(منبرو محراب) پاک سعودی عرب معاہدہ - ابو ابراہیم

12 /

پاک سعودی عرب معاہدہ

(قرآنی تعلیمات کی روشنی میں)


مسجدجامع القرآن ، قرآن اکیڈمی لاہور میں امیر تنظیم اسلامی محترم شجاع الدین شیخ حفظ اللہ کے19ستمبر 2025ء کے خطاب جمعہ کی تلخیص

خطبہ ٔمسنونہ اور تلاوتِ آیاتِ قرآنی کے بعد!
جمعہ کے خطاب کا ایک بڑا مقصد قرآن حکیم کی آیات کی روشنی میں یاد دہانی ہوتا ہے ۔جیسا کہ اللہ کے رسول ﷺ جمعہ کے خطاب میں قرآن پڑھتے تھے اور اس کی آیات کے ذریعے لوگوں کی تذکیر اور یاددہانی کا اہتمام فرمایا کرتے تھے ۔ اسی طرح اللہ کے رسول ﷺ مسلمانوںکے حالات کا تذکرہ بھی فرمایا کرتے تھےجس میں اصلاح کا پہلو بھی ہوتا تھا ، رہنمائی اورخیرخواہی کا بھی۔مسلمانوں کے حالات سے باخبر رہنا بھی ضروری ہے ۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا : ’’جسے مسلمانوں کے معاملات سے دلچسپی نہ ہو وہ ہم میں سے نہیں۔‘‘ قرآن میں بھی اللہ تعالیٰ فرماتاہے :
{اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ }(الحجرات:10)  ’’یقیناً تمام اہل ِایمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔‘‘
یہ آیت عالم گیر سطح پر اُمت مسلمہ میں بھائی چارہ کا تقاضا کرتی ہے ۔ امت کا درد محسوس کرنا اور کہیں مسلمان بھائیوں کی مدد کی ضرورت ہوتو حسب استطاعت مدد کرنا، اُن کی مشکلات کو حل کرنے کی کوشش کرنا ہمارا دینی فریضہ ہے۔ گزشتہ دنوں قطر سمیت 6 مسلم ممالک پر اسرائیل نے حملہ کیا ۔ اس کے بعد مسلم ممالک کے سربراہان کی کانفرنس دوحہ میں بلائی گئی۔ اس کانفرنس کی جو کارروائی سامنے آئی اور جو اعلامیہ پیش کیا گیا اس کو سن کر بہت مایوسی ہوئی کہ سوائے زبانی کلامی مذمت کے اسرائیل کے خلاف کسی عملی کارروائی کا اعلان تک نہیں کیا گیا ۔ بلکہ جس امریکہ کی پشت پناہی میں اسرائیل جارحیت کا ارتکاب کر رہا ہے، اُس کی    تعریف و تائید کے کلمات اعلامیہ میں شامل تھے ۔ 
سب جانتے بھی ہیں کہ نتن یاہو گریٹر اسرائیل کے منصوبے کو آگے بڑھا رہا ہے اور اس وجہ سے عرب ممالک کی سالمیت خطرے میں پڑ چکی ہے ۔ اُس نے 72 گھنٹوں  میں 6 مسلم ممالک پر حملے کیے اور سرعام اُمت کو للکار رہا ہے ۔ ان حالات میں پوری اُمت کی نگاہیں اس اجلاس پر تھیں کہ سارے مسلم ممالک کے سر ِبراہان جمع ہورہے ہیں اور اب اسرائیل کے خلاف کسی ٹھوس اقدام کا اعلان ہو گالیکن دوحا کانفرنس میں ایسا کچھ نہیں ہوا ۔ تاہم اگلے روز اُمت کے لیے ایک بہت بڑی خوشخبری آگئی ۔ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دفاعی معاہدہ اس شان کے ساتھ طے پایا کہ کسی ایک فریق پر حملہ دوسرے پر بھی حملہ تصور کیا جائے گا ۔ یہ بہت خوش آئند پیش رفت ہے ۔ دونوں ممالک اُمت ِمسلمہ کےاندر بڑی اہمیت کے حامل ہیں ۔ سعودی عرب جہاں مالی اعتبار سے بہت مضبوط ہے، وہاں اُمّت کے مقدس ترین مقامات کا امین ہونے کے ناطے اُمّت کے لیے مرکز کی حیثیت بھی رکھتا ہے جبکہ پاکستان واحد ایٹمی مسلم ملک ہے اور تربیت یافتہ فوج ، بہترین میزائل ٹیکنالوجی اور عسکری اہمیت رکھتا ہے ۔ ان دونوں ممالک کے درمیان دفاعی معاہدہ پوری اُمت کے لیے جہاں خوشی کی بات ہے، وہاں عالم ِکفر میں بڑی مایوسی بھی پھیلی ہے ۔ زلمے خلیل زادجو افغانستان میں امریکہ کا نمائندہ رہا ہے ،نے اپنی پریشانی اور حیرانگی کا اظہار ایکس(سابق ٹویٹر ) کے ذریعے کیا ہے کہ یہ معاہدہ آگے چل کر کیا شکل اختیار کرنے والا ہے ۔ 
تنظیم اسلامی پاکستان کی جانب سے ہمارا یہ موقف ہے کہ یہ بہت خوش آئند قدم اُٹھا یا گیا ہے ، اس سلسلے میں مزید پیش رفت ہونی چاہیے اور دیگر مسلم ممالک کو اس معاہدہ میں شامل کرنا چاہیے ۔
تذکیر بالقرآن 
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے :
’’اور تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم قتال نہیں کرتے، اللہ کی راہ میںاور ان بے بس مردوں‘ عورتوں اور بچوں کی خاطر جو مغلوب بنا دئیے گئے ہیں‘ جو دُعا کر رہے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار‘ ہمیں نکال اِس بستی سے جس کے رہنے والے لوگ ظالم ہیں اور ہمارے لیے اپنے پاس سے کوئی حمایتی بنا دے‘ اور ہمارے لیے خاص اپنے فضل سے کوئی مددگار بھیج دے۔‘‘ (النساء:75)
ہمارا دین ہمیں جنگ کا حکم بھی دیتا ہے ، کوئی سرے سے قتال فی سبیل اللہ کا انکار کرے تو وہ تو قرآن کریم اور سنت رسول ﷺ کا انکار ہوگا۔ البتہ ہمارا دین قتال اور جنگ کی کچھ شرائط بھی عائد کرتاہے جوکہ اپنی جگہ بہت اہم ہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمارا دین جہاد کے مقاصد  بھی بیان کرتاہے ۔ جیسا کہ سورۃ النساء کی اس آیت    میں بہت اہم مقصد بیان ہوا ہےکہ اگر کہیں مسلمان مرد ، بچے اور عورتیں ظلم کا شکار ہوں اور اپنا دفاع کرنے کے قابل نہ ہوں تو اُن کی مدد کے لیے دیگر مسلمان آگے آئیں اور اُن کو ظلم سے نجات دلائیں ۔ اس آیت کے مخاطب مسلم حکمران بھی ہیں، وہ طاقتور طبقات بھی ہیں کہ جن کو اللہ تعالیٰ نے قوت ، اختیار اور وسائل عطا کر رکھے ہیں ، یہ اُن کا بھی امتحان ہے ، ہر چیز کا حساب دینا ہے ۔ 7اکتوبر 2025ء کواہل غزہ پر مسلسل اسرائیلی ظلم ، جبر اور نسل کشی کو دو سال ہو جائیں گے ۔ عرب و عجم کے کچھ علماء نے اِن دوسالوں کے شروع میں ہی اسرائیل کے خلاف جہاد کا فتویٰ دے دیا تھا اور وہ فتویٰ قرآن مجید   کی اسی آیت کی بنیاد پر تھا ۔ اس فتویٰ کے ساتھ    الاقرب فالاقرب کا اصول بھی بیان ہوا تھاکہ جو مسلمان اہل ِغزہ کے جتنے قریب ہیں، اُن پر جہاد کی فرضیت اتنی ہی زیادہ ہے ۔ اگر یہ قریبی بھی اتنی استطاعت نہ رکھتے ہوں کہ مظلوم مسلمان بھائیوں ، بہنوں اور بچوں کو ظلم سے نجات دلا سکیں تو اُن کے بعد والے مظلوموں کی مدد کے لیے نکلیں اور جہاد کریں ۔ پھر اُن کے بعد والے اور اس طرح  یہ دائرہ پوری اُمّت تک پھیل جائے گا۔ البتہ جو مظلوموں  کے جتنے قریب ہوگا، اُس کی ذمہ داری اتنی ہی زیادہ ہوگی ۔ لہٰذا اس آیت کی رو سے جو صاحب اختیار ہیں ، مسلم افواج ہیں ، حکمران ہیں ، سیاستدان ہیں اُن کا فرض بنتا ہے کہ وہ جہاد کریں ۔ صرف مذمتی بیانات دینے سے ذمہ داری پوری نہیں ہوجائے گی۔ پاکستان اور سعودی عر ب کے درمیان مشترکہ دفاعی معاہدے کا ہونا انتہائی خوش آئند ہے ۔ OICکے چارٹر میں یہ شق شامل ہے کہ مسلم ممالک فلسطینی مسلمانوں اور مسجد اقصیٰ کی حفاظت کے پابند ہیں اور ضرورت پڑنے پر فلسطینی مسلمانوں کی مالی ، سفارتی ، اخلاقی اور عسکری مدد بھی کریں گے ۔ 
تذکیر بالقرآن کے تناظر میں دوسری آیت یہ تلاوت کی گئی : 
’’اور تیار رکھو اُن کے (مقابلے کے ) لیے اپنی استطاعت کی حد تک طاقت اور بندھے ہوئے گھوڑے‘(تا کہ )تم اس سے اللہ کے دشمنوں اور اپنے دشمنوں کو ڈرا سکو‘اور کچھ دوسروں کو (بھی)جو ان کے علاوہ ہیں ‘ تم انہیں نہیں جانتے ‘ اللہ انہیں جانتا ہے۔‘‘(الانفال:60)
اصولی بات یہ ہےکہ اپنی عسکری قوت اور تیاری کو بڑھانے کی ہر ممکن کوشش کرو تاکہ تمہارے ظاہری و چھپے دشمن تم سے مرعوب ہو جائیں ۔ اسرائیل اور انڈیا تو کھلے دشمن ہیں ، سامنے آکر دشمنی کا اظہار کر رہے ہیں لیکن کچھ ایسے بھی دشمن ہو سکتے ہیں جوموقع کی تلاش میں ہوں کہ پاکستان ذرا کمزور ہو تو اس کونقصان پہنچائیں اور اس کے  علاقوں پر قبضہ کرلیں ۔ ایسے تمام دشمنوں کو مرعوب رکھنے کے لیے جنگی صلاحیت کو بڑھاتے رہنا دین کا تقاضا ہے ۔ اللہ کے رسول ﷺنے فرمایا کہ قوت پھینکنے میں ہے ۔ کبھی تیر اور نیزے پھینکے جاتے تھے ، مگر آج میزائل چلائے جاتے ہیں ، ڈرونز چھوڑے جاتے ہیں ۔ گویا اللہ کے رسول ﷺ نے رہنمائی دے دی کہ ہر قسم کی تیاری کر رکھو ۔ آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ گھوڑے کی پیشانی پر اللہ نے قیامت تک کے لیے برکت رکھ دی ہے۔ پہلے زمانے میں گھوڑا میدان جنگ کی زینت ہوا کرتا تھا لیکن احادیث میں ہے کہ قیامت سے پہلے ایسا دور آئے گا جب جنگیں ایک بار پھر گھوڑوں اور تیر اور تلواروں کے ذریعے لڑی جائیں گی ۔ آج بھی دشوار گزار علاقوں میں جنگی محاذوں پر گھوڑوں کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ 
