انسانی زندگی کی حقیقت
ڈاکٹر اسرار احمد
وہ چیز جو قرآن مجید کے ہر صفحے پر نمایاں کی گئی ہے، وہ انسانی زندگی کی حقیقت سے متعلق ہے۔ وہ لوگ جو صرف حواس کے دائرے تک اپنے آپ کو محدود رکھیں وہ تو یہ نہیں کہہ سکتے کہ پیدائش سے پہلے بھی ہمارا کوئی وجود تھا اور نہ یہ مان سکتے ہیں کہ موت کے بعد بھی ہمارے وجود کا تسلسل برقرار رہے گا۔ ان لوگوں کے نزدیک لا محالہ زندگی پیدائش اور موت کا درمیانی وقفہ قرار پائے گی۔ یہی چالیس، پچاس، ساٹھ سالہ عرصہ کل زندگی شمار ہوگا ۔ اسی زندگی کے متعلق بہادر شاہ ظفر نے کہا ہے:؎
عمر دراز مانگ کے لائے تھے چار دن
دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں
لیکن حقیقت یہ ہے کہ انسانی زندگی صرف پیدائش سے موت تک کے وقفے کا نام نہیںہے۔
بقول اقبال : ؎
تو اسے پیمانہ امروز و فردا سے نہ ناپ
جاوداں، پیہم دواں ہر دم جواں ہے زندگی
انسان جو تخلیق کا نقطہ ٔعروج ہے، اس کی کل زندگی یہی نہیں ہے، بلکہ اس کی زندگی بہت طویل ہے۔ موت معدوم ہو جانے کا نام نہیں، بلکہ ایک عالم سے دوسرے عالم میں منتقل ہونے کی کیفیت ہے۔ گویا: ؎
موت اِک زندگی کا وقفہ ہے
یعنی آگے بڑھیں گے دم لے کر
موت تو زندگی کا تسلسل ہے۔ انسان کی آنکھ یہاں بند ہوتی ہے تو کسی اور عالم میں کھل جاتی ہے ؎
جہاں میں اہل ایماں صورتِ خورشید جیتے ہیں
اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے!
دُنیوی زندگی انسان کی طویل زندگی کا ایک مختصر سا حصہ ہے۔ موت کا وقفہ ڈال کر در حقیقت زندگی کے اس چھوٹے سے حصے کو علیحدہ کر دیا گیا ہے۔ یہ وقفہ کیوں ڈالا گیا ہے، اس کا جواب انبیاء کرام fنے دیا ہے۔ وہ یہ کہ اللہ انسان کی آزمائش کرنا چاہتا ہے۔یہ زندگی ایک امتحان اور ایک ٹیسٹ ہے۔ قرآن عزیز کہتا ہے:
{الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًاط}(الملک:2)’’ اُس (اللہ ) نے موت اور زندگی ( کے سلسلہ) کو اس لیے پیدا کیا تا کہ وہ تمہیں آزمائے کہ تم میں کون اچھے اعمال کرتا ہے ۔‘‘
اسی مضمون کو علامہ اقبال نے شعری پیرا یہ میں یوں بیان کیا ہے:
قلزمِ ہستی سے تو اُبھرا ہے مانند حباب
اس زیاں خانے میں تیرا امتحاں ہے زندگی
اس امتحان کا نتیجہ موت کے بعد نکلے گا، جب انسان کو دوبارہ اُٹھایا جائے گا اور اس کا حساب کتاب ہوگا ۔ اس امتحانی وقفے میں اُس نے جو کمایا، جو کھایا، جو زبان سے کہا، جو آنکھ سے دیکھا، ہر شے کا پورا پورا حساب ہوگا ۔ انسان کا ہر ایک چھوٹا بڑا عمل اس کے سامنے آجائے گا۔ کوئی بہت بڑا (giant) کمپیوٹر ہو گا کہ ایک بٹن دبے گا اور آپ کی پوری زندگی کی رِیل آپ کے سامنے آجائے گی، جسے دیکھ کر مجرمین حیران و سرگرداں ہو جائیں گے۔ قرآن کہتا ہے۔
{وَوُضِعَ الْکِتٰبُ فَتَرَی الْمُجْرِمِیْنَ مُشْفِقِیْنَ مِمَّا فِیْہِ وَیَقُوْلُوْنَ یٰوَیْلَتَنَا مَالِ ہٰذَا الْکِتٰبِ لَا یُغَادِ رُ صَغِیْرَۃً وَّ لَا کَبِیْرَۃً اِلَّآ اَحْصٰىہَاج وَوَجَدُوْا مَا عَمِلُوْا حَاضِرًاط وَلَا یَظْلِمُ رَبُّکَ اَحَدًا(49)} (الکہف)’’اور عملوں کی کتاب کھول کر رکھی جائے گی، تو تم گناہ گاروں کو دیکھو گے کہ جو کچھ اس میں (لکھا )ہوگا اس سے ڈر رہے ہوں گئے، اور کہیں گے ہائے ہماری شامت ،یہ کیسی کتاب ہے کہ نہ چھوٹی بات کو چھوڑتی ہے نہ بڑی کو(کوئی بات بھی نہیں) مگر اسے لکھ رکھا ہے۔ اور جو عمل انہوں نے کیے ہوں گے سب کو حاضر پائیں گے۔ اور تمہارا پروردگار کسی پر ظلم نہیں کر ے گا۔‘‘
اور کہا جائے گا:
{اِقْرَاْ کِتٰبَکَ ط کَفٰی بِنَفْسِکَ الْیَوْمَ عَلَیْکَ حَسِیْبًا(14)} (بنی اسرائیل)’’اپنی کتاب پڑھ لے۔ تو آج اپنا آپ ہی محاسب کافی ہے۔‘‘
کوئی بھی اپنے اس اعمال نامے کو جھٹلا نہ سکے گا۔ اس حساب کتاب کے نتیجے پر ہی انسان کی ابدی زندگی کی کامیابی یا نا کامی کا دارومدار ہے۔ یا تو انسان کو دائمی جنت ملے گی یا پھر اُسے آتش جہنم کا ایندھن بنا دیا جائے گا۔‘‘