فکر ِآخرت اور ہماری دینی و ملی ذِمّہ داریاں
(قرآن و حدیث کی روشنی میں )
مسجدجامع القرآن ، قرآن اکیڈمی ڈیفنس کراچی میں امیر تنظیم اسلامی محترم شجاع الدین شیخ حفظ اللہ کے10اکتوبر2025ء کے خطابِ جمعہ کی تلخیص
مرتب: ابو ابراہیم
خطبہ ٔمسنونہ اور تلاوتِ آیاتِ قرآنی کے بعد!
آج ہم اِن شاء اللہ سورۃ بنی اسرائیل کی آیات 13 اور 14 کی روشنی میں تذکیر بالقرآن کا اہتمام کریں گے اور اس کے ساتھ ساتھ حالات حاضرہ اور اُمت کے احوال پر بھی کلام ہوگا ۔ قرآن مجید میں سورہ بنی اسرائیل کی آیت13 میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے :
{وَکُلَّ اِنْسَانٍ اَلْزَمْنٰہُ طٰٓئِرَہٗ فِیْ عُنُقِہٖ ط وَنُخْرِجُ لَہٗ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ کِتٰبًا یَّلْقٰىہُ مَنْشُوْرًا(13)} ’’اور ہر انسان کی قسمت چپکا دی ہے ہم نے اُس کی گردن میں ۔ اور ہم نکال لیں گے اُس کے لیے قیامت کے روز (اسے) ایک کتاب (کی شکل میں) ‘وہ پائے گا اسے کھلی ہوئی۔‘‘
آج دنیا میں جو کچھ بھی ہم کر رہے ہیں ، چھوٹے سے چھوٹا عمل بھی ریکارڈ ہورہا ہے اور اس ریکارڈ کی بنیاد پر ہماری دائمی زندگی کا فیصلہ ہوگا ۔ یہ دنیا تو عارضی ہے ، چند دن کا قصہ ہے ، ہمیشہ جہاں ہم نے رہنا ہے ، وہاں کی فکر زیادہ ہونی چاہیے ، یہ ہماری زندگی کا سب سے بڑا مسئلہ ہے مگر اِس پر ہمارے ہاں انفرادی اور اجتماعی سطح پر کوئی بات نہیں ہوتی ، ہمارے چینلز پر ، ہمارے گھروں میں ، کسی بھی سطح پریہ موضوع زیر بحث نہیں ہوتا، صرف دنیا ہی ہمارا مطمح نظر ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا بھی حقیقت ہے اور یہاں زندگی گزارنے کے لیے جن حقوق و فرائض کا تعین دین میں کر دیا گیا ہے ان کی ادائیگی بھی ضروری ہے لیکن بحیثیت مسلمان ہمیں ہر نماز میں یہ یاددہانی کروائی جاتی ہے کہ ہم اپنی اصل زندگی یعنی آخرت کی زیادہ فکر کریں ۔ ہر نماز کی ہر رکعت میں ہم پڑھتے ہیں :
{ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِo}’’ اللہ تعالیٰ بدلے کے دن کا مالک ہے۔‘‘
سیدنا علی فرماتے ہیں کہ لوگو! آج تم سو رہے ہو ، جب موت آئے گی تو تم جاگو گے ۔ مطلب یہ ہے کہ دنیا کی کشش ایک دھوکہ ہے ۔ اللہ تعالیٰ تین مرتبہ قرآن پاک میں فرماتا ہے:
{وَمَا الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَآ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ(20)} (الحدید) ’’اور دنیا کی زندگی توسوائے دھوکے کے ساز و سامان کے اور کچھ نہیں ہے۔‘‘
لہٰذا ہمیں اپنی اصل اور دائمی زندگی کی زیادہ فکر کرنی چاہیے جو آخرت میں ہوگی اور اس زندگی کی کامیابی یا ناکامی کا دارومدار ہمارے اُن اعمال پر ہوگا جو ہم اس دنیا کی چند روزہ عارضی زندگی میں کر رہے ہیں ۔ اسی تناظر میں زیر مطالعہ آیت میں یہ بتایا جارہا ہے کہ ہر آدمی کی اصل قسمت وہ جو اس کے نامۂ اعمال کی صورت میں لکھی جارہی ہے ۔ اسلام سے قبل عربوںکے ہاں توہم پرستی پر مبنی ایک رواج تھا کہ کوئی بھی اہم کام کرنے سے پہلے وہ شگون لیتے تھے ، اور اس کا طریقہ یہ تھا کہ ایک پرندے کو ہوا میں اڑاتے تھے ، اگر پرندہ اُڑ کر دائیں جانب جاتا تو اُس کام کے کرنے میں خیر سمجھی جاتی اور اگر وہ پرندہ بائیں جانب اُڑتا تو بدشگونی سمجھی جاتی اور وہ کام نہیں کیا جاتا تھا ۔
