وہ ٹرمپ جو امن کے نوبل انعام ک خواہش مند تھا اسرائیل
کو فلسطینیوں کی نسل کُشی کے لیے اسلحہ اور امداد فراہم
کرتا رہا ہے ، ہمارے حکمرانوں کی جانب سے ٹرمپ کو امن
کا علمبردار قراردینا انتہائی شرمناک ہے ، دو ریاستی فارمولے
کو تسلیم کرنے کا سادہ مطلب اسرائیل کی ناجائز ریاست کو
تسلیم کرناہے ، اہلِ غزہ کی مدد کے حوالے سے جس کے
پاس جتنا اختیار ہے، وہ اُسی قدر مکلف اور جوابدہ ہے ،
جو لوگ بھی ڈاکٹر اسراراحمدؒ کو سنتے ہیں یا اُن سے محبت
کرتے ہیں اُن سے گزارش ہے کہ وہ ان کے مشن کو بھی اپنائیں ۔
خصوصی پروگرام’’ امیر سے ملاقات‘‘ میں
امیر تنظیم اسلامی محترم شجاع الدین شیخ کے رفقائے تنظیم و احباب کے سوالوں کے جوابات
میزبان :آصف حمید
مرتب : محمد رفیق چودھری
سوال: 7 اکتوبر2025ء کو غزہ پر اسرائیل کی مسلسل بمباری اور فلسطینیوں کی نسل کشی کو دو سال پورے ہوگئے ، کچھ لوگ کہتے ہیںکہ 70 ہزار فلسطینی شہید ہوئے اور کچھ کہتے ہیں کہ 5 سے 6 لاکھ فلسطینی شہید ہوگئے ۔ حالیہ دنوں میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جنگ بندی کے لیے 20 نکاتی فارمولا بھی پیش کیاہے ، تاہم اس فارمولا میں فلسطینیوں کے مستقبل کی کوئی ضمانت نہیں ہے ۔ اس بہانے ایسے لوگوں کو فلسطینیوں پر مسلط کیا جارہا ہے جن کے ہاتھ پہلے ہی مسلمانوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں، مسلم حکمران بھی ٹرمپ کے سامنے سرخم تسلیم کیے ہوئے ہیں ، ان حالات میں آپ کوامید کی کوئی کرن نظر آتی ہے ؟
امیر تنظیم اسلامی:دل تو خون کے آنسو روتا ہے۔ تنہائی میں بیٹھ کر بھی بندہ غور کرے تو صاف ظاہر ہوتاہے کہ ایک طرف بے بسی کی انتہا ہے اور دوسری طرف بے حسی کی بھی انتہا ہے ۔ تیسری بات یہ ہے کہ اُمت مجموعی اعتبار سے زوال کا شکار ہے، اللہ کے قرآن اور دین کو پس پشت ڈالا ہوا ہے ، بقول ڈاکٹر اسراراحمدؒ ہمارا سب سے بڑا جرم یہ ہے کہ اس وقت دنیا میں کوئی ایک خطۂ زمین بھی ایسا نہیں ہے جہاں ہم دنیا کو دکھا سکیں کہ دیکھو یہ اللہ کا نظام ہے ۔ پھر ڈاکٹر صاحبؒ فرماتے تھے کہ مجرم نمبر 1 عرب ہیں کیونکہ اُن کی زبان میں قرآن نازل ہوا لیکن اُنہوں نے قرآن کے نظام کے احیاء اور غلبے کی بجائے دولت ، اقتدار اور عیش و عشرت کو ترجیح دی ۔ مجرم نمبر 2 ہم اہل پاکستان ہیں کہ اسلام کے نام پر ملک حاصل کیا اور پھر اسلام سے بے وفائی کی ، آج تک اسلام کو نافذ نہیں کیا ۔ یہی ہماری ذلت و رسوائی کی سب سے بڑی وجہ ہے ۔ مسلم حکمرانوںنے اُمت کے مفادات کو بھی پس پشت ڈال دیا ہے ۔ گزشتہ دو سالوں میں غزہ پراسرائیلی مظالم کی انتہا ہو چکی ہے ، 70 ہزار شہداء کی بات کی جاتی ہے لیکن جب ہم غزہ کی طرف دیکھتے ہیں تو پورا شہر کھنڈر بن چکا ہے جس سے اندازہ ہوتاہے کہ شہداء کی تعداد ہزاروں میں نہیں بلکہ لاکھوں میں ہو سکتی ہے ۔ اگر سینکڑوں بلڈنگیں تباہ ہو جائیں اور ان میں ملٹی فلورز بھی ہوں ، ظاہر ہے وہ خالی تو نہیں تھیں ۔لہٰذا شہداء کی تعداد بہت زیادہ ہو سکتی ہے ۔
