حضور ﷺ سے محبت کے تقاضے(حصہ دوم )
مسجدجامع القرآن ، قرآن اکیڈمی لاہور میں امیر تنظیم اسلامی محترم شجاع الدین شیخ حفظ اللہ کے5ستمبر2025ء کے خطاب جمعہ کی تلخیص
(گزشتہ سے پیوستہ)
خطبۂ مسنونہ اور تلاوتِ آیاتِ قرآنی کے بعد!
گزشتہ خطاب جمعہ میں ہم نے30 احادیث مبارکہ اور اُن کی مختصر سی وضاحت کو سمجھنے کی کوشش کی تھی۔ اُسی تسلسل میں آج بھی چند احادیث مبارکہ کا ترجمہ مختصر تشریح کے ساتھ اپنی اور آپ کی یاد دہانی کے لیے پیش کرنا مقصود ہے۔ سب سے پہلی حدیث مبارکہ بہت معروف ہے۔ اللہ کے رسول مکرم ﷺ نے فرمایا :
((مَنْ صَمَتَ نَجَا )) (ترمذی) ’’جس نے خاموشی اختیار کی وہ نجات پا گیا۔ ‘‘
کئی احادیث کا حاصل یہ ہے کہ سب سے زیادہ جو شے لوگوں کو جہنم میں لے جانے والی ہے، وہ زبان کا غلط استعمال ہے۔ آج کے دور میں زبان کے استعمال میں وہ تمام ذرائع بھی شامل ہیں جن کے ذریعے انسان اپنی بات کو دوسروں تک پہنچاتاہے ، چاہیے وہ سوشل میڈیا ہو یا اخبارات ہوں ، ٹی وی یا یوٹیوب چینلز ہوں ۔ اگر کوئی ان ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے فتنہ اور فساد پھیلا رہا ہے تو گویا وہ اپنے لیے جہنم کی آگ بھڑکا رہا ہے ۔ بخاری شریف میں ایک اور حدیث ہے کہ جو اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے اُس کو چاہیے کہ یا تو خیر کی بات زبان سے نکالے یا خاموش رہے۔ جتنا زیادہ بولیں گے، اتنی زیادہ بے احتیاطی بھی ہوگی۔
دوسری حدیث بخاری شریف سے ہے ۔ فرمایا :
((يَأْتِي عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ لاَ يُبَالِي المَرْءُ مَا أَخَذَ مِنْهُ أَمِنَ الحَلاَلِ أَمْ مِنَ الحَرَامِ))’’ لوگوں پر ایسا زمانہ بھی آئے گا کہ بندے کواس بات کا احساس بھی نہیں ہوگا کہ جو کچھ وہ کما رہا ہے وہ حلال ہے یا حرام ہے ۔‘‘
سیدنا عمر اپنے دور خلافت میں بازار میں جاکر دکانداروں سے پوچھتے تھے کہ اُنہوں نے کاروبار و تجارت کے حوالے سے حلال و حرام کے مسائل کو سیکھا ہے یا نہیں ؟ جس نے نہیں سیکھے ہوتے تھے ، اُس سے آپ فرماتے کہ دکان بند کرو اور پہلے اِس حوالے سے حلال اور حرام کے مسائل سیکھو ۔ بدقسمتی سے آج اِن مسائل کا خیال نہیں رکھا جارہا ۔ حالانکہ مسلم شریف کی ایک حدیث کے مطابق مسلمان کو اس حد تک خیال رکھنا چاہیے کہ اگر کسی مال کے بارے میں حرام کا شبہ بھی ہو تو اس سے دور رہے ۔
تیسری حدیث بیہقی شریف میں ہے ۔ فرمایا :
(( لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ جَسَدٌ غُذِّيَ بالحرَامِ)) ’’وہ جسم جنت میں داخل نہ ہوگا جس کی پرورش حرام مال سے ہوئی ہو ۔‘‘ صحیح مسلم میں ایک اور حدیث ہے کہ حضور ﷺ ایک شخص کا ذکر کیا، جو لمبا سفر کرکے کعبہ کے پاس پہنچا ، اُس کے بال پراگندہ اور بدن غبار آلود ہے اور وہ اپنے ہاتھ آسمان کی طرف اُٹھا کر یارب!یارب! پکار رہا ہے حالانکہ اُس کا کھانا حرام، پینا حرام، لباس حرام اور غذا حرام پھر اُس کی دعا کیسے قبول ہوگی!آج ہم اپنے بارے میں فکر کریں ، اپنی اولاد کی پرورش کس طرح کر رہے ہیں ؟کیا ہم اُن کو جنت میں دیکھنا چاہتے ہیں یا نہیں ؟
