(گوشۂ خواتین) غلامی کسے کہتے ہیں؟ - طیبہ یاسمین

10 /

غلامی کسے کہتے ہیں؟

طیبہ یاسمین

 
کیا یہ زنجیریں پہننے کا نام ہے یا بلامعاوضہ بوجھ ڈھونے کا؟ ہم غلام ہیں یا آزاد؟ کیا ہم نے کبھی سوچا کہ آزادی کے نعرے لگانے والے دراصل غلامی کے نامحسوس طوق گلے میں ڈالے ہوئے ہیں۔
ہمارے ذہنوں نے غلامی کے نام پر جو عقیدہ قائم کیا ہوا ہے وہ یہ ہے کہ کسی کا اسیر ہو جانا غلامی ہے۔ مگر ہم کو غلامی جانچنے کے لیے اس کے کچھ پہلوئوں پر نظر ڈالنی پڑے گی۔ دراصل غلامی دو طرح کی ہوتی ہے۔ ذہنی اور سیاسی۔ اول الذکر غلامی کا جہاں تک تعلق ہے تو اس کا شکار انسان اُس وقت ہوتا ہے جب وہ اپنی فکری قوتوں کے زیرِاثر آنے پر مجبور ہو جائے۔
تاریخ شاہد ہے کہ جب کبھی کسی اُمّت نے اپنی فکری قوتوں کو پسِ زنداں ڈالا اور دوسروں کی بنائی ہوئی شاہراہ پر آنکھیں بند کرکے چلنا شروع کیا، وہیں سے اس کی گراوٹ اور تنزلی کے آثار نمایاں ہونا شروع ہو  گئے۔ بنی نوع انسان نے اس دنیا میں زندگی گزارنے کے لیے ازل سے کسی نہ کسی سہارے کی ضرورت محسوس کی ہے جب جب اُس نے اپنے آپ کو ناتواں پایا، تب تب اُس نے اپنی ز ندگی کی نائو کی پتوار اُس کے حوالے کی جس کو اس نے اپنے سے زیادہ طاقتور سمجھا یا مانا۔ ذہنی غلبہ وہی قوم پاتی ہے جو فکری اجتہاد اور علمی تحقیق کا دامن تھامے رہتی ہے اور پھر اس بات کی حقدار بنتی ہے کہ دنیا کی راہنمائی کا جھنڈا اپنے ہاتھ میں لے لے۔
یہ کام جب تک مسلمان کرتے رہے تمام عالمِ ارضی سر جھکائے ان کے پیچھے چلتا رہا۔ جو معیار اچھائی یا بڑائی کے از روئے اسلام قائم کئے گئے وہی سب کی اساس بنے۔
اگرچہ غور طلب بات یہ ہے کہ ہم تمام عوامل و شواہد کو سامنے رکھیں تونچوڑ اس کا یہ نکلے گا کہ اس عروج کا اصل منبع قرآن تھا اور جو اصول اسلام نے وضع کئے ان سے استنباط کرکے فقہاء نے جو فقہ مدون کی‘ اس کی بنیاد ’’اربع اولہ‘‘ (قرآن‘ سنت‘ اجماع اور اجتہاد) پر ہے۔ مگر پھر اس کی ترتیب کو الٹ دیا گیا پہلا درجہ بزرگوں اور آئمہ کرام کی زندگی کو دیا گیا پھر کہیںآ خر میں جا کر قرآن و سنت۔ عین یہ وہ سیڑھی تھی جہاں آ کر آگے بڑھتا ہوا مسلمانوں کا قافلہ رک گیا۔ اسلام کے اندر جمود طاری ہونے لگا۔    نئی نسل نے اپنے بزرگوں کے بچھائے ہوئے بستر پر آرام کرنا شروع کر دیا۔ نئی پود کو پیش آنے والے حوادث سے بچنے کے لیے سایہ دار درخت کی شجرکاری بند ہو گئی۔ اجتہاد کے دروازے بند ہو گئے۔ قرآن کے سمندر سے نئے گوہر نکالنے کا سلسلہ رک گیا۔ نئی نسل تکلیف اُٹھا کر راحتیں حاصل کرنا بھول گئی۔ ان مع العسر یسرا کا اصول غائب ہو گیا۔ نئے مسائل سے نمٹنے اور راہ نمائی کرنے کے بجائے مسلمان پرانے مسائل و علوم کی شرح و تفسیر کرنے میں لگ گئے۔  فرقہ بندیاں‘ جزئیات اور فروع میں جھگڑے شروع ہو گئے۔