زیر مطالعہ آیت میں بھی قسمت کے لیےطٰٓئِرَکا لفظ استعمال ہوا۔ مفسرین کے نزدیک یہ لفظ اعمال کے نتائج کے اعتبار سے بھی استعمال ہوتاہے ۔ اللہ تعالیٰ کو یہ بتانا مقصود ہے کہ ان توہم پرستیوں میں کچھ نہیں رکھا اور تمہاری اصل قسمت خود تمہارے اعمال میں چھپی ہے ۔ جیسے اعمال تم اس دنیا میں کرو گے آخرت میں ویسا ہی صلہ پاؤ گے ۔ اصل فکر ہمیں اس بات کی ہونی چاہیے ۔ بجائے اس کے کہ ہم دنیا اور اس کے چند عارضی مفادات کی اتنی فکر کریں اور توہم پرستی میں اپنی قسمت تلاش کریں جیسا کہ آج 2025ء میں بھی کچھ اس طرح کی توہم پرستی موجود ہے ۔ مثال کے طور پر ڈیڑھ کروڑ کی گاڑی ہوگی اور اس کے پیچھے 20 روپے کا بلیک ربن لگایا ہوگا کہ اس کی وجہ سے گاڑی بچ جائے گی ۔ کالی بلی راستہ کاٹ دے تو فلاں ہوگا ، کوا چلائے ، اُلو بولے یا آنکھ پھڑکے تو فلاں ہوگا وغیرہ وغیرہ ۔اس طرح سے قسمت کا تعین ہرگز نہیں ہوتا بلکہ قسمت کا اصل تعین ہمارے اعمال سے ہوگا ۔بعض اوقات انسانوں کے اعمال کی وجہ سے اس دنیا میں بھی مصائب آتے ہیں ، عذاب بھی آتے ہیں جن میں انسانوں کے لیے تنبیہہ کا سامان بھی ہوتاہے ۔ جہاں تک آزمائشوں کا تعلق ہے تو وہ انبیاء کرام پر بھی آتی رہی ہیں ، ان پر بھی مصائب آئے وہ کسی کالی بلی ، کوے یا اُلو کی وجہ سے نہیں آئے تھے بلکہ ان میں انسانیت کے لیے ایمان پر استقامت کا درس چھپا تھا ۔ بہرحال زیر مطالعہ آیت میں عام انسانوں کے لیے یہ درس ہے کہ بیرونی عوامل میں قسمت تلاش کرنے کی بجائے اپنے اندر کی اصلاح کرو ، اپنے اعمال کو درست کرلو تو قسمت خود بخود اچھی ہو جائے گی ، سب سے اچھی قسمت اُس کی ہوگی جس کو آخرت میں اس کے اعمال کا بہترین صلہ ملے گا ۔
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
اصل میں تو انسان خود اپنی قسمت کا ذمہ دار ہے ۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے ایک ذمہ دار ہستی بنا کر بھیجا ہے ۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
{اِمَّا شَاکِرًا وَّاِمَّا کَفُوْرًا(3)}(الدھر)
’’اب چاہے تو وہ شکر گزار بن کر رہے ‘چاہے ناشکرا ہوکر۔‘‘
یہ اختیار خود انسان کے پاس موجود ہے کہ وہ اپنی دائمی فلاح کا راستہ چُنتا ہے یا دائمی تباہی کا ۔ ہر انسان کے گلے میں اس کی قسمت لٹکا دی گئی ہے کہ جس میں اس کا ہر عمل نوٹ ہورہاہے اور اُسی بنیاد پر دائمی قسمت کا فیصلہ ہوگا ۔ آج کے دور میں اگر مائیکرو چپس وغیرہ کے ذریعے چیزیں ریکارڈ کی جا سکتی ہیں تو اللہ تعالیٰ کے لیے کوئی مشکل نہیں ہے ۔ اس کے حکم پر انسان کے اعضاء بھی بول پڑیں گے اور گواہی دیں گے کہ انسان اس دنیا میں کیا کچھ کرتا رہا ہے ۔ جیسا کہ فرمایا :