چوتھی حدیث بخاری شریف میں ہے اور بہت مشہور ہے ۔ فرمایا: ((كُنْ في الدُّنْيَا كأَنَّكَ غَرِيْبٌ، أَوْ عَابِرُ سَبِيْلٍ)) ’’دنیا میں ایسے رہو گویا کہ تم اجنبی ہو یا راہ چلتے مسافر ہو ۔‘‘ مسافر کا معاملہ کیا ہوتا ہے ؟کچھ دن کے لیے کسی علاقے میں قیام کرتاہے اور پھر چلا جاتاہے ، وہ اُس علاقے کو اپنا مستقل ٹھکانہ نہیں سمجھتا اور نہ ہی اس نیت سے مال ودولت اکٹھا کرتا ہے کہ اُسے ہمیشہ وہاں رہنا ہے بلکہ اپنے ساتھ صرف اتنا ہی زادِ راہ رکھتا ہے جو عارضی قیام کے دنوں میں اُس کی ضروریات پوری کر سکے ۔ اسی طرح ہمیں بھی اِس دنیا میں ہمیشہ رہنے کے لیے نہیں بھیجا گیا بلکہ ہمارا دائمی ٹھکانہ آخرت ہے اور ہمیںآخرت کی فکر اور تیاری کرنی چاہیے ۔
پانچویں حدیث بھی بہت معروف ہے۔ فرمایا : ((الْكَيِّسُ مَنْ دَانَ نفْسَهُ، وعَمِلَ لِمَا بَعْدَ الْمَوْتِ، وَالْعَاجِزُ مَنْ أتْبَعَ نَفْسَهُ هُوَاهَا، وَتَمنَّي عَلَي اللهِ))’’عقلمند وہ ہے جو اپنے نفس کا محاسبہ کرے، اور موت کے بعد کی زندگی کے لیے عمل کرے اور عاجز وہ ہے جو اپنے نفس کو خواہشوں پر لگا دے، پھر اللہ تعالیٰ سے تمنائیں کرے۔‘‘آج ایک سے بڑھ کر ایک دانشور بنا پھرتا ہے ، ساری دنیا کی ریسرچ کر لی لیکن آخرمیں الحاد کی حالت میں مرگئے تو ایسی دانشوری کا کیا فائدہ ؟حضور ﷺ فرما رہے ہیں عقلمند وہ ہے جو اپنے نفس کا محاسبہ کرے اور اپنے آپ کو اللہ کی فرمانبرداری میں لے آئے۔ ہر نماز کی ہر رکعت میں اسی لیے ہم یہ دعا کرتے ہیں :
{اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ(0)}’’ہم صرف تیری ہی بندگی کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے اور ہم صرف تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں اور چاہتے رہیں گے۔‘‘
آخرت میں وہی عمل کام آئے گا جو اللہ کی فرمانبرداری میں کیا ہوگا ۔ بہت سے لوگ دنیا میں بہت مال و دولت کماتے ہیں لیکن جاتے ہوئے خالی ہاتھ ہوتے ہیں ۔ لہٰذا ہمیں آخرت کو مدنظر رکھ کر اعمال کرنے چاہئیں ، اصل عقلمندی یہی ہے ۔سورۃ النازعات کے آخر میں ہے کہ :
{وَاَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ وَنَہَی النَّفْسَ عَنِ الْہَوٰی (40) فَاِنَّ الْجَنَّۃَ ہِیَ الْمَاْوٰی (41)} ’’اور جوکوئی ڈرتا رہا اپنے ربّ کے حضور کھڑا ہونے (کے خیال) سے ‘اور اُس نے روکے رکھا اپنے نفس کو خواہشات سے،تو یقینااُس کا ٹھکانہ جنت ہی ہے۔‘‘
اِس کے برعکس جو اپنے نفس کو خواہشات کے پیچھے لگا دے اور اسی غفلت میں زندگی گزار دے، وہ عقلمند نہیں ہے کیونکہ آخرت میں وہ تباہ و برباد ہو جائے گا ۔
چھٹی حدیث قرض سے متعلق ہے۔ (جسے عربی میں دَیْن کہا جاتا ہے) قرض کا معاملہ ہمارے دین میں بڑا حساس ہے ۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا : ((يُغْفَرُ لِلشَّهِيْدِ كُلُّ ذَنْبٍ إِلَّا الدَّيْنَ)) ’’شہید کے سارے گناہ بخش دئیے جاتے ہیں بجز قرض کے۔‘‘ قرآن مجید کی طویل ترین آیت(البقرہ :282) قرض کے موضوع پر ہے جس سے ہمارے دین میںمالی معاملات کی حساسیت واضح ہوتی ہے۔قرض کا معاملہ اتنا سنگین ہے کہ رسول اللہ ﷺ کسی مقروض کا جنازہ نہیں پڑھاتے تھے اِلا یہ کہ کوئی اُس کے قرض کی ادائیگی کا ذِمّہ لیتا ۔ آج ہم نے لگژری لائف سٹائل کو بنیادی ضرورت سمجھ لیا اور اس کے لیے قرض اور سود ہماری زندگیوں کا حصہ بن گیا اور اپنی عیاشیوں کے لیے ملک ، قوم اور نسلوں کو بھی مقروض بنا دیا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قرض سے بچنے کی توفیق عطافرمائے ۔ آمین !
