اداریہ
رضاء الحق
دفاعی معاہدہ: مزید پیش رفت کی ضرورت ہے
گزشتہ دنوں تنظیم اسلامی کے ہفتہ وار ٹاک شو ’’زمانہ گواہ ہے‘‘کے تازہ پروگرام کی ریکارڈنگ کی گئی جس میں حالیہ پاک سعودی دفاعی معاہدے اور اس سے قبل قطر میں حماس کی اعلیٰ سیاسی قیادت، جو قطر کے دارالحکومت دوحا میں غزہ میں ناجائز صہیونی ریاست اسرائیل کی جانب سے قتل و غارت گری کو ختم کرنےکےسلسلے میں امریکہ کی جانب سے پیش کردہ ’’ تازہ منصو بہ‘‘ پر مشاورت کے لیے جمع تھی، پر ہونے والے اسرائیلی حملے کے حوالے سے تجزیہ اور گفتگو کی گئی تھی۔ معمول کے مطابق اِس پروگرام کو جیسے ہی سوشل میڈیا پر چلایا گیا، یوٹیوب نے ویڈیو پر پابندی لگا کر اسے اپنے پلیٹ فارم سے ہٹا دیا اور وجۂ جواز یہ پیش کیا کہ اس پروگرام میں’’دہشت گرد عناصر کو تقویت دینے والا مواد‘‘ موجود ہے جو کہ یوٹیوب کی جاری کردہ ’’ صارفین کے لیے رہنمائی‘‘ ( کمیونٹی گائیڈ لائنز) کے خلاف ورزی ہے!
حال ہی میں معروف ٹی وی ہوسٹ مہدی حسن، جو ایک دور میں سی این این سے منسلک رہے ہیں اور جنہیں ناجائز صہیونی ریاست اسرائیل کے غزہ پر حملے کے حوالے سے تنقید کرنے پر سی این این سے نکال دیا گیا تھا، نے بھی پاک سعودی دفاعی معاہدے کے حوالے سے اپنے یوٹیوب چینل پر ایک پروگرام نشر کیا تو ان کا یوٹیوب چینل ہی اڑا دیا گیا۔تنظیم اسلامی اس نوعیت کا ایک معاملہ 2022ء میں بھگت چکی ہے۔
2022ء میں ڈاکٹر اسرار احمد ؒ کے آفیشل یوٹیوب چینل ،جس کے 30 لاکھ (3 ملین) سے زائد سبسکرائبرز تھے اور بلا شبہ اس چینل پر ڈاکٹر صاحبؒ کی سینکڑوں ویڈیوز موجود تھیں، کو یوٹیوب کی انتظامیہ نے بند کر دیا۔ تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ مشرق وسطیٰ میں یوٹیوب سے منسلک بھارتی نژاد ایڈمنز اور ماڈریٹرز کی شر پسندی کا نتیجہ تھا۔اِن شرپسندوں نے ڈاکٹر صاحبؒ کے آفیشل یوٹیوب چینل کے خلاف یہ بہانہ بنا کر شکایات کا انبار لگا دیا کہ ڈاکٹرصاحب ؒ کی ویڈیوز میں سامی النسل لوگوں سے نفرت (سادہ الفاظ میں یہو د کی مذمت یا اینٹی سیمیٹزم) پر مبنی مواد موجود ہے۔ پھر 3 سٹرائکس کا عمل پوراکروا کے اِس چینل کو ہی اڑا دیا گیا۔
تنظیم اسلامی اور مرکزی انجمن خدام القران لاہور کے تحت شعبہ سمع و بصر اور سوشل میڈیا نے تنظیم اسلامی کے مرکزی ناظم سوشل میڈیا اور ڈاکٹرصاحبؒکے فرزند محترم آصف حمید کی زیرِ قیادت اِس چینل کو بحال کرانے کی بھرپور کوشش کی۔ کوئی ذریعہ نہ چھوڑا جس سے ڈاکٹر صاحبؒکے یوٹیوب چینل کی بحالی ممکن تھی۔ ڈاکٹر صاحب ؒکے چینل کو اُڑانے کے خلاف اپیل کو یوٹیوب کے علاقائی ایڈمنز اور ماڈریٹرزسے لے کر اس کی مالک کمپنی گوگل (الفابیٹ) کے متعلقہ شعبہ تک اپیل کو پہنچایا گیا، لیکن جس یوٹیوب چینل کو بند ہی بدنیتی اور بددیانتی کی بنیاد پر کیا گیا ہو ، اُس کی بحالی ہو تو کیسے؟ بہرحال ڈاکٹر صاحب ؒ کا نیا یوٹیوب چینل بنایا گیا جس کے 20 لاکھ (2 ملین) سے زائد سبسکرائبرز ہو چکے ہیں۔ الحمدللہ علی ذالک!
