(اداریہ) بہار کے انتخابات اور مودی کی مسلم دشمنی - رضا ء الحق

10 /

اداریہ

رضاء الحق

بہار کے انتخابات اور مودی کی مسلم دشمنی


اُنیسویں صدی سے برصغیر کا ہندو دنیا کو یہ تصور دینے کی کوشش کر رہا تھا کہ ہندو ہندوستان میں ایک غالب قوت ہے ۔ بھارت دنیا کو یہ تاثر دینے میں کامیاب ہو گیا تھا کہ ہندوستان آغاز سے ہی ہندووں کا ہے ۔ وہی اس کی قسمت کے مالک ہیں اور وہی اس پر حکمرانی کا حق رکھتے ہیں ۔ہندوستان کے شمال مغربی پہاڑی سلسلہ کو کوہِ ہندوکش کہتے ہیں ۔ کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ جتنی اقوام نے ہندوستان میں ہندوؤں کی درگت بنائی وہ سب اس پہاڑی سلسلہ سے ہندوستان میں داخل ہوئیں ۔ مسلمانوں میں سے غزنوی ، غوری ، خاندان غلاماں ، تغلق اور پھر مغل ہندوستان کے حکمران رہے ۔ اگرچہ ہندوستان کی بعض ریاستوں میں ہندو راجے مہاراجے حکمران رہے ۔لیکن پورے ہندوستان پر حکومت کرنا کبھی بھی ہندوؤں کے بس کی بات نہ تھی ۔ ہندوستان تاریخ میں صرف 2ادوار میں متحد ہوا ہے ۔ پہلے مغلوں نے متحدہ ہند پر حکومت کی اور بعد ازاں انگریز پورے ہندوستان کا حکمران بنا ۔
بھارت نے پہلگام فالس فلیگ واقعہ کا بغیر کسی ثبوت کے الزام پاکستان پر لگا کرپاکستان کے خلاف آپریشن سندور کا آغاز کیا ۔ مودی سرکار کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ پاکستان جوابی کارروائی بھی کر سکتا ہے۔پاکستان نے جواب میں آپریشن بنیان مرصوص کے ذریعے بھارت کو ہزیمت ناک شکست دی، جس کے بعد سے مودی کا جنگی جنون بے قابو ہو چکا ہے۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ آپریشن بنیان مرصوص نے بھارت اور اُس کے پشتی بانوں اسرائیل اور امریکہ کے چھکے چھڑا دئیے۔رافیل کی ناکامی کے بعداب مودی سرکار مقامی لڑاکا جہازوں کے ذریعے خطے کا امن برباد کرنے کی تیاری کر رہی ہے۔
دوسری جانب بہار کے اسمبلی انتخابات جواِس سال 6 اور 11 نومبر کو دو مرحلوں میں ہوں گے، مودی کے لیے تخت یا تختہ کی صورت اختیار کر چکے ہیں۔اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ 2024ء کے عام انتخابات میں اب کی بار 400 پار کی بڑھک لگانے والے مودی اور اُس کی فاشسٹ پارٹی بی جے پی کو بہار کے 7 کروڑ 43لاکھ ووٹر زنے بری طرح رد کردیا تھا اوربی جے پی کوبہار میں زبردست شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
2014ء سے شروع ہونے والے مودی راج میں مسلم مخالف اقدامات بھی شدت اختیار کرگئےہیں اور آج بھارت کے مسلمان توہین اور ذلت آمیز رویے کا شکار ہیں ۔مودی کے ہندو توا نظریے نے اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کا جینا محال کردیا ہے ۔ جیسے جیسے بہار کے انتخابات قریب آ رہے ہیں، پولیس کومسلم مخالف قوانین کے تحت وسیع اختیارات ملنے سے جھوٹے الزامات اور ناحق گرفتاریوں کے واقعات بڑھ رہے ہیں ۔ بی جے پی کی اعلیٰ قیادت کی جانب سے مسلم اور پاکستان مخالف نفرت انگیز بیانات میں اضافہ ہورہا ہے ۔
ہندو سیاسی رہنما بھارتی مسلمانوں کو ’’دیمک‘‘ پکارتے ہیں۔انتہا پسند بلکہ دہشت گرد تنظیموں مثلاً آرایس ایس، وی ایچ پی وغیرہ کے حملوں سے بچنے کے لیے مسلمان نوجوان ہندو علامتی زعفرانی کپڑے پہننے پر مجبور ہیں ، بھارت میں مسلمانوں کےقبرستانوں کے پاس کچرے کے ڈھیر لگائےجبکہ مساجد کے قریب بیت الخلا تعمیر کیے جارہے ہیں ۔ان پر قبضوں کی قانونی درخواستیں، آذان پر پابندی اور گھروں کی مسماری آر ایس ایس کے ہندوتوا ایجنڈے کا حصہ ہیں۔ اسی طرح مساجد پر قبضے، قبرستانوں کی بے حرمتی،گوشت کھانے پر پابندیاں اور خوف کے پھیلتے ہوئے سائے سب مودی کی ہندوتوا سوچ کا نتیجہ ہیں۔
