قرض کا لین دین اور اسلامی تعلیمات
شعبہ تعلیم و تربیت
دنیا میں زندگی گزارتے ہوئے بعض اوقات ایسے حالات پیدا ہو سکتے ہیں کہ نہ چاہتے ہوئے بھی کسی سے اُدھار لینا ضروری ہو جاتا ہے۔ اس لیے اسلام میں اس ناگزیر ضرورت کا لحاظ رکھتے ہوئے قرض کے لین دین کی گنجائش رکھی گئی ہے۔ مگر عام حالات میں بلا وجہ قرض لینا یا نمود و نمائش کے لیے شادی بیاہ پر خرچ کے لیےقرض لینا اچھی بات نہیں ہے۔
قرض لینا بڑی بھاری ذمہ داری ہے۔ قرض دار کو قرضہ کی رقم واپس کرنا ہوتی ہے۔ اگر کوئی شخص فوت ہو جائے اور اُس کے ذِمّہ قرض کی رقم ہو، تو وہ اس وقت تک سبکدوش نہیں ہوتا جب تک اُس کے ورثاء یا کوئی اور شخص وہ رقم ادا نہ کر دے۔قرآن مجید میں جہاں دوسرے اہم احکام بیان کیے گئے ہیں، وہاں قرض کے معاملات کو گواہوں کی موجودگی میں لکھ لینے کی سختی سے تاکید کی گئی ہے، تاکہ رقم کی مقدار اور ادائیگی کے طریقہ کار میں بھول چوک کا امکان نہ رہے۔
رسول اللہ ﷺ کا معمول تھا کہ جب کوئی جنازہ آتا تو پوچھتے کہ اس کے ذِمّہ کوئی قرض تو نہیں ہے؟ اگر قرض ہوتا تو اُس کا جنازہ پڑھنے سے گُریز فرماتے۔ ایک مرتبہ ایک جنازہ آیا تو آپ ﷺ نے پوچھا: ’’اس کے ذِمّہ قرض ہے؟ ‘‘بتایا گیا: ’’نہیں‘‘، تو آپﷺ نے اُس کا جنازہ پڑھا دیا۔پھر ایک اور جنازہ لایا گیا، آپ ﷺ نے پوچھا: ’’اِس کے ذِمّے قرض ہے؟‘‘ بتایا گیا: ’’ہاں‘‘، پوچھا: ’’کچھ چھوڑ کر مرا ہے؟‘‘ بتایا: ’’ہاں، تین دینار‘‘۔ پس آپ ﷺ نے اس کا جنازہ بھی پڑھا دیا۔
پھر تیسرا جنازہ لایا گیا، آپ ﷺ نے پوچھا: ’’اس کے ذمہ قرض ہے؟‘‘ بتایا گیا: ’’ہاں‘‘۔ پوچھا گیا: ’’کچھ چھوڑا؟‘‘ لوگوں نے کہا: ’’نہیں‘‘۔آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تم خود ہی اپنے ساتھی کا جنازہ پڑھ لو۔‘‘
یہ سن کر حضرت ابو قتادہ ً نے عرض کیا: ’’یارسول اللہ ﷺ!
اِس کا جنازہ آپؐ پڑھا دیجیے، اس کا قرض میرے ذِمّہ ہے۔‘‘چنانچہ آپ ﷺ نے اُس کی نماز جنازہ پڑھا دی۔ (صحیح بخاری)
ابتدا میں تو یہ صورت حال رہی، بعد ازاں جب افلاس و ناداری کا دور ختم ہو گیا تو آپ ﷺ نے اعلان فرما دیا کہ’’جو شخص اِس حال میں مر جائے کہ اُس کے ذِمّہ قرض ہو تو اُس کے قرض کی ادائیگی میں کر دیا کروں گا۔‘‘
نبی اکرمﷺ کے اِس دنیا سے رحلت فرمانے کے بعداب اسلامی حکومت کی یہ ذِمّہ داری ہے کہ قرض خواہ کے انتقال کے بعد اُس کے ورثاء کو اُس کا قرض اُتارنے پر مجبور کرے اور اگر ورثاء بھی مالی طور پر کمزور ہوں تو حکومت بیت المال سے اُس شخص کا قرضہ ادا کرنے کی ذِمّہ دارہوگی۔
اِس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ اِس بات کو پسند نہیں فرماتے تھے کہ مرنے والا اپنے سر پر قرض لے کر مرے۔
یہ معاملہ اُن کے لیے بہت سنگین ہو سکتا ہے۔
حضرت ابو موسیٰ اشعری ؒ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ان کبیرہ گناہوں کے بعد جن سے اللہ تعالیٰ نے سختی سے منع فرمایا ہے، سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ آدمی اِس حال میں مرے کہ اُس پر قرض ہو اور وہ اُس کی ادائیگی کا سامان نہ چھوڑ گیا ہو۔‘‘(سنن ابی دائود)
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’مومن بندے کی روح، قرضہ کی وجہ سے، بیچ میں معلق رہتی ہے جب تک وہ قرض ادا نہ کر دیا جائے جو اُس کے ذِمّہ ہے۔‘‘(رواہ الترمذی)