مسلم حکمرانوں کاطرزِِعمل تو انتہائی مایوس کن ہے لیکن عوام کاحال بھی کوئی بہت زیادہ مختلف نہیں ہے، شروع میں مظاہرے بھی ہوئے ، ملین مارچ بھی ہوئے ، لیکن بعد میں خاموشی غالب آگئی ۔ پاکستان انڈیا کا میچ ہو تو گلیاں سنسان ہو جاتی ہیں ،میڈیا ایسے دکھاتاہے جیسے کوئی بہت بڑی جنگ ہورہی ہو ، لیکن اہل غزہ کا درد شاید اب اُمت کو محسوس نہیں ہوتا ۔ خون میں لت پت غزہ کے معصوم بچوں کی لاشیںہمارے میڈیا کو نظر نہیں آتیں ۔ ایک معصوم بچی کو 255 بلٹ مارے گئے ، ایک کو 355 بلٹ مارے گئے۔ سب سے بڑھ کر مایوسی مسلم حکمرانوں کے طرزعمل سے ہوئی ہے ۔ وہی ٹرمپ جس نے اپنے سابقہ دور حکومت میں بھی کھل کر اسرائیل کا ساتھ دیا ، ابراہم اکارڈ اور ڈیل آف دی سنچری کے نام پر مسلم حکمرانوں سے اسرائیل کو تسلیم کروایا ، یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کیا۔ اسی ٹرمپ کے ساتھ مسلم حکمران دوبارہ کھڑے نظر آتے ہیں ، خوش ہو کر اس کے ساتھ تصویریں بنواتے ہیں۔ ابراہم اکارڈ2 کی باتیں بڑے خوشنما انداز میں ہورہی ہیں ۔ ہمارے حکمرانوں نے ٹرمپ کو امن کا علمبردار بھی قرار دے دیا اور نوبل انعام کے لیے بھی نامزد کردیا ۔ ان کو شرم بھی نہیں آتی کہ وہی ٹرمپ ہے جو اسرائیل کو فلسطینیوں کی نسل کشی کے لیے اسلحہ اور امداد فراہم کر رہا ہے اور جنگ بندی کی ہر قرارداد کو ویٹو کر رہا ہے ۔ جو 20 نکاتی فارمولا اس نے پیش کیا ہے ، اس میں بھی اسرائیلی مفادات کا تحفظ کیا گیا ہے کہ حماس کو ختم کیا جائے گا ، فلسطینیوں کو اسلحہ سے پاک کیا جائے اور ایک ایسی لولی لنگڑی فلسطینی ریاست کی بات کی جارہی ہے جس کی نہ اپنی فوج ہو گی ، نہ اپنی پولیس ہوگی ، نہ اپنے دفاع کا انتظام ہوگا ۔ کیا محمود عباس کی نام نہاد فلسطینی اتھارٹی پہلے سے موجود نہیں ہے ؟ کیا وہ فلسطینیوں کے حقوق اور مفادات کا تحفظ کر سکی ہے ؟ قائداعظم نے کہا تھا کہ اسرائیل مغرب کا ناجائز بچہ ہے اور اس کو تسلیم کرنے کا مطلب ظلم اور جبر کی تائید کرنا ہے ۔ دو ریاستی فارمولے کو تسلیم کرنے کا سادہ مطلب اسرائیل کی ریاست کو تسلیم کرناہے ۔7 اکتوبر 2023ء کی حماس کی کارروائی کا نتیجہ یہ ضرور نکلا کہ کچھ عرب ممالک اسرائیل کو تسلیم کرنے سے پیچھے ہٹ گئے ، ورنہ سعودی عرب سمیت تمام عرب ممالک اور اکثریت میں مسلم ممالک بھی ڈونلڈ ٹرمپ کے جال میں پھنس کر اسرائیل کو تسلیم کرنے والے تھے ۔ آج ٹرمپ نے دوبارہ وہی جال پھینکا ہے اور مسلم حکمران اس جال میں پھنستے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں ۔ ہمارے حکمران اور مقتدر ادارے بھی قائداعظم کی پالیسی کی مخالفت کرتے ہوئے دوریاستی حل کی بات کر رہے ہیں ۔ حالانکہ پاکستان کی شروع دن سے یہ پالیسی تھی کہ اسرائیل کو کسی صورت تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ ہمارے پاسپورٹ پر لکھا ہوا ہے کہ اسرائیل جانے کے لیے اس کو استعمال نہیں کر سکتے ۔ امن فارمولا کے نام پر ٹونی بلیئر کوعبوری سیٹ اپ کاسربراہ بنایا جارہا ہے جس کے ہاتھ عراق اور فلسطین کے مسلمانوں سے پہلے ہی رنگے ہوئے ہیں ۔ کیا مسلم حکمرانوں کو یہ بات سمجھ میں نہیں آرہی ؟ہم کہتے ہیں کہ مسلمانوں کا اپنا اتحاد ہونا چاہیے ۔ اگر غیر مسلم قوتیں نیٹو کے نام سے اکٹھی ہو سکتی ہیں تو مسلم ممالک مشترکہ عسکری اتحاد کیوں نہیں بنا سکتے ؟ اگر آج بھی مسلم ممالک کھڑے نہیں ہوں گے تو کیا ٹرمپ ، ٹونی بلیئر یا نیتن یاہو پر بھروسا کرکے محفوظ رہ سکتے ہیں ؟ اگر وہ سمجھتے ہیں، ان پر بھروسا کرکے ان کے اقتدار محفوظ رہ سکتے ہیں تو یہ ان کی بہت بڑی بھول ہوگی ۔ ہنری کسنجر نے کہا تھا کہ امریکہ سے اس کے دشمنوں کو اتنا خطرہ نہیں ہوتا جتنا اس کے دوستوں کو ہوتاہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو سمجھ اور ہدایت عطا کرے ۔
سوال: ہم نے تنظیم اسلامی کے پلیٹ فارم سے اہل ِ غزہ کے حق میں مظاہرے بھی کیے ، سفیروں ، علماء ، ممبران پارلیمنٹ اور صحافیوں کو خطوط بھی لکھے ۔ جلسے جلوسوں اور سیمینارز کا انعقاد بھی کیا اور جس قدر استطاعت تھی فلسطینیوں کی مالی مدد کی بھی کوشش کی ۔ لیکن اب بھی کچھ لوگ سوال یہ کرتے ہیں کہ بھائی آپ صرف باتیں کرتے رہ جائیں گے۔ اس حوالے سے ہمیں مزید کون سی کوششیں کرنی چاہئیں ؟
امیر تنظیم اسلامی:وہ لوگ جن کے دل واقعتاً خون کے آنسو رو رہے ہیں اوروہ فلسطینیوں کے لیے کچھ نہ کچھ واقعتاً کرنا چاہ رہے ہیں ، یہ سب ان سے برداشت نہیں ہوتا۔ایسے لوگوں کے جذبات کی ہم قدر کرتے ہیں۔ تاہم دو بنیادی اصولی باتیں سمجھ لیجئے ۔ اللہ تعالیٰ خود قرآن حکیم میں یہ فرماتاہے : {لَا یُکَلِّفُ اللہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَہَاط}( البقرہ:(286 ) ’’اللہ تعالیٰ نہیںذمہ دار ٹھہرائے گا کسی جان کو مگر اس کی وسعت کے مطابق۔‘‘
اسی طرح ہمارے سامنے وہ حدیث رسول ﷺ بھی موجود ہے جس کومسلم شریف میں نقل کیا گیا ہے ۔ فرمایا :
’’تم میں سے جو کوئی برائی دیکھے تو اسے چاہیے کہ اپنے ہاتھ سے روکے اور اگر اپنے ہاتھ سے نہ روک سکے تو زبان سے روکے، اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو اپنے دل میں اسے برا جانے اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔‘‘
اس لحاظ سے جس کے پاس جتنا اختیار ، طاقت ، صلاحیت ، قوت ہے وہ اتنا ہی زیادہ مکلف ہے ۔ مثال کے طور پر مجھے افسوس ہوتا ہے کہ ہماری مساجد میں دعاؤں کا اہتمام نہیں ہو رہا۔قنوت نازلہ کا معاملہ نبی اکرم ﷺ کی سنت سے ثابت ہے ، احناف کے ہاں فجر کی نماز میں ہے ، شوافع کے ہاں ہر نماز میں ہو سکتاہے ، کم ازکم ایک وقت تو اِس کا اہتمام ہونا چاہیے ، آئمہ مساجد بھی دعاؤں کا اہتمام نہیں کررہے ، کم ازکم نماز جمعہ کے بعد تو اجتماعی دعا ہونی چاہیے، انفرادی سطح پر بھی ہر فرد دعا تو کر سکتاہے ۔ اگر اتنا بھی ہم نہیں کر رہے تو روز قیامت کیا جواب دیں گے ، پھر اس سے آگے بڑھ کرمالی مدد جو لوگ کر سکتے ہیں وہ نہیں کرتے تو روز محشر پوچھے جائیں گے ۔ اس کے بعد مظاہرے اور جلوس بھی ہم نکال سکتے ہیں ، اپنی حکومتوں اور حکمرانوں کو متوجہ کر سکتے ہیں ۔ اگر بجلی ، گیس ، آٹا ، چینی مہنگی ہو جائے توہم لوگ سڑکوں پر نکل آتے ہیں ، کیا اپنے مظلوم مسلم بھائیوں ، بچوں اور بہنوں کے لیے آواز اُٹھانے کی خاطر نہیں نکل سکتے ؟یہ آواز ہم سوشل میڈیا کے ذریعے ، مظاہروں کے ذریعے اُٹھا سکتے ہیں ۔ عوام کے پاس اتنی طاقت اور اختیار نہیں کہ وہ اسرائیل کو ہاتھ سے جواب دےسکے کم ازکم انہیں زبان سے تو جواب دینا چاہیے ۔ حکمرانوں اور فوج کے پاس طاقت اور اختیار ہے ، ، عوام ان کو متوجہ کر سکتی ہے ، اگر ہم ایسا نہیں کر رہے تو روز محشر مجرم گردانے جائیں گے۔ اُمت کی سطح پر مسلم ممالک کے پاس تیل کی دولت ہے ، وسائل ہیں ، اٹیمی قوت بھی ہے ، میزائل ٹیکنالوجی بھی ہے ، بہترین افواج بھی ہیں ، یہ سب اُمت کے اثاثے ہیں۔ اگر اُمت کے اجتماعی مفاد کے تحفظ کے لیے کام نہیں آرہے تو ان کا کوئی فائدہ نہیں ہے ۔ روز محشر ہم سب کو جواب دینا ہوگا ۔ کوشش کریں کہ روز محشر ہمارا نام ظلم کا ساتھ دینے والوں میں شمار نہ ہو بلکہ مظلوموں کے ساتھ کھڑے ہونے والوں میں ہو ۔
