اداریہ
رضاء الحق
عقلِ سلیم سے کام لیں!
چار دانگِ عالم میں حالات و واقعات جس سرعت سے بدل رہے ہیں، بریکنگ نیوز کے اِس دور میں لمحہ بہ لمحہ جس طرح کوئی نئی خبر گزشتہ پَل کی خبر کو پرانا اور باسی کر دیتی ہے، بعض مرتبہ 180 کے زاویہ پر تغیررونما ہو جاتے ہیں، اُس نے لکھاریوں اور تجزیہ نگاروں کی معلومات، خبروں کی جانچ پڑتال، پھر اُس کی بنیاد پر کوئی پختہ رائے قائم کرنے کو جان جوکھوں کا عمل بنا دیا ہے۔ اِس پر مستزاد یہ کہ سوشل میڈیا پر جھوٹی خبروں کی بے لگام گردش اور روایتی میڈیا پر مخصوص حلقوں کی آہنی گرفت سے جنم لینے والے بیانیوں نے حق و باطل کا ایسا اختلاط پیدا کر دیا ہے کہ فکر و تحقیق کے میدان کے شہسوار قدم پھونک پھونک کر رکھنے کے باوجود ٹھوکریں کھاتے پھرتے ہیں۔ گزشتہ چند دنوں کو ہی لے لیجئے۔ ٹرمپ اور نتن یاہو نے ایک نام نہاد امن منصوبہ پیش کیا جس کا گہرا تجزیہ اِس امر سے تہ در تہ پردے ہٹاتا جاتا ہے کہ یہ درحقیقت فلسطینی مسلمانوں کو اسرائیل کی دائمی غلامی میں دینے کی ایک چال ہے۔ غزہ اور فلسطین کے مظلوم اور مجبور مسلمان تو ایک طرف، ناجائز صہیونی ریاست اسرائیل کو مشرقِ وسطیٰ کا تھانیدار بنانے کا منصوبہ ہے اور عرب بےچارے کذب بیانی کی اِس دلدل میں خود ہی دھنسنے کو تیار دکھائی دیتے ہیں۔ (بے) شرم الشیخ میں عرب و عجم کے کئی ممالک کے سربراہان نے جس بے جھجھک بے حمیتی سے ٹرمپ کی چاپلوسی میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے، جس ’کارخیر‘ میں مملکتِ خداداد کے وزیراعظم نے بھی خوب حصّہ ڈالا، اُس سے دنیا بھر کے مسلمانوں کے سر شرم سے جھک گئے۔
ٹرمپ واقعتاً نوبل انعام کا حق دار ہے… مگر جنگی مجرموں کا نوبل انعام! جنگوں کو ختم کرنے کے نعرہ پر امریکی صدر بننے والے یا بنائے جانے والے ٹرمپ نے اسرائیل کی پارلیمان (کنیسٹ) میں جس طمطراق سے ’اسرائیل کی فتح‘ کا اعلان کیا اور فرمایا کہ یہ سب امریکہ کے اسرائیل کو دئیے ہوئے اسلحہ کے مرہون منت ہے، نے ثابت کر دیا ہے کہ جن کے دِل پتھر کے ہوں، وہ لاکھوں معصوم افراد کی نسل کُشی کو بھی ’امن‘ کا نام دیتے ہیں۔
بہرحال امن معاہدے کے پہلے مرحلہ میں حماس نے اسرائیل کے تمام جنگی قیدی رہا کر دیئے ہیں اور اسرائیل نے تڑپتے غزہ میں امداد کے داخلے کی اجازت دے دی ہے۔ ہمارے نزدیک حماس اور دیگر تحاریکِ مزاحمت کا ہتھیار نہ ڈالنے کا فیصلہ ایک بہت بڑی فتح ہے۔ عرب و عجم کے مسلم ممالک دو ریاستی حل کی گردان کرتے نظر آتے ہیں ،لیکن اصل سوال یہ ہے کہ کیا اسرائیل کو بھی دوریاستی حل منظور ہے؟ پھر یہ کہ فلسطینیوں کی علیحدہ ریاست کو تسلیم کرنے کا منطقی مطلب یہ بنتا ہے کہ اسرائیل کو بھی ایک جائز ریاست کے طور پر تسلیم کر لیا جائے۔ بالکل اِس کے ہم وزن اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو کا یہ بیان ہے کہ وہ عرب ممالک سے تعلقات قائم کرنا چاہتا ہے، جو درحقیقت گریٹراسرائیل کے صہیونی منصوبے کو تسلیم کرنے کے مترادف ہے۔ جب نتن یاہو اپنے ’تاریخی‘ اور ’روحانی‘ مشن پر عمل پیرا ہوگا تو یا عرب ممالک رہیں گے یا گریٹر اسرائیل بنے گا۔ درمیان کا کوئی راستہ نہیں۔ ابھی معاملات Melting Pot میں ہیں۔ دیکھیے نتیجہ کیا نکلتا ہے۔