{یَّوْمَ تَشْہَدُ عَلَیْہِمْ اَلْسِنَتُہُمْ وَاَیْدِیْہِمْ وَاَرْجُلُہُمْ بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(24)}(النور) ’’جس دن اُن کے خلاف گواہی دیں گی اُن کی زبانیں‘ اُن کے ہاتھ اور اُن کے پائو ں‘اس بارے میں کہ جو عمل وہ کرتے رہے تھے۔‘‘
{اَلْیَوْمَ نَخْتِمُ عَلٰٓی اَفْوَاہِہِمْ وَتُکَلِّمُنَآ اَیْدِیْہِمْ وَتَشْہَدُ اَرْجُلُہُمْ بِمَا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ(65)}(یٰسین) ’’آج ہم ان کے مونہوں پر مہر لگا دیں گے اور ان کے ہاتھ ہم سے باتیں کریں گے ‘اور ان کے پائوں گواہی دیں گے اس کمائی کے بارے میں جو وہ کرتے رہے تھے۔‘‘
اسی طرح سورۃ حٰمٰ السجدہ میں فرمایا :
{حَتّٰٓی اِذَا مَا جَآئُ وْہَا شَہِدَ عَلَیْہِمْ سَمْعُہُمْ وَاَبْصَارُہُمْ وَجُلُوْدُہُمْ بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(20)} ’’یہاں تک کہ جب یہ وہاں پہنچیں گے تو ان کے خلاف گواہی دیں گے اُن کے کان‘اُن کی آنکھیں اور ان کی کھالیں اس بارے میں جو کچھ کہ وہ کرتے رہے تھے ۔‘‘
لوگ اپنی کھالوں سے کہیں گے کہ تم نے کیوں گواہی دی ’’ تم نے کیوں ہمارے خلاف گواہی دی؟تو وہ کہیں گے کہ جس اللہ نے سب چیزوں کو بولنا بخشا اسی نے ہم کو بھی گویائی دی۔‘‘(حٰمٰ السجدہ:21)
لہٰذا ہمیں اس دنیا کی عارضی زندگی سے بڑھ کر آخرت کی فکر کرنی چاہیے کیونکہ وہاں کی کامیابی اصل کامیابی ہے اور وہاں کی بدقسمتی اصل بدقسمتی ہے۔ زیرِ مطالعہ آیات میں آگے فرمایا :
{اِقْرَاْ کِتٰبَکَ ط کَفٰی بِنَفْسِکَ الْیَوْمَ عَلَیْکَ حَسِیْبًا(14)} (بنی اسرائیل )’’پڑھ لو اپنا اعمال نامہ!آج تم خود ہی اپنا حساب کر لینے کے لیے کافی ہو۔‘‘
جب اعمال نامہ انسان کے سامنے آئے گا تو وہ خود ہی سمجھ جائے گا کہ اس نے دنیا میں کیا کیا ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتاہے :
{بَلِ الْاِنْسَانُ عَلٰی نَفْسِہٖ بَصِیْرَۃٌ(14)} (القیامہ) ’’بلکہ انسان تو اپنے نفس کے احوال پر خود ہی خوب بصیرت رکھتا ہے۔‘‘
چور کو اپنی چوری کا پتا ہوتاہے ، آج اس دنیا میں چاہیے NABکو پتا چلے نہ چلے ، اینٹی کرپشن کو پتا چلے نہ چلے لیکن کرپشن کرنے والے کو خود پتا ہوتاہے ، جھوٹ بولنے والے کو خود پتہ ہوتا ہے کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے ، چاہے کسی کو پتا چلے یا نہ چلے ۔ اگر یہاں کسی کو پتہ چل بھی جائے تو لاکھ ہیر پھیر کرکے بندہ بچ سکتاہے لیکن روز قیامت اللہ کی پکڑ سے بچنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہوگا ۔ لہٰذا کل کی دائمی ناکامی اور بدبختی سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ آج کی اس عارضی دنیا میں اپنی اصلاح کرلیں ، اپنے اعمال کو درست کرلیں ، اللہ کی فرمانبرداری اختیار کریں اور اللہ کے دین کے مطابق زندگی گزاریں ۔ آج مہلت ہے تو اس سے فائدہ اُٹھا لیں ۔ معلوم نہیں کب یہ مہلت ختم ہو جائے۔ اِس کے بعد نامۂ اعمال بند ہو جائے گا اور روزمحشر ہی کھلے گا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی آخرت کی فکر کرنے کی توفیق عطافرمائے ۔ آمین !
غزہ جنگ بندی معاہدہ
غزہ جنگ بندی کا پہلا مرحلہ ہے ۔ اللہ تعالیٰ عافیت کا معاملہ رکھے۔ ٹرمپ کو جلدی ہے کہ مجھے امن کا علمبردار مانا جائےلیکن جس طرح نیتن یاہو پر کوئی اعتبار نہیں کیا جا سکتا اسی طرح ٹرمپ پر بھی کوئی اعتبار نہیں کیا جاسکتا ۔ ماضی کے معاہدوں کی حقیقت ہم جان چکے ہیں اور ان کی عیاری اور مکاری بھی اچھی طرح جانتے ہیں۔ البتہ اگر حماس کے لوگ مل کر کوئی فیصلہ کر رہے ہیں اور وہ غزہ کے لوگوں کی نمائندگی کرتے ہیں تو ہم دعا کریں گے کہ اللہ ان کو صحیح فیصلوں تک پہنچائے اور دشمن کی عیاریوں سے چالاکیوں سے اللہ تعالیٰ اُن کی حفاظت فرمائے۔طے یہ ہوا ہے کہ اسرائیل اپنی فوج غزہ سے پیچھے ہٹائے گا اور حماس اسرائیلی جنگی قیدیوں کو رہا کرے گی ۔ آگے کیا ہونا ہے ، اللہ بہتر جانتا ہے ۔ اس سے پہلے بھی سیز فائر کے فوراً بعد اسرائیل نے بمباری شروع کر دی تھی ۔ یہ چیزیں ہمیں بھولنی نہیں چاہئیں ، اللہ سے دعا کرنی چاہیے کہ اُن کی عیاریوں اور چالاکیوں سے اللہ اُمت کی حفاظت فرمائے اور حماس کے لوگ جو اُمت کی جانب سے فرض کفایہ ادا کررہے ہیں ، اُن کو اللہ استقامت عطا فرمائے ۔ آمین !
جب سے صہیونیوں نے اسرائیل بنانا شروع کیا ہے تب سے وہ فلسطینیوں کا قتل عام کر رہے ہیں، لیکن گزشتہ دو سالوں میں حماس کے مجاہدین نے بہت قربانیاں پیش کی ہیں ، ان کی عظیم قربانیوں کا ثمر ہے کہ آج اسرائیل کے حوالے سے پوری دنیا کا نقطۂ نظر بدل گیا ہے، پوری دنیا میں فلسطین کی حمایت کی جارہی ہے اور اس کے مقابلے میں اسرائیل پر لعنت ملامت کی جارہی ہے ۔ یہاں تک کہ آج یورپ اور امریکہ میں غیر مسلم بھی آزاد فلسطین کا مطالبہ کر رہے ہیں اور اس کے لیے آواز بھی اُٹھا رہے ہیں ۔ اسی طرح دنیا بھر میں لوگوں کے اسلام کے حوالے سے جذبات بھی بدلے ہیں ، آسٹریلیا میں 50 عیسائی خواتین نے غزہ کی مسلم خواتین کے عزم وصبر کو دیکھتے ہوئے اسلام قبول کرلیا ۔ ایک آسٹریلین غیر مسلم خاتون نے وہاں کے امام مسجد سے کہا ہے کہ مجھے بھی غزہ کی مسلم خواتین کی طرح بنا دو ۔ اگر 7 اکتوبر 2023ء والا واقعہ نہ ہوتا تو آج تک سارے عرب ممالک اسرائیل کو قبول کیے بیٹھے ہوتے اور مسئلہ فلسطین دنیا کی نظروں سے اوجھل ہو چکا ہوتا ۔
اس جنگ کا ایک اور پہلو بھی مدنظر رہے کہ اسرائیل خود کو ناقابل شکست اور دنیا کی جدید ترین ٹیکنالوجی کا حامل ملک قراردیتا تھا ، اس کادعویٰ تھا وہ حماس کو ختم کردے گا اور غزہ پر قبضہ کرلے گا مگر دوسال کی مسلسل جنگ کے بعد اُسے مذاکرات کی میز پر آکر جنگی قیدی مانگنے پڑ رہے ہیں ۔ اس کا مطلب ہوا کہ اس کی ساری ٹیکنالوجی فیل ہوگئی اور وہ حماس کو شکست نہیں دے سکا ۔ یہ حماس کے مجاہدین اور اہل ِ غزہ کی استقامت کا نتیجہ ہے ۔ اس سے قبل افغان طالبان نے امریکہ اور نیٹو کے سامنے کھڑے ہو کر استقامت کا مظاہرہ کیا تھا ۔ صہیونی ریاست کے پیچھے بھی امریکہ اور یورپ کی بڑی طاقتیں موجود تھیں اور اسلحہ اور بارود سمیت ہر طرح کی امداد اسرائیل کو پہنچائی جارہی تھی لیکن اس سب کے باوجود اہل غزہ اور حماس نے استقامت کی ایک تاریخ رقم کی ہے ۔ اس میں ہم جیسے پیدائشی مسلمانوں کے لیے بہت کچھ غور و فکر کا سامان موجود ہے۔ اگر غیر مسلم ہل گئے ہیں اور ان کی استقامت کو دیکھ کر اسلام قبول کر رہے ہیں، ایمان کی دولت سے مالا مال ہو رہے ہیں تو ہم پیدائشی مسلمانوں کے دلوں پر بھی کچھ اثر ہورہا ہے ؟کوئی شوقِ شہادت ،کوئی جذبہ جہاد ہمارے اندر بھی پیدا ہو رہا ہے؟ یہ سوالیہ نشان ہمارے سامنے رہنا چاہیے۔
نیتن یاہو نے دو سال میں فلسطینیوں کا جس طرح خون بہایا اور مسلسل بمباری کے ذریعے جس طرح غزہ کو کھنڈر بنا دیا ہے اس پر نیتن یاہو کے خلاف کوئی چارج شیٹ نہیں لگائی گئی ، اس کو گریٹر اسرائیل کے منصوبے سے باز رکھنے کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی گئی ، حالانکہ مستقل امن کے لیے یہ سب چیزیں بھی ضروری تھیں ۔ بہرحال اللہ تعالیٰ کا بھی ایک منصوبہ ہے ، احادیث مبارکہ میں ایک بڑی جنگ کی بھی پیشین گوئیاں موجود ہیں جو کہ مشرق وسطیٰ میں ہوگی اور اس میں بہت بڑی تباہی ہوگی ۔ بالآخر حضرت مہدیؒ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آمد ہوگی اور دجال اور اس کے لشکر کو شکست ہوگی ۔ احادیث میں ذکر ہے کہ خراسان سے بھی اسلامی لشکر جائے گا اور حضرت مہدیؒ اور حضرت عیسیٰ ؑ کے لشکر کے ساتھ مل کر دجال کے لشکر کے خلاف جنگ لڑے گا ۔ محترم ڈاکٹر اسراراحمدؒ کی بہت قیمتی کتاب میں اس ساری تفصیل کو جمع کیا گیا ہے جس کا عنوان ہے : سابقہ اور موجودہ مسلمان اُمّتوں کا ماضی، حال اور مستقبل ۔ انگریزی میں بھی اس کا ترجمہ موجود ہے۔ جن حضرات کو اس موضوع پر معلومات حاصل کرنا کا جذبہ اور شوق ہو وہ اس کتاب کا مطالعہ کریں ۔
بڑھتی ہوئی دہشت گردی
پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات پھر بڑھتے چلے جا رہے ہیں، بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں سویلین کے ساتھ ساتھ پاک فوج کے جوان بھی شہید ہورہے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ شہداء کی مغفرت فرمائے اور ان کے درجات بلند کرے ۔ یہ بات سب پر عیاں ہے کہ اس دہشت گردی کے پیچھے بھارت کا ہاتھ ہے ، اسرائیل اور امریکہ بھی بھارت کے ساتھ کھڑے ہیں اور ان کا مشترکہ مقصد پاکستان کو کمزور کرنا ہے۔ دشمن قوتیں نہیں چاہتیں کہ پاکستان میں امن اور استحکام ہو ۔ ظاہر ہے کہ بیرونی دشمنوں سے جنگ کرنے کے لیے اندرونی یکجہتی اور استحکام ضروری ہے لیکن دشمن دوطرفہ وار کر رہے ہیں ۔ اگر قوم ایک پیج پر نہیں ہوگی تو بیرونی دشمنوں کا مقابلہ کس طرح کیا جا سکے گا ؟ قوم کو ایک پیج پر لانے کے لیے ضروری ہے کہ لوگوں کو اُن کے جائز حقوق دئیے جائیں ، سیاسی جبر اور ظلم کا خاتمہ کیا جائے ، سیاسی جبر اور عوامی رائے کو دبانا ملک کے لیے قطعاً مفید نہیں ۔ بلوچستان میں اکثر پروگراموں میں جانا ہوتاہے، وہاں پریس کلب کے سامنے اڑھائی تین سو مسنگ پرسنز کی تصویریں اُٹھائے ان کے لواحقین کھڑے ہوتے ہیں ۔ کسی کا بیٹا غائب ہے ، کسی کا بھائی غائب ہے ، کسی کا شوہر غائب ہے ، بچے ، عورتیں اور بوڑھے والدین پریس کلب کے سامنے بیٹھے رو رہے ہوتے ہیں ۔ وہ بھی پاکستان کے شہری ہیں ، ان کے ساتھ دو منٹ بیٹھ کر بات چیت کرلینے میں کوئی حرج نہیں ہے ، ان دکھی دلوں پر مرہم رکھنے سے ہی قومی یکجہتی کی فضا ہموار ہو سکتی ہے ۔ خاص طور پر وہ طبقات جن کو محروم رکھا گیا ہے ، جن کے حقوق کی پامالی ہوئی ہے ، ان کی محرومیوں کا ازالہ کیا جائے اور ان کے جائز مطالبات کو تسلیم کرلیا جائے تو قومی یکجہتی اور ہم آہنگی کی فضا دوبارہ ہموار ہو سکتی ہے ۔ اس کے برعکس اگر عدالتوں میں عدل نہیں مل رہا ، لوگوں کو ان کے جائز سیاسی اور معاشی حقوق نہیں مل رہے ، ججز کہیں کہ ہمیں فیصلے کا انتظار ہے تو پھر ملک میں بے یقینی کی فضا کا پیدا ہونا فطری بات ہے ۔ یہ ظلم و ستم ، حقوق کی پامالی ، سیاسی جبر اور عوامی رائے کو دبانے کا معاملہ اگر ریاستی سطح پر ہوگا تو کیا قوم متحد ہو سکے گی ؟ جو بھی کوئی ملک کا خیر خواہ ہے تو اُس کو ضرور سوچنا چاہیے ۔
بھارت کا جنگی جنون
بھارتی ریاست بہار میں نومبر 2025ء میں انتخابات ہونے جارہے ہیں ۔ بھارت کی حکمران جماعت اور نریندر مودی کا پرانا حربہ ہے کہ انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے وہ پاکستان مخالف اور اسلام مخالف بیانیہ کو ہوا دیتے ہیں ۔ بالکل اسی طرح بہار کے انتخابات سے قبل بھی BJPکے اعلیٰ عہدیداروں کی جانب سے پاکستان کو جنگ کی دھمکیاں دی جارہی ہیں ۔ بھارت کے چیف آف دی آرمی سٹاف ،بھارتی وزیر دفاع اور نریندر مودی کے بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت ان انتخابات سے قبل پاکستان کے خلاف کوئی نہ کوئی جارحانہ کارروائی کا ارادہ رکھتا ہے ۔ ہماری طرف سے ISPR نے بھی کرارا جواب دیا ہے اورکور کمانڈر کانفرنس میں بھی بات کی گئی ہے کہ اگر پاکستان پر جنگ مسلط کرنے کی کوشش کی گئی تو ہم بھارت کو سبق سکھانے کے لیے تیار ہیں ۔ تاہم تنظیم اسلامی کی جانب سے پاکستان کی حکومت اور پاکستانی افواج کے لیے پیغام یہ ہے کہ سب سے بڑھ کر اللہ کی مدد اور نصرت ہمیں درکار ہے ، اس کے بغیر ہم فتح یاب نہیں ہوسکتے ۔ عسکری تیاری بھی ضروری ہے لیکن اللہ کی مدد کے حصول کے لیے ہمیں اللہ کے دین کی طرف رجوع کرنا ہوگا ۔