حقیقت یہ ہے کہ سوشل میڈیا کے تقریباً تمام پلیٹ فارمز، جو ایک دنیا کے زیرِ استعمال ہیں، پر چند بڑی کمپنیوں کی اجارہ داری ہے۔ یوٹیوب ’’گوگل‘‘ کی ملکیت ہے۔ فیس بک، انسٹاگرام اور واٹس ایپ تینوں مارک زکربرگ کی کمپنی ’’میٹا‘‘ کی ملکیت ہیں۔’’ ایکس‘‘ (سابق ٹویٹر) ایلون مسک کی ملکیت ہے۔ جی ہاں، وہی ایلون مسک جس نے ٹرمپ کے دوسری مرتبہ امریکی صدر منتخب ہونے میں اہم کردار ادا کیا۔ اگرچہ چین کے بنائے ہوئے چند متبادل پلیٹ فارمز موجود ہیں، لیکن ان کو چین سے باہر عالمی پذیرائی حاصل نہیں۔لہٰذا قارئین اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھ لیں کہ جو سوشل میڈیا پلیٹ فارمز بھی ہمارے زیرِ استعمال ہیں، ان کے مالک کوئی اور ہیں۔ ہم ان پلیٹ فارمز کو مفت استعمال کر رہے ہیں، مالک جب چاہیں ہمارے مواد کو یا پلیٹ فارم پر موجودگی کو قصہِ پارینہ بنا دیں۔لیکن اِن مسائل کے علی الرغم جب تک مکمل پابندی نہیں لگا دی جاتی، اس وقت تک اِن پلیٹ فارمز کو دین کی دعوت کے لیے استعمال کرنا نہ صرف ضروری بلکہ ناگزیر ہے۔ اگر یوٹیوب پر دینی مواد موجود نہ ہوگا تو وہ جگہ خالی نہیں رہے گی بلکہ اس مقام پر شیطان اپنا ننگا ناچ ناچے گا۔آج ڈاکٹر اسرار احمد ؒ کی ویڈیوز کو دیکھنے والے لاکھوں نہیں کروڑوں میں ہیں۔ البتہ اِن پلیٹ فارمز اور جدید ٹیکنالوجی کے تمام گیجٹس کو استعمال کرتے ہوئے احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹ پائے۔ ہر قسم کے خلافِ شریعت مواد کی طرف نہ آنکھ اُٹھے، نہ کان متوجہ ہوں اور نہ دل میںاِس کی رغبت پیدا ہو۔ بلکہ شبہ والے مواد اور طرزِ عمل سے بھی کوسوں دور رہا جائے۔ تنظیمِ اسلامی اور انجمن ہائے خدام القرآن کے تحت چلائے جانے والے کسی سوشل میڈیا پلیٹ فارم سے مونیٹایزیشن کے ذریعے ایک پیسہ بھی وصول نہیں کیا جاتا کیونکہ ہمارے نزدیک یہ معاملہ بھی مشتبہ ہے۔ ہمارے تمام سوشل میڈیا پلیٹ فارمز دعوتِ دین کے لیے چلائے جا رہے ہیں نہ کہ پیسہ بٹورنے کی لیے۔ ہر لحظہ اللّہ تعالیٰ سے یہ دعا کی جائے کہ وہ ہمیں اِن پلیٹ فارمز کے شر سے محفوظ رکھے۔
