اداریہ
رضاء الحق
دفاعِ پاکستان: نظریۂ پاکستان کی عملی تعبیر!
پاکستان ایسا منفرد ملک ہے جہاں کے رہنے والوں کی زبانیں ، رنگ اوررہن سہن سب مختلف ہونے کے باوجود تحریکِ پاکستان کے دوران کلمہ کی بنیاد پر ہم سب ایک ہو گئے۔ مسلمانانِ ہند کی زبان پر کلمہ چلا تو اللہ تعالیٰ نے ہمیں الگ خطۂ زمین سے نواز دیا۔ تقریباً دو سال تک حکومت گومگو کی صورت میں رہی اسلام کی طرف بڑھنے کے اعلانات کرتی رہی لیڈر بیان دیتے رہے لیکن کوئی عملی قدم نہ اٹھایا جا سکا البتہ یہاں یہ وضاحت بہت ضروری ہے کہ قائداعظم محمد علی جناح نومسلم علامہ محمد اسد کی سربراہی میںDepartment of Islamic Reconstruction کے نام سے ایک شعبہ قائم کر چکے تھے حالانکہ پاکستان بننے کے ایک سال بعد قائداعظم نے بیماری کی حالت میں وقت گزرا اور یہ واحد شعبہ تھا جو قائداعظم نے اپنی زندگی میں قائم کیا تھا۔ اس سے پاکستان کے مستقبل کے حوالے سے قائداعظم کے ارادے بالکل عیاں ہو جاتے ہیں ۔ پھر یہ کہ مولانا شبیر احمد عثمانی ؒ نے اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا اور تنبیہہ کی کہ اگر وہ اسلامی نظام کے نفاذ کے حوالے سے آگے نہ بڑھی تو وہ عوام میں جائیں گے اور لوگوں کو بتائیں گے کہ مسلم لیگ ایک دھوکہ باز جماعت ہے اور قیامِ پاکستان کے حوالے سے اُس نے زبردست دھوکہ کیا ہے۔ یہ دھمکی کارگر ثابت ہوئی اور اسمبلی نے قرار دادِ مقاصد منظور کر لی۔ لیکن بدقسمتی سے اس قرار داد پر عمل درآمد نہیں کیا گیا۔ پھر 1951ء میں تمام مسالک و مکاتبِ فکر کے 31 جید علماء کرام نے متفقہ طور پر 22 نکات بھی پیش کر دیئے کہ اِن کے مطابق حکومت پاکستان میں نفاذِ شریعت کردے، ہمیں کوئی اعتراض نہیں! لیکن مزید دو سال تذبذب میں گزر گئے۔ 16 اکتوبر 1951ء کو وزیر اعظم لیاقت علی خان کو شہید کر دیا گیا، شنید ہے کہ انہوں نے نہ صرف قرار دادِ مقاصد کو عملی شکل دینے کا عہد کر لیا تھا بلکہ وہ اِس حوالے سے کچھ اقدام کرنا چاہ رہے تھے لہٰذا اُن کا ’’کانٹا ہی نکال دیا گیا‘‘۔ پھر بار بار مارشل لاء لگے اورہرآنے والے کا استقبال ہوا۔ مارشل لاء لگنے کے ساتھ ہی ملک کا پہیہ الٹا چل پڑا۔ملک کو ایک اسلامی نظامِ حکومت کی بجائے سیکولر نظامِ حکومت کے تحت چلایا جانے لگا، جو بدقسمتی سے آج تک قائم ہے۔
اسی طرح بدترین معاشی استحصال کا معاملہ رہا جوآج تک قائم ہے، جس نے غریب ہی نہیں متوسط طبقہ کو بھی زندہ درگور کر دیا اور اُنہیں ’ضیق‘ کی زندگی گزارنے پر مجبور کر رکھا ہے (طٰہٰ:124)
سود کے خلاف فیصلوں پر فیصلے آتے گئےلیکن تمام حکومتیں، بنک دولت پاکستان اور مقتدر حلقے اِن پر حقیقی عمل درآمد کے لیے کوئی روڈ میپ بنانے کو تیار نہیں کہ کس طرح ملک کو سود کی لعنت سے پاک کیا جائے اور اللہ اور اُس کے رسولﷺ سے جاری جنگ کا خاتمہ کیا جا سکے( البقرۃ :279)