عسکری سطح پر اپنی طاقت بڑھانا امن کے لیے بھی ضروری ہے ۔ 14 مئی 1998 کوجب بھارت نے ایٹمی دھماکے کیے تو اگلے روز اخبارات کی شہ سرخیوں میں اُس وقت کے بھارتی وزیراعظم واجپائی کی یہ گیدڑ بھبکی شامل تھی کہ ہم پاکستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے ۔ جواب میں 28 مئی کو پاکستان نے ایٹمی دھماکے کیے تو اگلے روز اُسی واجپائی کا یہ بیان عالمی میڈیا میں بھی نظرآیا کہ ہم پاکستان سے مذکرات کے لیے تیار ہیں ۔ اسلام جنگ برائےجنگ اور قتال برائے قتال ہرگز نہیں چاہتا بلکہ اسلام چاہتا ہے کہ امن کے قیام کے لیے مسلمانوں کے پاس اتنی قوت ہونی چاہیے کہ دشمن جارحیت کا مظاہرہ نہ کر سکے ۔ حضور ﷺنے کئی مرتبہ مختلف لشکروں کو بھیجا اور اُن کو باقاعدہ ہدایت دی کہ صبح ہونے کا انتظار کرنا۔ اگر تمہیں اذان کی آواز آجائے تو جان لو وہاں مسلمان موجود ہیں، لہٰذا حملہ نہ کرنا۔اگر کفار کے ساتھ بھی جنگ کرنی پڑ جاتی تو حضورﷺ ہدایات جاری فرماتے کہ بچوں اور عورتوں کو قتل نہ کرنا ، درختوں اور فصلوں کو نقصان مت پہنچانا ، جو ہتھیار نہ اُٹھائیں ، اُن پر تم بھی رحم کرنا ،جانوروں کو قتل نہ کرنا۔ جو گھر کا دروازہ بند کر لے، اسے چھوڑ دینا۔ جو پناہ مانگے اس کوپناہ دے دینا۔کوئی عبادت میں مشغول ہو تو اس کوہاتھ بھی مت لگانا ۔ گویا اسلام میں جنگ کی اجازت صرف اُنہی سے ہے جو مقابلے میں ہتھیار اُٹھائیں ۔ ( بنو نضیر والا معاملہ استثنائی تھا )قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’اور اگر مشرکین میں سے کوئی شخص آپؐ سے پناہ طلب کرے ‘تو اُسے پناہ دے دو یہاں تک کہ وہ اللہ کا کلام سن لے‘پھر اُسے اُس کی امن کی جگہ پر پہنچا دو۔یہ اس لیے کہ یہ ایسے لوگ ہیں جو علم نہیں رکھتے۔‘‘(التوبہ :6)
اسی سورۃ التوبہ میں یہ بھی حکم ہے کہ اگر کوئی مسلمانوں پر ہتھیار اُٹھائے تو اُس کی گردن اُڑا دو ۔ لیکن جو ہتھیار نہیں   اُٹھاتا ، پناہ طلب کرتاہے تو اس کو نہ صرف پناہ دینی ہے بلکہ اس کو اللہ کا کلام بھی سنانا ہے تاکہ ہدایت اُس تک پہنچ جائے ۔ یہ ہمارے دین کی خوبصورت تعلیمات ہیں ۔ 
اللہ تعالیٰ نے چھپر پھاڑ کر پاکستان کو ایٹمی صلاحیت  دے دی ، اس کی قدر کرنی چاہیے اور اپنی جنگی صلاحیت میں مزید اضافہ بھی کرنا چاہیے ۔ ڈاکٹر اسراراحمدؒ  اکثر فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو جو ایٹمی صلاحیت دی ہے یہ اُمت مسلمہ کی امانت ہے ۔ جب پاکستان نے ایٹمی دھماکے کیے تو جتنی خوشی پاکستان کے مسلمانوں کو تھی ، اتنی ہی فلسطین اور عرب کے دیگر مسلمانوں کوبھی تھی ۔ پاکستان کے معاشی حالات ایسے ہرگز نہیں تھے کہ یہ ایٹم بم بنا سکتا ۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اسباب پیدا کردئیے ۔ ڈاکٹر اسراراحمدؒ یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ پاکستان کا قیام اللہ تعالیٰ کے منصوبوں میں سے ایک منصوبہ ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس ملک سے کوئی بڑا کام لینا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ مشکل حالات میں اللہ تعالیٰ اسے بچاتا رہا ، کبھی سوویت یونین کی وجہ سے پاکستان کو سپورٹ کرنا امریکہ کی مجبوری بن گئی ، اب چین کی مجبور ی ہے کہ وہ پاکستان کو سپورٹ کرے ۔ اسی طرح دیگر مسلم ممالک کے پاس جو صلاحیتیں ہیں وہ بھی اُمت کی امانت ہیں ۔ جیسا کہ عربوںکے پاس پیسہ اورتیل کی دولت ہے ، ترکیہ کے پاس فوج اور ڈرون ٹیکنالوجی ہے ، ملائیشیا معاشی طاقت ہے ، ایران کے پاس میزائل ٹیکنالوجی ہے، افغانستان کے پاس تربیت یافتہ اور بہترین جنگجو ہیں ۔ لہٰذا جس طرح پاکستان اور سعودی عرب نے دفاعی معاہدہ کرکے ایک دوسرے کا بازو بننے کا اعلان کیا ہے اسی طرح دیگر مسلم ممالک بھی ایک دوسرے کے  دست و بازو بن جائیں تو حرمین شریفین کی حفاظت بھی ہوگی اور مسجد اقصیٰ کی حفاظت بھی ممکن ہو گی۔ قرآن مجید میں سورۃ بنی اسرائیل کا آغاز ہی اس آیت مبارکہ سے ہوتاہے :
 ’’پاک ہے وہ ذات جو لے گئی راتوں رات اپنے بندے (ﷺ) کو مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ (دُور کی مسجد) تک جس کے ماحول کو ہم نے با برکت بنایا‘تا کہ ہم دکھائیں اُس (بندے محمدﷺ) کو اپنی نشانیاں۔یقینا ًوہی ہے سب کچھ سننے والا‘دیکھنے والا۔‘‘(بنی اسرائیل :1)
حدیث میں ہے کہ تین مساجد کی زیارت کا ارادہ کر کے  سفر کرنا جائز ہے، ان میں اول مسجد الحرام ، دوسری مسجد نبوی اور تیسری مسجداقصیٰ ہے ۔ ہم اپنے حکمرانوں کو یاددلانا چاہیں گے کہ صرف حرمین شریفین کی حفاظت ہی ہم پر فرض نہیں بلکہ مسجد اقصیٰ کی حفاظت بھی ہم پر فرض ہے۔ نتن یاہو سمیت اسرائیل کے اعلیٰ عہدیداران سرعام اعلان کر رہے ہیں کہ ہم گریٹر اسرائیل بنائیں گے ، شام ، لبنان ، اردن سمیت کئی عرب علاقوں پر قبضہ کریں  گے ، یہاں تک کہ وہ مدینہ منورہ پر قبضے کی بات بھی کرتے ہیں ۔ لہٰذا مسلم ممالک کو بھی چاہیے کہ وہ صرف دفاعی انداز اختیار نہ کریں ، صرف دفاعی معاہدے نہ کریں بلکہ اس سے آگے بڑھ کر اسرائیل کی بڑھتی ہوئی جارحیت کو روکنے کی کوشش بھی کریں ۔ حضور ﷺ نے صرف دفاعی جنگیں  ہی نہیں لڑیں بلکہ آگے بڑھ کرسلطنت روم کے خلاف لشکر بھی روانہ کیے تاکہ اللہ کے دین کو دنیا پر غالب کیا جاسکے ۔ 
آخر کب تک ہم امریکہ کے سہارے پر رہیں  گے، قطر کو بھی سمجھ آگئی ، اُمید ہے سعودی عرب کو بھی سمجھ آگئی ہوگی ۔ اللہ کرے کہ دیگر مسلم ممالک کے حکمرانوں  اور ہمارے مقتدر طبقات کو بھی سمجھ میں آجائے ۔ ایک بار پھر سلامتی کونسل میں فلسطینیوں کی نسل کشی روکنے کے متعلق قرارداد آئی اور ایک بار پھر امریکہ نے ہی اس کو ویٹو کردیا ۔ 
گلوبل صمود فلوٹیلا 
