(کارِ ترقیاتی) اک ذرا صبر! - عامرہ احسان

10 /

اک ذرا صبر!

عامرہ احسان

 
ٹرمپ کا 20 نکاتی پلان خبروں کا مرکزی نکتہ ہے۔ اگرچہ اسے ٹرمپ، یا ہو پلان کہنا زیادہ بہتر ہے۔    نیتن یاہو کی خوشی اس پر دیدنی تھی۔ مسلم ممالک خصوصاً پاکستان کا بھی اس میں جوش و خروش سے ساتھ دینے پر تو گویا اُن کی منہ مانگی مراد پوری ہو گئی۔ اس پلان پر باقی پوری دنیا کا  رد عمل مثبت نہیں ہے۔ فلوٹیلا کا جانا اور اسرائیل کا ان پر ظلم، قید و بند ہر ملک میں فلسطینی جدو جہد سے ہمدردی کے جذبات کو مزید شدت اور تندی دینے کا باعث ہے۔ میڈیا کے  داؤ پیچ ناکام ہو جاتے ہیں،دھوکا فراڈ فوراً کھل جاتا ہے۔ کیمپ ڈیوڈ، 1978ء، میڈرڈ 1991ء، اوسلو 1993 ء سبھی امن معاہدے ہمارے سامنے ہیں۔ اس کی حقیقت فلسطینی مصنف غسان کنعانی نے 1970 ء میں لکھ دی تھی جو آج تک حرف بہ حرف جوں کی توں بلکہ بدترسے بدترین  ہو چکی ہے۔ اس نے لکھا: ’یہ امن مذاکرات نہیں ہوتے۔ اس کا مطلب ہتھیار ڈالنا، شکست تسلیم کرنا، اطاعت قبول کرنا ہوتا ہے؟‘
10اکتوبر کو نوبل انعام کا اعلان ہونا ہے جسے حاصل کرنا ٹرمپ کا دیرینہ خواب ہے۔اسرائیل ،  ٹرمپ نوازوں،میڈیا میں ٹرمپ کی تعریفیں اور سب کچھ اچھا دکھایا جائے گا۔ریپبلیکن ہاتھی کے کھانے کے دانت بعد ازاں دیکھیے گا! سو سہانے وعدے، خواب دکھا کر اس امن معاہدے ؍ پلان کی کوکھ سے اربوں ڈالر کا چمکتا دمکتا نیا غزہ پلان جو بر آمد ہوا ہے، وہ ٹرمپ، مسک، نیتن یا ہو، کشنر،  ٹونی بلیئر کے اپنے معاشی خوابوں کی تعبیر ہے۔ اس پر دستاویزات سامنے آنے کی رپورٹ ہے۔ Matt Kim، جس کی مہارت حقائق کھولنے کی ہے، اس نے بھی غزہ  تعمیر نو پر بات کھول دی ہے۔ غزہ میں Riviera جزائر، ہوٹل، پرتعیش ریزارٹ( تفریح گاہ)، ای لون مسک کا سمارٹ پیداواری (ٹیسلا نوعیت کی) زون، معاشی     تیز روی اورسرتاپا مکمل تبدیلی، سرمایہ داروں کی سرمایہ کاری ہوگی! امن پلان کا کتبہ ہو گا دو سالہ فلسطینی اجتماعی قبروں پر۔ یہ کھیل نیا نہیں۔اوسلو معاہدے کے30سال گواہ ہیں کہ صرف امن معاہدوں پر انحصار حماقت ہے۔اوسلو کے بعد15 جنگیں غزہ میں ہو چکی ہیں۔16 سال سے یہ ساحلِ سمندر غزہ کے مسلمانوں کے لیے محاصرے کا ایک بند، ایک دیوار تھی جسے فلوٹیلاؤں نے جب توڑنے کی جرأت کی اس کا انجام اچھا نہ ہوا۔ یہ خوبصورت ساحل، یہ بے پناہ معاشی، تجارتی وسائل سے بھر پور قطعۂ زمین، اس پر ان غریب، مسکین دبے پسے فلسطینیوں کا کیا حق؟ سواب یہ مسئلہ حل کیا جا رہا ہے۔ حقیقی وارث اہل ِغزہ کسی کونے میں منہ چھپا کر ٹرمپ کی سربراہی، ٹونی بلیئر      ( عراق میں خونریزی کا ذمہ دار) اور اسرائیل کے قیدخانے کی صورت رہ پائیں گے۔ کھانے کو روٹی دے دی جائے گی۔ ان کی بے چارگی اور قرار نہ کرنے والی حریت پسندی،  مزاحمت پرستی، اقصیٰ پر جان لٹانے کی مجبوری جوان کی   نسل در نسل کی جبلت بن چکی، اس پر غیر عرب  مسلمان فوجیں پہرہ دے کر انھیں ٹھنڈا کرنے کی خدمت بجالائیں گی۔ اگر چہ ان کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ یہودیوں، صہیونیوں کی خاطر تو ہٹلر کے خلاف 50 سال مقدمے چلتے رہے۔ بڈھے آئیک مان کو 1960 ء میں ارجنٹائن میں چھپے کو ،موساد ڈھونڈ لائی۔ (ایسے ہر یہو د دشمن کو دنیا کے ہر کونے کھدرے میںموت دی گئی۔) مگر اب 6 لاکھ 80 ہزار (درست اعدادوشمار کے مطابق) مرد، عورتوں، بچوں کا خون ٹرمپ کی ساحلی تفریح گاہ ’Riviera‘میں رنگ بھرے گا۔ ارب پتی سٹیو وٹکوف بھی حصہ دار ہوگا۔ (ٹر مپ کا خصوصی نمائندہ مشرقِ وسطیٰ میں!) اسرائیلی فوج غزہ میں رہے گی، جبکہ ایک امن بورڈ ٹرمپ کی سربراہی اور بلیئر کی نگرانی میں عبوری حکومت چلائے گا جو نا قابل عبور ہی ہوگی ان کی موت کے فرشتے کے ہاتھوں گرفتاری تک کم از کم…یہ امن معاہدہ نہیں، قبضۂ مزید پلان ہے!
گارڈین (4 اکتوبر) نے ٹرمپ بارے فکر انگیز خبریں دی ہیں۔ اگر چہ یو این میں ٹرمپ کی تقریر بھی کچھ کم حیران کن نہ تھی۔ امریکیوں نے بوچھاڑ ہی کر دی۔ پے در پے واقعات ہوئے۔ برطانیہ کے دورے میں بھی گڑبڑ کی اور چارلی کرک میموریل میں بھی خود کو بہت   عالی شان ظاہر کرنے کی اوچھی حرکت۔ امریکی نے لکھا: یو این میں یہ بہت تکلیف دہ تھا کہ ٹرمپ کی نہایت احمقانہ،   بے ترتیب، الجھی، شرمسار کر دینے والی غیر متعلقہ گفتگو ،یہ بے کار ٹرانا خاموشی سے ان کے نمائندے سنتے رہے۔ اظہارِ ناپسندیدگی کی بجائے ۔ اُن کا کہنا تھا ’بائیڈن، فہم، ادراک کے مسائل کی بنا پر اچانک خاموش ہو جاتا تھا کچھ دیر کے لیے ۔ ٹرمپ کو مگر (ذہنی ابتری) بے ترتیب، درہم برہم، ابتر گفتگو کا عارضہ لاحق ہو جاتا ہے۔‘ (ایلیسن کاٹلر) گارڈین رپورٹ میں ٹرمپ کی ذہنی حالت مشکوک ہونے بارے لکھا ہے۔ آن لائن رویہ بھی عجیب ہے۔ الجھے ہوئے تبصرے ، آراء، نسل پرستانہ، خطرناک، لائق مذمت،  سیاہ فام اقلیتی لیڈر کا مذاق اڑانے والی پوسٹوں پر ہسپانوی گروپ نے غم و غصے کا اظہار کیا۔
گزشتہ چند ماہ سے اس کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت، دماغی حالت پر سوال اٹھائے جارہے ہیں۔ ٹرمپ نے ملک کے چوٹی کے فوجی کمانڈروں کو ورجینیا میں بلایا تھا۔ جہاں وہ اپنی خود ساختہ خوش فہمیوں کی بنیاد پر اپنے     منہ میاں مٹھو بنتا رہا۔ کئی پیرا گراف ایسے بول گیا جس پر سابق فوجیوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ ایک نے کہا: وہ ٹھیک نہیں ہے۔ صدر، بے قابو، پریشان حال، پاگل سا دکھائی دیتا ہے۔ میکفرے، ایک ریٹائرڈ جنرل نے کہا، ٹرمپ کی کارکردگی شدید بے سروپا، بے ہنگم تھی۔    عجیب و غریب گفتگوئیں کرتا رہا۔ بے ربط لب و لہجہ، دیوانگی  کی حد تک متعصب، بعض اوقات حماقت خیز، ہر وادی میں منہ مارتی، غیر مرتکز سوچ! یہ فکر والی بات ہے۔