البتہ کشکول اُٹھائے دنیا بھر میں پھرتے رہے اور آئی ایم ایف سے مزید سودی قرضے لیتے رہے تاکہ اشرافیہ کی عیاشیوں پر خرچ ہوتے رہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان ایک جسد ہے جس کی روح اسلام ہے اور اسلام کے بغیر پاکستان ایک بے روح لاشہ ہے۔قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ اہلِ ایمان کودشمن کے مقابلے میں اپنی تیاری مکمل رکھنے کا حکم دیتا ہے : ’’اور تیاررکھو ان کے (مقابلے کے )لیے اپنی استطاعت کی حد تک طاقت اور بندھے ہوئے گھوڑے (تا کہ ) تم اس سے اللہ کے دشمنوں اور اپنے دشمنوں کو ڈرا سکو اور کچھ دوسروں کو (بھی) جو ان کے علاوہ ہیں۔‘‘(الانفال : 60) لیکن حقیقی ایمان بھی تو دلوں اور اعمال کو مزین کر رہا ہو! جن اٹل حدود کواللہ اور اُس کے رسول ﷺ نے طے کر دیا ہے ، اُن کے مطابق ملک کا نظم و نسق چلایا جائے۔عدل کا بول بالا ہو، عوامی رائے کا احترام ہو، آئین اور قانون میں موجود اسلام سے متضاد تمام شِقوں کا خاتمہ کیا جائے، اسلامی تعلیمات کی روشنی میںملک کے معاشی نظام کو از سرِ نو ترتیب دیا جائے، جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ (اشرافیہ کے) نظام کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکا جائے، معاشرتی اور سماجی سطحوں پر اسلامی تعلیمات سے متصادم ٹرانس جینڈرقانون کوکالعدم قرار دیا جائے،ہر قسم کے میڈیا پر فحاشی و عریانی کی بیخ کنی کی جائے، نظامِ تعلیم و تربیت میں قرآن و سنت (اورحدیث) کو مرکزی حیثیت حاصل ہو، خارجہ پالیسی طے کرتے ہوئے بھی اسلامی تعلیمات کی روشنی میں فیصلے کیے جائیں، الغرض انفرادی اور اجتماعی سطح پر ہر ہر گوشے کو مکمل طور پر اسلامائز کیا جائے اور پاکستان کو حقیقی معنوں میں ایک اسلامی فلاحی ریاست بنایا جائے۔ پھر اللہ کی نصرت بھی آئے گی اور دشمن کے مقابلہ میں غلبہ بھی ملے گا۔ ان شاء اللہ! جیسا کہ فرمایا ’’اے اہلِ ایمان ! اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو اللہ تمہاری مدد کرے گا اور وہ تمہارے قدموں کو جما دے گا۔‘‘(سورۃ محمد: 7)
نبی اکرم ﷺ نے عدل کی صرف دعوت ہی نہیں دی بلکہ اسلام کے اِس عادلانہ نظام کو بالفعل قائم کرکے دکھایا۔ضرورت اِس امر کی ہے کہ ملک میں موجود ظلم و زیادتی کی فضا ءاور سیاسی و طبقاتی کشمکش کو ختم کیا جائے ۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :’’ تم سے پہلی قومیں اِس لیے برباد ہوئیں کہ جب اُن کا کوئی بڑا جرم کرتا تو اُسے چھوڑ دیا جاتا اور جب کوئی معمولی آدمی جرم کرتا تو اُسے سزا دی جاتی ۔‘‘ (صحیح بخاری) ہمیں ہر صورت میں عدل کی گواہی دینی ہے چاہے وہ گواہی ہمارے خلاف ہی کیوں نہ جاتی ہو۔اگر ہمیں روزِ محشر کی پکڑ کا پختہ یقین ہو گا تو ہم ہر سطح پر عدل کریں گے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’اے اہلِ ایمان کھڑے ہوجاؤ پوری قوت کے ساتھ عدل کو قائم کرنے کے لیے اللہ کے گواہ بن کر خواہ یہ (انصاف کی بات اور شہادت) تمہارے اپنے خلاف ہو یا تمہارے والدین کے یا تمہارے قرابت داروں کے چاہے وہ شخص غنی ہے یا فقیر اللہ ہی دونوں کا پشت پناہ ہے تو تم خواہشات کی پیروی نہ کرو مبادا کہ تم عدل سے ہٹ جاؤ۔ اگر تم زبانوں کو مروڑو گے یا اعراض کرو گے تو (یاد رکھو کہ) اللہ تعالیٰ تمہارے ہر عمل سے پوری طرح باخبر ہے۔‘‘(النساء: 135)
