(دعوت فکر) بتانِ رنگ و بو کو توڑ کر ملت میں گم ہو جا - ڈاکٹر ضمیر اختر خان

10 /

بتانِ رنگ و بو کو توڑ کر ملت میں گم ہو جا

ڈاکٹر ضمیر اختر خان

 
بعثت نبوی کے وقت کعبۃ اللہ میں 360 بت نصب تھے۔ آپ ﷺ نے 13 سال ان بتوں سے مرکزتوحید کو پاک کرنے کی کوشش فرمائی مگر ان بتوں کے محافظ آڑے آتے رہے۔ آپؐ نے اللہ کے حکم سے یثرب ہجرت فرمائی اور وہاں سے اپنی کوشش کادوبارہ آغاز فرمایا۔ اس جدوجہد کے دوران معرکہ بدرواحد بھی ہوا ، غزوہ احزاب کا اعصاب شکن مرحلہ بھی طے ہوا ،صلح حدیبیہ کے موقع پر’’فتح مبین‘‘کی نویدجانفزا بھی ملی اور بالآخر 8ھ کو مکہ فتح ہو گیا ۔اس طرح  مرکزتوحید کو360 بتوں کی آلائشوں  سے پاک کردیا گیا۔ ان پتھر کے بتوں کو توڑنے کے بعد آپ ؐنے پورے جزیرۃ العرب سے رنگ ونسل وزبان وعلاقے پرکھڑے بتوں پر آخری ضرب لگائی اور انہیں نیست ونابود کردیا۔ عرب و عجم کی تفریق ختم کر کے اُمّت کے نام اپنے آخری پیغام میں آپؐ نے فرمایا تھا: سیدنا جابر ؓ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے ہمیں خطبۃ الوداع ارشاد فرمایا اور فرمایا: ’’لوگو! تمہارا رب ایک ہے اور تمہارا باپ بھی ایک ہے، آگاہ ہو جاؤ! کسی عربی کو کسی عجمی پر، کسی عجمی کو کسی عربی پر، کسی سرخ رنگ والے کو کالے رنگ والے پر اور کسی     سیاہ رنگ والے کو سرخ رنگ والے پر کوئی فضیلت و برتری حاصل نہیں، مگر تقویٰ کے ساتھ، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اللہ تعا لیٰ  کے ہاں تم میں سے وہ شخص سب سے زیادہ معزز ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہے‘‘، خبردار! کیا میں نے (اللہ کا پیغام) پہنچا دیا ہے؟ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیوں نہیں۔ پھر فرمایا: ’’حاضر لوگ یہ باتیں غائب لوگوں تک پہنچا دیں۔“ (سلسلہ احاديث صحيحہ/الايمان والتوحيد والدين والقدر)
اُمّت مسلمہ لگ بھگ ایک ہزار سال تک اپنے نبی کریم ﷺکی نیابت کرتی رہی اوراس نے اللہ کی زمین کو ہر طرح کی بت پرستی سے محفوظ رکھا۔ پھریہ اُمّت دنیا طلبی میں پڑ گئی تو اللہ کی زمین پرفساد برپا ہوگیا اوراُمّت پر کفریہ طاقتیں مسلط ہوگئیں۔ اس دور کو حدیث میں ’’ملکا جبری ‘‘سے تعبیرکیا گیا ہے۔ پھر اللہ نے کرم فرمایا اور اُمّت کو آزادی نصیب ہوئی لیکن دوراستعمار(جبری ملوکیت) میں نئے تصورات متعارف کرائے گئے اورآزادی ملنے کے بعد انہی تصورات پراجتماعی نظام استوار کیے گئے۔ اور یوں اُمّت واحد کی بجائےان نئےتصورات کی بنیاد پر علیحدہ علیحدہ  ملک وجود میں آگئے۔ گویا مسلمانوں کےاپنے اپنے وطن، اپنی اپنی قومیں اور اپنی اپنی جداگانہ شناختیں بن گئیں۔ تب ان پرمغضوب علیہم قوم کو مسلط کیا گیا جوگزشتہ 77 سال سے(قیام اسرائیل کے بعد) اس اُمّت کو تختہ مشق بنائے ہوئے ہے۔ اب یہ ذلت اپنے عروج کوپہنچ رہی ہے اور اسرائیل ایک ایک کرکے 57 مسلم ممالک کو اپنے نشانے پر رکھ رہا ہے۔ وہ ممالک ان میں سرفہرست ہیں جن سے اس کو کوئی خطرہ ہو سکتا ہے۔ قطر پر اس کا حالیہ حملہ اس کا ایک ثبوت ہے۔ ان سطور کے ذریعے ہم اُمّت مسلمہ کے حکمرانوں اورمقتدر طبقات کی توجہ اس اکبرالکبائر کی طرف دلانا چاہتے ہیں جس میں اس وقت اُمّت بحیثیت مجموعی مبتلا ہے۔جس چیز کو ہم نے اکبرالکبائر سے تعبیرکیاہے، وہ وطن ہے اور یہ تعبیرہماری نہیں بلکہ علامہ اقبال کی ہے جو مصورومبشرپاکستان ہیں۔ وہ فرماتے ہیں:
ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جوپیرہن اس کا ہے، وہ مذہب کا کفن ہے
یہ بت کہ تراشیدہ تہذیب نوی ہے
غارت گر کاشانہ دین نبوی ہے
بازو تیراتوحید کی قوت سے قوی ہے
اسلام تیرا دیس ہے ،تو مصطفویؐ ہے
نظارہ دیرینہ زمانے کو دکھا دے
اے مصطفوی  خاک میں اس بت کو ملا دے
اقوام میں مخلوق خدا بٹتی ہے اس سے
قومیت اسلام کی جڑکٹتی ہے اس سے
ان اشعارکوسامنے رکھیے تو دور حاضر کے سب سے  بڑےبت کے مظاہر57 مسلم ممالک کی قومی ریاستوں کی شکل میں نظرآئیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ قطر پر اسرائیلی حملے کے بعد دوحہ میں مسلم اُمّہ کی نمائندہ تنظیم او آئی سی کے ہنگامی اجلاس کی بجائے ’’عرب اسلامک سمٹ‘‘کاانعقاد ہوا۔جس نے واضح کردیا ہے کہ امت مسلمہ کی بنیاد کے پتھر:
منفعت ایک ہے اس قوم کی ، نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبی دین بھی، ایمان بھی ایک
حرم پاک بھی، اللہ بھی ،قرآن بھی ایک
کچھ بڑی  بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
 کو بھلا دیا گیا ہے۔ عرب اسلامک سمٹ سے عرب وعجم کی تقسیم کا وہ بت پھر کھڑاہوگیا ہے جس کومحمدکریمﷺ نے 23 سالہ محنت شاقہ کے بعد پاش پاش کیا تھا۔ یہ اس اصول کے بھی خلاف ہے جس میں کہا گیا ہے کہ الکفر ملة واحدة(سب کفر ایک دین ہے) اورالمسلم للمسلم کالبنیان(مسلم ، مسلم کے لیے ایک عمارت کی طرح ہے) کے سراسر منافی ہے۔ 
7اکتوبر2023ء کوفلسطینی مسلمانوں کی نمائندہ جماعت حماس نے اسرائیلی جارحیت کے ردِ عمل میں اعلان جہاد کیا تو کوئی ایک ملک بھی سامنے نہ آیاجو ان مٹھی بھر مسلمانوں کی حمایت کرسکتا۔ یہ حقیقت واضح ہو گئی ہے کہ اُمّت مسلمہ جسد ِواحد نہیں رہی بلکہ اپنے وطنی،قومی اور لسانی حصاروں میں مقیدہو کر رہ گئی ہے۔ دوحہ کی عرب اسلامک سمٹ میں جتنی بھی تقاریر تھیں، انہیں بغور پڑھے، اس کے بعد جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیے کے اہم نکات کابھی جائزہ لیجیے تو واضح ہوجائے گا کہ یہ محض بیان بازیاں ہی تھیں۔ حتی کہ خود نشانہ بننے والا میزبان ملک،قطر بھی اس حد تک جانا پسند نہیں کرتاجس سے فرعون وقت (امریکہ) کی ناراضگی کا احتمال ہو۔ قطر کی ہمسائیگی میں واقع طاقتور عرب ممالک بالخصوص سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، کویت، بحرین، اردن اور شام نے بھی انتہائی محتاط طرزِ عمل اپناتے ہوئے بیان دینے سے احترازکیا۔
