(کارِ ترقیاتی) بادشاہوں کی نہیں اللہ کی ہے یہ زمین - عامرہ احسان

11 /

بادشاہوں کی نہیں اللہ کی ہے یہ زمین

عامرہ احسان

اکیسویں صدی بڑے دھوم دھڑکے سے دنیا پر طلوع ہوئی تھی۔ تیاری تو دنیا کے تنہا، بلا شرکتِ غیر ے بڑے چودھری امریکہ اور اس کے یورپی حواریوں، حامی موالیوں نے خوب کر رکھی تھی۔ تیسری دنیا کے کمزور معیشت والے فدوی، کمیرے (مزدور، نوکر چاکر) کمر بستہ، ہر خدمت کو حاضر تھے۔
زندگی کا امتحان ہونا، تمام تر اسباب و وسائل، حکومتیں، مناصب، مال و دولت، اولاد کی حیثیت، انھیں بروئے کار لا کر زندگی کا انفرادی، اجتماعی پرچہ حل کرنا خالق نے طے کر دیا تھا۔ تخلیقِ حیات اور اس کا مقصد آدم علیہ السلام تا ایں دم جاری وساری ہے۔ انسانوں کا ایک گروہ (اس وقت 9 ارب )برسرِ زمین امتحان دیتا ہے اور طے شدہ مدت (Expiry Date) پر زیرِ زمین چلا جاتا ہے جہاں جسمانی وجود ختم، خالی ڈبے کی مانند رہ جاتا اور روحانی وجود، اگلی زندگی میں زندہ و موجود! حل کردہ امتحانی پرچے کی کارکردگی کے عین مطابق جزا یا سزا کا پہلا حصہ وصول کرتا ہے۔ یہ بات ہر نسلِ انسانی کے نہ صرف لاشعور میں ثبت، پیوست، اس کے ڈی، این اے (جینیاتی، جبلی وجود) میں موجود ہے۔ بلکہ اسے ایک لاکھ چوبیس ہزار مرتبہ خالق نے اس سیارے کی تمام نسلوں پر اساتذہ (ابنیاء ورسل) بھیج کر، براہِ راست کتب و صحائف کے ذریعے سب پڑھا دیا ہے۔ یہ ٹرمپ، نیتن یاہو کی بے لگام، بے ڈھب، من مانی وحشی و حوش دنیا نہیں ہے۔ ضمیر نہایت طاقتور عنصر ہے انسانی وجود میں۔ معصوم انسانی بچوں، دنیا گل و گلزار کرنے والے وجود میں گولیاں مارنے، سر بریدہ لاشوں میں ڈھالنے سے پہلے ضمیر کا گلا گھونٹ پھینکا جاتا ہے۔ بے ضمیری کی فصلیں کاشت کی جاتی ہیں تو اسرائیل یا امریکی اشرافیہ، اور ٹرمپ، نیتن یا ہو وجود میں آتے ہیں۔ جن کے چہروں کی مسکراہٹ اور بشاشت براہِ راست خونِ مسلم اور ننھے منوں کے گوشت کے لوتھڑوں سے کھل اٹھتی ہیں۔
یہ طریق کار کیسے چھوٹی عمروں سے ذہنوں میں کاشت ہوتا ہے؟( T, TODS) ننھے بچوں کو نشانہ بازی سکھانے کا طریقہ اسرائیلی بیان کرتا ہے:’ تمہارے ہاں میں نہیں جانتا، مگر ہمارے ہاں محدب عدسہ (Magnifying Glass) پر سورج کی تیز شعاعیں مرتکز کر کے انہیں چیونٹیوں کو جلانے، بھون ڈالنے کا کھیل تقریباً 5 سال کے بچوں کا ’مشغلہ‘ ہوتا ہے۔ اس سے چیونٹیاں فوراً جل کر تڑمڑ ہوتی تڑخ کر راکھ بن جاتیں تو ہم بہت خوش ہوتے، حظ اٹھاتے اس آسان سے ’کھیل‘ سے۔‘ یہ قبول کرنا آپ کو کتنا مشکل کیوں نہ لگے مگر وہاں تو یوں صفایا کرنے میں کوئی ہرج ہی نہ تھا۔ اسی لیے تو آج ’ہرج‘ (حدیث میں بہت زیادہ قتل کی پیشین گوئی) ایسا ہے کہ ’ہیومن رائٹس‘ رپورٹوں کے کتنے صفحے اس پر مختص ہیں کہ کس طرح بچوں کی کھوپڑیاں، سینے نشانہ باندھ کر قصداً قتل کیے جاتے ہیں۔ یہ ایک قومی پراجیکٹ ہے چیونٹیوں کے صفائے کی طرح غزہ کی نسل ختم کرنا۔ یہ صرف نیتن یا ہو یا بن گویر نہیں اسرائیل من حیث القوم اس میں شریک ہے۔