بات پاکستان اور سعودی عرب کے مابین مشترکہ دفاع کے معاہدہ سے شروع ہوئی تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ معاہدہ وقت کی ضرورت ہے۔ عرب ممالک نے جس طرح غزہ کے معاملے پر اسرائیل و امریکہ کی خواہش کے عین مطابق آنکھیں بند کر رکھی تھیں، اُنہیں کسی درجے میں مذاکرات کے لیے قطر آئی ہوئی حماس کی اعلیٰ سیاسی قیادت پرناجائز صہیونی ریاست اسرائیل کے حملے نے کھول دیا ہے۔ وہ ٹرمپ جو چند ماہ قبل مشرق وسطیٰ کے دورے میں کم و بیش چار کھرب ڈالر کے معاہدے اور تحفے وصول کر چکا تھا اور اس ’’تاوان‘‘(جسے جزیہ کہنا شاید زیادہ صحیح ہو) کے عوض ٹرمپ نےعرب ممالک کو تحفظ کی گارنٹی دی تھی۔ اسرائیل کے قطر پر حملہ کے بعد نتن یاہو نے بیان دیا کہ ’’ حماس کی اعلیٰ قیادت ہو یا مجاہدین، جس ملک میں بھی ہوں گے ، اسرائیل اُنہیں ٹارگٹ کرے گا‘‘۔ بعض عرب ممالک کو شاید پہلی مرتبہ احساس ہوا ہےکہ صدر ٹرمپ کے وعدے محض دجل و فریب ہیں۔کئی ابھی تک لمبی تان کر سوئے ہوئے ہیں۔ امریکہ کو اسرائیل کے مفادات کے مقابلے میں عرب ممالک کا تحفظ ہرگز عزیز نہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ مشرق وسطیٰ میں موجود بادشاہتوں کو امریکہ بہادر نے صرف اس لیے برداشت کیا کہ وہ اس کی غلامی میں چلتی رہیں، اسرائیل کو اُن کی وجہ سے کوئی نقصان نہ پہنچے اور تیل سے مالا مال ان ریاستوں میں تیل کے کنوؤں اور ذخائر کی ملکیت اور دریافت کو امریکی کمپنیوں کے حوالے کیا جاتا رہے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا بے معنی اجلاس جاری ہے۔ اس موقع پر 8 مسلم ممالک کے سربراہان کی امریکی صدر ٹرمپ سے ملاقات ہوئی جس میں ٹرمپ نے’’وعدہ‘‘کیا کہ اسرائیل مغربی کنارے کو ضم نہیں کرے گا۔ شاعر سے معذرت کے ساتھ: ؎
میر کیا سادے ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے ’’لونڈے‘‘ سے دوا لیتے ہیں!
ٹرمپ کے وعدوں کی وقعت سب جانتے ہیں۔ ایک مسلم ملک کے سربراہ، جن کی سرزمین پر حال ہی میں اسرائیل نے تحریک مزاحمت کی اعلیٰ قیادت پر حملہ کیا، نے ٹرمپ کی شان میں ایسے قصیدے پڑھے کہ 2 ارب مسلمانوں کے سر شرم سے جھک گئے۔ دوسری طرف گلوبل صمود فلوٹیلا، جس میں 3 پاکستانی بھی سوار ہیں، پر اسرائیلی حملے جاری ہیں۔ کسی مسلم ملک کو تو توفیق نہ ہوئی لیکن اٹلی نے فلوٹیلا کی حفاظت کے لیے ایک بحری جہاز بھیجنے کا اعلان کیا ہے۔ مغرب کے کئی ممالک ’’فلسطینی ریاست‘‘ کو تسلیم کر چکے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ ترکیہ تمام مسلم ممالک کو ترغیب دے رہا ہے کہ وہ بھی اسے تسلیم کر لیں۔ ایک ایسی فلسطینی ریاست جو اسرائیل کی ہر طرح سے غلام ہوگی اور جسے تسلیم کر لینے کا اصل مطلب ناجائز صہیونی ریاست اسرائیل کو تسلیم کر لینا ہوگا۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون!