ساتویں حدیث آخرت کے بارے میں ہے ۔ سیدنا ابو ہریرہسے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے یہ آیت پڑھی: {یَوْمَئِذٍ تُحَدِّثُ أَ خْبَارَہَا} ’’اس دن زمین اپنی خبریں بیان کرے گی۔‘‘ پھر آپﷺ نے فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ اس کی خبریں کیا ہیں؟ لوگوں نے کہا: اللہ اور اس کے رسولﷺ ہی بہتر جانتے ہیں، آپ ﷺنے فرمایا: اس کی خبریںیہ ہیں کہ ہر مرد و زن نے زمین پر جو عمل بھی کیا ہو گا، یہ بول کر اس پر گواہی دے گی اور کہے گی: تو نے میری پشت پر فلاں فلاں دن یہ یہ عمل کیا تھا، یہی اس کی خبریں ہیں۔‘‘ہم اس دنیا میں جوکچھ بھی کر رہے ہیں ، ہر ہر لمحے کی ریکارڈنگ ہورہی ہے اور روزمحشر سارا اعمال نامہ سامنے رکھ دیا جائے گا اور کہا جائے گا :{ اِقْرَاْ كِتٰبَكَ ط}(بنی اسرائیل:14) ’’اپنا نامۂ اعمال پڑھ‘‘
قرآن کریم کہتا ہےکہ ہمارے وجود کے اعضاء بھی گواہی دیں گے ۔ پھر یہ زمین بھی گواہی دے گی ۔ سیدنا علی کے پاس جب خلافت کی ذِمّہ داری تھی اور بیت المال میں اجناس وغیرہ تقسیم کرنے جاتے تھے تو سب تقسیم کرنے کے بعد وہاں کھڑے ہو کر دو رکعت نفل ادا کرتے تھے اور پھر زمین سے خطاب کرتے ہوئے فرماتے تھے : اے زمین ! تو گواہ رہنا کہ علی پر جو ذِمّہ داری ڈالی گئی، اُسے علی پورا کیا ۔ معلوم ہوا کہ بندۂ مومن کو ہر لمحہ اللہ کی فرمانبرداری میں گزارنا چاہیے تاکہ روز قیامت اس کے خلاف کم سے کم فردِ جرم عائد ہو ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے ۔
آٹھویں روایت بخاری شریف میں ہے ۔ فرمایا : ’’جس نے اپنے کسی بھائی پر ظلم کیا ہو تو اُسے چاہئے کہ اُس سے (اس دنیا میں) معاف کرا لے۔ اس لیے کہ آخرت میں روپے پیسے نہیں ہوں گے۔ اس سے پہلے (معاف کرا لے) کہ اس کے بھائی کے لیے اس کی نیکیوں میں سے حق دلایا جائے گا اور اگر اس کے پاس نیکیاں نہ ہوں گی تو اس (مظلوم) بھائی کی برائیاں اُس پر ڈال دی جائیں گی۔‘‘
حقوق العباد کا مسئلہ بہت حساس ہے ۔ آج ہم نے اِسے ہلکا سمجھ رکھا ہے اور قدم قدم پر دوسروں کے حقوق کو پامال کرنا ہمارےقومی مزاج میں شامل ہو چکا ہے ۔ جو جس قدر بڑے عہدے پر ہے، وہ اتنا غاصب اور ظالم بن جاتاہے ، الا ماشاء اللہ ۔ حالانکہ آخرت میں یہی مزاج ہمارے لیے بہت بڑے وبال کی شکل اختیار کرنے والا ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں سمجھ عطا فرمائے ۔ آمین !
