(زمانہ گواہ ہے) ’’پاک افغان کشیدگی :خدشات و خطرات‘‘ - محمد رفیق چودھری

11 /

افغانستان اور پاکستان کے علماء مل کر دونوں ممالک کے تعلقات

کو بحال کرنےمیں کردار ادا کر سکتے ہیں :رضاء الحق

پاکستان اور افغانستان کو مل بیٹھ کر اپنی غلطیوں کو سدھارنے کی

کوشش کرنی چاہیے ورنہ ہم عالمی سطح کے بچھائے گئے جال میں

مزید دھنستے چلے جائیں گے:ڈاکٹر فرید احمد پراچہ

دونوں ممالک کے لیے بہتر یہی ہے کہ جنگ کی بجائے بھائی چارا قائم کریں

اور مل کر ترقی کریں ، اسی میں دونوں کا فائدہ ہے :توصیف احمد خان

’’پاک افغان کشیدگی :خدشات و خطرات‘‘

پروگرام ’’ زمانہ گواہ ہے ‘‘ میں معروف تجزیہ نگاروں اور دانشوروں کا اظہار خیال

میز بان : وسیم احمد باجوہ

سوال:پاکستان اور افغان فورسز کے درمیان جو حالیہ جنگ یا جھڑپیں ہو رہی ہیں، اس کی بنیادی وجوہات کیا ہیں؟
رضاء الحق: پاک افغان تعلقات میں کشیدگی کی تاریخ بہت پرانی ہے ۔ ملاعمر ؒ کے دورِ حکومت کو چھوڑ کر باقی ہر دور میں مخاصمت نظر آتی ہے ۔ حالات میں مثبت تبدیلی اس وقت آئی جب 1980ء کے قریب سوویت یونین نے افغانستان پر حملہ کیا اور اُس شر سے خیر برآمد ہوا۔ اس وقت شاید امریکہ بھی یہی سمجھ رہا تھا سوویت یونین افغانستان کے بعد پاکستان پر بھی قبضہ کرتاہوا گرم پانیوں تک پہنچ جائے گا ۔ امریکہ اور یورپ ایسا ہرگز نہیں چاہتے تھے کہ روس کی رسائی گرم پانیوں تک ہو۔ اس لیے انہوں نے پوری دنیا سے مسلم مجاہدین کو پاکستان میں جمع کیا اور افغان جہاد کا آغاز ہوا ۔ اس میں پاکستان نے افغانستان کا بہت ساتھ دیا ۔ 1980ءکی دہائی کے اختتام تک سوویت یونین کو شکست ہوئی اور وہ ٹوٹ گیا ۔ اس کے بعد افغانستان میں خانہ جنگی شروع ہوگئی اور وارلارڈز آپس میں ہی لڑنے لگے ۔ ان حالات میں ملا عمرؒ نے ایک تحریک کا آغاز کیا اور طالبان کو جمع کرکے امارتِ اسلامیہ افغانستان کی بنیاد رکھی۔ انہوں نے وہاں اسلامی تعلیمات کو کافی حد تک نافذ کرنے کی کوشش کی۔ پاکستان نے بھی ان کی حکومت کو تسلیم کرلیا تھا اور بہت اچھے تعلقات تھے ۔ دوسری طرف امریکہ نے 1990ء میں ہی نیوورلڈ آرڈر کا اعلان کر دیا تھا کیونکہ سوویت یونین ٹوٹ چکا تھا اور اب اُن کا اگلا ٹارگٹ اسلام تھا ۔ لہٰذا نائن الیون کا فالس فلیگ ڈراما   رچا کر اور اسامہ بن لادن پر ذمہ داری ڈال کر افغانستان کے خلاف جنگ کا اعلان کر دیا گیا ۔
