(کارِ ترقیاتی) محو ِحیرت ہوں… - عامرہ احسان

11 /

محو ِحیرت ہوں…

عامرہ احسان

شرق تا غرب دنیا (گلوب) ایک لٹو کی طرح گھومے جا رہی ہے۔ ٹرمپ، گلوبل چودھری اس لٹو سے کھیل رہا ہے۔ انسان چکرا کر رہ گئے ہیں رولر کوسٹر کیفیت میں! 
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آسکتا نہیں
 محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی!
اگر چہ بظا ہر دیوانی، مجذوبانہ لہر میں بہت کچھ  اُول جلول کہہ گزرتا ہے۔ مگر دیوانہ بکارِ خود ہشیار! بوگوٹا، کولمبیا کے مظاہرے میںسب نے فلسطینی قمیصیںپہن رکھی ہیں۔ فلسطینی جھنڈے اُٹھائے، آگے بینر پر ٹرمپ کی تصویر ہے۔ چہرے پر خون کے چھینٹے اور ہٹلر کی مونچھیں لگی ہیں، جو اصل حقیقت کا عکس ہے۔ گزشتہ سالوں میں فساد، ظلم، افراتفری، خونریزی، وحشت ،سر بیت، چنگیزی، قانون شکنی، عہد شکنی، جھوٹ، افتراء جیسے منفی الفاظ کے جتنے مترادفات مل سکتے ہیں لے آئیے، امن و آشتی کے نام پر کیا کچھ نہ بیت گیا۔ زلزلوا زلزالاً شدیدا۔د نیاپوری شدتوں سے ہلا،دہلا ماری گئی!
یہ سب یو نہی، اچانک بلا سبب نہیں۔ جون 2006 ء میں تل ابیب میں امریکن سیکرٹری سٹیٹ کونڈو لیزا رائس نے، Redrawing Middle East  مشرق وسطیٰ کے نئے نقشے کی اصطلاح مشرقی بحر روم میں آئل ٹرمینل کے افتتاح کے موقع پرجاری کی تھی۔ بعد ازاں  کو نڈو لیزا رائس اور اسرائیلی وزیر اعظم نے اکٹھے یہ خبر لبنان کے محاصرے کے موقع پر سنائی(جسے برطانیہ، امریکہ کی آشیر باد حاصل تھی)۔ بین الاقوامی میڈیا کو بتایا گیا کہ لبنان سے ایک ’نئے مشرقِ وسطیٰ‘ کا پراجیکٹ شروع کیا جارہا ہے۔ اصلاً کئی سالوں سے منصوبہ بندی کی جارہی تھی، افراتفری، عدم استحکام، تشدد اور چیرہ دستی کا اہتمام ہونے کو تھا۔ اسے وسعت دی جانی تھی لبنان، فلسطین، شام، عراق، خلیج اور افغانستان تک۔ (ورلڈ ٹائمز، دسمبر 2018ء)     
یاد ر ہے کہ اس دوران ٹرمپ نے یکایک 2017 ء میں ریاض میں عرب اسلامی ممالک کے سربراہوں کو یک جا کیا۔ سعودی عرب سے تعلقات میں غیر معمولی گرمجوشی، بھاری مالی معاہدات کیے۔ محمد بن سلمان کو غیر معمولی اہمیت اور مقام حاصل ہوا۔ مسلم ممالک سے فدویت وصول کی اور پھر چل سو چل۔ 2018 ء میں اپنے داماد جیراڈ کشنر کو مشرقِ وسطیٰ میں امن (برائے اسرائیل) کے لیے اہم کردار سونپا۔ محمد بن سلمان کا وائٹ ہاؤس کا دورہ ہوا۔ کشنر سے کئی ماہ تک استوار کیے جاتے تعلقات    نے سعودی عرب، امارات اور پھر قدم بہ قدم پورے  مشرقِ وسطیٰ کی ہیئت ، سیاسی، معاشی، تزویراتی اعتبار سے بہت کچھ بدل دی۔ یہاں تک کہ باذن اللہ 7 اکتوبر 2023ء میں ایک غیر متوقع جانب سے ایک بھاری بھر کم تبدیلی نے پورا رخ مزید بدل ڈالا۔ بات صرف مشرقِ وسطیٰ تک محدود نہ رہی، پوری دنیا انقلابوں کی لپیٹ میں آگئی۔ 
  {وَمَکَرُوْا وَمَکَرَ اللہُ ط وَاللہُ خَیْرُ الْمٰکِرِیْنَ o }
