(تجزیہ) قائد اعظم کیسا پاکستان چاہتے تھے؟ - ڈاکٹر ضمیر اختر خان

12 /

قائد اعظم کیسا پاکستان چاہتے تھے؟

ڈاکٹر ضمیر اختر خان

آج اگر ہم یہ معلوم کرنا چاہیں کہ قائد اعظم محمد علی جناح کس قسم کا پاکستان چاہتے تھے تو ہمارے پاس سوائے اُن کی تقاریر اور بیانات کے اور کوئی ذریعہ نہیں ہے جس سے ہمیں اس سوال کا جواب مل سکے۔ ویسے توہمارے علم کے مطابق قائد کے 101 ارشادات پاکستان بننے سے پہلے کے ہیں اورلگ بھگ14 بیانات قیام پاکستان کے بعد کے ہیں جن میں واشگاف انداز میں پاکستان کو اسلامی ریاست بنانے کا اعلان ہی نہیں بلکہ عزم وارادے کا اظہار بھی ہے۔ آپ کے 115 اقوال ایک طرف اور 11 اگست 1947ء والا ایک بیان دوسری طرف رکھ کر غور وفکر کیا جائے تو بھی یہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ جو بات آپ نے باربار فرمائی وہ زیادہ معتبرہے بمقابلہ اس بات کے جو آپ نے ایک دفعہ فرمائی۔ 
بحیثیت مسلمان ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ بالفرض نہ قائداعظم نے اور نہ ہی علامہ اقبال نے کوئی ایسی بات کہی ہوتی کہ برعظیم کے رہنے والے مسلمانوں کے لیے  علیحدہ ملک کے حصول کے بعد وہاں اسلامی نظام کا نفاذ ہوگا، تب بھی بطور مسلمان ہم پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ فرض عائدہوتا ہے کہ مملکت خداداد پاکستان کی صورت میں ہمیں جو اقتدارحاصل ہوا ہے، اس میں ہم اللہ تعالیٰ کا عطاکردہ نظام نافذکریں۔ درج ذیل آیت اِس ذِمّہ داری کو واضح طور پر بیان کرتی ہے :
{اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّکَّنّٰہُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّکٰوۃَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَہَوْا عَنِ الْمُنْکَرِط وَلِلہِ عَاقِبَۃُ الْاُمُوْرِo}(الحج)’’وہ لوگ کہ اگر انہیں ہم زمین میں تمکن ّعطا کر دیں تو‘وہ نماز قائم کریں گے‘اور زکوٰۃ ادا کریں گے‘اور وہ نیکی کا حکم دیں گے اور برائی سے روکیں گے۔ اور تمام امور کا انجام تو اللہ ہی کے قبضہ ٔقدرت میں ہے۔‘‘
مسلمانوں پر لازم ہے کہ اگر دنیا میں اُنہیں حکومت و فرمانروائی بخشی جائےتو اُن کا ذاتی کر دار فسق و فجور اور کبر و غرور کے بجائے اقامت صلوٰۃ ہو، ان کی دولت عیاشیوں اور نفس پرستیوں کے بجائے ایتائے زکوٰۃ میں صرف ہو، اُن کی حکومت نیکی کو دبانے کے بجائے اُسے فروغ دینے کی خدمت انجام دے اور ان کی طاقت بدیوں کو پھیلانے کے بجائے اُن کے دبانے میں استعمال ہو۔ متذکرہ بالا آیت میں اسلامی حکومت کے نصب العین اور اُس کے کارکنوں اور کار فرماؤں کی خصوصیات کا جوہر نکال کر رکھ دیا گیا ہے۔ کوئی سمجھنا چاہے تو اسی ایک آیت سے سمجھ سکتا ہے کہ اسلامی حکومت فی الواقع کس چیز کا نام ہے۔