دراصل بزرگوں اور علماء کرام کے اجتہاد ہرگز غلط نہ تھے مگر ہمیشگی اور ہمہ گیری کا عنصر اُس میں ڈال دینے سے اسلام کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچنے لگا۔ محدثین و مفکرین و آئمہ فقہ نے اسلام کی اپنے طور پر احیاء کی مگر وہ اکتسابِ علم سے وہی ذرائع رکھتے تھے جو ایک عام شخص رکھتا ہے۔ بس وہ اپنی عقل و بصیرت کے ساتھ غور و فکر کرتے اور قرآن و حدیث ہی سے اس دور کے مسائل دریافت کرتے۔ اُن کے علم کا ذریعہ وحی نہ تھا کہ اس میں کوئی رد وبدل کی گنجائش نہ نکلے بلکہ وہ علم و بصیرت کی روشنیاں تھیں جو انہوں نے دن رات کی عرق ریزی سے حاصل کی تھیں۔ ان کے اجتہاد ہمارے لیے روشنی کا مینار ضرور ہیں مگر بجائے خود منزل نہیں۔ اگرچہ ان کی کمندیں ستاروں تک جا پڑی تھیں مگر بقول اقبال    ؎
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں
ابھی مسلمانوں کی اس زبوں حالی کو شروع ہوئے کچھ ہی عرصہ ہوا تھا کہ مسلمانوں کے ایک خیرخواہ گروہ نے اس حقیقت کے راز کو پایا کہ مسلمان جو آگے بڑھتی دنیا سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے حصول ِتعلیم کی اہمیت کو صرف دینی تعلیم تک محدود رکھا ہوا ہے اور جہاں تک دنیاوی تعلیم کا معاملہ ہے وہ باقاعدہ اس کو نجس ٹھہراتے ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ دنیاوی معاملہ میں دوسری قوتوں کے محتاج ہو کر رہ گئے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ دنیاوی تعلیم کے میدان میں بھی مسلمان آگے بڑھیں اور امام زمانہ بنیں۔
یہ گروہ مختلف راہ نمائوں پر مشتمل تھا جنہوں نے وقت کی ضرورت کو سمجھا اور نئے زمانہ سے روشنی مستعار مانگ کر لائے تاکہ جلد سے جلد مسلمان اپنی شناخت کرائیں۔ علم و فن کے ہنر میں آگے بڑھیں اور تسخیر کائنات کا جو سلسلہ رک گیا ہے وہ پھر شروع کیا جائے۔ اُنہوں نے مسلمانوں کے سامنے نجات کا ایک دروازہ کھولا کہ دوڑو اور اس اندھیرے سے نکل کر اس دروازے کے باہر آ کر دنیا کا مقابلہ نئی دنیا کے ہی ہتھیاروں سے کرو۔
مگر وائے افسوس کہ مسلمان اس مستعار لی ہوئی روشنی کو اپنا خدا بنا بیٹھے۔ جو دروازہ نجات کے لیے کھولا گیا تھااسی کو منزل سمجھ لیا۔ نئی روشنی سے اس قدر ان کی آنکھیں خیرہ ہوئیں کہ انہوں نے اس کے آگے گھٹنے بھی ٹیک دیئے۔ نئی تہذیب نے ان کے اپنے اندر کی انانیت کو کچل ڈالا۔ بجائے یہ کہ نئی تعلیم و تہذیب صرف ایک وسیلہ کا کام کرتی اور صرف منزل تک پہنچنے میں مددگار ثابت ہوتی۔ مسلمانوں کی کم ہمتی کہ انہوں نے اس Guide کو ہی Leader بنا لیا۔ اور اس نئی تہذیب و تعلیم کی چند خوبیوں کو اس کے تمام تر تعفن سمیت اپنا لیا۔ اس روشنی کی چکاچوند کے آگے انہیں وہ غلامی (ذہنی و سیاسی) کا عمیق گڑھا نظر نہ آیا جس پر ان کا اگلا قدم پڑنا تھا۔ جس طرح بہت تیز روشنی کی وجہ سے آنکھوں کے آگے لال کالے دائرے ناچنے لگتے ہیں بالکل اسی طرح مسلمان اس قدر حواس باختہ ہوئے کہ انہوں نے قرآن کی جِھم جِھم کرتی روشنی جو منزل کا پتہ بتاتی تھی اس کو پسِ پشت ڈال دیا۔ گویا بس اپنی زمین سے محروم ہو گئے اور ہنسی خوشی اپنا ہاتھ اپنے اور اللہ کے دشمن کے حوالے کیا اور اطمینان سے اپنے ہاتھوں اپنی شناخت کا چراغ گل کر دیا۔