اہل غزہ کی امداد کے لیے 44 ممالک کے لوگوں کا ایک مشترکہ قافلہ 70کشتیاں لے کر غزہ کی طرف بڑھ رہا ہے ۔ ان کی طرف سے ایک بات آگئی ہے کہ تیونس میں ایگزٹ کی سٹیمپ لگا دی گئی ہے، اب ہم واپس نہیں جا سکتے۔علماء ، عوام اور ہر طبقہ کے لوگوں کو چاہیے کہ وہ اپنے حکمرانوں کو غیرت دلائیں کہ وہ اس قافلے کی حمایت کریں اور اس کی حفاظت کریں ۔ اصل میں تو یہ حکمرانوں کو ہی طے کرنا ہے کہ دفاع سے آگے بڑھ کر اسرائیل مظالم کو کیسے روکنا ہے ۔ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانا کرتے ۔ لازماً مسلم حکمرانوں کو اسرائیل کو روکنے کے لیے کوئی نہ کوئی اقدام کرنا ہوگا ۔ بخاری شریف کی ایک طویل حدیث کے الفاظ ہیں ، اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا :مسلمان مسلمان کا بھائی ہے،نہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ کسی ظالم کے حوالے کرتا ہے کہ وہ اس پر ظلم کرے۔ آج فلسطین کے بچے ، عورتیں اور بوڑھے مدد کے لیے پکار رہے ہیں ۔ اُمت کے حکمرانوں کو غور کرنا چاہیے۔ محض اپنی بادشاہتوں ، اپنی عیاشیوں اور اپنی کرسیوں کی فکر نہ کرو،سب نے مرنا ہے اور سب نے اللہ کے سامنے جواب دینا ہے ۔
{ وَلْـتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍج  } (الحشر:18)
’’اور ہر جان کو دیکھتے رہنا چاہیے کہ اُس نے کل کے لیے کیا آگے بھیجا ہے!‘‘
معاہدہ خوش آئندہ ہے مگر اس سے آگے بڑھ کر فلسطینیوں کی مدد کے لیے کچھ کرنا چاہیے ۔ عام عوام سے بھی ہم اپیل کریں گے کہ جہاں تک ہو سکتاہے گلوبل صمود فلوٹیلا کی حمایت کے لیے آواز اٹھائیں ، جہاں تک ہو سکتاہے اپنے مظلوم بھائیوں کی مدد کریں ، اقدام کرنا حکمرانوں کا کام ہے مگر ان کو متوجہ کرنا عوام کا کام ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین 
بگرام ایئر بیس کے حوالے سے ٹرمپ کا بیان 
ٹرمپ نے ایک بیان دیا ہے کہ ہمیں بگرام ایئر بیس واپس چاہیے ۔ کس لیے چاہیے ؟ بہانہ یہ بنایا جارہا     ہے کہ چین کا گھیراؤ کرنا ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہمارے حکمرانوں اور مقتدر لوگوں کو صحیح سمجھ اور صحیح فیصلے کرنے کی صلاحیت عطافرمائے اور ہمیں امریکہ کی جنگ لڑنے سے باز رکھے ۔ اگر اسرائیلی گریٹر اسرائیل کی بات کر رہے ہیں تو ہمیں بھی خراسان کے بارے میں سوچنا چاہیے ۔ ہمیں امام الانبیاء ﷺکی احادیث میں خوشخبری دی گئی ہے کہ خراسان سے اسلامی لشکر جائیں گے ۔ خراسان میں افغانستان بھی شامل ہے ، شمالی پاکستان اور شمال مشرقی ایران بھی شامل ہیں ۔ ڈاکٹر اسراراحمدؒ فرمایا کرتے تھے کہ پاکستان ، ایران اور افغانستان مل کر ایک بلاک بنالیںتو امت کو بہت فائدہ ہوگا ۔ آج اگر ایک طرف ہم عرب ممالک کے ساتھ اتحاد کر رہے ہیں تو دوسری طرف عجم میں تقسیم کیوں پیدا ہونے دے رہے ہیں ۔ اللہ کرے کہ ہم عجم میں بھی متحد اور مضبوط ہوں ۔ سعودی عرب کے افغان طالبان کے ساتھ بھی بڑے اچھے مراسم رہے ہیں ۔ 