جو مسلمان یا غیر مسلم یہ سمجھتے ہیں کہ اسلامی نظام حکومت کا مطلب مذہبی لوگوں کی من مانی حکومت ہے یا جسے وہ مذہبی پیشوائیت کہتے ہیں ، وہ بہت بڑی غلط فہمی کا شکار ہیں۔ انہیں چاہیے کہ اسلام کے نظام حیات کا مطالعہ کریں اور اسلام کو انسانی ساختہ مذاہب کے ساتھ نہ ملائیں بلکہ قرآن وسنت کی تعلیمات کی روشنی میں اسے سمجھیں۔ ان شاء اللہ ان پر حقیقت واضح ہو جائے گی۔
ہمارے کچھ دانشور صحافی جن میں وجاہت مسعود صاحب بھی شامل ہیں،بابائے قوم کی 11 اگست 1947ء والی تقریرکا وقفے وقفے سے ذکر کرکے یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ قائد اعظم پاکستان کو لادین (Secular) ریاست بنانا چاہتے تھے۔ 27 اگست 2025ء کو وجاہت صاحب نے اپنے کالم بعنوان ’’بابائے قوم کی تقریراور تصورریاست‘‘ میں لادینیت (Secularism) کی بجائے مختلف پیرایہ بیان اختیار فرمایا ہے۔لکھتے ہیں: ’’مسلم لیگ اور قائداعظم کی تمام جدوجہد ہندوستانی مسلمانوں کے لیے آئینی تحفظات کی سیاسی جدوجہد تھی۔‘‘ اسی کے ساتھ یہ بھی لکھا ہے کہ’’ قائداعظم تحریک خلافت، پین اسلام ازم اور پیشوائیت سے متفق نہیں تھے۔     قیام ِپاکستان کے بعد بھی قائداعظم نے درجنوں مواقع پر پاکستان میں جمہوریت اور اقلیتوں کے لیے مساوی حقوق کا اعلان کیا اور پیشوائیت کو مسترد کیا۔‘‘
یہ درست ہے کہ خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد برعظیم میں چلائی جانے والی ’’تحریک خلافت‘‘میں     قائد اعظم شامل نہیں ہوئے مگر اس کے باوجود وہ اپنے انتقال سے پہلے پاکستان کو ’’خلافت راشدہ‘‘ کا نمونہ بنانے کی انتہائی آرزو رکھتے تھے اور اس کی اتنی تاکید کی کہ شدید علالت کی وجہ سے نقاہت اتنی تھی کہ بول نہیں سکتے تھے لیکن انتہائی بے تابی کے عالم میں اپنی آخری تمنا کا اظہارکیا تھا۔قیامِ پاکستان کے ٹھیک ایک سال بعد قائد اعظم انتہائی علالت کے عالم میں‘ زیارت ریذیڈنسی میں‘ گویا بستر مرگ پر اپنی زندگی کے آخری ایام گزار رہے تھے تو اُن کا علاج کرنل الٰہی بخش اور ڈاکٹر ریاض علی شاہ پوری توجہ اور جانفشانی سے کر رہے تھے۔ دونوں معالجوں نے بعد میں اپنی یادداشتیں بھی تحریر کی ہیں۔ ڈاکٹر ریاض علی شاہ کی یادداشت کا ایک اقتباس روزنامہ ’’جنگ‘‘ نے اپنی 11ستمبر1988ء کی ایک خصوصی اشاعت میں شائع کیا تھا‘ جس میں قائد اعظم نے پاکستان کے مستقبل کا پورا خاکہ اہلِ پاکستان کے سامنے رکھ دیا ہے:
’’میرے لیے یہ بات حیرت کا باعث تھی کہ لاہور سے زیارت تک کا سفر طے کر کے میں شدید بیماری میں مبتلا   قائد اعظم کے کمرے میں داخل ہوا تو اس کے باوجود کہ   بانی ٔ پاکستان انتہائی کمزور ہو چکے تھے اور ان کا جسم کمبل میں لپٹا ہوا تھا‘ انہوں نے اپنا ہاتھ باہر نکالتے ہوئے مجھ سے نہایت گرم جوشی سے مصافحہ کیا اور پوچھا ’’آپ کو راستے میں کوئی تکلیف تو نہیں ہوئی؟‘‘ مرض الموت میں مبتلا اس عظیم انسان کے اخلاق‘ تواضع اور انکساری کی یہ اچھوتی مثال تھی‘ حالانکہ مجھ سے ہاتھ ملانے اور مزاج پرسی کرنے ہی سے وہ ہانپنے لگے اور بعد میں کئی منٹ تک آنکھیں بند کیے لیٹے رہے۔ 
