(زمانہ گواہ ہے) ’’قطر میں حماس کے مذاکراتی وفد  پر اسرائیلی حملہ‘‘ - محمد رفیق چودھری

10 /

قطر پر حملہ ممکن ہی نہیں تھا جب تک امریکہ اورمشرق وسطیٰ 

میں اس کے اتحادی ممالک آن بورڈ نہ ہوتے:رضاء الحقعرب حکمرانوں کو اب سمجھ جانا چاہیے کہ امریکہ کے ہاتھوں

بلیک میل ہونے کی بجائے ترکیہ ، ایران اور پاکستان کا ساتھ دیں اور

مشترکہ طور پر اپنی سکیورٹی کے انتظامات کریں: توصیف احمد خان

’’قطر میں حماس کے مذاکراتی وفد  پر اسرائیلی حملہ‘‘

پروگرام ’’ زمانہ گواہ ہے ‘‘ میں معروف تجزیہ نگاروں اور دانشوروں کا اظہار خیال

میز بان : وسیم احمد باجوہ

مرتب : محمد رفیق چودھری

سوال: حماس کا ایک وفد سیز فائر کے لیے مذاکرات کرنے قطر آیا ہوا تھا۔ اسرائیل نے اس وفد پر تابڑ توڑ ظالمانہ فضائی حملے کیے ہیں ۔ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ اسرائیل کی یہ حرکت بین الاقوامی قوانین اور انسانیت کے لحاظ سے بہت بڑا جرم نہیں ہے ؟
توصیف احمد خان: اسرائیل بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی تو روزہی کرتاہے ، پچھلے 48 گھنٹوں میں اُس نے نہ صرف قطر بلکہ شام ، لبنان ، تیونس اوراب یمن پر فضائی حملے کیے ہیں ۔ صہیونی کسی قانون اور انسانیت کو خاطر میں نہیں لا رہے ۔ نسل کشی اُن کے ڈی این اے میں شامل ہے ۔ اسرائیل انسانیت کی بنیاد پر تو وجود میں ہی نہیں آیا ۔ وہ کالونیل ازم کی پیداوار ہے اور کالونیل ازم کا بنیادی اصول یہ تھا کہ دیگر قوموں کو قتل کرکے ان کی زمینوں پر جبراً قبضہ کرو اور اپنی حکومت قائم کرو ۔ جس جس نے بھی ان پر احسان کیا ہے، اُس کو انہوںنے ڈسا ہے ، لہٰذا انسانیت کا درس انہیں نہیں دیا جا سکتا ہے ۔ ان کے شر سے بچنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ اپنی سکیورٹی کو مضبوط کریں ۔ لیکن اگر مسلم ممالک نے اپنی سکیورٹی کو ٹھیکے پر دے رکھا ہے تو پھراُن کے ساتھ وہی کچھ ہوگا جو آج ہورہا ہے کیونکہ ان ممالک نے جس امریکہ کو اپنی سکیورٹی کا ٹھیکہ دیا ہوا ہے وہ اُن سے پیسے لے کر اسرائیل کو اسلحہ دے رہا ہے اور اُسی اسلحہ سے ان کو مار پڑ رہی ہے۔ شام اور لبنان میں اسرائیل بار بار حملے اس لیے کر رہا ہے کہ وہ اُن کو مصروف رکھنا چاہتاہے۔اس پورے منصوبے میں امریکہ بھی اسرائیل کے ساتھ شامل ہے ۔ وہ مشرق وسطیٰ کی ری ڈیزائننگ کر رہاہے۔ قطر پر حملہ سے پہلے اسرائیلی قطر کی منتیں کر رہے تھے کہ وہ مغربی کنارہ اور غزہ میں تعمیراتی کاموں پر خرچ کرے ۔ یہ کتنی بڑی سازش ہو گی کہ حماس کی پوری قیادت کو کہا گیا کہ آپ قطر تشریف لائیں اور جب وہ آئے تو اُن پر حملہ کر دیا گیا۔ اللہ کا شکر ہے کہ حماس کی لیڈرشپ بچ گئی۔ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ جو ان کی سکیورٹی پر مامور تھے وہ دشمن کے لیے جاسوسی کر رہے تھے ، حملے سے پہلے ریڈار سسٹم کو ڈاؤن کیا گیا ۔ قطر کا دفاعی بجٹ 14 بلین ڈالر ہے جو کہ پاکستان سے کہیں زیادہ ہے جبکہ ان کی فوج صرف 22 ہزار ہے ۔ ان کی ایئر فورس کے پاس ایف 15 ، رافیل اور ایف 35 طیارے بھی ہیں۔ اس کے علاوہ ٹائیفون ففتھ جنریشن طیارے بھی ہیں۔ پھر پیٹریاٹ ایئر ڈیفنس میزائل سسٹم موجود ہے ۔ ابھی انہوں نے تھاڈ میزائل کا بھی سودا کیا ہے۔ یہ سب امریکی اسلحہ ہے اور یہ تبھی چلے گا جب امریکہ چاہے گا ۔ اُس کے ایک لاکھ فوجی قطر میں موجود ہیں اور قطر کو ایک طرح سے امریکی اڈا بنا دیا ہے ۔ وہ یہاں سے پورے مشرق وسطیٰ کو مانیٹر کر رہے ہیں ۔ یہ سب مصیبت عربوں نے اپنے لیے خود پیدا کی ہے ، انہیں بتایا گیا کہ ایران تمہارا دشمن ہے اور ایران کو بتایا گیا کہ عرب تمہارے دشمن ہیں اور اسی بہانے امریکہ نے خطے میں  اپنے پنجے گاڑ لیے ۔ آپ دیکھئےکہ جب ایران نے امریکہ کے خلاف جوابی وار کیا تو ظاہر ہے امریکہ اس کے لیے تیار تھا۔ لیکن قطر ہو یا سعودی عرب ان کی سکیورٹی   ان کے اپنے ہاتھ میں نہیں ہے ۔ اب وہ چاہیں تو بدلہ نہیں لے سکتے اور نہ ہی ان کی بادشاہتیں محفوظ رہیں گی۔ 
سوال:قطر امریکہ کا اتحادی ہے ، کیاا سرائیل نے قطر پر حملہ امریکہ کے خلاف جاکر کیا ہے یا پھرکہیں قطر بھی حماس کے خلاف امریکہ یا اسرائیل کا ساتھ دے رہا ہے ؟ 
رضاء الحق:اسرائیل کو امریکہ کی مکمل حمایت بلکہ معاونت حاصل ہے ، امریکہ میں جو بھی پارٹی حکومت میں ہو ، چاہے ری پبلکن ہوں یا ڈیموکریٹس ہوں، ان میں نیوکانز لابی سرفہرست ہوتی ہے جن کو عیسائی صہیونی بھی کہا جاتاہے ۔ ان کی مرضی کے بغیر امریکہ میں کوئی فیصلہ نہیں ہوتا ۔ AIPACامریکہ کابڑا ادارہ ہے جو اسرائیل اور امریکہ کے درمیان معاملات کو ڈیل کرتاہے ، اس ادارے کی حمایت حاصل کیے بغیر کوئی امریکہ کا صدر نہیں بن سکتا ۔ قرآن مجید میں مسلمانوں کو آج سے 14 سو سال پہلے ہی بتا دیا گیا تھا کہ : {وَلَنْ تَرْضٰی عَنْکَ الْیَہُوْدُ وَلَا النَّصٰرٰی حَتّٰی تَــتَّبِعَ مِلَّـتَہُمْ ط} (البقرہ :120) ’’اور(اے نبیﷺ! آپ کسی مغالطے میں نہ رہیے) ہرگز راضی نہ ہوں گے آپؐ سے یہودی اور نہ نصرانی جب تک کہ آپؐ پیروی نہ کریں ان کی ملت کی۔‘‘
وہ کبھی بھی مسلمانوں کی حمایت نہیں کریں گے جب تک کہ مسلمان مکمل طور پر ان کی تہذیب اور مذہب کو اختیار نہ کرلیں ۔ اسی طرح فرمایا :
{لَـتَجِدَنَّ اَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَۃً لِّـلَّذِیْنَ اٰمَنُوا الْیَہُوْدَ وَالَّذِیْنَ اَشْرَکُوْاج}(المائدہ : 82)