اسرائیلی پارلیمنٹ سے خطاب میں ٹرمپ ایک گونہ بے خودی سے چور یہود کی خوشنودی میں مسرور کیا کچھ نہ کہہ گیا۔ نیتن یاہو پر تعریفوں کے ڈونگرے برسا رہا ہے۔ ’یہ دنیا کے بہترین جنگی دور کے صدورمیں سے ایک ہے۔‘ (اسرائیلی پارلیمنٹ غزہ کو تباہ و برباد کر دینے کے مشن میں کامیابی پر اختلافات بھلائے گویا جشن فتح منارہی ہے۔)میں دیکھتا ہوں کہ نیتن یاہواتنا مقبول ہے۔ اور نیتن یا ہو ہلا کوئے دوراں مسکرا مسکرا کر خوشی سے سر ہلا رہا ہے۔ اور اس کے لیے اس کے پالتو نام (یہ name pet کا قصداً ترجمہ کیا ہے!) بی بی، بی بی سے ہال گونج رہا ہے! لیکن اس کلپ میں اصل بے درد کہانی یہ ہے کہ اسرائیلی پارلیمنٹ میں ٹرمپ کا خطاب جاری تھا تو سامنے سکرین پر غزہ کے قتل کیے جانے بچوں کے نام اور عمریں ترتیب واریوں چل رہی تھیں کہ( لاکھوں بچے شہید کیے) بچے کا نام اور عمر۔ پہلی فہرست عمر صفر سال (یعنی چند ماہ یا ہفتے یا دن) اس کے بعد درجہ بہ درجہ پوری تقریر کے سامنے 17 سال کی عمر تک کے مقتولین کی یہ فہرست ہے۔ صفر تا 17 سال۔ نہایت خوشگوار تالیاں پیٹتا نعرے قہقہے لگاتا خون آشام جمہوری ڈراما! اگرچہ امریکہ، یورپ میں غزہ کے محبوب مقبول صحافی صالح الجعفری کے لیے خراجِ عقیدت اور احتجاجی پروگرام گورے چلا رہے ہیں!
دنیا کے سامنے ایک ڈراما رچایا گیا پہلے اس امید پر کہ شاید ٹرمپ کو نوبل امن ایوارڈ مل جائے۔ مگر جب یہ ممکن نہ ہوا تو آہستہ آہستہ ہاتھی کے کھانے کے دانت سامنے آنے لگے۔ یوں بھی یہ امن (peace) انعام پس پردہ مسلمانوں پر دانت پیستے ہوئے ہی ہونا تھا اور اُمّت کے لیے ہمیشہ اس کے ہجے (piece) رہے ہیں حقیقت میں یہ غزہ کی ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالنے والی تصویروں کی صورت ہے خواہ وہ انسان ہو ننھے بچے یا عمارات! نہایت اعتماد و تفاخر سے سابق موساد ایجنٹ کہہ رہا ہے کہ ہم غزہ کو مٹا نے لگے ہیں۔ اسرائیل کا پلان یہ ہے کہ وہ مکمل بین الاقوامی پشت پناہی سے غزہ کی طرف سے ایک جھوٹا میزائلی حملہ اسرائیل پر کرے گا تاکہ بڑا جو از بن سکے غزہ تباہ کرنے کا۔ اس وقت بھی اسرائیل مسلسل بمباریاں جاری رکھے ہے۔ ادھر رفح بارڈر ایک گھنٹے کے لیے کھولنے کے بعد فوراً بند کر دیا اسرائیل نے۔ ہزاروں فلسطینی مصر میں پھنس گئے۔ علاوہ ازیں اسرائیل جھوٹے بہانوں سے مسلسل بمباری کر رہا ہے۔ ٹرمپ صورتحال کو دھوکہ دہی اور مکمل جھوٹ سے پُر امن قرار دے رہا ہے جبکہ غزہ میں خلیل الحیۃ کے مطابق درجنوں فضائی حملوں میں درجنوں فلسطینی شہید کیے جا چکے ہیں۔ اسرائیلی بلڈوزر جو زیرِ زمین بارودی مواد پر سے گزرا تو تباہ ہوا اور 2 اسرائیلی مر گئے۔ اسے حماس کے کھاتے میں ڈال کر جنگ بندی کی جی بھر کے اسرائیل نے خلاف ورزیاں کر ڈالیں۔
امریکی امدادی عملے کی خاتون کارکن مارین نے فلسطینی قیدیوں کی لاشیں (جو اسرائیل نے لوٹائیں) دیکھیں تو لرز اٹھی۔ اعضاء کی گمشدگی، لاشوں کا مثلہ ؍بے حرمتی۔ غیرانسانی تشدد اورمسخ کیے جانے کی واضح علامات تھیں۔ ماہرین کا کہنا تھا کہ ’کیونکہ آج تک اسرائیل کو کسی بھی جنگی جرم پر کچھ نقصان اٹھانا نہ پڑا، دنیا منہ پھیر لیتی ہے،اس لیے ہم اس حد تک غیر انسانی سلوک دیکھ رہے ہیں جو دل کو چیر کر رکھ دینے والا ہے۔ ایسی حالت میں کہ لواحقین کا اپنے محبوب رشتوں کو دیکھ کر انہیں پہچاننا بھی مشکل ہو! اگرچہ بین الاقوامی حقوقِ انسانی تنظیموں نے ایسا تشدد رپورٹوں میں لکھ رکھا ہے۔ مگر اسے حقیقتاً دیکھنا وحشیانہ اور غیر انسانی، تصور سے باہر ہے۔
امریکہ میں ٹرمپ اب آپے سے باہر ہو گیا ہے۔ دنیا میں اور غیر جمہوری مسلمان ممالک میں بادشاہتوں، ان کے عیش و راحت ، عوام کو جوا بدہی سے بے فکری، ہر ناقد کو جیل میں (مصر کی طرح) ٹھونس دو کا رویہ۔ ٹرمپ نے غیرمعمولی شاہانہ استقبال سب جگہ کروا کر خود کو امریکہ کا بادشاہ بنانے کے خواب دیکھنے شروع کر دیئے۔ یہ خواب مصنوعی ذہانت (AI) کی ’مصنوعی بادشاہت‘ والی وڈیو پر جاری کر دیا۔ مگریہ انتہائی غلیظ توہین آمیز (اپنے عوام کی تو ہین) وڈیو تھی۔ جس میں جہاز پر سوار تاج اور شاہی سنہری لال جبہ پہنے اڑان بھر رہا ہے۔ شہروں، آبادیوں، سڑکوں پر بینر اٹھائے مظاہرین پر اندر بھری ساری نمرودی فرعونی غلاظت (انسانی فضلہ)گرائے جا رہا ہے اڑتا جہاز، جو لوگوں کے وجود لتھیڑ کر رکھ دیتا ہے۔ اس نے بادشاہی کے خواب غزہ کے حوالے سے بھی پہلے اسی طرح جاری کیے تھے۔ اسی پر بس نہیں امریکی نائب صدر وینس نے ہندو بیوی اوشا کے ہندو مذہب سے متاثر ہو کر ٹرمپ کا دیوتا بنا ڈالا۔ اُسے پوسٹ کیا۔ ٹرمپ نے تاج اور شاہی جبہ پہنا ہے اور یہ سب اس کے آگے ایک ہاتھ زمین پر رکھ کر نیم سجدے کی کیفیت میں مرد و زن (ٹر مپی ٹیم)جھکے اس کی خدائی (نعوذ باللہ) قبول کر رہے ہیں! ان کے دیوا نے خواب اوراب امریکہ کا حلیہ تباہ برباد! اسرائیل اور یہودیوں کے ہاتھ بکاؤ مال بنادینے نے عوام کو دیوانہ کر دیا۔ چنانچہ امریکہ میں بشمول واشنگٹن ڈی سی، نیو یارک 2700 مظاہرے 70 لاکھ لوگوں نے کرکے امریکہ کی سٹی گم کردی۔ سرکاری طور پر یہ امریکہ کا سب سے بڑا احتجاج ہے! فلسطین پر دھوکے نے (جنگ بندی کے نام پر) بھی سیخ پا کر دیا۔ ٹرمپ کے لیے ذلت آمیز نعرے۔ اور یہ کہ: ’کوئی بادشاہ قبول نہیں‘ نامی احتجاج نے تمہارے غبارے سے ہوا نکال دی ہے۔ دنیا بدل کر رہے گی۔ باذن اللہ! ہم پرائی ’بد نامِ گلوب‘ بارات کا حصہ نہ ہی بنیںتو بہتر، ٹرمپی غلاظت سے بچ کر رہیں! ’ابلیس کی مجلس شوریٰ‘ میں اقبال نے کہا تھا بہ زبانِ ابلیس! ’ہم نے خود شاہی کو پہنایا ہے جمہوری لباس‘ …یہ لباس، اب تارتارہونے کو ہے۔ پیچھے ہٹ جائیے۔ پاکستان ایسوں کی خوشامد درآمد برآمد نہ فرمائے تو بہتر!
بھارت کے خلاف حالیہ جنگ میںاللہ نے ہمیں سرخروکیا۔ چند ماہ بعدہم اکتوبر 9تا17افغانستان سے شدید جنگ میں اُلجھ گئے۔ملک کی اندرونی سیاسی معاشی صورت حال،سیلابوں کی تباہ کاری، آزاد کشمیر میں احتجاج و دیگر مسائل اور اب مشرق،مغرب دونوں سرحدات پر کشیدگی!اگرچہ قطر اور ترکیہ کی مصالحت سے جنگ بندی اور امن مذاکرات کا سلسلہ چل پڑا، مزید بگاڑ سے بچنے اور محتاط رہنے کی ضرورت ہے تاکہ ہمارا ازلی دشمن فائدہ نہ اٹھاپائے۔