برصغیرکے مسلمانوں کو ایک آزاد وطن سے روشناس کرانے والے قائد اعظم کا خدا پر ایمان اور اصولوں پر یقین ہمارے لیے خوشگوار حیرت کا باعث تھا۔ قائد اعظم بظاہر ان معنوں میں مذہبی رہنما نہ تھے جن معنوں میں عام طو رپر ہم مذہبی رہنماؤں کو لیتے ہیں ‘لیکن مذہب پر اُن کا یقین کامل تھا۔ ایک بار دوا کے اثرات دیکھنے کے لیے ہم ان کے پاس بیٹھے۔ میں نے دیکھا کہ وہ کچھ کہنا چاہتے ہیں ‘لیکن ہم نے بات چیت سے منع کر رکھا تھا‘ اس لیے الفاظ لبوں پر آ کر رک جاتے ہیں۔ اس ذہنی کشمکش سے نجات دلانے کے لیے ہم نے خود انہیں دعوت دی تو وہ بولے:
’’تم جانتے ہو‘ جب مجھے یہ احساس ہوتا ہے کہ پاکستان بن چکا ہے تو میری روح کو کس قدر اطمینان ہوتا ہے! یہ مشکل کام تھا اور میں اکیلا اسے کبھی نہیں کر سکتا تھا۔ میرا ایمان ہے کہ یہ رسولِ خداﷺ کا روحانی فیض ہے کہ پاکستان وجود میں آیا۔ اب یہ پاکستانیوں کا فرض ہے کہ وہ اسے خلافت راشدہ کا نمونہ بنائیں‘تاکہ خدا اپنا وعدہ پورا کرے اور مسلمانوں کو زمین کی بادشاہت دے۔پاکستان میں سب کچھ ہے۔ اس کی پہاڑوں‘ ریگستانوں اور میدانوں میں نباتات بھی ہیں اور معدنیات بھی۔ انہیں تسخیر کرنا پاکستانی قوم کا فرض ہے۔ قومیں نیک نیتی‘ دیانت داری ‘ اچھے اعمال اور نظم و ضبط سے بنتی ہیں اوراخلاقی برائیوں‘ منافقت‘ زرپرستی اور خودپسندی سے تباہ ہو جاتی ہیں۔‘‘
ڈاکٹر ریاض علی شاہ کی ڈائری کا مذکورہ بالا طویل اقتباس قصداً اس لیے پیش کیا گیا ہے تاکہ ہمارے   دانشور وصحافی حضرات غورفرمائیں کہ اتنی وضاحت اور دوٹوک انداز میں قائد اعظم آخری کلمات میں پاکستان کی منزل ’’نظامِ خلافت ِراشدہ‘‘کوقرار دیتے ہیں تو ہمارے یہ بھائی قائد کی بات مان کر پاکستان کو اسلامی فلاحی مملکت بنانے میں اپنا کردار ادا کریں اور دنیا وآخرت میں کامیابی حاصل کریں۔ اسلام کے عادلانہ نظام میں اقلیتوں کے حقوق کی بھی پاسداری ہو گی اور جمہوریت سے بہتر شورائی نظام ہوگا جس میں انسانوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کے ساتھ ساتھ ان کی ہمیشہ ہمیش کی زندگی میں کامیابی کا اہتمام بھی کیا جائے گا۔ ان شاء اللہ