اے خاصہ خاصان رسل وقت دعا ہے! یہ اُمّت ٹکڑیوں میں بٹ چکی ہے۔ ان ٹکڑوں کو موجودہ ’’تہذیب یافتہ ‘‘ دور میں قومی ریاستیں کہا جاتا ہے۔ ان ریاستوں کے باشندوںکو ادب‘ تاریخ ، سیاسیات اور نصابِ تعلیم کے ماہرین گزشتہ  سو سال سے دن رات یہ سکھانے میں مصروف ہیں کہ مسلمانوں کی موجودہ قومی ریاستیں دراصل صدیوں سے علیحدہ علیحدہ شناخت رکھتی تھیں ۔ مصر والے فرعونوں کے وارث ہیں ، عراق والے دجلہ و فرات کی عظیم تہذیبی تاریخ کے امین ہیں‘ ایران والے سائرس اعظم اور پاکستان والے وادیٔ سندھ کے فرزند ہیں ۔ غرض ،علم کی ایک شاخ وضع کی گئی جس کے ذریعے ہر خطے کو اس کے ہزاروں بلکہ لاکھوں سالہ ماضی کے ساتھ جوڑ کر اس کے باسیوں میں یہ عقیدہ راسخ کردیا گیا کہ ان ملکوں میں رہنے والے لوگ بس اچانک کسی ایک دور میں مسلمان ہو گئے تھے ، اس لیے اُن کی آئندہ نسلیں بھی مسلمان ہی چلی آ رہی ہیں۔ ان کا کسی دوسرے ملک یا علاقے کے مسلمانوں کے ساتھ کوئی رشتہ اور تعلق نہیں ہے۔ ان کی اپنی تہذیب اور ثقافت ہے اور اپنا رہن سہن ۔ ان کا کلچر ‘ ثقافت ‘ آثار قدیمہ ایک دوسرے سے مختلف ہیں ۔صرف یہ بات لوگوں کے ذہن میں بٹھانے کے لیے زبردست محنت کی گئی کہ انڈونیشیا میں بسنے والے مسلمان کا ہندوستان کے مسلمان سے کوئی تعلق نہیں اور عراق میں آباد مسلمان کی مصر کے مسلمان سے ایک الگ تہذیب اور ثقافت ہے۔ ان قومی ریاستوں کے وجود میں آنے سے ایک عالمی منافقت کے دور کا آغاز ہوا ،مسلمانوں کو یہ باور کرایا گیا کہ قوموں کے باہمی تعلقات صرف اور صرف مفادات کی بنیاد پر ہو سکتے ہیں۔ ان میں دوستی‘ محبت یا بے غرض تعلق نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ روابط کے اس جدید نظام کو دو طرفہ تعلقات کی سفارت کاری کہا گیا۔ اس منافقت کے علم کو دنیا بھر کی یونیورسٹیوں میں ڈپلومیسی(جو دراصل Hypocrisy ہے (کے نام پر پڑھایا گیا ۔ آپ کبھی دنیا کے کسی بھی سفارت خانے کے اعلیٰ سطح کے ملازم سے گفتگو کر کے دیکھ لیں ، آپ کو اس کی گول مول باتوں میں سے بڑی مشکل سے سچ تلاش کرنا پڑے گا۔ پوری دنیا میں سفارت کاروں کی اپنی ایک الگ زبان ہوتی ہے اور اس کے اپنے مطالب ۔ سفارت کاری کی یہ پوری کی پوری تربیت قوم پرستی کی بنیاد پر استوار کی جاتی ہے‘ پھر ایسے لفظ ایجاد کیے جاتے ہیں جن کے کئی مطالب ہوں۔ یہ مفادات کی دنیا اور قومی مفادات کا تعصب ہی ہے جو ریاستوں کو ایک دوسرے کے ساتھ دست وگریباں کرتا ہے۔ آج کے دوست کل کے دشمن اور کل کے دوست آج کے دشمن بن جاتے ہیں۔ جب پوری دنیا اس طرح تقسیم کردی گئی ہو تو ایسے میں اُمّت مسلمہ یا بحیثیت مسلمان کے ایک قوم کا تصور تو خواب بن کر رہ جاتا ہے۔  ‎ 