اُدھر حماس اور فلسطین کی دیگر تحاریکِ مزاحمت نے خوب سوچ بچار کے بعد ’امن منصوبہ‘ کے پہلے مرحلہ پر عمل کی حامی بھری تو اِدھر مملکتِ خداداد میں ایک مذہبی جماعت کو احتجاج کی سوجھی۔ ملکِ عزیز جو پہلے ہی ہر طرف سے دشمنوں میں گھر اہوا ہے اور بدترین اندرونی خلفشار کا شکار ہے کو مزید امتحان میں ڈال دیا۔ اکڑی گردن والوں نے مذاکرات کی بجائے طاقت کا بے جا استعمال کیا۔ مذہبی قیادت اور کارکنان گولیوں کا نشانہ بنے۔ ہر طرف افراتفری پھیلی۔ آخر ٹرمپ نے بھی کسی وجہ سے فیلڈ مارشل صاحب کو اپنا بہترین دوست قرار دیا ہے۔
پاک افغان تعلقات کے ضمن میں بدتری ہی دیکھنے میں آئی۔ ایک دوسرے پر حملے، بمبوں کی بھرمار، زبانی بھی اور بارودی بھی۔ کیا دونوں ہمسایہ مسلم ممالک کی قیادتیں اِس قدر اندھی بہری ہو چکی ہیں اور سوچنے سمجھنے کی تمام صلاحیت کھو چکی ہیں کہ سادہ سی بات کا ادراک بھی نہیں کر سکتیں کہ آپس کی سَر پُھٹَوَّل کا فائدہ صرف دشمن کو ہو رہا ہے۔ افغانستان کی اعلیٰ قیادت نے ریاست ِ گجرات کے قصاب مودی کے بھارت کا دورہ کیا۔ میڈیا نے خوب درگت بنائی۔ خواتین کی تعلیم پر پابندی لگانے والوں کو میڈیا کی عورتوں کے سامنے کٹہرے میں کھڑا کر دیا گیا۔ خوب جواب طلبی کی گئی اور امارتِ اسلامیہ افغانستان کے وزیرخارجہ نے کئی چبھتے ہوئے سوالوں کے ایسے جواب دیئے کہ سادہ مسلمان بھی ششدر رہ گئے۔ کیا واقعی بھارت اور کشمیر کے مسلمانوں پر مودی حکومت کا ظلم بھارت کا ’اندرونی معاملہ‘ ہے؟ کیا بصارت رکھنے والے یہ مان لیں کہ ٹی ٹی پی جیسے دہشت گرد گروہ افغانستان میں پناہ لیے ہوئے نہیں ہیں اور افغان سرزمین کو ہمسایہ ملک پر حملوں کے لیے استعمال نہیں کرتے؟
ہمارے نزدیک ضرورت اِس امر کی ہے کہ افغانستان، پاکستان اور خطے کے تمام مسلم ممالک اپنی جغرافیائی ہیئت کی اہمیت کو پہچانیں۔ احادیث مبارکہ میں اِنہی علاقوں کو خراسان کے خطے سے تعبیر کیا گیا ہے جہاں سے مستقبل میں لشکر حضرت مہدی کی نصرت کو بھی جائیں گے اور حضرت عیسیٰd کے ساتھ مل کر یروشلم کو یہود سے پاک کرنے کا فریضہ بھی انجام دیں گے۔ احادیثِ مبارکہ میں دی گئی خبریں تو ہر حال میں پوری ہونی ہیں۔ اگر آج کی قیادتیں آپس میں لڑتی بھڑتی رہیں تو اللہ تعالیٰ قادر ہے کہ انہیں بدل کر اور لوگوں کو لے آئے، جو اِن احادیث مبارکہ کا صحیح مصداق ثابت ہوں۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ دونوں برادر مسلم ممالک کے حکمرانوں کو عقلِ سلیم عطا فرمائے۔ آمین!
tanzeemdigitallibrary.com © 2025