جنرل حمید گل نے اس وقت کہا تھا کہ افغانستان بہانہ ہے جبکہ پاکستان اصل نشانہ ہے ۔ امریکہ نے پرویز مشرف کے ذریعے پاکستان کے زمینی اور فضائی راستے امارت اسلامیہ افغانستان کے خلاف استعمال کیے ، پاکستان کے فضائی اڈوں سے امریکی جہاز اور ڈرونز اُڑ کر افغانستان میں مسلمانوں کا لہو بہاتے رہے ۔20 سالہ جنگ میں لاکھوں افغانیوں کو شہید کیا گیا ، پاکستان میں بھی ڈرون حملے شروع ہوئے اور یہاں بھی ہزاروں مسلمان شہید ہوئے ۔افغانستان میں حامد کرزئی اور اشرف غنی جیسے کٹھ پتلی حکمرانوں کو مسلط کیا گیا۔اسی دوران پاکستان کے خلاف ردعمل آنا شرو ع ہوگیا اورافغانوں کی نئی نسل پاکستان سے نفرت کرنے لگی ۔ سی آئی اے اور بھارتی خفیہ ایجنسی را کے گٹھ جوڑ کے ذریعے پاکستان مخالف عناصر کو تربیت دے کر پاکستان میں دہشت گردی کو بھی ہوا دی گئی۔ افغانستان میں موجود بھارتی قونصل خانے ان دہشت گردوں کی تربیت گاہ بن گئے۔اوبامہ کے دوسرے دور میں امریکہ اور افغان طالبان  کے مابین مذاکرات شروع ہوئے اور  ٹرمپ کے پہلے دور میںتکمیل کو پہنچے ۔  اس کے نتیجہ میں 15 اگست 2021ء کو امریکی فوج افغانستان سے نکل گئی اور نئی افغان طالبان حکومت قائم ہوئی لیکن امریکہ ،ا سرائیل اور انڈیا نے پاکستان مخالف عناصر کو اکٹھا کر کے جس دہشت گردی کی بنیاد رکھی تھی وہ ختم نہ ہوئی اور افغان طالبان کی نئی حکومت بھی ان کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہی کیونکہ امریکہ کے خلاف 20 سالہ جنگ میں یہ تمام عناصر افغان طالبان کے اتحادی رہے تھے ۔ لہٰذا  وقتاً فوقتاً پاکستان کے خلاف حملے ہوتے رہے اور دہشت گردی کے واقعات بھی ہوتے رہے ۔ تین سال قبل افغان طالبان نے TTPاور پاکستان کے درمیان ثالثی کی پیش کش بھی کی ، مذاکرات بھی ہوئے لیکن کامیاب نہیں ہوسکے ۔ افغان طالبان کی حکومت ابھی اتنی مستحکم بھی نہیںہے کہ وہ TTPکے خلاف کوئی قدم اٹھا سکے کیونکہ ان کے بہت سے ادارے پوری طرح فعال نہیں ہوئے ۔ دوسری طرف چند سالوں سے پاکستان کا رویہ بھی افغانستان کے ساتھ اتنا اچھا نہیں رہا کہ افغان طالبان پاکستان کی خاطر اپنے دوستوں کو ناراض کرنے کا خطرہ مول لے سکیں ۔ کئی دفعہ پاکستان کے میزائل حملوں میں افغان طالبان کے(ایمن الظواہری جیسے ) اہم مہمان بھی مارے گئے ۔ اس وجہ سے افغان طالبان اور پاکستان کے درمیان ناراضگیاں بڑھنی شروع ہوئیں ۔ پھر پاکستان نے ابھی تک افغانستان کی نئی حکومت کو تسلیم نہیں کیا ، حالانکہ چین ، روس اور انڈیا کابل سے تعلقات بڑھا رہے ہیں اور اپنے سفارت خانے کھول رہے ہیں ۔ بہرحال ناراضگیاں بڑھنے سے پاکستان مخالف عناصر کو موقع مل گیا اور ڈیورنڈ لائن کا دیرینہ تنازعہ بھی ایک بار پھر جاگ اُٹھا ۔ ان سب مسائل کو حل کرنے کے لیے مذاکرات ہی پائیدار حل ہیں ۔ 
سوال: کیا افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہو رہی اور اگر ہو رہی ہے، جس کے شواہد    بین الاقوامی سطح پر بھی پاکستان پیش کر چکا ہے اور افغان حکومت کو بھی دے چکا ہے تو افغان حکومت ان شرپسندوں کو روکتی کیوں نہیں یا پاکستان کے حوالے کیوں نہیں کرتی ؟