نظریۂ پاکستان کی عملی تعبیر
پاکستان میں بہت سی اقوام ،بہت سی برادریاں، بہت سی زبانوں ،بہت سے خطوں والے لوگ رہتے ہیں ، ہم نے کسی خطے ، زبان ، رنگ ، نسل ، برادری کی بنیاد پر یہ ملک حاصل نہیں کیا تھا ۔ ہم نے اسلام کے نام پر پاکستان حاصل کیا تھا ۔ پنجابی ، سندھی ، بلوچی ، پٹھان ، کشمیری وغیرہ میں مشترک ایک کلمہ طیبہ ہے جس نے ہمیں جوڑ کر ایک پاکستانی قوم بنایا تھا ۔ تنظیم اسلامی کا موقف یہ ہے کہ اگر ہم نے کلمہ طیبہ کے عملی نفاذ کی جانب پیش رفت نہیں کی جس کے نام پر یہ ملک حاصل کیا گیا تو ہم کبھی ایک قوم نہیں بن سکیں گے اور نہ ہی ملک میں استحکام آسکے گا ۔ وہ اللہ جو ’’العدل‘‘ ذات ہے اُس کے عطا کردہ نظامِ دین میں عدل موجود ہے۔ وہ عادلانہ نظام نافذ کریں گے تو ملک میں عدل اور استحکام قائم ہوگا ۔ قوم اندرونی طور پر متحد اور منظم ہو گی تو ہم بیرونی دشمنوں کا بھی ڈٹ کر مقابلہ کر سکیں گے ۔ کلمہ طیبہ کے نفاذ کے برعکس اگر ہم نے خطہ ، برادری ، رنگ ، نسل ، زبان کی بنیاد پر تعصبات کو فروغ دیا تو پھر پاکستان کے سو ٹکڑے ہو جائیں گے ۔ بدقسمتی سے 78 برس میں جتنے بھی فوجی یا سول حکمران پاکستان پر مسلط رہے ہیں ان کی ترجیح اسلام کا نفاذ رہا ہی نہیں ۔ سیاسی ضرورت کے تحت کبھی کبھار اسلامی ٹچ ضرور دیا گیا لیکن عملی نفاذ کی جانب پیشرفت کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی ۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ آج ملک تعصبات اور انتشار کا شکار ہے ۔ہمیں مان لینا چاہیے کہ جب تک اللہ کے دین کے ساتھ ہم مخلص نہیں ہوں گے ، تب تک ہمارے معاملات نہیں سدھریں گے ۔
یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات
اللہ ہمارے حکمرانوں کو بھی اور ہمارے مقتدر طبقات کو بھی توفیق دے کہ وہ اسلام کی طرف پیش قدمی کریں ۔ تبھی قوم متحد ہو گی ، محرومیاں ختم ہوں گی اور اللہ تعالیٰ کی نصرت بھی شامل حال ہوگی۔ پھر ہم بھارت کا بھی مقابلہ کریں گے، صہیونی سازشوں کا بھی مقابلہ کریں گے اور کل یہاں سے جناب مہدیؒاور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی مدد کے لیے لشکر بھی جائیں گے ۔ اللہ اس کے لیے مجھے اور آپ کو ہم سب کو قبول فرمائے۔آمین یا رب العالمین!