اس لیے ایسے شخص کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اُس کے وارث جلد از جلد اُس کا قرض ادا کر دیں تاکہ مرنے والا راحت اور رحمت کے اُس مقام تک پہنچ جائے جس کامومنین صالحین سے وعدہ کیا گیا ہے۔جیسا کہ اوپر ذکر ہوا، ناگزیر حالات میں قرض لینے کی اجازت ہے۔ مگر قرض صرف اتنی مقدار میں لینا چاہیے جتنا ضرورت ہو، اور اس کا مستقبل میں ادا کرنا بھی ممکن ہو، اور اسے ادا کرنے کی نیت بھی ہو۔ایسے حالات اور نیت کے ساتھ قرضہ لیا جائے تو اللہ تعالیٰ اُس کی واپسی کے لیے حالات بھی پیدا فرما دیتا ہے۔وہ شخص جو اِس نیت سے قرضہ لیتا ہے کہ اُسے واپس نہیں کرنا، تو اُسے نہ تو واپسی کی توفیق ہوتی ہے، اور نہ ہی وہ قرضہ سے فارغ ہوتا ہے، بلکہ وہ قرضہ دنیا میں بھی اِس کے لیے وبالِ جان بن جاتا ہے۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’جو شخص لوگوں سے اُدھار مال لے اور اُس کی نیت ادا کرنے کی ہو تو اللہ تعالیٰ اس سے ادا کروا دے گا، اور جو کوئی کسی سے اُدھار لے اور اُس کا ارادہ ہی اسے ہڑپ کرلینے کا ہو، تو اللہ تعالیٰ اسے تلف اور تباہ کر دے گا۔‘‘(صحیح بخاری)
دوسری طرف خوشحال لوگوں کو ترغیب دی گئی ہے کہ اگر مقروض وقت پر رقم ادا نہ کر سکے تو اُس کی بدحالی اور مجبوری کے پیشِ نظر اسے مہلت دی جائے اور نرمی اختیار کی جائے۔
امام احمد، ابن ماجہ اور حاکم نے رسول اللہﷺ کا یہ ارشاد گرامی نقل کیا ہے کہ جو شخص مفلس و تنگ دست کو قرض دے کر مہلت دے تو ادائیگی کا دن آنے تک اُس کو ہر دن کے بدلے اُس کے قرض کے برابر صدقہ کا ثواب ملتا ہے اور پھر جب ادائیگی کا وقت آئے اور وہ پھر اُسے مہلت دے دے تو اس کو ہر دن کے بدلے اس کے قرض کی دگنی مقدار کے برابر ثواب ملتا ہے۔
بخاری و مسلم میں ایک حدیث ہے کہ: ’’ایک شخص سے اُس کی موت کے بعد پوچھا گیا: اپنی دنیاوی زندگی پر نظر ڈال اور بتا کہ تیرا کوئی نیک عمل ہے جو تیرے لیے وسیلۂ نجات بن جائے؟‘‘
وہ عرض کرتا ہے: میرے علم میں میرا کوئی ایسا عمل نہیں، سوائے اس کے کہ میں لوگوں کے ساتھ کاروبار اور خرید و فروخت کا معاملہ کیا کرتا تھا، تو میرا رویہ ان کے ساتھ درگزر اور احسان کا ہوتا تھا۔
میں مالدار کو بھی مہلت دیتا تھا، اور غریبوں اور مفلسوں کو معاف کر دیا کرتا تھا۔اس پر اللہ تعالیٰ اس شخص کے لیے جنت میں داخلے کا حکم فرما دیتا ہے۔‘‘
قرض کے لین دین کی دستاویز تیار کرنا بہت ضروری ہے
جیسا کہ سورۃ البقرہ آیت نمبر 282 میں تاکید کی گئی:
{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَدَايَنتُمْ بِدَيْنٍ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى فَاكْتُبُوهُ} ’’اے ایمان والو! جب تم کسی مقررہ مدت کے لیے آپس میں قرض کا لین دین کرو، تو اسے لکھ لیا کرو۔‘‘
عام طور پر اس حکم کو بھی نظر انداز کر دیا جاتا ہے اور مروّت کے پیشِ نظر قرض کی رقم اور شرائطِ ادائیگی پر مشتمل تحریر کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی، مگر بات اُس وقت بگڑتی ہے جب جھگڑے اُٹھتے ہیں۔ تب اس حکم کی اہمیت اور اُس کو نظر انداز کرنے کے نقصانات سامنے آتے ہیں۔ لہٰذا:
قرآن مجید کی مندرجہ بالا حکیمانہ اور روشن ہدایت کو مدنظر رکھتے ہوئے، رفقائے تنظیم اسلامی سے گزارش ہے کہ وہ آپس کے مالی معاملات میں، خواہ وہ قرض کی صورت میں ہوں یا کسی بھی نوع کی کاروباری شراکت کا معاملہ ہو، درج ذیل امور کا ضرور خیال رکھیں تاکہ بعد کی بدمزگیوں سے محفوظ رہیں۔
1۔ جب بھی رفقاء آپس میں لین دین کا معاملہ کریں تو اُسے باقاعدہ تحریری معاہدے کی صورت میں مرتّب کریں۔
2۔ اس تحریری معاہدے پر تنظیم اسلامی کے دو مقامی ذِمّہ داران کو گواہ ٹھہرایا جائے اور اس تحریر کی ایک کاپی مقامی امیر یا امیر حلقہ کو بھی فراہم کر دی جائے۔البتہ یہ واضح رہے کہ ان معاملات میں تنظیم اسلامی پر کوئی ذِمّہ داری عائد نہیں ہوتی بلکہ فریقین ہی کی ذِمّہ داری ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اول تو قرض لینے سے ہی محفوظ رکھے، اور ناگزیر حالات میں قرض لینے کی صورت میں اس کی جلد از جلد ادائیگی کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین!