(کارِ ترقیاتی) دل کے بہلانے کو… - عامرہ احسان

12 /

دل کے بہلانے کو…

عامرہ احسان

اس وقت دنیا میںشہ سرخی لگی ہے، برطانیہ،کینیڈا اور آسٹریلیا کے فلسطینی ریاست کوتسلیم کر لینے کی۔ برطانیہ نے کہا: ’غزہ بحران ناقابل برداشت ہے‘۔ کینیڈا نے مژدہ دیا: ’پر امن بقائے باہمی کو مدد ملے گی‘۔ فرانس بھی اعلان کرنے والا ہے۔ محمود عباس،’تسلیم شدہ فلسطین ‘کا صدر، جو تمام عرصہ مغربی کنارے کو بھی بچا نہ پایا۔ عملاً اسرائیل، مغرب ہی کی کٹھ پتلی رہا، نے بھی اس اقدام کو پائیدار امن کے لیے سراہا۔ ایک نظر زمینی حقائق پر: 140 ممالک پہلے ہی آزاد فلسطینی ریاست تسلیم کر چکے ہیں۔ جس سے رتی بھر فرق نہ پڑا۔ ایک ایسے وقت میں یہ اقدام، جب اسرائیل نے حقیقی فلسطینی ریاست کا وجود ہی بالکل ناممکن بنا دیا ہے، اس پر درست تبصرہ اسرائیل کا ہے۔ کہ ’یہ مضحکہ خیز ہے!‘ اوروہ عمل سے اسے ثابت کر کے دکھا بھی رہا ہے۔ امریکہ اور اسرائیل (باپ، بیٹا) دونوں اس پر ناراض ہیں اور اسے پرِ کاہ کی وقعت نہیں دے رہے۔  سو عملاً: ’دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے!‘
وہم و گمان کی دنیا (یعنی میڈیا کی دنیا) سے نکل کر حقائق دیکھیے۔ عین 21 ستمبر کو وہی لاشوں کی تصاویر، جن کی فراہمی میں اسرائیل مزید تیزی لے آیا ہے۔ الشفاء ہسپتال کے ڈائریکٹر کے بھائی کے گھر پر غزہ شہر میں حملہ کرکے اس کے اپنے کئی بچوں سمیت اموات کا فخریہ اعلان کیا ہے۔ امریکہ، اسرائیل کو عین اسی وقت 6.4 ارب ڈالر کے ہتھیاروں کی فروخت کی کانگریس  سے تصدیق کروا رہا ہے۔ برطانیہ جس نے کہا کہ یہ  ناقابل برداشت ہے، کا پردہ، فلسطین پر مسلسل متحرک، پنک کوڈ، تنظیم کی رکن نے فوراً ہی چاک کیا ہے: ’برطانیہ فلسطینی ریاست تو تسلیم کر رہا ہے مگر اسرائیل کو مسلح کرتا رہے گا، اس سے تجارت جاری رکھے گا۔ نئی غیر قانونی اسرائیلی آباد کاریوں سے منہ پھیرے رکھے گا۔ جس سے فلسطینی ریاست کا وجود نا ممکن ہوگا‘۔ ایسا بلا احتساب تسلیم کرنا منافقت ہے۔ سادہ لوح مسلمان صرف ریاست کے نام پر خوشیاں منا رہے ہیں۔ ’اہل علم سے پوچھو اگر تم نہیں جانتے‘، کا قرآنی اصول لے کر دیکھیے محمد المصری، پروفیسر دوحہ انسٹی ٹیوٹ آف گر یجو یٹ سٹڈیز نے الجزیرۃ کو بتایا: ’یہ عالمی برادری (ہر شعبۂ زندگی کے ذی ہوش!) کے بے پناہ بڑھتے دباؤ، اور اپنے عوام کے ہاتھوں ،  کچھ کر کے دکھانے پر مجبور ہو چکے تھے۔ چنانچہ یہ کیا کہ بر سرِ زمین کوئی حقیقی (با معنی با اثر) اقدام کیے بغیر یہ کہہ سکیں کہ انھوں نے کچھ کیا ہے۔ (نہ جنگ بندی ہو رہی ہے، نہ اسرائیلی فوج غزہ سے نکل رہی ہے!) حقیقی اثر اندازی کے لیے یہ اسرائیل پر فضائی حدود بلاک کر دیتے۔ معاشی، سفارتی تعلقات منقطع کرتے۔ امن فوج لاکر بہت کچھ ایسا کر سکتے تھے جس سے اسرائیل کو نقصان پہنچتا اور وہ نسل کشی، قتلِ عام روکنے پر مجبور ہوتا!‘ 
