت‘‘ کے استعمال پر پریشان ہوئے ہیں جو ہمارے ہاں غیرمسلموں کے لیے بولاجاتا ہے۔ بھائی میرے ! یہ لفظ دین اسلام کا نہیں ہے۔ اسلامی نظام حیات کواختیار کرنے والی ریاست میں غیرمسلموں کے لیے لفظ ’’ذمی‘‘ استعمال ہوتا ہے۔ ذِمّہ ہم اردو میں استعمال کرتے ہیں جو کسی فرض کی ادائیگی کے لیے بولاجاتا ہے۔ صاحب حیثیت ذمیوں پر جزیہ عائد کیاجاتا ہے اور یہ بدل ہے اُس امان اور اس حفاظت کا جو ذمیوں کو اسلامی حکومت میں عطا کی جائے گی۔ نیز یہ علامت ہے اس امر کی کہ یہ لوگ تابع امر بننے پر راضی ہیں۔ ۔۔ابتدا میں حکم یہود و نصاریٰ کے متعلق دیا گیا تھا، لیکن آگے چل کر خود نبی اکرمﷺ نے مجوس سے جزیہ لے کر انہیں ذمّی بنایا اور اس کے بعد صحابہ کرام jنے بالاتفاق بیرونِ عرب کی تمام قوموں پر اس حکم کو عام کر دیا۔‘‘(تفہیم القران ، ج2،ص188)
خالد صاحب نے تاریخی شواہد پیش کرکے جمہوریت کو انسانوں کے لیے بہترین نظام تسلیم کیا ہے۔ جمہوریت نے دنیاکو کیا دیاہے اور یہ انسانی ساختہ کہیں اپنی اصلی تعریف کے مطابق کبھی قائم بھی ہوا ہے یایہ محض ایک دھوکہ ہے۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے ہم خالد صاحب کو علامہ اقبال کی مشہورنظم ’’ابلیس کی مجلس شوریٰ‘‘ پڑھنے کا مشورہ دیں گے۔ سر دست ان سے گزارش ہے کہ وہ اپنے ملک کے سیاست دانوں کی جمہوری خدمات اور ان کے جمہوری مزاج اور جمہوریت نے اب تک یہاں کے عوام کو کیا دیا ہے اس پر بھی کبھی ضرور روشنی ڈالیں۔