نویں حدیث بہت مختصر مگر جامع ہے ۔ فرمایا : (( إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالْخَوَاتِيْمِ)) ’’بے شک اعمال کا دارومدار خاتمے پر ہے ۔ ‘‘کچھ عرصہ قبل ایک آسٹریلین بوڑھی خاتون نے اسلام قبول کیا اور 72 گھنٹے بعد اُس کی وفات ہوگئی ۔ سبحان اللہ ۔ ایمان پر خاتمہ ہوا جبکہ اِس کے برعکس کتنے ہی لوگ ہیں جوچالیس ، پچاس ، ساٹھ سال تک اسلام پر جیتے ہیں لیکن آخر میں کوئی ملحد ہو گیا ، کوئی قادیانی ہو گیا ، کوئی ہندو بن گیا ۔استغفراللہ ۔ یعنی اختتام کفر پر ہوا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ایسے انجامِ بد سے بچائے ۔ انسان بہت کمزور ہے اور شیطان بہت طاقتور ہے ۔ خاص طور پر آخری لمحات میں شیطان بہت زور لگاتا ہے کہ انسان کا خاتمہ کفر اور شرک پر ہو جائے ۔ ایک بندہ 70 برس تک ثابت قدم رہا لیکن آخر میں جاکر زہر پی لیا، ساری زندگی کے اعمال کچھ کام نہ آئے ۔ اللہ تعالیٰ ہماری حفاظت فرمائے ۔ اِسی لیے دوسروں کے لیے دعائے مغفرت مانگنے سے پہلے اپنے لیے بخشش کی دعا کی جاتی ہے : ((اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِحَيِّنَا وَمَيِّتِنَا))’’اے اللہ! زندہ اور مردہ لوگوں کی مغفرت فرمادے۔ ‘‘
دسویں حدیث بھی بہت مشہور ہے اور بار بار تنظیم اسلامی کے دروس میں بھی اس کا مطالعہ کیا جاتاہے ۔ فرمایا: ((وَالقُرْآنُ حُجَّةٌ لَكَ أَو عَلَيْكَ))’’اورقرآن تمہارے حق میں یاتمہارے خلاف حجت ہے۔‘‘یعنی روزِمحشر قرآن مجید یا تو تمہارے حق میں گواہی دے گا ، تمہاری شفاعت کا ذریعہ بنے گا یا پھر تمہارے خلاف گواہی دے گا ۔ ذرا سوچئے ! جس شخص کے خلاف قرآن گواہی دے گا اُس کی تباہی اور بربادی کتنی بڑی ہوگی ۔ آج ہم اپنا جائز ہ لیں کہ ایک طر ف اللہ کا قرآن ہو اور دوسری طرف سمارٹ فون ہو تو ہم زیادہ وقت کس میں صرف کرتے ہیں؟ سمارٹ فون میں تو سب انسانوں کا کہا ، لکھا ہوا ہےاور اکثرجھوٹ اور باطل پر مبنی مواد ہوتاہے جبکہ قرآن میں خالقِ کائنات کا کلام ہے اور اُس میں ہمارے لیے زندگی بھر کی رہنمائی اور ہدایت موجود ہے ۔ ہم کس کو ترجیح دے رہے ہیں ؟قرآن مجید کا حق ہے کہ ہم اس کو کھول کر پڑھیں ، سمجھنے کی کوشش کریں اور اس کی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارنے کو اپنی ترجیح اول بنائیں ۔ اگر ہم ایسا نہیں کر رہے تو یہی قرآن روزِقیامت ہمارے خلاف گواہی دے گا کہ اس بندے نے مجھ سے منہ موڑا اور مجھے ترک کر دیا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں آخرت کی اس بربادی سے بچائے اور قرآن مجید کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