کیا یہ کسی المیہ سے کم ہے کہ آج آپﷺ کے نام لیوا صرف زبان پر کلمہ ہونے سے اللہ کی نصرت کی امید رکھتے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ ہم غالب تب ہی رہیں گے جب حقیقی و قلبی ایمان والے ہوںگے۔جیسا کہ فرمایا: ’’اور نہ کمزور پڑو اور نہ غم کھاؤ اور تم ہی سربلند رہو گے، اگر تم مؤمن ہوئے۔‘‘( آل عمران: 135)
آج پوری قوم (جس میں حکمران، عدلیہ، کاروباری طبقہ، سول و ملٹری بیوروکریسی سے لے کر ریڑھی بان، رکشہ ڈرائیور، مزدور، کاشتکار سب شامل ہیں) کو ایسے ایمانی جذبے کی ضرورت ہے جو خلافتِ راشدہ کے سنہری دور سے رہنمائی لیتے ہوئے، قرآن اور سنت و اسوۂ رسول ﷺ کی پیروی کرتے ہوئے، اُن زریں اسلامی اصولوں کے مطابق ملک میں نظامِ عدلِ اجتماعی کو قائم و نافذ کرنے کی جدو جہد کریں ۔نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’بیشک اللہ تعالیٰ بہت سی قوموں کو اس قرآن کی برکت سے بلند کرے گا اور دوسروں کو زیر کرے گا۔‘‘ ( سنن دارمی) مصورِ پاکستان علامہ اقبال کے نزدیک بھی ہماری ذلت و رسوائی کی وجہ تارکِ قرآن ہونا تھا۔ ؎
وہ زمانے میں معزّز تھے مسلماں ہو کر اور تم خوار ہوئے تارکِ قُرآں ہو کر یہاں ہم یہ بھی تذکرہ کرتے چلیں کہ بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرار احمد ؒ نے پاکستان میں نظام کی تبدیلی کے لیے انقلابِ نبوی ﷺ کی بڑی تفصیل سے وضاحت فرمائی ہے۔اَس حوالے سے اُن کے آڈیو/ویڈیو لیکچرز بھی موجود ہیں اور اُن کی انتہائی اہم تصنیف منہج انقلاب نبوی ﷺ (جس کا خلاصہ اُن کے کتابچہ رسولِ انقلابﷺ کا طریقہ انقلاب کی صورت میںبھی موجود ہے) کا مطالعہ انتہائی مفید ہے۔دوسری بات یہ کہ تنظیم اسلامی کے نزدیک ہمیں پُر امن ، منظم اور غیرمسلح تحریک کے ذریعہ پاکستان میں اسلامی انقلاب برپا کرنے کی جدوجہد کرنا ہوگی۔ یہ اِس لیے کہ موجودہ استحصالی و باطل نظام سے ایک بڑی تعداد میں افراد و اداروں کے مفادات وابستہ ہیں، لہٰذا ریاست اِس انقلابی تبدیلی کے لیے کی جانے والی جدوجہد کوکچلنے کے لیے لامحالہ اپنی پوری طاقت استعمال کرے گی، جس کا ایک عام جماعت مقابلہ نہیں کر سکتی۔ پھر یہ کہ حکمران اور مقتدر حلقوں کے لوگ بھی مسلمان ہیں اور بہرحال خروج کرنے اورکسی مسلمان کی جان لینے کی فقہاء نے بڑی سخت شرائط بیان کی ہیں، جو ہمارا اِس وقت کا موضوع نہیں۔
حقیقت یہ ہےکہ انتخابی سیاست کے راستے نظام چل تو سکتا ہے لیکن بدل نہیں سکتا۔ ہم مختلف قسم کے نظام اور طرزِ ہائے حکومت اپنا کر78سال سے ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ پاکستان میں نفاذِعدلِ اسلام ہمارے ایمان کا تقاضا ہے پھر یہ کہ موجودہ ملکی اور عالمی حالات کا منطقی اور عقلی تقاضا بھی اِس کے سوا نہیں ہے کہ ہم اپنی اصل کی طرف لوٹیں۔پاکستان کے دشمن ہماری نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کو کمزور کرنے کی بھر پور کوشش کر رہے ہیں۔ ایک طرف اسرائیل اور امریکہ کی نظرِ بد پاکستان کے ایٹمی اور میزائل پروگراموں پر گڑی ہوئی ہے کہ اِسے کیسے نقصان پہنچایا جائے تاکہ نیتن یاہو کے ’تاریخی‘ اور ’روحانی‘ مشن یعنی گریٹر اسرائیل کے قیام کے شیطانی منصوبہ کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ کو ہٹایا جا سکے۔ حال ہی میں قطر پر حملہ کرکے حماس کی اعلیٰ سیاسی قیادت کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کا منصوبہ بنایا گیا جسے اللہ تعالیٰ نے ناکام بنا دیا، لیکن یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ اسرائیل کا سب سے اہم ہدف پاکستان کو کمزور کرنا ہے تاکہ گریٹراسرائیل کے منصوبے کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ کو دور کیا جا سکے۔ دوسری طرف مودی کا انتہا پسندانڈیا اکھنڈ بھارت اور ہندوتوا کے خوابوں کو پورا کرنے کے لیے پاکستان کو ’’رام‘‘ کرنے کے لیے بے چین ہے۔ اندرونی طور پر پاکستان بدترین سیاسی اور معاشی بحران کا شکار ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے خصوصاً نوجوان نسل کی حیاء یعنی ایمان پر کاری ضربیں لگا ئی جا رہی ہیں۔ اگر اُنہیں قرآن اور صاحبِ قرآنﷺ سے جوڑنے میںمزید غفلت برتی گئی تو شیطان کا ٹولا اُنہیں اُچک کر لے جائے گا۔دہشت گردی کے عفریت نے بعض صوبوں میں امن و امان کو تباہ کر رکھا ہے اور مقتدر حلقے ماضی کی غلطیاں دہراتے ہوئے پھر آپریشن کر رہے ہیں۔
ماہِ ستمبر میں یومِ دفاع (یا 10مئی کو ہر سال یومِ ِ’بنیان مرصوص‘ )منا کر ہم گہرے بادلوں کی طرح واضح طور پر چھائے ہوئے خطرات سے نہیں نمٹ سکتے۔ہم یہ نہ بھولیں کہ1971ء میں پاکستان پر اللہ تعالیٰ کے عذاب کا ایک کوڑا برسا جب سقوطِ ڈھاکہ، جسے اصلاً سقوطِ مشرقی پاکستان کہنا چاہیے، کا جانکاہ قومی و ملی سانحہ پیش آیا ۔
پاکستان اسلام کے نام پر قائم ہوا تھا اور اسلام کے عطاکردہ عادلانہ نظام ہی میں پاکستان کی بقاء ، سلامتی، سالمیت اور خوش حالی مضمر ہے۔ لہٰذا ضرورت اِس امر کی ہے کہ جو مہلت اللہ تعالیٰ نے ہمیںدی ہے اُس سے بھرپور فائدہ اُٹھائیں۔ہمارا کامل ایمان ہونا چاہیئے کہ صرف اللہ ہی ہمارا حقیقی سہارا ہے اُس کے سوا تمام سہارے دَجل و فریب ہیں جو ہماری ہلاکت کا باعث بنیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح فیصلہ کرنے اور پھر اُس پر استقامت کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!
tanzeemdigitallibrary.com © 2025