’’تم لازماًپائو گے اہلِ ایمان کے حق میں شدید ترین دشمن یہود کو اور ان کو جو مشرک ہیں۔‘‘
یہاں یہود کو مسلم دشمنی میں پہلے نمبر پر رکھا گیا ہے ۔ اس کےبعد مسلمانوں کے سب سے بڑے دشمن مشرک ہیں  اور ان میں بھارت کے ہندو سرفہرست ہیں ۔ آج ہم دیکھ سکتے ہیں کہ یہود و ہنود کا گٹھ جوڑ کھل کر سامنے آگیا ہے ۔ اس کے بعد نصاریٰ کا ذکر آیا کہ وہ مسلمانوں سے نرمی رکھیں گے ۔ لیکن امریکہ اور یورپ کی حکومتوں میں وہ نصاریٰ نہ ہونے کے برابر ہیں۔ البتہ روس میں  آرتھوڈاکس عیسائی موجود ہیں جو کچھ اس معیار پر پورا اُترتے ہیں ۔ جہاں تک یہود کی دھوکہ دہی کا تعلق ہے تو قرآن مجید میں سورۃ البقرہ کےپانچویں رکوع سےلے کر پندرویں رکوع تک اسی موضوع پر کلام ہوا ہے اور کھول کھول کر یہود کے مکرو فریب کو بیان کیا گیا ہے ۔ یہاں تک کہ انہوں نے انبیاء کرامf کو بھی شہید کیا اور اللہ کے دین کا مذاق اُڑایا ، حضرت عیسیٰf کو اپنے تئیں سولی چڑھا دیا اور اللہ کے آخری رسول ﷺ کا بھی نہ صرف انکار کیا بلکہ ان کے خلاف(معاذاللہ) قتل کی سازشیں بھی کیں۔ موجودہ اسرائیلی وزیراعظم سمیت تمام اعلیٰ عہدیداران تو نسلی یہودی بھی نہیں ہیں۔ یہ اشکنازی یہودی ہیں جو یورپ ،امریکہ اور روس سے ہجرت کرکے آئے ہیں ۔ حماس کےسینئر لیڈراور ترجمان ڈاکٹر خالد قدومی کا بیان ہے کہ ہمارے ساتھ ہمیشہ یہی ہوتا ہے کہ امریکہ کہتا ہے کہ ہم مذاکرات کریں گے اور پھر اسرائیل کے ساتھ مل کر ہم پر حملہ کر دیتاہے ۔ قطر پر حملہ ممکن ہی نہیں تھا جب تک امریکہ اورمشرق وسطیٰ میں اس کے اتحادی ممالک آن بورڈ نہ ہوں ۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ برطانوی بحری جہاز قطر سے نکلا ، اسرائیلی طیاروں کو فیول فراہم کیا اور واپس قطر چلا گیا ۔ اس کے بعداُنہی اسرائیلی طیاروں نے 12 حملے کیے ہیں ۔ عرب ممالک جانتے ہیں کہ ان کے لیے آخری لائن آف ڈیفنس فلسطینی جنگجو ہیں۔ جب تک اسرائیل ان کے ساتھ مصروف رہے گا وہ بچے رہیں گے اس لیے فلسطینی جنگجوؤں کی مدد کرنا ان کی مجبوری بھی ہے۔ حالیہ دنوں  میں بھی مشرقی یروشلم میں عرب مجاہدین نے 6 اسرائیلیوں کو جہنم واصل اور 12 کو زخمی کیا ہے ۔ ایسے ہی حملوں کی وجہ سے اسرائیل نے 2006ء میںبھی غزہ کو چھوڑا تھا ۔شنید ہے کہ قطر پر اسرائیلی حملے کا منصوبہ ترکیہ نے لیک کیا اور قطرکو بتایا جس نے حملے سے قبل حماس کی اعلیٰ قیادت کو محفوظ مقام پر منتقل کر دیا ، تاہم 5 افراد پھر بھی شہید ہو گئے۔ اس کا مطلب ہے کہ مسلم ممالک کی حکومتیں اسرائیلی عزائم سے واقف ہیں ۔ اسرائیلی حکومت تلمود ی نظریات پر عمل پیرا ہے جس میں یہودیوں کے علاوہ باقی تمام انسانوں کو جنٹائلز اور گوئمز قرار دیا گیا ہے جن کی جان ، مال، عزت اور زمین کی یہود کے نزدیک کوئی حیثیت نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیلی عہدیداران سرعام گریٹر اسرائیل کے نقشے لہراتے اور عربوں کو ختم کرنے کی باتیں کر رہے ہیں ۔ 