 اللہ کرے کہ پاک سعودی معاہدہ کی برکات سے پاک افغان کشیدگی بھی ختم ہو جائے اور افغانستان بھی اس اتحاد میں شامل ہو جائے ۔ 
اُمت آج زوال کا شکار ہے اور ہر جگہ مار کھارہی ہے تو اس کی بنیادی وجہ بھی حضورﷺ نے بتا دی ہے ۔ فرمایا : ایک وقت آئے گا کہ قومیں تم پر ایسے ٹوٹ پڑیں گی جیسے کھانے پر دعوت دی جاتی ہے ، پوچھا گیا : کیا اس وقت ہم تعداد میں کم ہوں گے ؟ فرمایا : نہیں ! تم تعداد میں بہت ہوگے مگر تمہاری حالت سمندر کے جھاگ کی مانند ہوگی ، اللہ تمہارا رعب دشمن کے دلوں سے نکال دے گا اور تمہارے دلوں میں وہن ڈال دے گا ۔ پوچھا گیا : یا رسول اللہ ﷺ وہن کیا ہے ؟ فرمایا : (( حُبُّ الدُّنْیَا وَ کَرَاھِیَۃُ الْمَوْتِ ))’’دنیا کی محبت اور موت سے نفرت ۔‘‘(رواہ ابی دائود) آج دنیا میں ہماری ذلت اور رسوائی کی بنیادی وجہ یہی ہے ۔ 
بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسراراحمدؒ فرمایا کرتے تھے کہ پہلے نمبر پر مجرم عرب ہیں کیونکہ قرآن اُن کی زبان میں نازل ہوا ، مگر انہوں نے قرآن کو مشعل راہ بنانے اور اس ہدایت کو دنیا میں پھیلانے کی بجائے امریکہ اور مغرب کا ساتھ دیا ۔ کوئی ایک عرب ملک بھی ایسا نہیں ہے جہاں  اسلامی نظام نافذ ہو ۔ دوسرے نمبر پر مجرم اہل پاکستان ہیں کیونکہ پاکستان واحد ملک ہے جو اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا ۔ ہم نے وعدہ کیا تھا کہ اگر اللہ تعالیٰ ہمیں ایک خطہ زمین عنایت کردے تو ہم وہاں اسلام کو بطور نظام نافذ کریں گے مگر 78 سال ہوگئے ،ہم نے وعدہ پورا نہیں کیا ۔ ایٹمی صلاحیت اپنی جگہ ، بہترین فوج اور بہترین ٹیکنالوجی بھی اپنی جگہ لیکن اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لیے بنیادی اصول یہ قراردیا ہے : 
{وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(139)} ( آل عمران)’’اور تم ہی سربلند رہو گے اگر تم مؤمن ہوئے۔‘‘ 
اللہ کی مدد کا حصول شریعت کے نفاذ سےہی ممکن ہوگا ۔ لیکن اس کے برعکس سودی نظام کو ہم جاری رکھے ہوئے ہیں ، بے حیائی کے طوفان کو روکنے کے لیے کچھ نہیں کر رہے ، نکاح کے پاکیزہ بندھن کو توڑا جارہا ہے ،زنا کے دھندوں کو پروموٹ کیا جارہا ہے ، ہماری اقدار کا بیڑا غرق کیا جارہا ہے ، اور معلوم نہیں کس کس طرح اللہ کے غضب کو دعوت دی جارہی ہے ۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔ اگراللہ کےخلاف ہم اعلان بغاوت کریں گے ، اللہ کے احکامات کو توڑیں گے ،  تو اللہ کی مدد کیسے آئے گی اور سارے معاہدوں اور ساری تیاریوں کے باوجود بھی ہم کیسے فتح پائیں گے ؟ اس پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہدایت عطافرمائے اور پورے کے پورے دین میں داخل ہونے کی توفیق عطافرمائے ۔ آمین