اور دشمن بھی کون؟ وہ دشمن جس کے اندازِفکر اور جس کی تہذیب اور اسلامی فکر و تہذیب میں مغرب و مشرق کا بعد ہے۔ کہاں رحمانی طاقت کی مشک انگیزی اور کہاں طاغوتی طاقت کا تعفن ۔ ان کی تہذیب میں کسی ان دیکھی قوت کا خوف نہیں۔ روز جزا حساب و کتاب کا خوف ان کی نیندیں خراب نہیں کرتا۔ چھوٹوں پر رحم اور بڑوں کی عزت کا کوئی اصول ان کے ہاں نہیں پایا جاتا۔ پڑوسی اور مہمان کے حقوق سے وہ ناآشنا ہیں۔ وہ تمام چیزیں جو اسلامی معاشرے کی اساس ہیں، ان کے ہاں حرفِ غلط کی مانند ہیں۔ جس وقت مسلمان اس ذہنی غلامی کا شکار ہوئے تو ان کی نظریں وہی قدریں پسند کرنے لگیں جو مغربی معاشرے میں پنپتی ہیں۔ جو اچھائی برائی کے معیار انہوں نے قائم کئے وہی ہم نے سر جھکا کر تسلیم کئے۔ ہمیں اپنی مدھم تانوں سے نفرت ہونے لگی اور ان کے شور و غوغے سے بھرپور میوزک پر ہم اپنے سر اور پیر تھرکانے لگے۔ ہمیں باحیا عورتیں اور بزرگوں کا احترام کرتے بچے اچھے نہ لگے بلکہ عاقبت بگاڑتی خواتین اور Bold بچے پسند آنے لگے۔ یہ بات باعث فخر و انبساط ہونے لگی کہ ہماری فلاں عادت یا معیار انگریز کے معیار پر پوری اترتی ہے۔ جب اس غلامی کے زیرسایہ کچھ عرصہ گزرا تو ظاہر تو ظاہر، باطن بھی زہرآلود ہونے لگے۔ جب کسی قوم پر زوال آتا ہے تو اس کی شہ رگ پر سب سے پہلے حملہ کیا جاتا ہے اور اسلامی معاشرے کی شہ رگ عورت ہے۔ وہ عورت جو اس معاشرے میں جڑ کی حیثیت رکھتی ہے‘ جو زمین کے اندر بے رنگ و بو کی طرح ہے مگر وہ پورے درخت کو مشقت سے زمین سے نمو کھینچ کر طاقتور بناتی ہے۔ اس کو کھینچ کر گھر سےباہر نکال لایا گیا اور اس کے ہاتھ سے قوم اور معاشرے کی تشکیل کا ہیرا چرا کر اس کے ہاتھ میں نام نہاد آزادی کا پتھر دے کر بہلایا گیا کہ مارو اس کو جو تم کو کم تر سمجھتے ہیں‘ ہم تم کو آزادی کی راہیں دکھاتے ہیں۔ کہاں اسلام میں عورت کا مقام‘ کہاں کائنات کی سب سے حسین شے’’جنت‘‘ اس کی قدموں تلے بچھائی گئی اور کہاں یہ مغربی معاشرہ اس نے اس عورت کو نہ صرف محض ’اسٹینوگرافر‘ اور’ ٹائپسٹ ‘بنا دیا۔ بلکہ صحیح تر الفاظ میں    شمع محفل ہی بنا ڈالا یہ سب سے کڑا وار تھا جو اس قوم پر کیا گیا۔ اور آنے والی نسلوں کو ان بچوں کی مانند بنا دیا جن کو ماں کی گود سے کھینچ کر ہاسٹل میں وارڈن کے سپرد کر دیا گیا ہو۔ اقبال کے ایک فارسی شعر کا مفہوم اس طرح ہے۔
(یعنی اس قوم کو کیا پیش آ چکا ہے اور کیا پیش آنے والا ہے یہ سب اس کی مائوں کی جبینوں سے دیکھا جا سکتا ہے)
مغربی تہذیب کی دلدادہ مائوں کے بطن سے کس طرح غزالی ، رومی اور محمد علی جوہرپیدا ہو سکتے ہیں۔ ہماری آرام طلبی اور عیش پسند طبیعت ہل جل کر اپنے اندر صلاحیت پیدا کرنے کی صلاحیت کھو چکی ہے۔ ہم ان غلامی کی بیڑیوں میں اس بری طرح اور ہنسی خوشی اپنے آپ کو جکڑوا چکے ہیں کہ اب رہائی ناممکنات میں سے نظر آتی ہے۔ ہماری بدقسمتی کہ شاید ہمیں راہبر بننا پسند ہی نہیں ہے۔ کیونکہ اس کے لیے اتنی محنت تو کرنی ہی پڑے گی کہ اپنے پرتعیش محل (مستعار ہی سہی) سے باہر کڑی دھوپ میں آئیں اور علم ہاتھ میں لینے کے لیے اپنے ہاتھوں کو تکلیف دیتے ہوئے فضا میں بلند کریں۔