سوال:7اکتوبر 2023ء سے لے کر اب تک امریکہ کا کردار مشکوک رہا ہے جس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ اس نے غزہ میں جنگ بندی کی 8 قراردادوں کو ویٹو کیا ہے۔ قطر پر اسرائیلی حملہ کے بعد بھی ایک طرف ڈونلڈٹرمپ ٹویٹ کرتاہے کہ یہ حماس کے لیے وارننگ ہے کہ وہ اسرائیلی قیدیوں کو رہا کر دے اور دوسری طرف اُس کا بیان ہے کہ قطر پر حملہ امریکی پلان نہیں ہے ۔ امریکہ کے اس طرزعمل کے متعلق آپ کیا کہیں گے ؟
توصیف احمد خان:امریکہ کھل کر اسرائیل کا ساتھ دے رہا ہے ، اُسے اسلحہ بارود اور تمام تر جنگی معاونت فراہم کر رہا ہے ۔ وہ کھل کر ہمارے خلاف جنگ میں کود پڑے ہیں لہٰذا ہمیں بھی اب کھلے ذہن سے اس بات کو تسلیم کرلینا چاہیے کہ وہ ہمارے دشمن ہیں ۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے پہلے دور حکومت میں بھی قطر کو دہشت گردوں کا سرپرست قرار دیا تھا ۔ اس کے باوجود اُس کی الیکشن مہم پر قطر نے اربوں ڈالرز خرچ کیے کہ کسی طرح ٹرمپ سے تعلقات بہتر ہو جائیں ، اس کے بعدایک ٹریلین ڈالر قطر کے دورے کے دوران بھی ٹرمپ لے گیا لیکن اس سب کا نتیجہ یہ نکلا ۔ اب قطر سمیت مسلم ممالک کو سمجھ لینا چاہیے کہ امریکہ کبھی ان کا دوست نہیں ہوسکتا ، لہٰذا اُس پر اپنی دولت خرچ کرنے کی بجائے انہیں اپنے دفاع کو خود مضبوط کرنا چاہیے ۔ امریکہ اب بھی قطر پر پریشر ڈال رہا ہے کہ وہ حماس سے منوائے کہ وہ اسرائیلی قیدیوں کو چھوڑ دے اور سرینڈر کر دے ورنہ حماس پر سخت حملہ کیا جائے گا ۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا تعلق ایوینجلک گروپ سے ہے جو گریٹر اسرائیل کے منصوبے میں صہیونیوں کے ساتھ ہیں ، وہ کسی صورت جنگ بندی نہیں چاہتے ۔ یہی وجہ ہے کہ ایران کے ساتھ مذاکرات کا اعلان کرنے کے باوجود اُس پر حملہ کردیا ۔ اب یہی کام انہوں نے قطر میں بھی کیا ہے ۔  مسلم حکمرانوں کی اپنی غلطیاں بھی ہیں جیسا کہ ماضی میں مراکش کا بادشاہ اسرائیل کا جاسوس بن گیا تھا اور      مسلم ممالک کے منصوبے اسرائیل کو بتا دیے تھے ۔ اس کے برعکس اگر مسلم ممالک آپس میں اتحاد کرلیں اور مل کر اپنے دفاع کو مضبوط کریں تو کوئی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا۔ اگر ایسا نہیں کریں گے تو سب کو مار پڑے گی ۔ گریٹر اسرائیل کا پہلا فیز 1967ء کی جنگ سے ہی شروع ہوچکا تھا جب اس نے گولان سمیت شام ، مصر ، لبنان اور فلسطین کے کئی علاقوں پر قبضہ کرلیا تھا۔ اب بھی اگر مسلم ممالک متحد نہ ہوئے تو پھر ان کی حکومتیں بھی نہیں بچیں گی اور نہ ریاستیں بچیں  گی۔