ان دگرگوں حالات کے باوجود حالیہ دنوں میں  پاک سعودی دفاعی معاہدے کی صورت میں امید کی ایک کرن نظر آئی ہے۔ اس معاہدے کے تحت کسی ایک ملک پر جارحیت کو دونوں ممالک پر حملہ تصور کیا جائے گا اور دونوں ممالک کسی بھی خطرے سے مشترکہ طور پر نمٹیں گے۔ معاہدے کے تحت پاکستان کو حرمین الشریفین یعنی مسجد الحرام اور مسجد نبویﷺ کی حفاظت کا اعزاز بھی حاصل ہوگیا ہے۔ہم امید کرتے ہیں کہ حرمین کے ساتھ مسجد اقصیٰ کی آزادی اور اس کی حفاظت بھی افواج پاکستان کی     ذمہ داری ہو گی۔ان شاء اللہ ۔ 
’’حب عاجلہ‘‘ کے مرض میں مبتلا بعض لکھاریوں نے پاک سعودی  معاہدے کے فوری فائدے گنوانا شروع کر دئیے ہیں۔ مثلا ’’پاکستان کو معاشی فوائد بھی حاصل ہوں گے۔ پاکستان، سعودی افواج کو تربیت، سیکورٹی سروسز اور ٹیکنیکل معاونت فراہم کر کے خطیر زرمبادلہ حاصل کر سکتا ہے۔ دفاعی معاہدہ خلیجی ریاستوں میں پاکستان کی عسکری موجودگی کو مزید مضبوط کرسکتا ہے، پہلے ہی ہزاروں پاکستانی فوجی مختلف عرب ممالک میں خدمات انجام دے رہے ہیں اور معاہدے کے بعد اس میں مزید اضافہ ہوگا‘‘وغیرہ۔ اس سوچ کو اس شعر کے مصداق قرار دیا جا سکتاہے:
توہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کرگیا
ورنہ گلشن میں علاج تنگی داماں بھی تھا
قرآن وسنت کی روشنی میں دیکھا جائے تو یہ معاہدہ ان تمام بتوں کوپاش پاش کرنے کا ذریعہ ثابت ہو سکتا ہے جن کا ذکر سطوربالا میں کیا گیاہے۔ یہ ’’بتان رنگ و بو کوتوڑ کر ملت میں گم ہوجا‘‘ کی طرف جانے والاصراط مستقیم ثابت ہو سکتا ہے۔ ملت اسلامیہ کے 55 دیگر ممالک کو پیغام چلاگیا ہے کہ آگے بڑھو اور’’ان تازہ خداؤں ‘‘ پرکاری ضرب لگاؤ تاکہ’’نہ تورانی رہے باقی، نہ ایرانی نہ افغانی‘‘۔اس لیے کہ :
یہی مقصود فطرت ہے، یہی رمز مسلمانی
اخوت کی جہاں گیری،محبت کی فراوانی
اس بات پر اب یقین کرنے کا وقت آگیا ہے کہ  پیغمبر اعظم و آخرﷺ نے فرمایا تھا کہ مسلمانوں کی مثال ایک جسدِ واحد کی ہے ، اگر ایک عضو کو کانٹا چبھتا ہے تو پورا بدن اس تکلیف کو محسوس کرتا ہے ۔ اس جسدِ واحد کو 57 سے زیادہ ٹکڑوں میں تقسیم کرکے امت مسلمہ کو جو نقصان پہنچایا گیا تھا، اب اس کی تلافی کا وقت آگیا ہے۔ پاکستان کلمہ کے نام پر بنا تھا۔ یہ اس کی ذمہ داری ہے کہ امت کی قیادت سنبھالنے کے ساتھ اسلامی نظام کی طرف پیش قدمی کرے تاکہ اس کو مدینہ ثانی بننے کا اعزاز حاصل ہواور قائداعظم کی خواہش کہ(We will be heading towards PanIslamism) پوری ہو۔یعنی ہم اب امت بن کے رہیں گے۔ان شاء اللہ!