بھارت میں کسی بھی نوعیت کے انتخابات سے پہلے پاکستان مخالف بیانیہ تیار کرنا اور اُسے پھیلانا مودی اور اس کی سیاسی جماعت بی جے پی، جو آر ایس ایس کا سیاسی بازو ہے، کا طرہ ہے۔ریاست بہار کے انتخابات سے تقریباً ایک ماہ قبل مودی اور اس کے ساتھیوں نے پاکستان مخالف بیانیہ گھڑنا شروع کر دیا ہے۔حال ہی میںبھارت کے وزیرِ دفاع راج ناتھ سنگھ نے ایک عوامی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ پاکستان نے سر کریک کے قریب فوجی ڈھانچے کی توسیع کی اور دھمکی دی کہ اگر کسی قسم کی ’’مہم جوئی‘‘ ہوئی تو بھارت ایسا فیصلہ کن ردِعمل دے گا جس سے ’’تاریخ اور جغرافیہ بدل جائے گا۔‘‘ گویا مودی اور اس کا سیاسی ٹولہ ایک بار پھر جنوبی ایشیا کے امن کو خطرے میں ڈال رہا ہے۔ بھارت کی عسکری قیادت کھلے عام ’’آپریشن سندور2 ‘‘کی بھی دھمکی دے رہی ہے۔ جس کے جواب میں پاک فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے میڈیا سے گفتگو میں ان بیانات کو ’’اشتعال انگیز اور خطرناک‘‘ قرار دیتے ہوئے خبردار کیا کہ ایسے اقدامات خطے میں بڑے پیمانے پر تباہی کا باعث بن سکتے ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ اگر بھارت نے کوئی نئی مہم جوئی کی تو پاکستان ’’بلا جھجھک، بھرپور اور فیصلہ کن‘‘ جواب دے گا۔ انہی جذبات کا حال ہی میں منعقد ہونے والی کورکمانڈر کانفرنس میں اعادہ کیا گیا۔ دوسری طرف بھارت کی جانب سے پاکستان کے خلاف کسی مہم جوئی کے نتیجے میں کیا سعودی عرب مشترکہ دفاعی معاہدہ کے تحت پاکستان کا ساتھ دے گا؟ یہ سوال اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے۔
مئی کے واقعات نے یہ بھی ثابت کر دیا کہ بھارت کو اسرائیل اور امریکہ دونوں کی بھرپور حمایت بلکہ معاونت حاصل ہے۔ لہٰذا بھارت کسی بھی وقت پاکستان کے خلاف ایک نیا عسکری محاذ کھول سکتا ہے۔ ایسی صورتِ حال میں امریکہ کو پسنی بندرگاہ تک رسائی دینا، چاہے تجارت کے نام پر ہی ہو، کسی طور پر بھی دانشمندانہ قدم نہ ہو گا۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ پاکستان میں موجود معدنیات پر اپنی نظر بد جمائے ہوئے ہے۔ فنانشل ٹائمز کی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ تجویز بعض امریکی حکام کے ساتھ زیرِ بحث آئی تھی اور گزشتہ ماہ کے آخر میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے وائٹ ہاؤس میں ملاقات سے قبل فیلڈمارشل کو بھی پیش کی گئی تھی۔اگرچہ رپورٹ میں یہ بھی واضح کیا گیا کہ منصوبے میں امریکی فوجی اڈوں کے قیام کی کوئی شق شامل نہیں بلکہ اس کا مقصد بندرگاہ سے پاکستان کے معدنی وسائل سے مالا مال مغربی صوبوں کو جوڑنے کے لیے ریلوے نیٹ ورک کی تعمیر کے لیے سرمایہ کاری حاصل کرنا ہے، لیکن امریکہ شدت سے خواہش مند ہے کہ اس کی پاکستان میں عسکری موجودگی بھی ہو۔اگر یہ معاہدہ ہو جاتا ہے تو اس سے چین ہرگز خوش نہ ہوگا کیونکہ یہ سی پیک اقتصادی منصوبہ کے راستے میں ایک بڑی رکاوٹ ہوگا۔
یہ بھی یاد رہے کہ اسرائیل کی نظر ِبد اسلامی ایٹمی پاکستان پر مرکوز ہے۔ 1967ء میں اسرائیلی وزیراعظم ڈیوڈ بن گوریان نے پاکستان کو اپنا اصل دشمن قرار دیا تھا۔ موجودہ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو ماضی قریب میں پاکستان کے ایٹمی دانت توڑنے کی خواہش کا کھلم کھلا اظہار کر چکا ہے۔