سوال: اس معاملے میں کوئی دینی جماعت کیا کردارادا کرسکتی ہے؟
امیر تنظیم اسلامی:کسی بھی دینی جماعت کے اختیار میں زیادہ سے زیادہ یہی ہے کہ وہ حکمرانوں کو متوجہ کرے ، مظاہرے اور احتجاج کرے یا فلسطینیوں کی مالی مدد کے لیے کچھ نہ کچھ کرے ۔ جیسا کہ تنظیم اسلامی نے ان تمام حوالوں سے کام کیا ۔ حکمرانوں ، سفیروں ، وزیروں ، ممبران اسمبلی ، صحافیوں ، ججز ، وکلاء ، علماء کو خطوط بھی لکھے اور حکمرانوں کو توجہ دلائی کہ OICکے چارٹر میں لکھا ہوا ہے کہ مسجد اقصیٰ کی حفاظت اور فلسطین کی آزادی کے لیے فلسطینیوں کی اخلاقی ، مالی ، اخلاقی اور عسکری مدد کرنا ہر مسلم ملک پر لازم ہوگا ۔ اسی طرح دینی جماعت عوام کے اندر شعور اور جذبے کو بیدار کرنے کے لیے بھی اپنا کردار ادا کر سکتی ہے ، اِس حوالے سے ہم نے مظاہرے بھی کیے ، احتجاجی جلوس بھی نکالے ، سوشل میڈیا پر مہم بھی چلائی ، سیمینارز بھی منعقد کیے ۔ ہم نے توجہ دلائی کہ صرف حرمین شریفین ہی مسلمانوں کے لیے محترم اور مقدس نہیں ہیں بلکہ مسجد اقصیٰ بھی حرم میں شامل ہے ۔جس طرح ہم مسجد نبوی ﷺ یامسجد الحرام کو دشمن کے قبضے میں نہیں دیکھ سکتے ، اسی طرح مسجد اقصیٰ کو بھی دشمن کے قبضے میں دینا گوارا نہیں کرسکتے ۔ دینی جماعتیں آپس میں متحد ہو کر زیادہ بہتر کردار ادا کرسکتی ہیں ، اس حوالے سے بھی کام ہونا چاہیے ۔ نتائج کے ذمہ دار تو انبیاء علیہم السلام بھی نہیں تھے ، وہ بھی صرف جدوجہد کے ذمہ دار تھے ۔ جیسا کہ فرمایا :
{فَذَکِّرْقف اِنَّمَآ اَنْتَ مُذَکِّرٌ (21) لَسْتَ عَلَیْہِمْ بِمُصَیْطِرٍ(22)}(الغاشیہ) ’’تو (اے نبیﷺ!) آپؐ یاد دہانی کراتے رہیے‘ آپؐ تو بس یاد دہانی کرانے والے ہیں۔آپؐ ان پر کوئی داروغہ نہیں ہیں۔‘‘
اللہ جس کو چاہے گا ہدایت عطا فرمائے گا۔مسلمان کا کام صرف اللہ کے دین کی دعوت دینا ہے ، اسی طرح اللہ جب چاہے گا دین غالب ہو جائے گامگر ہمارا کام اس کے غلبے کے لیے جدوجہد کرتے رہنا ہے ۔ ہمارے لیے اسوہ رسول اللہ ﷺ کی سیرت ہے ۔ مکہ کے 13 برس میں آپ ﷺ نے صرف دعوت دی ہے اور کسی بت کو نہیں توڑا ۔آپ ﷺ پر اور صحابہ کرامj پر بہت ظلم ہوا مگر جواب میں ہاتھ اُٹھانے کی بھی اجازت نہیں تھی ۔ ان 13 برسوں میں صرف دین کے غلبے کی جدوجہد کی گئی اور جب دین قائم ہو گیا تو پھر تمام بتوں کو توڑ دیا گیا ، قیصرو کسریٰ سمیت دین دشمن قوتوں کے خلاف قتال بھی کیا گیا۔ اسی طرح آج مسلمان مغلوب اور مظلوم ہیں ، اللہ کا دین کہیں بھی نافذ اور غالب نہیں ہے ، ہمارے پاس وہ قوت اور اختیار نہیں ہے کہ دشمن کو شکست دے سکیں ، لہٰذا ہم صرف دین کے غلبے کی جدوجہد کرنے کے مکلف ہیں اور یہ ہمارا دینی فریضہ ہے کہ انفرادی سطح پر بھی اور جماعت کی سطح پر بھی دین کے غلبے کی جدوجہد کریں ، اپنے حکمرانوں کو بھی متوجہ کریں ، اُمت کا شعور اُن کے اندر بیدار کرنے کی کوشش کریں ۔ لیکن اگر ہم اپنی حدود سے تجاوز کرتے ہوئے مار دھاڑ پر اُتر آئیں ، اپنی ریاست ، فوج اور اداروں کے ساتھ لڑائی شروع کردیں تو اس سے نیتن یاہو کا کیا نقصان ہوگا ؟ ہم اپنا ہی نقصان کریں گے ۔ تنظیم اسلامی کے پلیٹ فارم سے غلبہ دین کی جو جدوجہد ہو رہی ہے اس کو ڈاکٹر اسراراحمدؒ نے منہج رسول ﷺ کی روشنی میں ہی ترتیب دیا ہے ۔ ’’رسول انقلاب ﷺ کا طریق انقلاب ‘‘ان کی ایک کتاب بھی ہے ۔ اس میں سارا طریقہ کار واضح کیا گیا ہے کہ جب ہم نفاذِ دین یا اس کے کسی گوشے جیسے نہی عن المنکر کا مطالبہ لے کر کھڑے ہوں گے تو ہمارا احتجاج پُرامن اور منظم ہوگاتاکہ ایک شیشہ تک بھی نہ ٹوٹے ، ہم اپنی جانیں دیں گے لیکن کسی کی جان نہیں لیں گے کیونکہ ہم مسلم معاشرے میں رہ رہے ہیں اور کسی مسلمان پر ہتھیار اُٹھانے کی اسلام ہرگز اجازت نہیں دیتا ۔ دوسری طرف حکمرانوں کو بھی اس بات کو سمجھنا چاہیے کہ یہ ملک اسلام کے نام پر بنا ہے ، اگر یہاں اسلام نافذ نہیں ہوگا تو پھر کچھ لوگ غلط راستے پر جا کر قانون کو ہاتھ میں لیتے ہیں جیسا کہ ناموس رسالت کے معاملے میں ہوتا ہے کہ 295سی کے مجرموں کو جب عدالتیں سزائیں نہیں دیتیں اور انہیں تحفظ دیا جاتاہے تو پھر لوگ قانون کو اپنے ہاتھ میں لیتے ہیں ۔
سوال: کیا افرادی قوت کے انتظار میں ہم بے حس نہ ہو جائیں گے یا پھراس انتظار میں اللہ کو پیارے ہوگئے تو کیا عذر پیش کریں گےکہ بیعت کی تھی مگر جہاد کا موقع نہ ملا؟ اس کے برعکس جو غیر مسلم فلسطینیوں کی مدد کے لیے نکل رہے ہیں ، کیا معلوم اللہ انہیں ہدایت نصیب کر دے اور ان سے اپنا کام لے لے تو ہمارے ہاتھ کیا آئے گا ؟ اتحاد اُمت پر بڑی محنت ہورہی ہے جو کہ قابل تحسین ہے، لیکن اگر اتحاد نہیں ہورہا تو کیا کچھ عملی اقدام نہیں کرنا چاہیے ؟ تربیت اور تزکیہ تو عمر بھر کا قصہ ہے، غلطیوں سے پاک کوئی انسان بھی نہیں ہوسکتا ۔کیا جنگ کے لیے بھی کوئی تربیت دی جارہی ہے ؟ (عرزاصاحب)
امیر تنظیم اسلامی:پہلی بات یہ ہے کہ جہاد اور قتال میں فرق ہے ۔ڈاکٹر اسراراحمدؒ کا ’’ جہاد فی سبیل اللہ ‘‘ کے عنوان سے ایک کتابچہ موجود ہے ، اس میں ساری تفصیل موجود ہے ۔جہاد عمر بھر کا معاملہ ہے اور ہمیشہ جاری رہتا ہے ۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: افضل جہاد اپنے نفس سے مجاہدہ کرناہے ۔ جہاد کے بغیر نجات نہیں ۔
{ ھَلْ اَدُلُّــکُمْ عَلٰی تِجَارَۃٍ تُنْجِیْکُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍJتُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَرَسُوْلِہٖ وَتُجَاہِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ بِاَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْ ط}(الصف)
’’ کیا میں تمہیں ایسی تجارت کے بارے میں بتائوں جو تمہیں دردناک عذاب سے چھٹکارا دلا دے؟(وہ یہ کہ) تم ایمان لائو اللہ اور اُس کے رسول ؐپر اور جہاد کرو اللہ کے راستے میں اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ۔‘‘
ایک مسلمان اپنے نفس کے خلاف بھی جہاد کرتاہے ، شیطان کے خلاف بھی ، معاشرتی برائیوں کے خلاف بھی ، باطل نظریات اور کفر کے نظام کے خلاف بھی ، تاآنکہ باطل کے خلاف اگر میدان جنگ سجتاہے تو پھر قتال کا مرحلہ بھی آتاہے ۔ اللہ کے رسول ﷺ نے ان تمام مرحلوں پر جہاد کیا ۔ ہمارے لیے اُسوہ آپ ﷺ کی سیرت ہے ۔ قتال کےمختلف مقاصد قرآن میں بیان ہوئے ہیں ۔ کبھی یہ دفاع کے لیے ہوتاہے ، کبھی مظلوموں کی مدد کے لیے ۔ جیسا کہ فرمایا :
