(دعوت فکر) توہینِ رسالت کیس کی روداد - نعیم اختر عدنان

11 /

توہینِ رسالت کیس کی روداد

نعیم اختر عدنان

پنجاب حکومت کے محکمہ ماہی پروری Fishery Department میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر کے عہدہ پر تعینات گریڈ 17 کا ایک سرکاری آفیسر جس کا نام انور کینتھ ہے، عیسائی مذہب سے تعلق رکھنے والا یہ شخص تھانہ گوالمنڈی کی حدود میں رہائش پزیر تھا۔ ماضی میں یہ شخص کہوٹہ ایٹمی پلانٹ میں بھی کام کر چکا ہے۔ کیتھولک عیسائی عقائد کا حامل یہ شخص اعلیٰ سرکاری ملازمت کے ساتھ ساتھ اپنے ہاتھ سے لکھی ہوئی تحریروں کے ذریعے مذہب عیسائیت کی تبلیغ بھی کرتا تھا۔ اس تبلیغ کے ساتھ ساتھ شخص مذکور نے اپنی تحریروں میں قرآن مجید، نبی مکرم ﷺ، اسلام، مسلمانوں اور مکہ مکرمہ و مدینہ منورہ جیسے مقدس اسلامی شعائر کے بارے میں انتہائی قابل اعتراض اور اشتعال انگیز الفاظ استعمال کیے۔ اس تحریری مواد کو وہ   اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل، یورپی ممالک کے سفیروں، نمایاں سیاسی اور مذیبی شخصیات کو بذریعہ رجسٹرڈ ڈاک ارسال کرتا تھا۔ اس نے تبلیغ ِمذہب کا یہی طریقہ کار اختیار کیے رکھا۔ 
دینی و مذہبی جماعتوں اور مشہور علماء کرام کو بھی یہ مواد اس پیغام و اعلان کے ساتھ ارسال کرتا تھا کہ میرے ساتھ مناظرہ کیا جائے اور میرے سوالات اور اعتراضات کا جواب دیا جائے۔ اُس کی جانب سے یہ سلسلہ تبلیغ مسلسل جاری رہا، کسی دینی ادارے، جماعت یا اسلامی اسکالر کی جانب سے جب کوئی ردعمل نہ آ یا تو شخص مذکور مزید دھڑلے سے اپنی جارحانہ انداز کی حامل نازیبا گفتگو دہراتا کہ نعوذ باللہ قرآن اللہ کا کلام نہیں ہے، محمدﷺ اللہ کے رسول نہیں ہیں اور مسلمان اور اُن کا دین جھوٹا ہے وغیرہ وغیرہ۔ 
تنظیم اسلامی شاہدرہ کے بزرگ اور نئے رفیق حاجی محمود ظفر صاحب جو ایک سماجی و فلاحی تنظیم کے صدر بھی تھے کو یہ تمام مواد بذریعہ رجسٹرڈ ڈاک موصول ہوا۔ رفیق محترم نے موصولہ تحریری مواد راقم کو دکھایا، اس تمام گستاخانہ اور توہین مذہب کے حامل مواد کا بغور مطالعہ و جائزہ لینے کے بعد راقم نے رائے دی کہ یہ مواد ایک سنگین جرم اور قابل دست اندازی پولیس کیس کے زمرے میں آتا ہے۔ اسی وقت مشورہ کے بعد دو مقامی علماء کرام مولانا محمد اسلم خطیب مسجد عید گاہ شاہدرہ ٹاؤن اور جمعیت علمائے اسلام کے مقامی رہنما مولانا شبیر احمد عثمانی کی ہمراہی میں قانونی کارروائی کے لیے تھانہ گوالمنڈی لاہور جانے کا فیصلہ ہوا۔ متعلقہ پولیس آفیسر کے سامنے سارا تحریری مواد اور اس کی تفصیلات زبانی بھی بیان کی گئیں۔ ایس ایچ او صاحب نے بلا تاخیر اور بغیر کسی حیل و حجت کے ملزم مذکور کی رہائش گاہ پر پولیس کو ریڈ کے لیے بھیجا۔ خوش قسمتی سے مذکورہ شخص گھر پر موجود تھا جسے ریڈ کرنے والی پولیس ٹیم اپنے ساتھ تھانہ لے آ ئی۔ انور کینتھ مسیح کو پولیس آفیسر نے اس کا تحریری اور ارسال کردہ مواد دکھایا اور اس بارے پوچھ گچھ کی، موصوف نے اقرار کیا کہ یہ تحریری مواد اسی کا تحریر کردہ ہے۔ اس نے پولیس آفیسر کو بھی اس مواد کے حوالے سے گفتگو اور بحث کی دعوت دی اور کہا کہ اور کسی نے تو مجھ سے کبھی کوئی بحث و تمحیص نہیں کی اور نہ ہی میرے سوالوں اور اعتراضات کا جواب دیا ہے۔ آپ بحیثیت مسلمان میرے سوالات اور اعتراضات کا جواب دے دیں۔ 
قصہ مختصر ملزم مذکور کے خلاف توہین رسالت کے قبیح جرم کے ارتکاب کی بنا پر تعزیرات پاکستان کے تحت مقدمہ درج کرکے باقاعدہ گرفتاری عمل میں آگئی۔ یہ   25 دسمبر2001 کا دن تھا۔یوں ملزم کے خلاف قانونی کارروائی کا باقاعدہ آغاز ہوگیا۔ گواہوں کے بیانات قلم بند ہوئے اور دیگر شواہد کو ریکارڈ کا حصہ بنا کر سیشن عدالت میں چالان پیش کر دیا گیا۔ سیشن عدالت نے ڈیڑھ سال تک اس مقدمہ کی سماعت کی اور 17 جولائی2002 ءکو توہین رسالت کا جرم ثابت ہونے پر مجرم کو تعزیرات پاکستان کی دفعہ 295C کے تحت موت کی سزا کا حکم جاری کیا۔ 
سیشن کورٹ میں مقدمہ کی سماعت کے دوران راقم اور حاجی محمود ظفر مرحوم وکلاء کی ٹیم کے ساتھ مقدمہ کی پیروی کرتے رہے، سیشن عدالت سے سزا یافتہ مجرم انور کینتھ مسیح کی لاہور ہائی کورٹ میں سزا کے خلاف نظر ثانی کی اپیل کی سماعت کا فیصلہ ہوا۔ ہائی کورٹ میں نظر ثانی کی اپیل کی سماعت طویل عرصہ تک زیر سماعت رہی۔ بالاخر 3 جون 2014 ءکو عدالت عالیہ کے فاضل بنچ نے مجرم مذکور کی نظر ثانی کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے سیشن عدالت کی جانب سے دی گئی موت کی سزا کو بحال رکھا۔ واضح رہے کہ توہین رسالت کے جرم میں ضمانت کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ چنانچہ ملزم اندراجِ مقدمہ کے دن سے جیل ہی میں قید رہا۔ 
کئی سال گزرنے کے بعد سزا یافتہ قیدی نے جیل سے سپریم کورٹ آف پاکستان کے نام ایک تحریری درخواست ارسال کی جس کو عدالت عظمیٰ نے نظر ثانی اپیل کا درجہ دے کر باقاعدہ سماعت کے لیے منظور کر لیا۔ یہ اپیل  590/2017 کے نمبر کے تحت سپریم کورٹ میں سماعت کے لیے مقرر کردی گئی۔ تمام متعلقہ فریقین کو عدالتی احکامات جاری ہوگئے اور نظر ثانی اپیل کی سماعت کا باقاعدہ آغاز ہوگیا۔ نظرثانی اپیل کی پہلی سماعت 8 نومبر 2018 ءکو کورٹ روم نمبر ایک میں ہوئی۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ، جسٹس مظہر عالم میاں خیل اور جسٹس سردار طارق مسعود    تین رکنی بنچ کا حصہ تھے۔ طویل عرصہ معرض التوا میں پڑے رہنے کے بعد دوسری سماعت 13 جنوری 2022 ء کو ہوئی۔ اس مرتبہ جسٹس سردار طارق مسعود کے ساتھ جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس امین الدین بنچ میں شامل کئے گئے۔
25 فروری 2022 ء کو تیسری سماعت کے وقت جسٹس سردار طارق مسعود کے ساتھ جسٹس مظہر عالم میاں خیل اور جسٹس امین الدین بنچ کا حصہ تھے۔ اس سماعت پر کیس کو اسلامی نظریاتی کونسل کو رائے کے لیے بھیجے جانے کی ابزرویشن دی گئی مگر عملاً ایسا کچھ نہ ہوا۔ کیس پھر سے 23 جون 2022 ءکو سماعت کے لیے مقرر ہوا۔ اس سماعت کے لیے پھر سے نیا بنچ تشکیل ہوا۔ جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس جمال مندو خیل بنچ میں شامل تھے۔ وقت کا پہیہ نئے سال میں داخل ہوگیا اور 24 جنوری 2023 ءکو کیس کی سماعت کے لیے بنچ میں جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس جمال مندو خیل کے ساتھ جسٹس اطہر من اللہ کو شامل کیا گیا۔ دس ماہ کے طویل عرصہ و وقفہ کے بعد 24 نومبر 2023 ءکو اپیل کی سماعت کرنے والے بنچ میں جسٹس یحیٰی آفریدی، جسٹس عائشہ اے ملک اور جسٹس سعید حسن اظہر شامل تھے۔
سال 2023 ءمیں دو سماعتیں ہی ممکن ہوسکیں، کیس کی مزید سماعت 12 مارچ 2024 ءکو ہوئی۔  حسب سابق پھر سے بنچ تبدیل ہوگیا اور اس سماعت میں جسٹس جمال مندو خیل اور جسٹس سعید حسن اظہر کے ساتھ جسٹس مسرت ہلالی نے کیس کی سماعت کی۔ اگلی سماعت   7 اکتوبر 2024 ءکو مقرر ہوئی اور اس مرتبہ بنچ میں     جسٹس جمال مندو خیل اور جسٹس مسرت ہلالی کے ساتھ جسٹس شہزاد احمد نئے ممبر کی حیثیت سے بنچ کا حصہ بنے۔ وقت تیزی سے گردش کرتا ہوا سال 2025 ءمیں داخل ہوگیا اور نظر ثانی کی اپیل کا فیصلہ موخر ہوتا گیا۔ اب کی     بار سماعت کرنے والے بنچ میں جسٹس جمال مندو خیل، جسٹس مسرت ہلالی کے ساتھ راقم کے ہم نام جسٹس نعیم اختر افغان کو بینچ کا حصہ بنایا گیا۔
11 فروری 2025 ءکو سماعت کرنے والے بنچ کے ممبران میں تبدیلی ہوگئی۔ جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس عرفان سعادت خان اور جسٹس شہزاد احمد نے اپیل کی سماعت کی۔ اس باربنچ نے مجرم، اس کے لواحقین اور اپیل کندہ کے وکیل کی درخواست یا مطالبہ کے بغیر از خود ملزم کو لاہور کے مینٹل ہیلتھ ہسپتال میں بغرض علاج داخل کرنے کا حکم جاری کیا اور ذہنی و نفسیاتی صحت کے معالجین سے تفصیلی رپورٹس مرتب کروائیں اور انہیں عدالت کی معاونت کے لیے ذاتی طور پر طلب کرکے بذریعہ سوالات اپنی تشفی کا سامان کیا تاکہ حتمی فیصلہ میں کوئی مشکل پیش نہ آئے۔ 25 جون 2025 ءکو کیس پھر سے سماعت کے لیے مقرر ہوا۔ بنچ کے سربراہ جسٹس شہزاد احمد سماعت کی ابتدا ہی سے جارحانہ انداز کے حامل رویہ کا اظہار کرتے ہوئے نظر آئے۔ استغاثہ کے وکیل جناب غلام مصطفیٰ چودھری نے پیش کردہ میڈیکل رپورٹس کی فائنڈنگ اور ان رپورٹس کی بنیاد پر اختیار کردہ نتائج کو نہ صرف تسلیم کرنے سے انکار کردیا بلکہ بنچ سے استدعا کی کہ انہیں ان میڈیکل رپورٹس کو چیلنج کرنے کی مہلت دی جائے۔ سپریم کورٹ کی خصوصی ہدایت اور دلچسپی پر پاکستان بار کونسل کی طرف سے مہیا کردہ وکیل کو دلائل دینے کا موقع ہی نہیں ملا بلکہ مجرم کی بریت اور رہائی کے لیے خود عدالت پیش پیش تھی۔ 
2018 ءسے 2025 ء تک کا طویل عرصہ لگانے والی عدالت عظمیٰ نے انتہائی نامناسب ماحول میں سماعت کو ڈرامائی انداز میں ملتوی کردیا ،اس دوران ایک بڑا حیران کن معاملہ سامنے آیا کہ ابھی تک سپریم کورٹ نے اس اپیل     کا فیصلہ بھی نہیں سنایا تھا کہ25 جون 2025ء کو  قومی اسمبلی کے اجلاس میں ایک MNA شیر علی ارباب    نے فلور آف دی ہاؤس پر بڑی ڈھٹائی سے جھوٹ بولا کہ سپریم کورٹ نے انور کینتھ کو رہا کردیا ہے۔ اسی طرح بین الاقوامی سطح پر بھی ایسی ہی خبریں چلائی گئیں۔ اس طرح ایک خاص لابی گستاخ کو قانونی گرفت سے بچانے کے لیے نہ صرف عدالتی کارروائی پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتی رہی بلکہ ملک پاکستان میں فتنہ و فساد کا ماحول بھی بناتی رہی۔ ارباب اختیار و اقتدار کو اس کا سختی سے نوٹس لینا چاہیے تھا مگر ایسا کچھ بھی نہ ہوا۔ اس اپیل میں استغاثہ کی طرف سے صدر فورم جناب غلام مصطفےٰ چودھری ایڈووکیٹ سپریم کورٹ آف پاکستان اپنی ٹیم کے ہمراہ پیش ہوتے رہے اور ہر طرح کے قانونی اور شرعی دلائل پیش کیے گئے۔ 
سپریم کورٹ نے اسلامی نظریاتی کونسل سے اس لعین کے خط میں موجود گستاخانہ مواد بارے رائے مانگی تو کونسل نے واضح طور پر لکھا کہ یہ لعین گستاخی کا مرتکب ہوا ہے۔ اب سپریم کورٹ نے اس لعین کا دماغی معائنے کروانے کے لیے حکم دیا تو ڈاکٹروں نے نہ صرف لکھ کر رپورٹ دی بلکہ متعدد بار  سپریم کورٹ پیش ہو کر بھی کہا کہ یہ بندہ سال 2001 ء     میں وقوعہ سے پہلے کا ہی پاگل ہے۔ یہ رپورٹ بغیر کسی لیبارٹری/کلینیکل ٹیسٹ کےہوا میں ہی تیار کی گئی۔
ایک اور سماعت مقرر ہوئی جس میں پھر سے بینچ تبدیل ہوگیا اور تینوں فاضل ممبران نے ایک سماعت کی جو محض ایک رسمی کارروائی پر مبنی تھی اگلی سماعت میں اپیل کے خلاف ایک گھنٹہ تک کیس کے ہر پہلو کی وضاحت پر مبنی ٹھوس دلائل بنچ کے روبرو پیش کیے گئے۔بینچ کے ایک فاضل رکن نے ان تمام دلائل کو تحریری طور پر اسی روز جمع کرانے کا حکم دیا ،یوں کئی صفحات پر مشتمل پورے کیس کا خلاصہ اور مختصر انداز میں قانونی نکات کا احاطہ کیا گیا ،معزز بینچ نے مناسب وقت پر فیصلہ سنانے کا اعلان کر دیا۔ یوں 24ستمبر 2025 ءکی یہ سماعت آخری سماعت ثابت ہوئی اور دو ہفتوں کے وقفہ کے بعد 8اکتوبر 2025 ءکو یہ مقدمہ حسب توقع انجام کو پہنچا اور ملزم کو طبی بنیادوں پر شک کا فائدہ دےکر بری کردیا گیا۔ بقول شیخ سعدی ؒ پاکستان کا عدالتی نظام ایسی بستی کی مانند ہے جہاں کے کتوں کو تو کھلا چھوڑا ہوتا ہے اور پتھروں کے باندھا ہوا ہوتا ہے بقول شاعر 
ابھی پتھر نہیں آئے ابابیلوں کی چونچوں میں
کہانی جب اصحاب فیل تک پہنچی تو دیکھیں گے