اسرائیلی وزیر خزانہ بھارت کے دورے پر ہے اور اس نے بھارت کے ساتھ سائبر سکیورٹی ڈیفنس کا معاہدہ بھی کیا ہے۔ واضح ہو رہا ہے کہ انڈیا اور اسرائیل پاکستان کے خلاف دوبارہ جنگ کی تیاری کر رہے ہیں کیونکہ      ان کے نزدیک پاکستان ان کا سب سے بڑا دشمن ہے ۔ اسرائیل بلوچستان میں بھی فساد بڑھانے پر سرمایہ کاری کررہا ہے ۔ 
سوال:اسرائیل اور امریکہ نے مل کر جب ایران پر حملہ کیا تھا تو اس وقت عرب ممالک خاموش تھے ۔ اب عرب ممالک کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے یہ اُسی خاموشی کا نتیجہ تو نہیں ہے ؟
رضاء الحق:اس سے پہلے بھی کئی ایسے واقعات ہوئے جن میں اگر عرب ممالک سٹینڈ لیتے تو آج حالات مختلف ہوتے ۔ سب سے پہلے تو عربوں نے سلطنت عثمانیہ کے خلاف برطانیہ اور فرانس کاساتھ دیا اور اس طرح اُمت ٹکڑے ٹکڑے ہو کر بکھر گئی ۔ بدلے میں 30 چھوٹے چھوٹے ملک مغرب نے عرب سرداروں کوتحفتاً دے دیے۔ جیسا کہ اردن کی بادشاہت شریف مکہ کے بیٹے کو مل گئی ۔ مگر پوری اُمت دشمنوں کے نرغے میں چلی گئی ۔ اب بھی اگر ایران ، پاکستان ، ترکیہ اور دیگر مسلم ممالک متحد ہو کر ایک بلاک بنا لیں تواُمت کا دفاع ممکن ہے ورنہ چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم رہنے سے مسلم اُمہ کا دفاع نہیں ہوسکتا ۔ عرب حکمران چاہتے ہیں کہ امریکہ کو تاوان دے کر اپنی کرسی اور ملک کو بچا لیا جائے ۔ حالانکہ ایسا نہیں ہو سکتا ۔ قرآن میں یہ بات پہلے سے بتا دی گئی ہے :
{یٰٓــاَیـُّـہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَـتَّخِذُوا الْیَہُوْدَ وَالنَّصٰرٰٓی اَوْلِـیَـآئَ م بَعْضُہُمْ اَوْلِیَآئُ بَعْضٍ ط وَمَنْ یَّـتَوَلَّـہُمْ مِّنْکُمْ فَاِنَّہٗ مِنْہُمْ ط اِنَّ اللہَ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ(51)} (المائدہ :51) 
’’اے ایمان والو!یہودو نصاریٰ کو اپنادلی دوست(حمایتی اور پشت پناہ) نہ بنا ئو۔ وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ اور تم میں سے جو کوئی ان سے دلی دوستی رکھے گاتو وہ ان ہی میں سے ہو گا۔یقیناًاللہ ایسے ظالموں کو ہدایت نہیںدیتا۔‘‘
یہ بات آج ثابت ہورہی ہے ۔ نبی کریم ﷺ کے دور میں بلادِشام میں فلسطین کے کچھ علاقے ، اردن اور لبنان بھی شامل تھے ۔ احادیث میں پیشین گوئی موجودہے کہ ان علاقوں میں جہاد کبھی ختم نہیں ہوگا اور  ایک جماعت ہمیشہ حق پر رہتے ہوئے جہاد کرتی رہے گی ۔ ایک دوسری حدیث کا مفہوم ہے کہ تمہاری عربوں کے ساتھ جنگ ہوگی اور اللہ تمہیں فتح دے گا ، پھر اہل فارس کے ساتھ جنگ ہوگی اور اللہ تمہیں فتح دے گا، پھر اہل روم کے ساتھ جنگ ہو گی اور اللہ تمہیں فتح نصیب فرمائے گا ۔ پھر تمہاری جنگ دجال کے خلاف ہوگی اور اللہ تعالیٰ تمہیں اس میں بھی فتح عطا فرمائے گا ۔ اس کے بعد آپ ﷺ خاموش ہو گئے ۔ معلوم ہوا کہ اس کے بعد پھر قیامت کا ہی معاملہ ہو گا۔ اگر مسلم ممالک مستقبل کے اس منظر نامہ کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی منصوبہ بندی اور تیاری کریں تو انہیں امریکہ اور اسرائیل کا خوف نہیں رہے گا اور نہ ہی ان پر بھروسا کرکے دھوکہ کھائیں گے ۔ اگر مسلم ممالک متحد ہوں گے تو ممکن ہے روس اور چین بھی ان کا ساتھ دیں ورنہ وہ بھی خاموش رہیں گے کیونکہ وہ دیکھ رہے ہیں کہ اگر عرب ممالک آواز نہیں اُٹھا رہے تو انہیں کیا ضرورت پڑی ہے ۔ 
سوال: غرہ میں لوگ بھوک اور پیاس سےشہیدہو رہے ہیں،حتیٰ کہ معصوم بچے شہید ہورہے ہیں اور سوشل میڈیا پر ان کی جو تصاویر آرہی ہیں ، اُن کو دیکھنے کی ہمت نہیں ہوتی،ابھی 44 ممالک نے انسانی بنیادوں پر 50 سے زائد بحری جہازوں کا امدادی قافلہ اہل غزہ کی مددکے لیے بھیجنے کا اعلان کیا ہے جسے گلوبل صمود فلوٹیلا قراردیا جارہا ہے ۔ کوشش کی جائے گی کہ اسرائیلی محاصرہ کو توڑ کریہ امداد اہل غزہ تک پہنچائی جائے ، سینیٹر مشتاق احمد خان سمیت پانچ لوگ پاکستان سے بھی اس قافلہ میں شامل ہیں ۔ 2012ء میں بھی فریڈم فلوٹیلا کے نام سے اسی طرح کا ایک امدادی قافلہ روانہ ہوا تھا مگر اسرائیل نے اس پر حملہ کیا تھا ، کیا حالیہ قافلہ اسرائیل محاصرہ کو توڑ کر اہل غزہ تک پہنچ پائے گا؟
توصیف احمد خان: یہ قافلہ محاصرہ توڑنے کے لیے نہیں بلکہ امداد پہنچانے کے لیے جارہا ہے اور یہ وہاں جاکر احتجاجی طور پر رُکے گا ، ممکن ہے امداد پہنچانے کا کوئی ذریعہ بن جائے ۔ ایسا تب ممکن ہوگا جب اسرائیل پر اخلاقی دباؤ بڑھے گا ۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے انٹرویو میں کانگریس کے بارے میں کہا ہے کہ غزہ کی جنگ کی وجہ سے کانگریس کے اراکین پر اسرائیل کا اثر ورسوخ کم ہورہا ہے ۔ اسی طرح یورپ میں عوام بہت بڑی تعداد میں اسرائیل کے خلاف سڑکوں پر نکل رہے ہیں ۔ اس دباؤ کی وجہ سے یورپ اب اسرائیل کی مدد سے پیچھے ہٹ رہا ہے ۔ سپین نے اسرائیل پر پابندیاں لگا دی ہیں ، ناروے اور بلجیئم فلسطین کو تسلیم کرنے جارہے ہیں ۔ فرانس کے صدر میکرون نے کھل کر اسرائیل کی مذمت کی ہے ۔ اُس نے کہا ہے کہ میں قطر کے ساتھ کھڑا ہوں ۔ بحیثیت مجموعی اسرائیل کی پوزیشن اس جنگ کی وجہ سے کافی خراب ہوئی ہے ۔ 64 ہزار لوگوں کو شہید کرنے کے باوجود بھی وہ غزہ پر قبضہ نہیں کر سکا ۔ مجاہدین کے ہاتھوں روزانہ اُس کے فوجی جہنم واصل ہو رہے ہیں ۔ حماس کی قید سے اپنے قیدیوں کو نہیں چھڑا سکا ، لبنان اور ایران میں وہ اپنے مقاصد حاصل نہیں کر سکا ۔ 30میل کے علاقے (غزہ ) کو وہ فتح نہیں کرسکے تو اب انہوں نے حل یہ نکالا ہے کہ اہل غزہ کو بھوک اور پیاس سے ختم کیا جائے ۔ اب عربوں کو سمجھ آجانی چاہیے کہ امریکہ کے ہاتھوں بلیک میل ہونے اور اپنی دولت ان کو خوش کرنے میں ضائع کرنے کی بجائے ترکیہ ، ایران اور پاکستان کا ساتھ دیں اور مشترکہ طور پر اپنی سکیورٹی کے انتظامات کریں۔ 
سوال:یہود و ہنود کا جو گٹھ جوڑ ہے اور امریکہ کی سرپرستی میں مسلم ممالک کے خلاف جو دہشت گردی کا مظاہرہ ہورہا ہے ،اس کو روکنے کے لیے قرآن و حدیث سے ہمیں کیا رہنمائی ملتی ہے ؟
رضاء الحق:قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : 
 {وَمَکَرُوْا وَمَکَرَ اللہُ ط وَاللہُ خَیْرُ الْمٰکِرِیْنَ(54)} ’’اب انہوں نے بھی چالیں چلیں اور اللہ نے بھی چال چلی۔ اور اللہ تعالیٰ بہترین چال چلنے والا ہے۔‘‘ 
ایک منصوبہ کفار و مشرکین کا ہے اور ایک منصوبہ  اللہ تعالیٰ کا ہے ۔کفار و مشرکین اپنی چالیں چلتے رہیں گے لیکن آخر میں اللہ تعالیٰ کا منصوبہ ہی کامیاب ہونا ہے ۔  اللہ کا دین پورے عالم پر غالب ہو کر رہے گا ۔ یہ بات لکھ دی گئی ہے۔ فرمایا : 
{ہُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ لا وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ (33)}(التوبہ :33) ’’وہی تو ہے جس نے بھیجا ہے اپنے رسول ؐ کو الہدیٰ اور دین ِحق دے کر تا کہ غالب کردے اسے کل کے کل دین (نظامِ زندگی) پر‘خواہ یہ مشرکوں کو کتنا ہی ناگوار گزرے۔‘‘
      اسلام کوئی مذہب نہیں بلکہ مکمل دین ہے ، اس میں سیاسی ، معاشی اور معاشرتی نظام بھی ہے اور انفرادی سطح پر عقائد ، عبادات اور رسومات بھی ہیں ۔ اللہ کے رسول ﷺ نے اس پورے نظام کو نافذ کرکے ایک نمونہ اس اُمت کے لیے چھوڑا ہے اور اس دین کو قائم کرنا اُمت کا فریضہ ہے ۔ ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ آخری جنگ یہودیوں کے ساتھ ہوگی اور اس میں پہلے تو مسلمانوں کا بہت بھاری جانی و مالی نقصان ہوگا لیکن آخر میں اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو فتح عطا فرمائے گا ۔یہود کے خلاف نفر ت اس حد تک بڑھ جائے گی کہ پتھر اور درخت بھی پکاریں گے کہ اے مسلمانو! یہودی ہمارے پیچھے چھپا ہے اس کو قتل کر دو ۔ اب حالات اُسی طرف جاتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں ۔ حتیٰ کہ یورپ میں بھی عام عوام یہودیوں سے شدید نفرت کرنے لگے ہیں ۔ گویا فتح مسلمانوں کی منتظر ہے ، اس کو مدنظر رکھتے ہوئے مسلمانوں کو آپس میں اتحاد کرنا چاہیے اور مل کر فتنہ دجال کے خلاف لڑنا چاہیے ۔ اس طرح ہماری فتح اور کامیایی کے راستے ہموار ہوتے جائیں گے ۔ ان شاء اللہ !