رہا وجاہت صاحب کا یہ موقف کہ’’پاکستان ایک قومی ریاست کے طور پر وجود میں آیا ۔ قومی ریاست کے تین بنیادی اصول ہیں۔ شہریوں کی حاکمیت اعلیٰ، متعین جغرافیائی حدود اور شہریت کی مساوات‘‘تو یہ بھی ان کا  طبع زاد اور خود ساختہ ہے۔ اس کے لیے قرآن وسنت اور سیرت طیبہ میں کوئی دلیل نہیں ہے۔ بعض دانشور ’’میثاق مدینہ‘‘ کو Inclusive Society/stateکے لیے بنیاد قرار دیتے ہیں حالانکہ یہ نبی ﷺ نے عبوری انتظام کیا تھا تاکہ اہل کتاب اور دیگرقبائل کو اسلامی نظام کی برکات کو قریب سے دیکھنے اور پرکھنے کا موقع ملے۔ اس میں اصل چیزنبیﷺ کی Authority یعنی ’’حَکَم‘‘ ہونے کی حیثیت کو تسلیم کرنا تھا۔ اسی طرح اسلام اللہ تعالیٰ کےسوا کسی کی حاکمیت کو تسلیم نہیں کرتا بلکہ اس کو شرک قرار دیتا ہے(ان الحکم الا للہ)۔اور یہ جان لیجیے وجاہت صاحب کہ اسلامی ریاست جہانی ریاست((World State  ہے اور ’’مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا‘‘ اور اس  کی کامل شہریت بھی صرف اہل ایمان کو حاصل ہو گی۔    البتہ غیرمسلموں کے جان،مال عزت وآبرو کی حفاظت مسلمانوں کی طرح کی جائے گی۔
ہم محترم وجاہت صاحب اور ان کے ہمنواؤں سے عرض کریں گے کہ یقیناً اسلام میں پاپائیت یا پیشوایت کا کوئی تصور نہیں ہے البتہ مسلم اخوت کا تصور ہے اوراس کو اگر Pan Islamism سے تعبیر کیا جائے تواس کا مقصد اقبال کے الفاظ میں ’’حرم کی پاسبانی ‘‘ ہے۔ ساری زمین حضور ﷺ کے لیے مسجد کی طرح ہے ۔ اس میں کہیں خرابی یا فساد رونما ہوتو اس کو دفع کرنا، اس امت  کا ایک فرض منصبی  ہے۔ اس معنیٰ میں جب گاندھی نے قائداعظم سے پوچھا تھا کہ" Are you heading towards Pan Islamism." تو قائداعظم نے فوری جواب دیا تھا" Yes   " ۔’’وجاہت صاحب ! آپ بھی کہہ دیں جی ہاں ہمیں پاکستان میں اسلام کا عادلانہ و منصفانہ نظام چاہیے جو پوری دنیا کے لیے رحمت کا باعث ہو گا۔‘‘ان شاء اللہ
وجاہت صاحب کی بہت سی باتیں محل نظر ہیں۔ کس کس کا جواب دیا جائے اس کے لیے کالم کفایت نہیں کرتا بلکہ ایک مستقل تصنیف درکارہے اور خوش قسمتی سے محترم ڈاکٹراسراراحمد رحمہ اللہ کی تالیف’’استحکام پاکستان ‘‘ موجود ہے۔ ان سے گزارش ہے کہ وہ اس کا ضرور مطالعہ فرمائیں۔ آخرمیں ان کے اٹھائے گئے سوالات دیکھیے۔ فرماتے ہیں ’’ دنیا بھر کی جمہوری حکومتیں دیکھ کر ہمیں بتائیے کہ وہ کون سا ملک ہے جہاں جمہوریت تو موجود ہے لیکن حکومت مذہب، رنگ، زبان یا نسل کی بنیاد پر شہریوں میں تفریق اور درجہ بندی کرتی ہو۔‘‘ ہم ان سے پوچھتے ہیں۔ کیا بھارت دنیاکی سب سے بڑی جمہوریت نہیں ہے ؟ وہاں مسلمانوں اور دیگرمذاہب کے رہنے والوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا ہے؟ کیا برطانیہ جمہوریت کی ماں نہیں ہے؟ کیا وہاں کالے اور گورے مساوی ہیں؟ کیاامریکہ میں جمہوریت نہیں ہے ؟ وہاں اسلام اور نصرانیت یکساں ہیں اور مسلمانوں کے خلاف امتیازوفرق روا نہیں رکھا جاتا؟ اور ہاں کیا امریکی صدر کی حلف وفاداری بائبل کے سائے میں نہیں ہوتی؟ اور جمہوریت کی جنم بھومی فرانس میں مسلمان بچیوں کے سروں سے سکارف نوچے نہیں گئے؟ وجاہت صاحب کچھ توخیال کریں ! آپ مسلمان ہو کر کفرکی نمائندگی کیوں کر رہے ہیں؟