یاد رہے کہ نبیﷺ نے ایسے ’رہنماؤں‘ کی خبر ہمیں دے دی ہے۔ یقینا ًدجال کی آمد سے پہلے سالوں …  جھوٹے کو سچا سمجھا جائے گا اور سچے کو جھوٹا۔امانت دار کو خائن سمجھا جائے گا اور خیانت کار کو امین۔ اور اس زمانے میں رُوَیبضہ کلام کرے گا۔ پو چھا کہ ’رویبضہ‘ کیا ہے؟ تو فرمایا نہایت ہی فاسق اور راہِ حق سے انحراف کرنے والا شخص، عامۃ الناس کے معاملات میں کلام کرے گا، یعنی ان کے فیصلے کرے گا اور نمٹائے گا۔‘ (مسند احمد)یہ ہم بچشمِ سر دیکھ رہے ہیں۔ المیہ تو یہ ہے کہ تمام شرائط پوری کرنے والے رویبضہ کی تائید و تصدیق، خود امت ِمحمد ﷺ کے رہنما کرتے اس پر دادو تحسین کے ڈونگرے برساتے، ہمنوا ہیں۔ جبکہ اس دیوانے شخص کے ہاتھوں جس پر خود امریکی متوحش ہیں، دنیا میں بدترین جنگی جرائم کا مسلسل مرتکب نیتن یاہو پورے خطے بلکہ بالآخر پوری دنیا میں امن کے لیے خود کسی ایٹم بم سے کم نہیں۔ رعونت، تکبر، کج فہم، بد زبان، بدلحاظ نہ صرف نیتن یا ہوہے بلکہ اس کا  وزیر جنگ اتمار بن گنوار! 45 ملکوں کے چنیدہ انسان دوست ،سنجیدہ فہمیدہ، اپنی جانیں ہتھیلی پر رکھ کر جب غزہ کی مدد کو بچوں کا دودھ، کھلونے، ادویات لے کر نکلے تو ان سے بدسلوکی کی ہر حد توڑ دی۔ اسرائیلیوں کی نفرت دنیا کے ہر رنگ، نسل، کے باشعور انسان کے رگ وپے میں اتر چکی ہے۔ صرف مسلم ممالک میں بے حسی (حکمرانوں کی سطح پر بالخصوص) ہے۔ امریکہ اور اسرائیل وکئی یورپی ممالک دنیا بھر میں اس قتل و غارت گری کے براہ راست ذمہ دار ہیں۔ دنیا ایک بڑے پاگل خانے میں تبدیل ہو چکی ہے۔ خود اسرائیلی فوجی (افغانستان میں امریکی فوجیوں ہی کی طرح) ذہنی مریض بنے ہوئے ہیں۔ اسرائیلی میڈیا سے بھی تصدیق ہو جاتی ہے۔ دھاڑیں مار کر روتے IDF فوجی کس طرح نفسیاتی دوائیوں کے پلندے پارلیمنٹ اور افسروں کے سامنے پٹختے ہیں۔غزہ جانے سے انکاری ہیں۔ راتوں کو حماس کے خوف سے ہڑبڑا کر چیخیں مارتے اٹھ بیٹھتے ہیں۔ جنگ ڈرونز لڑ رہے ہیں یا ہوائی جہاز۔   بر سر زمین تو یہ چوہا دیکھ کر بھی چھلانگ مار دیتے ہیں۔ فلوٹیلا کے جہاز پر گرفتار کرنے آئے تھے۔ تیونسی کپتان نے بتایا کہ جب انجن ان سے چل نہ پایا تو تیونسی نے آگے بڑھ کر چلایا ۔ ساتھ ہی الارم، سائرن بج اٹھے اور جہاز چل پڑا۔ اسرائیلی فوجی دہشت سے فوت ہونے والے ہو گئے۔ ایک بیچارے کی پینٹ گیلی ہو گئی جہاز نا پاک کر دیا۔ اس برتے پریہ کس غزہ پر قبضہ کرنے چلے ہیں؟ پوری دنیا میں تہلکہ برپا ہے۔ اٹلی میں سارے شہروں میں 3 لاکھ مظاہرین اسرائیل کی جان کو آئے پڑے ہیں۔ تھائی لینڈ تک اٹھ کھڑا ہوا۔ یورپ میں تو پہلے ہی آگ لگی ہے جذبات کو!اس نازک مرحلے پر حماس کا رب ان کی بہترین رہنمائی اور حفاظت فرمائے (آمین)۔ زمین جن پر تنگ کر دی گئی۔ اپنوں نے بدترین غداری کی! دنیا بھر سے محبت اور سجدے، دعائیں باذن اللہ انھیں مضبوط رکھیں گی۔ ایسی محبت کالے گورے کی تفریق سے ماورا کب اہل غزہ کے سوا کسی کے حصے میں آئی ہوگی۔ وہ صبح تو آئے گی جس کا وعدہ ہے!
 اک ذرا صبر کہ اب جبر کے دن تھوڑے ہیں!… ان شاء اللہ!