’’اور تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم قتال نہیں کرتے اللہ کی راہ میں‘اور ان بے بس مردوں‘ عورتوں اور بچوں کی خاطر جو مغلوب بنا دئیے گئے ہیں‘جو دُعا کر رہے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار‘ ہمیں نکال اِس بستی سے جس کے رہنے والے لوگ ظالم ہیں۔اور ہمارے لیے اپنے پاس سے کوئی حمایتی بنا دے‘ اور ہمارے لیے خاص اپنے فضل سے کوئی مددگار بھیج دے۔‘‘(النساء :75)
کبھی اللہ کے دین کے غلبے کے لیے بھی قتال ہوگا :
دوسری بات یہ ہے کہ تنظیم اسلامی کی بیعت جہاد فی سبیل اللہ کے لیے ہوتی ہے ۔ یعنی اللہ کی بندگی کے لیے ، اللہ کی بندگی کی دعوت کے لیے اور اللہ کی بندگی کے نظام کو قائم کرنے کے لیے مستقل جدوجہد کرنا ۔ اس جدوجہد میں فطری طور انسان کا جذبہ یہ چاہتاہے کہ فوری طور پر کچھ نتائج حاصل ہو جائیں ۔ اس موضوع کو قرآن نے بھی بیان کیا ہے ۔ اللہ کے نبی ﷺ کی کوشش تھی جو قرآن نازل ہورہا ہے وہ فوری طور پر حفظ ہو جائے ۔ اللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرماکر انہیں تسلی دی :
{لَا تُحَرِّکْ بِہٖ لِسَانَکَ لِتَعْجَلَ بِہٖ (16)}(القیامہ) ’’آپؐ اس (قرآن) کے ساتھ اپنی زبان کو تیزی سے حرکت نہ دیں۔‘‘
معلوم ہوا کہ نتائج اللہ تعالیٰ کے ذِمّہ ہیں ، بندے کو صرف جدوجہد کرنی ہے ۔ سیدنا نوح dنے ساڑھے 9 سو سال اپنی قوم پر محنت کی، لیکن اس کے باوجودکم و بیش 70افراد ایمان لائے ، جبکہ نافرمانوں میں ان کا بیٹا اور بیوی بھی شامل تھے ۔ اسی طرح مکہ کے 13 برس تک مسلمانوں کو یہ حکم تھا : {کُفُّوْٓا اَیْدِیَکُمْ } (النساء:77) ’ اپنے ہاتھ روکے رکھو ؟‘‘
احد کا میدان سجا ،70 صحابہ کرامj شہید ہوگئے ، دین اس وقت تک غالب نہیں ہوا تھا ، مگر وہ سب کے سب اللہ کے ہاں اجر پائیں گے ۔ اس کے برعکس عبداللہ بن ابی فتح مکہ اور دین کے غلبہ تک زندہ رہا مگر اللہ کے ہاں وہ ناکام ہوا کیونکہ اس نے غلبہ دین کی جدوجہد میں صدق دل سے حصہ نہیں لیا بلکہ منافقت کا کردار ادا کیا ۔ معلوم ہوا کہ نتائج کا ذمہ دار انسان نہیں ہے ، البتہ محنت ، جذبہ اور خلوص کے ساتھ جدوجہد جاری رکھنا چاہیے ۔ اگر موجودہ حالات مایوس کن اور پریشان کن ہیں تو کوئی بات نہیں ، آپ جس کے مکلف ہیں وہ جدوجہد کرتے رہیں ، آپ کو اجر ملے گا ۔ وہ جدوجہد یہ ہے کہ ہم زبان سے آواز اُٹھائیں ، قوم اور حکمرانوں کو جگائیں ، عوام کے اندر شعور اُجاگر کریں ، مظلوموں کی مالی مدد کریں اور ان کے لیے دعائیں بھی کریں ۔ اس محنت میں کمی نہیں ہونی چاہیے ۔ باقی نتیجہ اللہ کے ہاتھ میں ہے ۔ یہ جدوجہد ساری زندگی کی ہے ، ایسا نہیں ہے کہ مخصوص دنوں یا سیزن کے لیے ہے ، جیسا کہ بعض دیگر مذاہب میں چند مخصوص دن مذہبی سرگرمیوں کے لیے ہوتے ہیں اور اس کے بعد مذہب سے تعلق کٹ جاتاہے ۔ اگر میرا ایمان مجھے صبح کی نماز کے لیے مصلے پر کھڑا نہیں کر رہا اور میں دعویٰ کروں کہ اہل غزہ کے لیے جان دے دوں گا ، اپنے چھ فٹ کے قد پر اسلام کو غالب نہیں کر پارہا اور میں کہوں کہ پوری دنیا پر اسلام کو غالب کردوں گا تو یہ خیالی باتیں ہوں گی ۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ پہلے جو فرائض مجھ پر عائد ہوتے ہیں اُن کو ادا کروں ، حقوق اللہ اور حقوق العباد جو مجھ پر واجب ہیں وہ ادا کروں ،اسی طرح جہاں تک میرے اختیا رمیں ہے امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے حوالے سے مجھ پر جو دینی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں اُن کو ادا کروں ۔
سوال: کیا ہم سیاسی شعور پیدا کیے بغیر بھی کسی نظام کو تبدیل کر سکتے ہیں۔ہمارے تنظیمی اجتما عات میں سیاست پر کیوں گفتگونہیں ہوتی؟ مروجہ سیاست اور اسلام میں سیاست کا تصور اور اس کا تقابلی جائزہ اور طریقہ کار پر گفتگو کتنی اہم ہے؟ انقلاب کے لیے سیاسی شعور کی اہمیت کیا ہے؟ کیا ہمیں ماضی کی سیاسی غلطیوں کا جائزہ نہیں لینا چاہیے؟ اخلاقی مسائل اور سیاسی مسائل کیا دونوں اہم نہیں ہیں؟وضاحت درکار ہے۔( محمد خلیل حامد انصاری )
امیر تنظیم اسلامی: ایک چھوٹا سا لطیفہ پہلے میں بیان کر دیتا ہوں ۔ ہمارے سابقہ امیر تنظیم محترم عاکف سعید صاحب اللہ تعالیٰ ان کو صحت عطا فرمائے،ایک مرتبہ وہ کراچی میں رفقاء کے اجتماع میں تشریف لائے ، اجتماع کے بعد ایک شخص نے راستے میں چلتے چلتے ان سے سوال کیا کہ آج کل فلاں فلاں سیاسی ایشوز ہیں ، کیا تنظیم اسلامی ان پر بات نہیں کرتی ؟ عاکف سعید صاحب نرم مزاج اور شریف النفس ہیں،انہوں نے پوچھا : آپ ندائے خلافت پڑھتے ہیں ؟ جواب ملا نہیں ،پھر پوچھا : خطاب جمعہ تو لازماً سنتے ہوں گے ؟ کہا نہیں سنتا ۔ پھرماہانہ میثاق تو پڑھتے ہوں گے ، جواب ملا ہمارے گھر آتا نہیں ۔ حافظ عاکف سعید صاحب نے مسکرا کر کہا : پھر میں کیا کہہ سکتا ہوں ۔ اگر عاکف سعید صاحب کی جگہ ڈاکٹر اسرارا حمدؒ ہوتے تو کہتے کہ خطاب جمعہ تم نہیں سنتے ، ندائے خلافت ، میثاق پڑھنے کا تمہارے پاس وقت نہیں ہے تو کیا فرشتے آکر تمہیں بتائیں گے کہ تنظیم اسلامی سیاست پر بات کرتی ہے یا نہیں۔ پاکستان میں سیاست کے نام پر جو کچھ ہورہا ہے اس کی وجہ سے سیاست کا لفظ بدنام ہو چکا ہے مگر حقیقت میں سیاست دین کا حصہ ہے ، ڈاکٹر اسرار احمدؒ اکثر یہ حدیث سنایا کرتےتھے :
((کانت بنو اسرائیل تسوسھم الانبیاء)) بنی اسرائیل کی سیاست انبیاء کرتے تھے ۔ جب ایک نبیؑ چلے جاتے تو دوسرے نبیؑ آجاتے تھے اور ان میں سے کئی انبیاء ؑکو اللہ نے بادشاہتیں بھی عطا کیں ۔لفظ سیاست کاترجمہ انتظام ہے۔ انتظام گھر کا بھی ہوتاہے ، ریاست کا بھی ہوتاہے ۔ شاہ ولی اللہ ؒ نے اپنی کتاب حجۃ البالغہ میں سیاست مدن کا لفظ استعمال کیا ۔ یعنی شہر یا ملک کا انتظام چلانا ۔ لہٰذا ایک ایسی جماعت جو نظام بدلنے کی جدوجہد کر رہی ہو ، کیا اس کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ سیاست پر بات نہ کرے یا سیاسی شعور دینے کی کوشش نہ کرے ؟ بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرار احمدؒ کے سیاسی تجزیے تو بہت مشہور تھے، وہ حکمرانوں کی غلط پالیسیوں اور کاموں پر تنقید بھی کرتے تھے ، ملک و ملت کے حوالے سے مشورے بھی دیتے تھے اورآج تک بھی ان کے کلپس سوشل میڈیا پر وائرل ہیں ۔ اب جس کا سیاست سے تعلق نہ ہو وہ نظام کی بات کیسے کرے گا؟ تنظیم اسلامی کی سیاست نظری ہے ،البتہ عملی سیاست میں ہمارا اصل میدان انقلابی ہے ، انتخابی نہیں ۔ ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ انقلاب انقلابی جدوجہد کے ذریعے آئے گا ، انتخابات کے ذریعے چلتے ہوئے نظام کو چلایا تو جا سکتاہے مگر نظام کو بدلا نہیں جا سکتا ۔ لہٰذا سیاسی شعور کے بغیر نظام کی تبدیلی ممکن ہی نہیں ۔ اسی لیے ہمارے ہاں خطاب جمعہ میں بھی سیاسی امور زیر بحث آتے ہیں ، پریس ریلیز جاری ہوتی ہے تو اس میں بھی ملکی ، ملی اور سیاسی امور پر اپنی رائے دی جاتی ہے ۔ ہفتہ وار پروگرام زمانہ گواہ ہے میں بھی سیاست سمیت تمام امور پر گفتگو ہوتی ہے ۔ ہفت روزہ ندائے خلافت اور ماہانہ میثاق میں بھی سیاست پر تبصرے اور تجزیہ شامل ہوتے ہیں ۔ تنظیمی اجتماعات میں بھی سیاسی امور زیر بحث آتے ہیں ، حالات حاضرہ پر بھی گفتگو ہوتی ہے ۔ اس کا دائرہ کار اُسرہ سے لے کر سالانہ اجتماع تک پھیلا ہوا ہے ۔
سوال: تنظیم اسلامی کے پیغام کو مزید عام کرنے کے لیے تنظیمی بنیادوں پر مزید کیا کیا اقدامات کیے جارہے ہیں؟ ( محمد ثوبان صاحب، سرگودھا)
امیر تنظیم اسلامی: تنظیم کی سطح پر ہم نے اپنی دعوت کو پھیلانے کے لیے بہت سارے امور کا بندوبست کر رکھا ہے۔ سب سے پہلے تنظیم کے رفقاء کا ایک ہفتہ وار اُسرہ ہوتاہے جس میں تربیت و تذکیر کے ساتھ ساتھ سیاست اور انقلاب پر بھی گفتگو ہوتی ہے ، اسی طرح ہفتہ وار حلقہ قرآنی بھی ہوتا ہے جس میں رفقاء اور احباب بھی شریک ہوتے ہیں ۔ اس کے علاوہ دروس قرآن کے مختلف پروگرامز بھی ہوتے ہیں ، ماہانہ ، سہ ماہی اور شش ماہی دعوتی اور تربیتی اجتماعات بھی ہوتے ہیں ۔ تنظیمی بنیادوں پر مختلف مساجد میں دعوتی پروگرامز رکھے جاتے ہیں ، خطبات جمعہ ہوتے ہیں ، انجمن ہائے خدام القرآن اور قرآن اکیڈمیز کے زیر اہتمام بھی مختلف دعوتی اور تربیتی کورسز ہوتے ہیں، ان میں رجوع الی القرآن کورسز بھی شامل ہیں ۔ ان سب کے ذریعے ہم تنظیم کی بنیادی فکر اور دعوت کو عام کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ پھر ہم یہ بھی چاہتے ہیں کہ ہمارا ہر رفیق تنظیم انفرادی طور پر بھی لوگوں سے رابطے میں رہے اور اس رابطے کے ذریعے جہاں ڈاکٹر اسراراحمدؒ کا تعارف، ان کی قرآنی دعوت اور فکر لوگوں تک پہنچ رہی ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ دین کا جامع تصور ، فرائض دینی کا جامع تصور ، جماعتی زندگی کا تصور بھی لوگوں تک پہنچ رہا ہے ۔ اسی طرح سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم کو استعمال کرتے ہوئے بھی ہم ڈاکٹر اسراراحمدؒ کی دعوت کو لوگوں تک پہنچا رہے ہیں ۔ وہ تمام لوگ جو ڈاکٹر اسراراحمدؒ کو سنتے ہیں اور ان سے محبت کرتے ہیں ، میں ان سے کہوں گا کہ وہ ڈاکٹر صاحب کے طویل خطاب بھی سنا کریں تاکہ دین کا جامع تصور ، دینی فرائض کا جامع تصور سے آگاہی حاصل ہو جائے ۔جو لوگ ڈاکٹر اسراراحمدؒ سے محبت کرتے ہیں اُن سے ہم یہ بھی عرض کریں گے کہ ڈاکٹرصاحبؒ اپنے ہاتھوں سے کچھ ادارے بھی قائم کرکے گئے ہیں ، جیسے تنظیم اسلامی اقامت دین کی جدوجہد کے لیے ہے ، انجمن ہائے خدام القرآن ، قرآن کی تعلیم کو عام کرنے کے لیے ہیں ، آپ کو اگر ڈاکٹر صاحب ؒ سے محبت ہے تو ان اداروں کو بھی سپورٹ کریں ، ان کے ذریعے قرآن اور دین کی خدمت کریں ، سب سے بڑھ کر یہ کہ اقامت ِدین کی جدوجہد میں حصہ لیں جوکہ بحیثیت مسلمان ہم سب پر لازم بھی ہے ۔ اگر اس فریضہ میں حصہ لیں گے تو آپ کی زندگی کا مقصد بھی پورا ہوگا اور ڈاکٹر صاحب کی روح کوبھی ثواب ملے گا اور ان کے لیے صدقہ جاریہ بنے گا ۔ ان شاء اللہ