اِن دو خطبات جمعہ میں ہم نے 40 احادیث مبارکہ کا مطالعہ کیا ۔ مقصد یہ تھا کہ ماہ ربیع الاول میں جہاں ہم حضور ﷺ سے محبت کے دعوے کرتے ہیں ، میلاد کے جشن مناتے ہیں ، خصوصاً 12 ربیع الاول کے دن بڑا ہلا گلا ہوتاہے ۔ لیکن ذرا ہم سوچیں کہ کیا ہم حضورﷺ کی تعلیمات پر عمل بھی کر رہے ہیں یا نہیں ؟ کیا آپ ﷺ کی تعلیمات اور احکامات پر عمل نہ کرنے کی صورت میں آپ ﷺ سے ہماری محبت کے دعوے سچے ہو سکتے ہیں ؟ آپ ﷺ کی نافرمانی کی صورت میں کیا ہمارے زبانی دعوے کسی کام آئیں گے ؟
ہم 12 ربیع الاول کے حوالے سے بڑی بحثیں کرتے ہیں ، اس کو منانے، نہ منانے کے دلائل پیش کرنے کے لیے سب فلاسفر اور مفسر بن جاتے ہیں ۔ اس کے برعکس اگر ہم آپ ﷺ کی تعلیمات کو بیان کریں اور اُن تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کریں تویہ سچا اُمتی بننے اور آپ ﷺ سے محبت کا اصل تقاضا ہوگا ۔حضور ﷺ سے محبت تو ایمان کا تقاضا ہے ۔ جیسا کہ ابن ماجہ میں ایک حدیث کے الفاظ ہیں ۔ حضورﷺ نے فرمایا : ((لَا يُؤْمِنُ أحَدُكُمْ، حتَّى أَكُوْنَ أحَبَّ إلَيْهِ مِنْ والِدِهِ وَوَلَدِهِ والنَّاسِ أجْمَعِيْنَ))’’تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اُس کے نزدیک اُس کی اولاد، اس کے والد، اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔ ‘‘
لیکن آپ ﷺ سے محبت کے تقاضےکیا ہیں ؟ اِس حوالے سے بھی آپ ﷺ نے خود رہنمائی عطا فرمائی ہے ۔ جیسا کہ فرمایا :((مَنْ اَحَبَّ سُنَّتِیْ فَـقَدْ اَحَبَّنِیْ وَ مَنْ اَحَبَّنِیْ کَانَ مَعِیَ فِی الْجَنَّۃِ ))’’جس نے میری سنت سے محبت کی اُس نے مجھ سے محبت کی، اور جس نے مجھ سے محبت کی وہ میرے ساتھ جنت میں ہوگا۔ ‘‘
معلوم ہوا کہ آپ ﷺ سے محبت کا سب سے بڑا تقاضا یہ ہے کہ آپ ﷺ کی سنت کے مطابق زندگی گزاری جائے ۔ اللہ تعالیٰ بھی اپنی محبت کے لیے ثبوت مانگتا ہے ۔ فرمایا : {قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ}(آل عمران :31)’’(اے نبیﷺ!) کہہ دیجیے کہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو‘اللہ تم سے محبت کرے گا۔‘‘
اسی طرح اللہ کے پیغمبرﷺ بھی اپنی محبت کے لیے ثبوت مانگ رہے ہیںکہ جس نے میری سنت سے محبت کی اُس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی وہ میرے ساتھ جنت میں ہوگا۔
اب ہم میں سے کون ہے جو نہیں چاہتا کہ حضورﷺ کا ساتھ جنت میں ملے۔ مگر ہم تنہائی میں بیٹھ کے سوچیں! کیاآج ہمارا مجموعی طرز عمل کیا سنت رسولﷺ کی نمائندگی کر رہا ہے؟ہماری گفتگو ، ہمارا چال چلن ، ہمارا کردار ، ہمارے اعمال کیا سنت رسول ﷺ سے کوئی مطابقت رکھتے ہیں ؟آج ہمارے شب و روز کے معاملات کیا ہیں ؟ہمارے ہاں شادی بیاہ کے مواقع پر سنتِ رسول ﷺ کا خیال رکھا جارہا ہے یا سنت اور شریعت کی دھجیاں اُڑائی جارہی ہیں ؟
کسی نے بڑے دل سے ایک آرٹیکل لکھا ہے کہ ہم محبت رسول ﷺ کے بڑے دعوے کرتے ہیں اور بڑی محبت سے اُن کو بلاتے ہیں ۔ ذرا سوچئے !اگر آج رسول اللہ ﷺ آپ کے گھر کے دروازے پر آجائیں تو کیا آپ فوری طور پر انہیںؐ گھر میں بلائیں گے ؟ کیا آپ کے گھر کی دیواروں پر لگی ہوئی تصویریں اور آپ کی الماری میں رکھی ہوئی چیزیں اور بُک شیلف میں لگی ہوئی کتابیں آپ اُنؐ کو دکھا سکیں گے ؟ آپ گھر میں لگی ایل سی ڈی کی سکرین دکھا سکیں گے ؟ اپنے کمپیوٹر اور سمارٹ فون اُن کو دکھا سکیں گے ؟ آج فیشن کے نام پر جو لباس پہنا جارہا ہےاُس میں آپ ﷺ کا سامنا کیسے کیا جائے گا؟ آج ہمارے ہاں شادی بیاہ کی جو رسمیں اور تقریبات ہوتی ہیں کیا، ہم انؐ کو دکھانے کے قابل ہیں ؟
ان ساری چیزوں سے ہم خود اپنا جائزہ لے سکتے ہیں کہ ہمارا آپ ﷺ سے محبت کا دعویٰ کتنا سچا ہے ۔
حضور ﷺ نے تو عدل و انصاف کا نظام قائم کرنے کے لیے طائف اور اُحد میں اپنا خون بہایا ، اپنے پیاروںؓ کی لاشیں اُٹھائیں ، دو دو ماہ تک چولہا نہیں جلتا تھا ۔ اللہ کے دین کے لیے آپ ﷺ نے اپنا گھر بار چھوڑا ، ہجرت کے مصائب اُٹھائے، جہاد کیا اور اللہ کے دین کو قائم کرکے ہمارے حوالے کیا ۔ آج رسول اللہ ﷺکی اُمّت ذبح ہورہی ہے ، غزہ میں معصوم بچے اور خواتین شہید ہورہے ہیں اور 2 ارب مسلمان اُن تک پانی کی ایک بوتل تک نہیں پہنچا رہے ، کیا اُمت کے یہ حالات دیکھ کر آپ ﷺ خوش ہوں گے ؟ کیا آج ہمارے حکمرانوں کی حرکتیں ایسی ہیں کہ ہم حضور ﷺ سے بیان کر سکیں ؟
حضور ﷺ کی 23 برس کی سب سے بڑی سنت اللہ کے دین کے قیام کی جدوجہد کرنا ہے ۔ آپ ﷺ کے بعد آپ ﷺ کے صحابہ کرام ؇نے اپنی پوری پوری زندگیاں اِس سنت کی پیروی میں گزار دیں اور دنیا کے دوردراز علاقوں میں جاکر اللہ کے دین کو قائم کرنے کی جدوجہد کی۔ جنت البقیع میں چند سو صحابہ ؇ کی قبریں ہیں جبکہ باقی تمام کی قبریں دنیا کے دور دراز علاقوں میں ہیں ۔ یہ اِس بات کی علامت ہے کہ صحابہ ؇ نے اپنے گھر بار ، تجارت ، وطن اور دنیوی زندگی کو ترجیح نہیں دی بلکہ آپﷺ سے محبت کو اپنے گھر بار ، اپنے کاروبار ، اپنے پیاروں پر ترجیح دی اور آپ ﷺ سے محبت کے اصل تقاضے کو پورا کرنے کے لیے دنیا میں نظام عدل اجتماعی کے قیام کی جدوجہد میں حصہ لیا ۔
آج ہمارا طرز زندگی کیا ہے ؟ذرا تنہائی میں بیٹھ کر ہم سوچیں کہ کیا ہم حضور ﷺ سے محبت کے تقاضوں پر عمل پیرا ہیں ؟ کیا آپ ﷺ 23 برس کی سنت کو ہم نے بھلا نہیں دیا ؟ آج ہم سال میں ایک مرتبہ 12 ربیع الاول منا کر یا واجبی سی ،رسمی سی چند کارروائیوں پر مطمئن ہو کر بیٹھ گئے کہ شاید سنت کے تقاضے پورے ہو گئے ۔ حالانکہ ایسا قطعاً نہیں ہے ۔ حضورﷺ اُمّت کوایک مکمل دین دے کر گئے تھے ، دعوتِ دین اور نفاذِ دین کی سنت بھی دے کرگئے تھے ۔ اس مکمل دین پر عمل پیرا ہوں گے اور ان سنتوں پر بھی عمل پیرا ہوں گے تو آپ ﷺ سے محبت کے دعویٰ پر سچے ہوں گے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں حضور ﷺسے سچی محبت بھی عطا فرمائے اور اس کے تقاضوں پر عمل پیرا ہونے کی توفیق بھی عطا فرمائے ۔ آمین !