ایک پلان تدبیرِ کائنات کرنے والے کا بھی ہے جو سب پرحاوی رہتا ہے۔ پلان تو 2001 ء میں بھی ایک جنگوں کے مارے کمزور ملک پر حملہ کر کے دنیا سے نظریاتی اسلام کی ہر رمق ختم کر دینے کا تھا۔ مگر لینے کے دینے پڑ گئے۔ وہاں مذاکرات سے جیسے تیسے جان چھڑائی اور لوٹ کے بدھو گھر کو آئے۔ اس دوران مشرقِ وسطیٰ پرا جیکٹ پر کام آگے بڑھانے کو سعودی عرب، امارات کی سماجی، معاشرتی،  ثقافتی ہیئت بدلی۔ جہاں جہاں ممکن ہوا وہاں ابراہیمی معاہدوں کے نام پر مسلم ممالک کے حلق سے اسرائیل تسلیم کروانے کی چھچھوندر اُتاری گئی۔ اگرچہ اسرائیل قبلۂ اول،  فلسطین پر مکمل ناجائز 78 سالہ قبضہ، سرزمین کے مالکوں اور ابنیاء کے حقیقی وارثوں پر نکبتہ در نکبتہ مسلط کرنے والی قوم سے معاہدات کو سیدنا ابراہیم d کے ذی شان نام سے موسوم کرنا، اس تقدس کی پامالی ہے۔ یہ فرعونی نمرودی معاہدے ہیں۔ 
2001ء سے دہشت گردی کے عنوان سے لڑی جانے والی جنگ نے مسلمانوں کے نصاب ہائے تعلیم تبدیل کر کے، اخلاقیات پر سوشل میڈیا، فلموں، ڈراموں، حیا باختگی کا ہر رنگ ڈالروں کے عوض مسلط کیا۔ 25 سالوں میں پوری نسل دین سے بے بہرہ، سیکولرازم، لبرل ازم میں ڈبو کر اپنی شناخت، اپنے مقدسات کو بھول گئی۔ حکمران تمام مسلم ممالک پر نو آبادیاتی نظام کے تحت چلتے چلتے اب ٹرمپ کے ہاتھ لگ گئے۔   ع
 دگرگوں ہے جہاں تاروں کی گردش تیز ہے ساقی!
  ہوا یہ کہ پوری مغربی دنیا اور سبھی دبے پسے ہر براعظم کے ممالک یکسر پلٹ کر حیران کن اور( امریکہ اسرائیل کے لیے) ویران کن حد تک فلسطین نواز اور اسرائیل دشمن ہو گئے۔ دو سال دیوانہ وار جد و جہد مظلوم فلسطینیوں کے لیے ہم نے نہ کی، مغربیوں نے کی۔ قرب ِقیامت کی علامتوں میں سے ایک ،سورج کا مغرب سے طلوع ہونا ہے۔ اگر چہ وہ تو عملاً اور حقیقتاً ہوگا۔ مگر معنوی، استعاراتی اعتبار سے اسلام کا سورج اب مغرب سے طلوع ہوگا ! شرم الشیخ اور اس سے پہلے فلسطینیوں بارے ہونے والے فیصلوں پردنیا بھر کے فلسطین کے  بہی خواہوں کی نگاہیں مرکوز ہیں۔ ان کے حقوق اور اقصیٰ کا تحفظ خدانخواستہ ہم نہ کر پائے تو اللہ کے سچے وعدے موجود ہیں۔ طبرانی کی حدیث میں آپﷺ نے فرمایا: میری اُمّت کا ایک گروہ دمشق کے دروازوں اور قدس اور اس کے گردوپیش کے دروازوں پر لڑتا رہے گا۔ جو کوئی انھیں دھوکا دے یا تنہا چھوڑے گا انھیں کو ئی ا دنیٰ ترین نقصان   بھی نہ پہنچا سکے گا ۔ وہ فتح یاب ہوں گے۔ حق کے لیے کھڑے، آخری وقت تک ۔
قرآن کی وعید واضح ہے کہ’’ اگر تم منہ موڑو گے تو اللہ تمہاری جگہ کسی اور قوم کولے آئے گا اور وہ تم جیسے نہ ہوں گے۔‘‘ (محمد: 28) واپس تو ہر انسان کو جانا ہے۔ ایمان لائے،نہ لائے، بھلا ڈالے۔ اور کافر سے زیادہ سخت معاملہ منافق کا ہوگا جو جانتے بوجھتے چند روزہ مفادات کی خاطرآخرت سے منہ پھیر لے۔ حال ہی میں ماحولیات اور جانوروں کی ماہر91سالہ امریکی خاتون جین گڈ آل کیلی فورنیا میں انتقال کر گئی۔ آخری انٹرویو میں نصیحت و وصیت چھوڑی کہ: ’’آپ یہ سمجھ لیں کہ آپ کی زندگی اہم ہے۔ ہر ایک دن کیسے گزرتا ہے اہم ہے۔ آج جب یہ سیارہ تاریکی میں ڈوبا ہوا ہے پھر بھی امید نہ کھوئو۔ ہر دن کی کارکردگی دیکھو۔ میں چاہتی ہوں کہ تم جان لو کہ یہ دنیا میں زندگی کا خاتمہ نہیں ہے۔ میرا یقین ہے اور اب میں جانتی ہوں کہ موت کے بعد آگے ایک زندگی ہے۔‘ ‘