7 اکتوبر 2023ء کے بعد دنیا بدل چکی ہے۔ اسرائیل اپنے توسیعی منصوبے یعنی گریٹراسرائیل کے قیام کو عملی شکل دینے کا فیصلہ کر چکا ہے۔ جب اسرائیل کا وزیراعظم خود گریٹر اسرائیل کے قیام کو اپنا ’تاریخی‘ اور ’روحانی‘ مشن قرار دے تو شک کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ امریکہ حسب ِمعمول اسرائیل کے مفادات کے تابع رہے گا۔دوسری طرف عرب ممالک کو بھی کسی درجے میں ہوش آیا ہے کہ گریٹر اسرائیل کے قیام کا مطلب ان کی تباہی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اسی تناظر میں پاکستان اور سعودی عرب کے مابین مشترکہ دفاعی معاہدہ طے پایا۔ ہم بعض دانشور حضرات کے اس تجزیہ سے اتفاق نہیں کرتے کہ اس معاہدہ کا مقصد درحقیقت ابراہم اکارڈز کا حصہ بننا، ایک کمزور فلسطینی ریاست کے قیام کو تسلیم کرنا اور اسرائیل کو تسلیم کرنا ہے۔موٹی بات یہ ہے کہ اس معاہدہ کے نتیجے میں پاکستان کی معیشت کو سعودی سہارا ملے گا۔ دوسری طرف پاکستان کو یہ سعادت حاصل ہوگی کہ وہ حرمین شریفین کی حفاظت کا ذمہ دار ہو۔ اس کے لیے سعودی عرب میں پاکستان کو عسکری اڈے بنانے اور اپنی میزائل ٹیکنالوجی کو سعودی عرب میں نصب کرنے کی اجازت ہوگی۔ پاکستان کے نائب وزیر خارجہ تو پہلے ہی یہ بیان دے چکے ہیں کہ پاکستان کے ایٹمی ہتھیار پوری مسلم امَہ کی حفاظت کے لیے ہیں۔ آپریشن بنیان مرصوص کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے بھارت کو دنیا بھر میں ذلت دی اور پاکستان کو عزت بخشی۔ لیکن اسرائیل اور امریکہ دونوں مختلف طریقوں سے بھارت کو توانا کرتے رہیں گے۔
پاک سعودی معاہدہ کے بعد یہ بھی ممکن ہے کہ جلد بھارت کے ذریعے پاکستان پر دوبارہ حملہ کروایا جائے۔ ایک اور زاویہ سے دیکھیں تو عرب ممالک کے امریکہ پر انحصار میں کمی چین اور روس کے لیے کسی تحفے سے کم نہیں۔ پھر یہ کہ جی سی سی ممالک کی حالیہ کانفرنس میں بھی مشترکہ دفاع کی بات بار بار دہرائی گئی۔ہمارے نزدیک اس معاہدہ کو صرف پاکستان اور سعودی عرب تک محدود نہ رکھا جائے بلکہ دیگر مسلم ممالک کو بھی اس معاہدہ کا حصہ بننے کی دعوت و ترغیب دی جائے۔ اُمت متحد ہوگی تو ہی دشمن کا مقابلہ کر سکے گی۔ اس معاہدہ میں توسیع کے بعد دفاع کے ساتھ ساتھ غزہ، فلسطین، کشمیر، میانمار اور جہاں کہیں بھی مسلمان ظلم و ستم کا شکار ہیں، اُن کی دادرسی کے لیے ظالم کے خلاف عسکری اقدام کیے جائیں۔ مسلم ممالک کے حکمران اور ان کی افواج یہ نہ بھولیں کہ سعودی عرب میں موجود حرمین شریفین کی طرح مسجدِ اقصٰی بھی مسلمانوں کا مقدس حرم ہے۔ لہٰذا اُسےصہیونیوں سے پاک کرنا بھی مسلم اُمّہ کی ذِمّہ داری ہے۔
ملکِ عزیز کی بات کریں تو حکومت، مقتدر حلقوں او ر تمام اہلیانِ پاکستان کےکرنے کا پہلا کام یہ ہے کہ پاکستان اپنی وجہ جواز کو پورا کرے۔سودی معیشت کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکا جائے تاکہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے جاری جنگ ختم ہو۔ سیاسی انتقام اور ریاستی جبر کی بجائے عدل و قسط سے کام لیا جائے۔ انفرادی اور اجتماعی سطحوں پر توبہ کی جائے۔ اللہ تعالیٰ سے رجوع کیا جائے اور پھر حقیقی ایمان پر جم جائیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کا قیام بھی کسی معجزے سے کم نہ تھا اور ہر دور میں ہر سطح پر نااہلی، بددیانتی اور خیانت کے باوجود اس کا قائم رہنا بھی ایک معجزہ ہے۔ احادیث مبارکہ میں اس خطے کے مستقبل کے حوالے سے بڑا روشن نقشہ کھینچا گیا ہے۔ لہٰذا اپنے مغربی ہمسائے سے تعلقات بہتر کیے جائیں۔ ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ احادیث میں باطل قوتوں سے ٹکرانے والے لشکر جو خراسان کے خطہ سے نکلیں گے، اُن کی راہ ہموار کرنے کے لیے دینی اور عسکری دونوں سطحوں پر اپنی استطاعت کے مطابق مکمل تیاری کی جائے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں پاکستان کو صحیح معنوں میں عدلِ اجتماعی پر مبنی ایک حقیقی اسلامی ریاست بنانے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ اللہ کی مدد آئے اور ہم دنیا و آخرت دونوں میں سرخرو ہوں۔ آمین یا رب العالمین!
tanzeemdigitallibrary.com © 2025