تمام فوجی تجارتی روابط منقطع کیے جاتے، فوری جنگ بندی مسلط کر کے، محاصرہ ختم اور خوراک کی یو این کے ذریعے حقیقی ترسیل کا اقدام ہوتا تو فلسطینی ریاست میں زندگی کے آثار نظر آتے۔ بلا ہتھیار اور اپنے دفاع کا حق، فوج تک رکھنے کی اجازت سے محروم لولی لنگڑی ریاست ایک سیاسی ڈرامے کے سوا کچھ نہیں۔ اس ڈرامے کے کردار کتنے ہی نامور کیوں نہ ہوں۔ تو تلی، سمجھ نہ آنے والی زبان بول کر بہلا گئے ہیں! اسرائیل نے اسے اہل غزہ کو دہشت گردی کا انعام قرار دیا ہے۔ یہ کتنا بے رحم لطیفہ ہے۔ 2001ء میں جنم لینے والا یہ مخبوط الحواس فلسفہ ہے۔ 7 اکتوبر کو حماس نے کل 1,195 افراد حملے میں مارے۔ ان میں سے 736 شہری بشمول 38 بچے تھے (جو قصداً نہیں حادثتاً مرے)۔ غزہ کے حقیقی اعداد و شمار آچکے:  سورس کا کہنا ہے کہ 6 لاکھ 80 ہزار شہا دتیں۔جن میں 3لاکھ 80 ہزار 5 برس سے کم عمر بچے تھے۔ 3 ستمبر 2025ء تک۔ دہشت گردی کا مذاق بہت ہو چکا۔ یہ صرف جہاد  فی سبیل اللہ اور مسلمانوں کو باعمل بننے سے روکنے کی اصطلاح ہے۔  
اسرائیل جو انسانی برادری میں قتل عام کی مجرم، اچھوت ریاست قرار دی جاچکی وہ ان بے ضمیر عالمی قائدین، جمہوریت دانوں کے نزدیک آج بھی مظلوم اور مقدس ہے۔ اور کچل دیئے جانے والے نہتے شہری آگ اور دھوئیں میں ملبے تلے دب جانے والے دہشت گرد   ہیں! حد ہو گئی حد!اس لہو لہان منظر کو مل کر امن کے    نوبل انعام کے مستحق ٹرمپ (امریکہ)، نتن یا ہو، یورپ و دیگر مغربی ممالک کے دودھ کے دھلے حکمرانوں نے تخلیق کیا ہے! اب جب مغربی عوام نے پوری دنیا زیر و زبر کردی۔ ویمبلے ایرینا (برطانیہ) کی بلند پایہ مبنی بر حقائق تقاریر انھیں نیلسن مینڈیلا اور جنوبی افریقہ کی یاد دلانے لگ گئیں۔ سارے آرٹسٹ ، گویے چلا اٹھے۔ امریکی پائلٹوں کو اسرائیل کی مدد پر ڈیوٹی دینے سے انکار پر گرفتار کرنا پڑا۔ آسٹریلیا میں لکھوکھا مظاہرین کے احتجاج کے مسلسل 100 ہفتے پورے ہو گئے تو انھیں کچھ کر کے دکھانا پڑا۔ خود دیکھ لیجیے غزہ کے آج کے مناظر، گزری کل سے زیادہ ہولناک ہیں۔ ایک فلسطینی 2 سال ہجرتوں،     بے دخلیوں کی شدتیں کاٹتا، در بدری میں کہہ رہا ہے…    ’ اے برطانیہ، یورپ، خالی لفظوں سے نہ بہلاؤ۔ اے دنیا ہمیں دھوکا نہ دو۔ واللہ! ہم اپنی سرزمین پر واپس آئیں گے موسیٰ کی طرح اور نتن یا ہو سمندر میں ڈوبے گا فرعون کی طرح۔‘ اجڑے، بمباری زدہ ہسپتال کی (آسٹریلوی ) ڈاکٹر ندا عبدالرب کہتی ہے۔ ہسپتال ڈھے چکے ہیں۔    طبی ضروریات، وسائل لاموجود۔ اسرائیل تیز ترین حملے کر رہا ہے، اپاجی، 16-F، F-35 موت برسا رہے ہیں۔ (ایمبولینسوں کی جگہ یہ موجود ہیں!) 70،80 فی صد مریض بچے، حاملہ خواتین ہیں۔ ہسپتال کے ملبے تلے 1500 دبے ہوئے (مریض!) ہیں۔ نہ نیٹ، نہ بجلی۔ ہمیں مکمل چپ رہنے کا حکم ہے۔ کوئی ہے جو اس ہولناک دہشت گردی کو روک دے؟ 
یہ ہے تسلیم شدہ فلسطینی ریاست کی حقیقت، اس کے شب و روز، جس پر مگر مچھ کے آنسوؤں نے موسمیاتی بحران کھڑا کر کے شہ سرخیاں بناڈالیں، یواین جنرل اسمبلی اجلاس سے عین پہلے۔ طریق واردات یہ ہے کہ ایک کے بعد ایک دھیان بٹانے والی کانفرنس، سربراہی اجلاس، ملاقاتیں، دورے۔ ہر ایک سے گھن گرج والے اعلانات ۔  امیدیں وابستہ اور پھر ٹائیں ٹائیں فش ۔اس کی آڑ میں کب سے ’دو ریاستی حل‘ توقعات بڑھاتا رہا۔ اس دوران غزہ کی Skyline (آسمان سے نظارہ!) مکمل ملبے کے ڈھیر، اجڑے ٹینٹ، بڑے ٹاوروں کا نام و نشان ختم، دھواں، آگ کے شعلے، فاقہ زدگان ٹوٹے قدموں سے   دو سال انخلا در انخلا سہتے !یہاں ہم عذاب نما سیلابوں میں رلے، مغربی سرحدات پر بدامنی سے نمٹتے رہے۔ قوم غزہ پر خوشخبری کی منتظر تھی باقی دنیا کے معصوموں کے ساتھ۔ مگر منظر بالآخر وہی بنا جو غزہ کی حاملہ ماؤں کے تین متوقع بچوں کے ٹویٹس میں نظر آیا تھا۔ بموں کی شدت میں ماں کا پیٹ پھٹا اور جنین، ڈاکٹر کے دستانے والے ہاتھ پہ رکھا ایک بے جان وجود جس کی ٹانگیں، بازو لٹک رہے تھے ہاتھ سے ۔جو بڑا ہو کر ’خماس‘ (عبرانی تلفظ) بن سکتا تھا، اسرائیل کے لیے امن کی نوید بن کر ڈاکٹر کے ہاتھ پر  آن چپکا۔ بس یہی ہے نیم جان ’فلسطینی ریاست‘ جواب دھڑا دھڑ تسلیم کی جائے گی۔ یہ فارمولا ا من نہیں دے سکتا۔ یہ امت کے منہ میں دیا گیا Pacifier،چوسنی ہے پلاسٹک کی! رہا پاکستان، سعودی عرب پیکٹ۔ یہ صرف با ضابطہ شکل ہے پہلے سے راحیل شریف کی سربراہی میں موجود حفاظتی فوج کی جو ان کے لیے حرم کی حفاظت کو گئی تھی۔ چونکہ تذکرہ سارا ’کاونٹر ٹیرر ازم‘ کا ہے تو نہ بھارت نہ اسرائیل کے لیے یہ واویلے کا باعث بننا چاہیے۔ محدود مقاصد ہیں سعودی ریاست کے اندر۔ احادیث البتہ آنے والے مناظر ضرور اندریں حالات واضح کرتی ہیں۔ مگر قوم قرآن حدیث سے بے بہرہ رکھی گئی ہے۔ سو راوی    (وقتی طور پر چڑھ بھی جائے!) تو چین ہی چین لکھتا ہے! البتہ ایٹمی تذکرے میڈیا پر زیادہ لانے نامناسب ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ جو اسرائیل کا اصل ہدف ہے، اس کے بیچ ایٹمی پاکستان کا جا کھڑا ہونا خطرے کا باعث ہے ہماری اس صلاحیت کے لیے۔ 
اس دوران امریکہ نے بگرام کا قضیہ چھیڑا اور منہ کی کھائی افغان وزارتِ دفاع کے ہاتھوں۔بگرام میں بھی ٹرمپ چین سے بڑھ کر پاکستان پر نظر جمانے کی فکر میں ہے۔ یہ پارٹنر شپ ہمیں لوٹنے کے درپے ہے۔ ہوشیار رہیے امریکہ سے! لانگ وار جرنل امریکی مؤقر جریدے نے لکھا: ’طالبان اس معاملے میں پر عزم رہے ہیں کہ وہ امریکہ یا کسی غیر ملکی موجودگی کو اپنی سر زمین پر اجازت نہ دیں گے۔ ان کے جہاد کا مقصد تمام بیرونی فوجیں نکال کر اسلامی اماراتِ افغانستان قائم کرنا تھا۔ امریکہ 2 جولائی 2012 ء کی رات کو افغان اتحادیوں کو بتائے بغیر رات کے وقت انخلا کر گیا۔ 15 اگست کو طالبان نے اس پر قبضہ کر کے ہزاروں قیدی رہا کیے‘! یعنی بڑے بے آبرو ہو کر اس کوچے سے نکلنے والے اب کس برتے پر پھر پر تول رہے ہیں؟!!