ڈاکٹر فرید احمد پراچہ:  صورت حال واقعی بہت پریشان کن ہے ، خاص طور پر چترال ،وزیرستان اور دیگر کئی قبائلی سرحدی علاقوں میں 4 بجے کے بعد عوام کا باہر نکلنا مشکل ہورہا ہے ۔ ایسا لگ رہا ہے کہ وہاں کوئی حکومتی رٹ نہیں ہے۔ ایک طرح سے دہشت گردوں کا وہاں راج ہے ۔ اس طرح کی صورت حال بڑی ناقابل قبول ہوتی ہے ۔ یہ اصل میں کشیدگی کی وجہ ہے اور اس وجہ سے سب کا نقصان ہورہا ہے۔ ان دہشت گردوں کی پناہ گاہیں  چونکہ افغانستان میں موجود ہیں لہٰذا افغان حکومت کو ہی اس کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتاہے ۔ 
دوسری طرف بھارت مئی کی جنگ میں شکست کے بعد زخمی ناگ کی طرح پھنکار رہا ہے اور پاکستان میں پراکسی وار جیسے ہتھکنڈے استعمال کر رہا ہے ۔ وہ افغانستان کو بھی ہمارے خلاف کرنا چاہتاہے ۔ اس نے سفارت خانوں کے نام پر افغانستان میں دہشت گردی کے نئے اڈے کھول لیے ہیں۔ لیکن ہمیں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ ان سب مسائل کا حل جنگ نہیں ہے ۔ اسی لیے جماعت اسلامی نے مذاکرات کے لیے اپنا 5 رکنی وفد پروفیسر محمد ابراہیم کی سربراہی میں کابل بھیجا جس نے وہاں 23 تا 30 ستمبر 2025ء تک اہم علماء اور وزراء سے ملاقاتیں کیں ، افغان وزیر داخلہ کے ساتھ بھی بڑی تفصیلی ملاقات ہوئی اور کوشش کی کہ پاک افغان تعلقات بہترہو جائیں ۔ افغان طالبان  نے کہا کہ ہماری حکومت اور ادارے پاکستان کی طرح مضبوط نہیں ہیں ، ہماری حکومت صرف ایک رعب کی بنیاد پر قائم ہے ورنہ ہمارے پاس کچھ نہیں ہےجس سے ہم کنٹرول کر سکیں۔ TTPکے 18ہزار کے قریب لوگ ہیں ، ان کے پاس اسلحہ بھی ہے ، ہم ان کا ساتھ نہیں دے رہے لیکن ان کو روکنا بھی ہمارے بس میں نہیں ہے کیونکہ وہ روس اور امریکہ کے خلاف ہمارے اتحادی بھی رہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان ہمارے مسائل کو سمجھ نہیں رہا اور پاکستانی میزائل حملوں کے بعدافغانستان میں پاکستان کے خلاف اشتعال میں مزید اضافہ ہوا ہے ۔ انہوںنے کہا کہ افغان وفود کے بیرونی دوروں پر امریکہ نے پابندیاں لگائی ہوئی تھیں ، ان پر روس، چین اور بھارت نے نظر ثانی کروالی لیکن پاکستان نے نہیں کروائی ۔ اس لیے بھارت کا دورہ ہوگیا لیکن پاکستان کا نہیں ہوا ۔ پاکستانی حکومت کو ان مسائل کو سمجھنا ہوگا ، ہماری اور افغانستان کی قدریں  مشترک ہیں ،دونوں مسلمان ہیں اور پڑوسی بھی ہیں ، دونوں طرف کے قبائل کا آپس میں بہت گہرا تعلق اور رشتہ ہے ۔ جنگ کی بجائے مذاکرات کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔  افغان طالبان بھی یہی کہتے ہیں کہ پاکستان ہمیں مضبوط کرے ، ہمارا ساتھ دے تو ہم مل کر دہشت گردی کے مسئلے کا حل نکال سکتے ہیں ۔ 
سوال: پاک افغان تعلقات میں کشیدگی اس وقت سے زیادہ بڑھ چکی ہے جب افغان حکومت نے بھارت کی طرف جھکاؤ کیا ہے ۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں بڑھتی ہوئی شرانگیزی کےپیچھے انڈیا کا ہاتھ ہے ؟
توصیف احمد خان:ہمیں اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ ان کے انڈیا کے ساتھ کیسے تعلقات ہیں بلکہ ہمیں اس کی پرواہہے  کہ ہمارے ساتھ ان کے تعلقات کیسے ہیں ۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہمارے لوگ اگر شہید ہوں گے توہم افغان حکومت سے سوال ضرور کریں گے ۔ 4ارب ڈالر امریکہ نے ان کو دیے ہیں ، ان کے کون سے اثاثے امریکی بینکوں میں تھے ؟انہیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ جتنی بھی جنگیں اُنہوںنے لڑی ہیں ، کیا وہ پاکستان کی مدد کے بغیر جیت سکتے تھے ؟ ایمن الظواہری کے قتل میں پاکستان کا کوئی ہاتھ نہیں تھا ۔ 2019ء کے بعد طالبان نے امریکہ پر کوئی حملہ نہیں کیا بلکہTTP سمیت یہ سب لوگ امریکہ کی چھتری تلے داعش کے خلاف لڑتے رہے اور امریکہ ان کو ایئر کور دیتا رہا ۔2021ء میں ہمارے مطلوبہ دہشت گردVIP طریقے سے جیلوں سے رہا کیے گئے ۔ 4 سال ان کو حکومت میں ہوگئے ہیں ، تب سے ہم ان سے تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں مگر ان کے حکومت میں آتے ہی جھڑپیں شروع ہوگئیں ۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جس میں ہمارے نوجوان شہید نہ ہورہے ہوں ۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث افراد میں سے 70 فیصد افغانی ہوتے ہیں ۔  ان کو فنڈنگ کون دے رہا ہے ، تربیت کہاں ہورہی ہے ؟  اب افغان وزیر خارجہ بھارت میں جاکر ٹریننگ دیکھ رہے ہیں۔ پاکستان نے کس موقع پر ان کا ساتھ نہیں دیا ؟ ان کے لاکھوں مہاجرین کو پاکستان نے پناہ دی ، ان کے تمام تجارتی راستے پاکستان سے ہو کر گزرتے ہیں ،پاکستان کے علم میں لائے بغیر امریکہ کے ساتھ ان کے 7 سال تک مذاکرات ہوتے رہے ، کامیاب نہیں ہوئے ، پھر جب پاکستان کو شامل کیا گیا تو مذاکرات کامیاب ہوئے      اور افغان طالبان کو حکومت ملی ۔ ہم نے ان کے ساتھ      ہر طرح سے تعاون کیا ۔ لیکن وہ ہمارے خلاف پختونستان کی تحریکیں چلا رہے ہیں۔ وادی تیرا پر افغانستان نے حملہ کرکے قبضہ کیا ، باجوڑ پر قبضہ کیا ۔ 1919ءمیں انگریزوں کے ساتھ معاہدہ کے تحت ڈیورنڈ لائن کا تعین ہوگیا ۔اس کے بعد کوئی تنازعہ نہ تھا لیکن 1947ء میں جونہی پاکستان بنا تو ان کو تنازعہ یاد آگیا ۔ ہم افغان بھائیوں کو یہی پیغام دینا چاہتے ہیں کہ اگر آپ پاکستان کے ساتھ بگاڑیں گے تو پھر آپ بھی مضبوط نہیں ہوں گے ۔ بھارت آپ کو صرف تخریب کاری کے لیے استعمال کرے گا لیکن آپ کو مضبوط نہیں کرے گا ۔ 
سوال:جب افغان طالبان کا جھکاؤ بھارت کی طرف ہوا ہے اور انہوں نے بھارت کے ساتھ معاہدے کیے ہیں تو پاک افغان کشیدگی کافی بڑھ گئی ہے ۔ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ افغان طالبان کو بھارت کے چنگل سے نکالنے کے لیے پاکستان کو کیا کرنا ہوگا ؟
رضاء الحق:بحیثیت مسلمان ہم ایک ہی اُمت ہیں ، اِدھر کے لوگ شہید ہوں یا اُدھر کے ، نقصان صرف اُمت کا ہی ہورہا ہے اور اس پر ایک مسلمان کو افسردہ ہونا چاہیے ۔ TTPکا آغاز ڈما ڈولا کےمدرسہ پر حملہ کے بعد ہوا، اس سے پہلے اس کا وجود نہیں تھا ۔ ڈما ڈولا پر حملہ امریکہ نے کیا لیکن اس وقت کی پاکستانی حکومت نے اسے اپنے سر لے کر بہت بڑی غلطی کی۔ پھر پاکستان سے ہی 57 ہزار امریکی ڈرونزحملوں نے افغانستان میں لاکھوں مسلمانوں  کو شہید کیا ۔ پھر جامعہ حفصہ کا واقعہ ہوا جو پرویز مشرف کا کیا دھرا تھا ۔15اگست 2021ء کو امریکیوں کا انخلابھی پاکستان کے ذریعے ہی ہوا ، حالانکہ وسطیٰ ایشیاء کے ممالک، ایران اور انڈیا کو کہا گیا لیکن انہوں نے انکار کر دیا ۔ وہاں بھی پاکستان امریکہ کے کام آیا ۔ اس کا مطلب ہے کہ پاک افغان تعلقات کے بگاڑ میں پاکستانی حکومتوں اور اداروں کا بھی کردار ہے۔ اب اس کشیدگی سے نکلنے کا طریقہ یہ ہے کہ پاکستانی علماء اور افغان طالبان کے علماء کو ایک مشترکہ فورم پر اکٹھا کیا جائے ، ان کے آپس میں اچھے تعلقات ہیں اور اُمید ہے کہ وہ حل نکال بھی لیں گے ان شاء اللہ۔ قرآن پاک  میں سب مسلمانوں کے لیے رہنمائی موجود ہے :
{اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ }(الحجرات:10) 
’’یقیناً تمام اہل ِایمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔‘‘
دونوں طرف کا مذہبی طبقہ اس بات کو اچھی طرح  سمجھتا ہے۔ قرآن میں یہ بھی بیان کیا گیا ہے : 
{اَشِدَّآئُ  عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآئُ بَیْنَہُمْ } (الفتح:29)
’’ وہ کافروں پر بہت بھاری اور آپس میں بہت رحم دل ہیں۔‘‘
ہمارے پاس مثالیں موجود ہیں کہ مرحوم مولانا سمیع الحقm جب تک زندہ تھے تودوطرفہ معاملات مشاورت سے طے ہوتے تھے ۔ اسی طرح اب بھی علماء کو کردار اداکرناپڑے گا ۔ جنگ یا عسکری سطح پر معاملات حل نہیں ہوں گے ۔ کیونکہ اس سطح پر دونوں حریف کے طور ایک دوسرے کو دیکھ رہے ہوتے ہیں ۔ جبکہ علماء مذہبی سطح پر بحیثیت مسلمان بھائی بھائی کی حیثیت سے بیٹھ کر مسائل حل کر سکتے ہیں ۔ مگر پاکستان میں اس وقت ہائبرڈ گورنمنٹ ہے اور ایسی گورنمنٹ کے فیصلے کہاں ہوتے ہیں سب کو پتا ہے ۔ اگر بھارت نے اقوام متحدہ سے اجازت نامہ حاصل کرکے افغان وفد کو دورے پر بلا لیا ہے تو پاکستان کو یہ کام پہلے کرنا چاہیے تھا ۔ روس نے افغان حکومت کو تسلیم کرلیا ہے ۔ چین نے تجارتی تعلقات بنا لیے ہیں تو پاکستان کو کیا مسئلہ ہے ۔ 
سوال: پاکستان نے امریکہ کا فرنٹ لائن اتحادی بن کر افغانیوں کو ناراض کیا ، ڈرون حملے یہاں سے ہوئے ،اُن کا سفیر امریکہ کے حوالے کیا گیا ، ڈما ڈولا کا واقعہ ہوا ، پھر جامع حفصہ اور لال مسجد کا واقعہ ہوا اور اس کےنتیجے میں TTPجیسے گروہ پیدا ہوئے ۔ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ اس بات میں کتنی صداقت ہے ؟
ڈاکٹر فرید احمد پراچہ:  کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو قوموں کے تحت شعور تک چلی جاتی ہیں ۔  پرویز مشرف نے تو اپنی کتاب میں لکھ دیا کہ پانچ پانچ ہزار ڈالر کے عوض مسلمانوں کو امریکہ کے حوالے کیا گیا ۔ ان   بے گناہ مسلمانوں کے ساتھ گوانتاناموبے کی جیلوں میں جو  سلوک کیا گیا کیا وہ بھلایا جا سکتاہے ؟ یہ تاریخی حقائق ہیں جن کو اب بدلہ نہیں جا سکتا ۔ امریکہ کے ساتھ تو ان کے معاہدے ہوگئے لیکن پاکستان کے ساتھ ان کی جنگ شروع ہوگئی ۔ TTPاور دیگر دہشت گرد جو کچھ کر رہے ہیں وہ بھی غلط ہے مگر غلطیاں ہم سے بھی ہوئی ہیں ، اب مل بیٹھ کر ان غلطیوں کو سدھارنے کی ضرورت ہے ورنہ ہم عالمی سطح کے بچھائے گئے اس جال میں مزید دھنستے چلے جائیں گے اور اس کا ناقابل تلافی نقصان اُمت کو ہوگا ۔  ایک نیچرل سا جو بلاک بن رہا ہے جس میں چین ، روس ، ایران ، افغانستان ، آذربائیجان اور ترکی شامل ہورہے ہیں اس کے خلاف امریکہ اور یورپ اپنے جال بچھا رہے ہیں ، ہمیں بھی اپنے قومی مفاد میں فیصلے کرنے چاہئیں کہ ہمارا فائدہ کس میں ہے اور نقصان کس میں ہے ؟
سوال:ہم نے ہمیشہ اس پلیٹ فارم سے اتفاق اور اتحاد کی بات کی ہے۔ امریکہ کے خلاف 20 سالہ افغان جہاد کے دوران بھی ہماری ہمدردیاں افغان طالبان کے ساتھ رہیں اور 2021ء میں ان کی فتح پر ہم نے بھی خوشیاں  منائیں اور یہاں تک کہا کہ یہ اس صدی کا معجزہ ہے ۔  تنظیم اسلامی کے بانی ڈاکٹر اسراراحمدؒ بھی اکثر پاکستان، افغانستان اور ایران کا مشترکہ بلاک(PIA) بنانے کی تجویز دیا کرتے تھے ۔ پھر ڈاکٹر صاحبؒخراسان کے حوالے سے احادیث بھی سنایا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے، خراسان ان تینوں ممالک کے درمیان پھیلا ہوا خطہ ہے ، یہاں سے اسلامی لشکر نکلیں گے جو حضرت مہدی ؒ اور حضرت عیسیٰ d کی نصرت کو جائیں گے ۔کیا کسی نے سوچا تھا کہ نبی کریم ﷺکی ان احادیث کی روشنی میں مستقبل کی تیاری کرنے کی بجائے ہم آپس میں ہی لڑنا شروع ہو جائیں گے ؟ ان حالات میں روس ، چین ، سعودی عرب یا قطر جیسے دوست ممالک کیا کردار ادا کرسکتے ہیں ؟