حماس کے ساتھ اسرائیل کا ’’جنگ بندی‘‘ کا معاہدہ اگر عملی شکل اختیار کر لیتا ہے تو یقیناً اسرائیل کے اگلے ہدف دیگر عرب ممالک اور پھر پاکستان ہوں گے۔ پاکستان کو کمزور اور لاچار کرنے کے لیے اسرائیل بھارت کو استعمال کرے گا۔ ہمارے نزدیک بھارتی اعلیٰ حکومتی اور فوجی عہدیداروں کی پاکستان کو دھمکیوں کے پیچھے صہیونی ہاتھ کارفرما ہے۔ آخری اور حتمی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے آخری کلام قرآن مجید میں مسلمانوں کو اس ابلیسی گٹھ جوڑ سے 14صدیاں قبل ہی خبردار کر دیا گیا تھا: ’’تم لازماً پاؤ گے اہلِ ایمان کے حق میں شدید ترین دشمن یہود کو اور اُن کو جو مشرک ہیں۔‘‘ (المائدہ:82) بھارت اور اسرائیل دونوں کا نشانہ پاکستان ہے اور اس میں خاص طور پر پاکستان کے ایٹمی دانت توڑنا اُن کی ترجیح اوّل ہے۔
اِن حالات میں ہمارے نزدیک اسلامی جمہوریہ پاکستان کو زندہ اور پائندہ دیکھنے کے لیے اسے ہر سطح پر مضبوط و مستحکم کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم ہندو ذہنیت کے حوالے سے پھر اس بات کا اعادہ کریں گے کہ وہ پاؤں پڑنے والے کو ٹھوکریں مارتا ہے اور گردن دبوچنے والے کے سامنے ہاتھ جوڑتا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان اگر زندہ اور قائم رہ سکتا ہے تو صرف مضبوط اور مستحکم ہو کر رہ سکتا ہے۔ ضعف، کمزوری اور زیردستی خودکشی ہے۔
ہمارے نزدیک کرنے کا ایک کام یہ ہے کہ دوا اور دعا دونوں کی جائیں یعنی ایک طرف اپنے گھر کو درست کیا جائے ملک میں اتحاد، اتفاق، اخوت، بھائی چارے اور برداشت کی فضا قائم کی جائے اور دوسری طرف اپنا قبلہ درست کیا جائے۔ دہشت گردوں کا خاتمہ ضروری ہے لیکن عام شہریوں کا کسی قسم کا نقصان نہ ہو بلکہ ظلم و جبر کی حکمرانی کا خاتمہ کرکے ناراض لوگوں کو بھی مذاکرات کے ذریعے سینے سے لگایا جائے اور سیاسی انتقام سے ہر حال میں گریز کیا جائے۔
سب سے زیادہ ضرورت اِس حقیقت کے ادراک کی ہے کہ استحکامِ پاکستان صرف اور صرف ملک میں دینِ اسلام کے مکمل نفاذ سے ہی ممکن ہے۔ یہ بات اب مذہبی اور دینی مطالبہ ہی نہیں رہا کہ پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست بنایا جائے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اب ہمارے پاس کوئی دوسرا آپشن ہی سرے سے نہیں ہے۔ جہاد اور اپنے مؤقف پر استقامت کی جو راہ افغان طالبان نے دکھائی ہے وہی طاغوتی قوتوں کے ظالمانہ ہتھکنڈوں سے ہمارا بچاؤ کرے گی۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ ہم مصنوعی سہاروں سے نجات حاصل کریں۔ اس ہستی کا دامن پورے خلوص اور مضبوطی سے تھام لیں جس نے امریکہ اور نیٹو ممالک کو ننگے پاؤں جبہ پوش افغان طالبان کے ہاتھوں ذلت آمیز اور عبرتناک شکست دلوائی ہے۔
7 اکتوبر 2023ء کے بعد سےمشرقِ وسطیٰ اور اِس خطے کی بدلتی ہوئی صورتِ حال کے پیشِ نظرپاکستان کے لیے ناگزیر ہو گیا ہے کہ وہ اپنی خارجہ پالیسی کو قرآن وسنت کے تابع کرے اور اُن احادیثِ مبارکہ جن میں اِس خطے کی مستقبل میں خصوصی اہمیت کا تذکرہ ہے، اس کے لیے عملی تیاری کی جائے۔اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح فیصلہ اور پھر استقامت کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین!