(گوشۂ خواتین) اے آنکھوں والو! عبرت پکڑو! - اُمِ مریم

11 /

اے آنکھوں والو! عبرت پکڑو!

اُمِّ مریم

آٹھ صدیاں گزرنے کے باوجود یوں تو شیخ سعدی کا پورا کلام ہی زندہ جاوید ہے لیکن ان کے بعض اشعار پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ شاعری کو صنف پیمبری کیوں کہا گیا ہے۔ 
ان کا مشہور قطعہ وہ نوحہ ہے جو شیخ سعدی نے منگولوں کے ہاتھوں بغداد کی بربادی (فروری 1258ء) کے بعد کہا تھا‘ جو یہ ہے:
آسماں راحق بود گر خوں بگرید زمین
بر زوال ملک مستعصم امیرالمؤمنین
ای محمدؐ گر قیامت می برآری سرزخاک
سربرآور ویں قیامت درمیان خلق بین
اس کا مفہوم ہے کہ خلیفہ بغداد مستعصم کے زوال پر اگر آسمان سے زمین پر خون کی بارش ہو تو بجا ہو گا۔   اے محمدﷺ! اگر قیامت اس زمین پربپا ہونی تھی تو آکر دیکھیے کہ آپؐ کی امت پر قیامت بیت چکی ہے۔
کم لوگوں کو علم ہو گاکہ سقوطِ بغداد سے کم از کم دو برس پہلے وہ آثار ہویدا ہونے شروع ہوگئے تھے جو اولولالباب کی نظروں میں عذاب الٰہی کی نشانیاں ہوتی ہیں لیکن یہ نشانیاں بغداد کے اہل اقتدار کی نظر میں باعث اختلاف رہی ہیں۔ ہلاکو کے حملے سے پہلے خلیفہ جس کی ذات اُمّت کے اتحاد کا مظہر اور مسلمانوں کی امیدوں کا مرکز ہونی چاہیے تھی، ملت کے انتشار کا سبب اور مظہر بن چکا تھا۔ وہ اپنے قصر شاہی کی اونچی دیواروں کے پیچھے اپنے مرصع کمروں میں ایک طرح سے مقید ہوچکا تھا۔ اگر اُسے کبھی مجبور اً  اُس حصار سے نکلنا پڑتا تو اس کے خصوصی محافظ فوجی دستے اُسے ہر طرف سے ایسے گھیر لیتے کہ معلوم ہوتا کہ وہ نہ صرف محل کے اندر بلکہ باہر بھی زیر حراست ہے۔ وہ دور جب امیر المومنین عمربن خطابhایک اونٹ اور ایک غلام کے ساتھ ہزاروں میل کافاصلہ طے کر کے یروشلم کی کنجیاں لینے اس تاریخی شہر کے دروازے پر پہنچے تھے‘ اب ایک ہنسنے ہنسانے والی داستان بن چکی تھی۔ اب مسلمان حکمران کے دروازوں پر حاجیوں کی فوج بیٹھی اور حکمرانوں کے دلوں پر بیٹھے اندرونی محتسب اُٹھ چکے تھے۔ خلیفہ خود کو ظل ِالٰہی اور عقل ِکل سمجھتا تھا۔ خلافت کا مقصد خلیفہ کے اقتدار کی ہر قیمت پر حفاظت اورطوالت تھا جب بادشاہ کی سوچ یہ ہوتو اس کے وزراء ، امراء اور جنرلوں کی سوچ اور عمل کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ وہ دن رات سازشوں میں لگے رہتے۔ عہدے حاصل کرنا‘ دولت سمیٹنا‘ ظلم کرنا اور عیاشیاں کرنا اُن کی زندگی تھی۔
قرآن وسنت اسلامی ریاست کے آئین کے لیے اصول فراہم کرتے ہیں۔ اس خلافت میں آئین شکنی عروج پر تھی جس میں حکمران سب کے امام تھے۔ جب آئین کا احترام نہ ہو گا تو قانون کااحترام کون کرےگا؟قانون نافذ کرنے والے ادارے ڈکیتیوں اور قتل و غارت میں مصروف تھے۔ سقوطِ بغداد سے صرف دو برس پہلے 1256ء میں بغداد کی سب سے بڑی دینی یونیورسٹی ’’المستنصریہ‘‘ میں دو بار ڈاکے پڑے۔ اسی طرح جب بغداد کے ایک مشہور علاقے کرخ میں ایک قتل ہوا تو قانون کے محافظوں نے قاتلوں کو پکڑنے کی بجائے مجرموں کے ساتھ مل کرالٹا اس علاقے کے پُرامن اور معصوم شہریوں کو قتل کیا۔ ان کے گھر لوٹے‘ اور نذر آتش کیے اور اس کے بعد اس علاقے کی عفت مآب خواتین کو اغوا کر کے لے گئے۔ 
1256 ء میں دریائے دجلہ میں بدترین طغیانی آئی پورا بغداد شہر جو دجلہ کے دونوں کناروں پر آباد تھا، پانی میں ڈوب گیا اور قصر شاہی بھی غرقاب ہو گیا لیکن حکمران طبقے کا خیال تھا کہ یہ قدرتی آفت ہے۔ اُن کی آنکھیں بند اور خرمستیاں جاری رہیں اور سیلاب نقش برآب ثابت ہوا۔
مسلمانوں کی تاریخ کا ایک اندوہناک سبق جسے ہم ہزاروں بار بھولے ہیں‘ یہ ہے کہ قوم ِرسولِ ہاشمی ﷺکو سب سے زیادہ نقصان آستین میں پالے ہوئے اُن سانپوں سے ہوا جو حکومت کے اعلیٰ ترین اورحساس ترین عہدوں پر ہوتے تھے۔ بنگال کے میر جعفر اور میسور کے میر صادق کے ناموں سے کون واقف نہیں؟ کیا آپ یقین کریں گے کہ 1257ء میں بغداد میں یہ کردار جس نے ادا کیا وہ عباسی سلطنت کا وزیراعظم نویدالدین بن العلفی تھا جس نے ہلاکو خان کو بغداد پر حملہ کرنے کی خفیہ دعوت دی۔
جنوری 1258ءمیں ہلاکو نے بغداد کا محاصرہ کر لیا اور بیرون شہر واقع بلند مقامات سے بغداد پر ہر طرف سے آگ برسانی شروع کر دی۔ وزیراعظم نے خلیفہ کو مشورہ دیا کہ وہ ہلاکو کے سامنے ہتھیار ڈال دے۔ 10فروری 1258ء کو خلیفہ اپنے بھائی‘ دو بیٹوں اور تین ہزار عمائدین کے ساتھ بغداد کی شہر پناہ سے باہر نکل کر ہلاکو کے کیمپ میں حاضر  ہوا۔ ہلاکو نے حکم دیا کہ خلیفہ فوراً اہلیانِ بغداد کو پیغام بھجوادے کہ وہ بھی خلیفہ کی طرح غیر مسلح ہو کر شہر پناہ سے باہر نکل آئیں۔ حکم کی فوری اور مکمل تعمیل ہوئی۔ اگلے روز علی الصبح ہلاکو نے حکم دیا کہ سب اہلیانِ بغداد کو قتل اور شہر بغداد کو جلاکر راکھ کر دیا جائے۔ ابن خلدون کے مطابق بغداد کی 20 لاکھ آبادی میںسے 16لاکھ باشندے شہید کر دیئے گئے۔ مریضوں کو ہسپتالوں سے اور طلبہ اور اساتذہ کو ان کی درس گاہوں سے نکال کر تہہ تیغ کر دیا گیا جو دہشت زدہ عورتیں اور بچے اپنے ہاتھوں میں قرآن اٹھائے گھروں سے نکلے انہیں گھوڑوں کے سموں کے نیچے روند دیا گیا۔وہ خواتین جن پر کسی غیر مرد کی نظر تک نہ پڑی تھی گھروں سے گھسیٹ کر سڑکوں پر لائی گئیں اور ان پر جو بیتی وہ قلم نہیں لکھ سکتا۔ تین دن اور تین راتیں بغداد میں کلمہ گو مسلمانوںکا خون پانی کی طرح نالیوں میں بہتا رہا۔ ان تین ایام میں دریائے دجلہ کا پانی میلوں تک سرخ نظر آتا رہا۔ ادب اور آرٹ کے وہ شاہکار جو عباسی خلفاء نے پچھلے پانچ سوبرسوں میں دنیا کے کونے کونے سے لاکر جمع کیے تھے شاہی محلات‘ مساجد ‘  مقابر سب جلادیئے گئے۔ کاظمین شریف‘ جہاں مسلمانوں کے دو مشہور امام مدفون ہیں تباہ کر دیا گیا۔ چار روز بعد خلیفہ کی باری آئی۔ ہلاکو کے حکم پر خلیفہ کو انتہائی بے رحمی سے مار مار کر قتل کر دیا گیا۔
یہ تاریخ کا سبق تھا کہ جو حکمران اپنی جان بچانے کے لیے اپنی عزت و آبرو اور اپنی رعایا کی جانوں کی قربانی پیش کرتا ہے، اُسے اپنی جان کی قربانی بھی دینی پڑتی ہے۔ سقوطِ بغدادکے واقعے میں آنکھوں والوں کے لیے عبرت کے اورسبق بھی ہیں۔ اولاً عذاب الٰہی کے نزول سے پہلے قوم اور اس کے اہل اقتدار کو خبردار کر دیا جاتا ہے۔ تاریخ بتاتی    ہے کہ عوام نے تو ان نشانیوں کو سمجھا لیکن اہل اقتدار نے ان نشانیوں کو سمجھا‘ نہ سمجھنے کی کوشش کی بلکہ کسی ناصح نے سمجھانے کی کوشش کی تو الٹا اس کا مذاق اڑایا اور اکثر اسے ایذا پہنچائی۔ بالآخر اہل اقتدار خود بھی ڈوبے۔ ثانیاً مسلمانوں کے ادبار   میں اکثر ان کے حکمران ٹولے کی عیاشی‘ نامردی‘ کم علمی‘ کہج فہمی اور انانیت کا عمل دخل رہا ہے۔ ثالثاً مسلمانوں کو غیروں سے زیادہ اپنوں سے نقصان پہنچا۔ میر جعفر‘ میر صادق اور العلقمی صرف تین نام نہیں بلکہ مسلمانوں کی تاریخ کے مستقل اور منحوس کردار ہیں۔ یہ تیر ہویں صدی عیسوی میں بھی تھے‘ انیسویں صدی عیسوی میں بھی تھے اور اکیسویںصدی عیسوی میں بھی ہیں ۔ وہ صدی کب آئے گی جب ہم اپنی آستین کے ان سانپوں کو وقت گزرنے سے پہلے پہچان سکیں گے؟