عِصیان: وجوہات اور اثرات
مولانا محمد اسلم شیخوپوری
اردو میں’’عصیان‘‘ کا معنی نافرمانی اور گناہ کیا جاتا ہے۔ ایک مؤمن کی شان یہ ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسولؐ کی زندگی کے ہر شعبے میں اطاعت کرے۔ جب وہ ایسا نہیں کرتا تو گناہ گار شمار ہوتا ہے۔ امام ابن قیم ؒ اپنی لاجواب کتاب’’الجواب الکافی‘‘ میں فرماتے ہیں کہ گناہ کا دل پر وہی اثر ہوتا ہے جو زہر کا جسم پر ہوتا ہے ۔ البتہ اس ضرر اور اثر کے درجات مختلف ہوتے ہیں۔ دیکھا جائے تو دنیا اور آخرت کے جتنے بھی شرہیں وہ گناہوں ہی کی وجہ سے تو ہیں کبھی سوچیے تو سہی!
وہ کیا چیز تھی جس نے حضرت آدم اور حضرت حوا علیہماالسلام کو لذت و نعمت اور فرحت و بشاشت کے گھر (جنت) سے نکال کر غموں اور پریشانیوں، ہموم وافکار کے گھر(دنیا) میںپہنچا دیا؟ وہ کیا سبب تھا جس کی وجہ سے ابلیس کو آسمانوں کی ملکوت سے نکلنا پڑا اور وہ دائمی لعنت کا مستحق بنا۔
آخر کیا وجہ تھی کہ قومِ نوحؑکو پانی کی طوفانی موجوں میں غرق کر دیا گیا۔قومِ عاد پر ایسی ہوا کیوں مسلط کی گئی جس نے اُنہیں اُٹھااُٹھا کر زمین پر پٹخا۔
قومِ ثمود کو اس خوفناک زلزلے اور چنگھاڑ کا کیوں سامنا کرنا پڑا جس سے ان کے کانوں کے پردے پھٹ گئے۔ قومِ لوط کی بستیوں کو آسمانوں کے قریب تک اُٹھایا گیا ۔ پھر انہیں پٹخ دیا گیا اور وہ سب ہلاک ہو کر رہ گئے؟ اہل ِ مدین پر بادل کا عذاب کیوں آیا جسے دیکھ کر وہ سمجھے تھے کہ ان پر بارش برسے گی، لیکن اس بادل سے آگ برسی جس نے اُنہیں زندہ جلا دیا؟
فرعون اور اُس کی قوم کو سمندر میں کیوں ڈبودیا گیا؟ اُن کے جسم غرق ہو گئے اور ان کی روحیں جلنے کے لیے رہ گئیں؟ سورۃ یٰسین میں جن سرکشوں کا ذکر ہے وہ ایک ہی چیخ میں بجھی ہوئی راکھ کیوں بن گئے؟
وہ بنی اسرائیل جنہیں اللہ کے چہیتے اور انبیاء کی اولاد ہونے کا دعویٰ تھا، ان پر ایسی وحشی اور طاقتورقوم کیوں مسلط کر دی گئی جو گھروں میں گھس گئی۔ اُنہوں نے مردوں کو قتل کر دیا، خواتین اور بچوں کو گرفتار کر لیا، گھر جلا دئیے، اموال لوٹ لیے، کچھ عرصہ کے وقفہ اور مہلت کے بعد دوبارہ ان کے ساتھ یونہی ہوا اور انہیں تہس نہس کر کے رکھ دیا گیا؟(الجواب الکافی:46،47 )
آخر سوچیے تو سہی! اور سوچنے میں حرج ہی کیا ہے کہ ان اقوام پر تباہی و بربادی اور عذاب اور ہلاکت مسلط کیے جانے کا کیا سبب تھا؟اللہ کی قسم! اس کا سبب سوائے اللہ کی نافرمانی کے اور کچھ نہ تھا، جو قومیں اور افرادمرضِ عصیان میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور توبہ کے ذریعے اس سے شفاپانے کی نہ تدبیر کرے اور نہ کوشش کرے تو ان کے ساتھ یونہی ہوتا ہے۔ یہی تاریخ کی گواہی ہے اور یہی ہمارے رب کا اعلان ہے، سورئہ نساء میںہے:’’اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرتا ہے اور اس کی حدود سے تجاوز کرتا ہے، اللہ اُسے آگ میں داخل کر دے گا جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اُس کے لیے رسوا کن عذاب ہے۔‘‘(النساء:14)
