’’جبکہ انہوں نے قسم کھائی کہ وہ ضرور اس کا پھل اُتار لیں گےصبح سویرے۔اور انہوں نے (اس پر) ان شاء اللہ بھی نہ کہا۔پس ایک پھرنے والا پھر گیا اس (باغ) پر آپ کے رب کی طرف سے جبکہ وہ ابھی سوئے ہوئے ہی تھے۔تو وہ ایسے ہو گیا جیسے کٹی ہوئی فصل ہو۔اب صبح ہی صبح انہوں نے ایک دوسرے کو پکارا۔کہ صبح سویرے چلو اپنے کھیت کی طرف اگر تم پھل توڑنا چاہتے ہو۔چنانچہ وہ چلے اور آپس میں چپکے چپکے یہ باتیں کرتے جارہے تھے۔کہ دیکھو آج کوئی مسکین تمہارے پاس باغ میں ہرگز داخل نہ ہونے پائے۔اور وہ صبح سویرے چلے جلدی جلدی (یہ سمجھتے ہوئے ) کہ وہ اس ارادہ پر پوری طرح قادر ہیں۔پھر جب اُنہوں نے اس (باغ) کو دیکھا توکہنے لگے کہ ہم تو کہیں بھٹک گئے ہیں۔نہیں نہیں (باغ تویہی ہے ) بلکہ ہم تومحروم ہو گئے ہیں۔ ان کے درمیان والے نے کہا: مَیں تمہیں کہتا نہ تھا کہ تم (اپنے رب کی) تسبیح کیوں نہیں کرتے؟انہوں نے کہا:(واقعی تم ٹھیک کہتے ہو) ہمارا رب پاک ہے ‘ بے شک ہم ہی ظالم تھے۔پھر وہ آپس میں ایک دوسرے کو ملامت کرنے لگے۔(بالآخر اعتراف کرتے ہوئے) وہ کہنے لگے: ہائے ہماری بدبختی ! اصل میں ہم سب ہی اپنی حدود سے تجاوز کرنے والے تھے۔اُمید ہے ہمارا رب ہمیں اِس سے بہتر عطا کر دے گا ‘اب ہم اپنے رب کی طرف رجوع کرتے ہیں ۔اسی طرح آتا ہے عذاب! اور آخرت کا عذاب تو یقیناً بہت ہی بڑا ہے ۔کاش کہ یہ لوگ (اس حقیقت کو) جانتے!‘‘ ( القلم: 17 تا 33)
قرآن زندہ لوگوں کی ہدایت کے لیے نازل ہوامگر افسوس ہم نے اِسے مردہ لوگوں کے لیے ثواب کی کتاب بنادیا۔ جب یہ عمل کرنے کی کتاب نہیں رہی تو اسے سمجھنے کی ضرورت بھی باقی نہیں رہی۔ قرآن محض پڑھنے اور اپنے پیاروں کو بخشنے کا ذریعہ بن کر رہ گیا۔ حالانکہ اللہ ہم سے اتنی محبت کرتا ہے کہ اس نے زندگی کی چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھی ہمیں بھٹکنے کے لیے تنہا نہیں چھوڑا۔ ہر معاملے میں ہماری رہنمائی فرمائی ہے۔ جیسے ایک ماں نئے نئے چلنے والے بچے کو تنہا نہیں چھوڑتی اگر بچہ ضد میں ماں کا ہاتھ چھڑا کر خود چلنے کی کوشش بھی کرے تو ماں پیچھے پیچھے چلتی رہتی ہے تاکہ گرنے سے پہلے اُسے تھام لے۔ اللہ بھی اپنے بندوں سے ستر مائوں سے زیادہ محبت کرتا ہے اور اپنے ان ضدی بندوں کوبھی جہنم کی کھائی میں گرنے نہیںدیتا جو اپنے علم و عقل کے غرور میں اللہ کی رسی(قرآن) کو چھوڑ کر خود چلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان آیات میں بھی اللہ اس قصے کے ذریعے اپنے بندوں کو یہ ہدایت دے رہا ہے کہ مال پر بھروسا کرنے کا مطلب اپنے خالق کے ساتھ کسی کو شریک کرنا۔ اللہ کی عطا جب چاہے وہ واپس لے سکتا ہے۔ پھر مال کے حصول کی خاطر سخت محنت کرنا، بینکوں سے قرض لے کر گھر، گاڑی وغیرہ لینا، گھر والوں سے دور پردیس میں قید تنہائی کاٹنا، غیر اسلامی ممالک کی شہریت اختیار کرنا اور ان کے تمام قوانین کی اطاعت کرنا، بچوں کو ڈے کئیر سینٹرمیں ڈال کر مائوں کا ملازمت کرنا وغیرہ اور ان تمام جدوجہد کے بعد یہ سوچنا کہ اللہ نے مجھے میری محنت کا صلہ دے دیا۔ اب میری زندگی اپنی محنت کی کمائی سے بنائے گئے گھر میں سکون سے گزرے گی۔ میرے برے دن ختم، اب اچھے دن آگئے ہیں، یہی وہ سوچ ہے جو انسان کو اللہ پر ایمان کے بجائے مال پر بھروسا کرنا سکھاتی ہے اور اسی سوچ کو اللہ ان آیات میں نقل کرتا ہے کہ جب بندہ اللہ کے بجائے اپنے مال پر بھروسا کرنے لگتاہے تو اللہ اس کی آنکھوں کے سامنے اس کا مال پلک جھپکتے کبھی راکھ کر دیتا ہے تو کبھی زیر آب کردیتا ہے۔ پھر اس وقت انسان ہوش میں آتا ہے اور اپنی سوچ بھٹکنے پر توبہ کرتا ہے۔ مگر دور جدید کے باشعور انسان اپنی آنکھوں سے بستیوں کی بستیاں سیلابی ریلے میں غائب ہوتا دیکھنے کے باوجود ، دنیا کے سب سے مہنگے محلات’’ہالی ووڈ‘‘ لاس اینجلس میں اپنی آنکھوں سے جل کر خاکستر ہوتا دیکھنے کے باوجود اسے موسمیاتی تبدیلی سمجھنے اور کہنے پر زور دے رہے ہیں حالانکہ اللہ ہماری رہنمائی کررہا ہے کہ ’’عذاب ایسا ہی ہوتا ہے اور آخرت کا عذاب یقینا ًسب سے بڑا ہے۔‘‘
’’ اور اُس کا سارا ثمر سمیٹ لیا گیا‘تو وہ ہاتھ ملتا رہ گیا اس پر جو کچھ اُس نے اس میں خرچ کیا تھا‘اور وہ (باغ) گرا پڑا تھا اپنی چھتریوں پر‘ اور وہ کہہ رہا تھا :ہائے میری شامت‘ کاش میں نے اپنے ربّ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا ہوتا۔اور نہ ہوئی اُس کے لیے کوئی جماعت جواللہ کے مقابلے میں اُس کی مدد کو آتی اور نہ وہ خود ہی انتقام لینے والا بن سکا۔یہاں تو تمام اختیار اللہ ہی کا ہے جو الحق ہے۔وہی بہتر ہے انعام دینے میں اور وہی بہتر ہے عاقبت کے اعتبار سے۔‘‘ ( الکھف: 42تا 44)
اللہ بار بار قرآن میں دہراتا ہے کہ اللہ کےسوا کسی بھی چیز مثلاً مال، دولت، عہدہ وغیرہ کو اپنی طاقت سمجھنا شرک ہے۔ اتنی واضح ہدایت کے باوجود بھی گھر، دولت، جائیداد، عہدوں وغیرہ کو اپنا آسرا سمجھنا اور اس کے حصول کے لیے اپنا وقت، صحت، صلاحیت غرض زندگی وقف کردینا کیا دانشمندی ہے؟ اس کے جواب میں لوگ کہتے ہیں کہ اس دور میں مہنگائی بہت ہے۔ خرچہ چلانا بہت مشکل ہوگیا ہے اس لیے گھر کے ہر فرد کو کمانا پڑتا ہے۔ وہ دور گیا جب ایک کماتا تھا اور دس کھاتے تھے۔ اس سوچ کے لیے ایک مثال ہی کافی ہے کہ 2020ءمیں کورونا وبا کے دوران جب پوری دنیا ایک ساتھ رک گئی تھی۔ائیرپورٹ جہازوں سے خالی، اسٹیڈیم کھیلوں سے خالی ، ہوٹلز ، شاپنگ مالز، دفاتر، سڑکیں تک لوگوں سے خالی، تمام لوگ گھروں میں قید۔ ان حالات میں دنیا کے کسی کونے سے ایک کیس بھی ایسا رپورٹ نہیں ہوا کہ ایک مزدور گھر میں قید مزدوری نہ ملنے کی وجہ سے بھوک کی شدت سے گھر میں مردہ پایا گیا۔ اس سے کیا سبق ملتا ہے؟ کہ ہمیں مہنگائی کے خوف سے بھگائے رکھنے کا کام شیطان کا ہے جس نے بنی اسرائیل کوبھی یہ خوف دلایا تھا کہ اگر کل من و سلوی نازل نہیں ہوا تو آج کے مال سے ذخیرہ کرکے رکھو تاکہ کل بھوک سے محفوظ رہ سکو۔ اللہ سے توکل ختم کروا کر مال کا ذخیرہ کروانا شیطان کا پرانا ہتھیا ر ہے۔ اور آج اسی پرانے ہتھیار سے نیا وار کررہا ہے۔ ہمیں ورغلاتا ہے کہ بچت کرو، پیسہ جوڑ کر جمع کرو، برے وقت میں کام آئے گا۔ مطلب ہمیں اللہ کے مقابلے پر کھڑا کرتا ہے کہ اگر اللہ کی طرف سے کوئی آزمائش آئی تو یہ بچت اور جمع شدہ مال ہمیں آزمائش سے محفوظ رکھے گا اور ہم اس کے بہکاوے میں یہ سوچے سمجھے بغیر آگئے کہ اگر اللہ کسی کو بھوکا رکھنا چاہے تو کون سی قوت ہے جو کھانا کھلا سکتی ہے۔ جسے اللہ آزمائش میں ڈالے اسے کون سی طاقت اس آزمائش سے نکال سکتی ہے۔ مگر شیطان کی چال سمجھنے کے بجائے ہم اللہ کی طرف سے آنے والی آزمائش سے مقابلہ کرنے کے لیے مال کمانے اور بچانے میں ہلکان ہوئے جارہے ہیں اور اپنے ابدی دشمن شیطان کے بھگانے پر بھاگے جارہے ہیں۔
’’اور یہ(قرآن) کسی شیطانِ مردودکا قول نہیں ہے۔تو تم کدھر چلے جا رہے ہو؟‘‘( التکویر:25، 26)