توصیف احمد خان:چین کی توجہ گلوبل ساؤتھ کی طرف ہےاور اس کو چین لیڈ کرے گا۔ چین نے افغانستان کے ساتھ اقتصادی معاہدے اسی لیے کیے ہیں کہ وہ مضبوط اتحادی بنیں۔ پاک افغان کشیدگی ختم کرانے کے لیے ہماری مذہبی جماعتوں کو کردارادا کرنا چاہیے ۔ مشرف کا دور ایک بے غیرتی کا دور تھا لیکن بعد میں گڈطالبان اور بیڈ طالبان کی اصطلاح بھی ہم نے ہی متعارف کروائی۔ تاہم دونوں ممالک کے لیے بہتر یہی ہے کہ جنگ کی بجائے بھائی چارہ قائم کریں اور مل کر ترقی کریں ، اسی میں دونوں کا فائدہ ہے ۔ 
ڈاکٹر فرید احمد پراچہ:حالات بہتر کرنے کے لیے سب سے پہلے پاکستان کو افغانستان کو تسلیم کرنا چاہیے۔ سفارتی تعلقات قائم ہوں ۔ پارلیمنٹ میں بھی اس مسئلہ پر بحث کی جائے ۔ اس کے علاوہ سعودی عرب ، قطر ، ایران ، ترکی ، روس اور چین کو آن بورڈ لے کر معاملات کو حل کی طرف لے جایا جائے ۔ 
رضاء الحق:ہمیں اُمت بن کر سوچنا چاہیے ، افغانی یا پاکستانی بن کر نہیں ۔ رسول اللہ ﷺنے ہمیں ایک اُمت بنایا تھا لیکن ہم نے دنیوی مفادات کی خاطر اُمت کو ٹکڑے کر دیا ۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ آج چھوٹا سا صہیونی ملک دو ارب مسلمانوں اور 57 مسلم ممالک کو سرعام للکار رہا ہے اور ہم کچھ نہیں کر پارہے ۔ قطر پر اسرائیلی حملے کے بعد مسلم ممالک کو تھوڑا احساس ہوا ہے کہ ہمیں متحد ہونا چاہیے ۔ احادیث مبارکہ میں جہاں خراسان کا ذکر ہے وہاں آخری دور کی جنگوں کا بھی ذکر ہے، یہود و ہنود کی مسلمانوں سے دشمنی کا بھی ذکر ہے ۔ یہ سب چیزیں اب سامنے آرہی ہیں۔حضورﷺ کی احادیث میں دی گئی خبریں تو پوری ہوکر رہنی ہیں ۔ خاص طور پر شیطانی اتحاد ثلاثہ (امریکہ، اسرائیل اور انڈیا ) کی پاکستان دشمنی تو کھل کر سامنے آچکی ہے۔اوباما کے دور سے ہی Pivot to Asia کی امریکی پالیسی بھی سامنے آچکی تھی اور اس کا مطلب تھا کہ گلوبل ساؤتھ کو جنگوں کا مرکز بنایا جائے گا۔ خاص طور پر مشرق وسطیٰ اور ہمارا خطہ فلیش پوائنٹ بن چکا ہے ۔ اسرائیل کا سیمسن پلان بھی موجود ہے ۔ ہمیں ان حقائق کو مدنظر رکھ کر قومی پالیسیاں ترتیب دینی چاہئیں ۔ اگر اسلام دشمن قوتیں آپس میں متحد ہو رہی ہیں تو ہمیں بھی آپس میں اتحاد کی کوشش کرنی چاہیے ۔ لہٰذا افغانستان اور پاکستان کی قیادتیں دونوں ہوش کے ناخن لیں اور متحد ہو کر اپنے اور اللہ کے دشمنوں کے مقابلے کی تیاری کریں ۔