مشرقِ وسطیٰ اس وقت اہم ترین منزلیں طے کر رہا ہے۔ حماس نے بے انتہا زیر کی، مومنانہ فراست      عدم جذباتیت سے مشکل ترین حالات میں بدترین دشمنوں کی موجودگی اور برسرِ معاہدات حقیقی بہی خواہوں کے مکمل عدم وجود کے باوجود سلیقے سے ہتھیار نہ ڈالنے پر استقامت سے ڈٹے رہے۔ نہ صرف غزہ میں پولیس کی انتظامی   ذمہ داریاں سنبھال رہے ہیں بلکہ یر غمالیوں کی واپسی کی تقریب مسلح، یونیفارم میں پورے تدبر و وقار سے سر انجام دی۔ یرغمالی اسرائیلی تندرست و توانا اور دوسری طرف سے سسکا سسکا کر رہا کیے جانے والے کئی فلسطینی قیدی لاغر اور بدسلوکی کا شکار ایمبولینسوں میں بھی تھے۔  
ٹرمپ اپنے وعدے کے مطابق اسرائیل آیا۔   یر غمالیوں کے لواحقین سے خطاب کیا۔ وہاں ابتداء ً لواحقین نے ٹرمپ کا زبردست خیر مقدم کیا اور نیتن یا ہو مکمل نظرانداز کیا گیا۔ گزشتہ روز و ٹکوف، امریکی نمائندے کی تقریر میں نیتن یاہو کا نام لینے پر پورا مجمع سیخ پا ہو کر اس کے خلاف آوازے بلند کرنے لگا۔ ٹرمپ دیوارِ گریہ بھی پوری مسکنت اور یہودیت اوڑھ کر گیا۔ یروشلم میوزیم میں خطاب پر یہودیوں سے بڑھ کر یہودی ہونے کا تاثر اور اسرائیل کی سربلندی کا بہی خواہ بن کر یقین دہانیاں تھیں۔ خطے میں اسرائیل کی بالا دستی، ’ابراہیمی‘ معاہدات آگے بڑھانے کا عزم ہمراہ تھا۔ یہ شرم الشیخ جانے سے پہلے گویا اس کا مقدمہ تھا۔یرغمالیوں کی واپسی اور ٹرمپ اعلانیہ شرم الشیخ کے دستخط کے ساتھ ہی اسرائیل نے غزہ میں7 فلسطینی راہ گیر ٹینک فا ئرسے شہید کر ڈالے! امن معاہدے کا دوسرا مرحلہ اسرائیلی(وامریکی)بدنیتی کی بنا پر غیر یقینی ہے! فلسطینیوں کی آزمائش جاری ہے!
ادھر ان عالمی حالات میں ہم اور افغانستان باہم الجھاؤ سے امریکی جلن کڑھن اور اس کی شکست کا بدلہ تو چکا سکتے ہیں مگر پاکستان کے وسیع تر دنیاوی مفادات، وسط ایشیائی ریاستوں تک رسائی، تجارت، معیشت، بین الاقوامی    سیاست سبھی میں گھاٹے کا سودا کر رہے ہیں۔ ہم ایٹمی ریاست ہونے کے حوالے سے، ایمانی حوالے سے     صبر وضبط، حوصلے سے کشادہ ظرفی کا مظاہرہ کرتے تو چہار جانب کھڑے چیلنجوں میں یہ اضافہ نہ ہوتا۔ بڑی بے تدبیری سے ہم نے انھیں بھارت کی طرف دھکیلا ہے۔ دونوں کو ٹھنڈے دل و دماغ سے معاملات سلجھانے کی طرف آنا ہو گا۔ علماء سے باب الفتن پڑھ لیں تو اچھا ہے۔ افغانستان کی ذمہ داری تحمل کے اعتبار سے یوں زیادہ ہے کہ وہ    پابند ِشریعت نظام چلانے کی بنا پر ہم ان پڑھوں سے عنداللہ زیادہ بھاری ذمہ داری کے حامل ہیں۔ آگے بڑھیے۔ ایک دوسرے کو دشمن بنانے کی بجائے مل بیٹھ کر معاملات سلجھائیں،برادرانہ تعلقات استوار کریں قبل اس کے کہ دیر ہو جائے خدا نخواستہ!