حضور اکرم ﷺ نے بھی بتا دیا کہ نجات صرف میری اطاعت میں ہے اور جو معصیت کا راستہ اختیار کریں گے، اُن کے لیے ہلاکت ہی ہلاکت ہے۔ حضرت ابوہریرہhسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’میری ساری امت جنت میں داخل ہو گی سوائے اس کے جس نے انکار کیا۔ عرض کیا گیا یا رسول اللہﷺ! انکار کرنے والا کون ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: جو میری اطاعت کرے گا وہ جنت میں داخل ہو گا اور جو نافرمانی کرے گا اس نے انکار کیا۔‘‘(رواہ البخاری)
کتاب و سنت کے نصوص اور صحابہ اور علماء و اتقیاء کے آثار واقوال سے گناہوں کے جو نقصانات ثابت ہوتے ہیں ہم ذیل میں ان میں سے کچھ نقل کرتے ہیں۔
1۔ علم سے محرومی…کیونکہ علم ایک نور ہے جسے دل میں القاء کیا جاتا ہے، جب کہ معصیت اس نور کو بجھا دیتی ہے۔
2۔ رزق سے محرومی… جیسے تقویٰ سے رزق میں برکت ہوتی ہے، اسی طرح ترکِ تقویٰ سے فقر و فاقہ پیدا ہوتا ہے۔
3۔ اطاعت سے محرومی…غور کیا جائے تو معصیت کی سب سے بڑی سزا یہ ہے کہ بندہ اپنے مالک کی اطاعت سے محروم ہو جاتا ہے۔
4۔ معاصی کی وجہ سے دل اور بدن دونوں ضعف کا شکار ہو جاتے ہیں۔
5۔ گناہ، عمر کو گھٹا دیتے ہیں اور برکت ختم ہو جاتی ہے۔
6۔ مسلسل گناہ کرنے کی وجہ سے گناہ کے عزائم قوی ہو جاتے ہیں اور توبہ کا ارادہ کمزور پڑ جاتا ہے، یہاں تک کہ ہوتے ہوتے دل سے توبہ کا ارادہ کلی طور پر ختم ہو جاتا ہے۔
7۔ معصیت کی وجہ سے بندہ اللہ کی نظر میںذلیل ہو جاتا ہے، بعض اوقات نجاست کے کیڑے سے بھی زیادہ ذلیل!
8۔ کثرتِ گناہ کی وجہ سے دل سے گناہ کی مضرت کا احساس ختم ہو جاتا ہے اور یہی ہلاکت کی علامت ہے۔
9۔ معصیت، ذلت کا سبب بنتی ہے، عزت تو بس اللہ کی اطاعت ہی میں ہے۔
10۔ معاصی، عقل میں فساد پیدا کر دیتے ہیں کیونکہ ان کی وجہ سے عقل کا نور بجھ جاتا ہے، جب نور بجھ گیا تو ضعف اور فساد لازمی ہے۔
11۔ بار بار گناہ کرنے سے دل پر مہر لگ جاتی ہے پھر اس پر کوئی آیت، کوئی حدیث اور کوئی نصیحت اثر نہیں کرتی۔
12۔ معصیت، حیا کو ختم کر دیتی ہے…حیا جو کہ دل کی زندگی اور ہر خیر کی بنیاد ہے۔
13۔ گناہوں پر جری ہونا دلیل اور نشانی ہے ایمان کے ضعف کی، ظلمت ِ قلب کی اور بصیرت کے فقدان کی۔
14۔ جسے گناہوں سے توبہ کی توفیق نصیب نہ ہو، وہ جان لے کہ اللہ نے اسے اس کی سرکشی کی وجہ سے نفس اور شیطان کے حوالے کر دیا ہے۔
15۔ گناہوں کی وجہ سے نعمتیں زائل ہو جاتی ہیں اور مصیبتیں اور پریشانیاں نازل ہونے لگتی ہیں۔ حضرت علی hکا قولِ زریں ہے:’’مصیبت آتی تو ہے گناہ کی وجہ سے اور دور ہوتی ہے صرف توبہ کی وجہ سے۔‘‘
(ماخوذ از نضرۃ النعیم:10/5009،5010)