فلسطین کی تقسیم نامنظور
ڈاکٹر ضمیراخترخان
اِس وقت دنیا میں فلسطین کو تسلیم کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں اور 150 سے زائد ممالک فلسطین کو تسلیم بھی کر چکے ہیں۔ فلسطین کو تسلیم کرنے سے مراد کیا ہے، اور اس کے پردے میں اصل چالاکی ومکاری و فریب کیا ہے، اِس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ مسلم عوام و خواص کومعلوم ہونا چاہیے کہ اس وقت فلسطین کو تسلیم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ایک اسرائیلی ریاست اور دوسری فلسطینی ریاست کوتسلیم کیا جائے۔ اس کودنیائے کفرو اسلام کے حکمران تنازع فلسطین کا دوریاستی حل کہتے ہیں۔ فلسطین کے پردے میں یہ دراصل اسرائیل کو تسلیم کروانے کی سازش ہے۔ کون نہیں جانتا کہ اسرائیل نے جو گریٹراسرائیل کا نقشہ جاری کیا ہے اس میں مڈل ایسٹ کا بیشترعلاقہ بشمول مدینہ منورہ شامل ہے۔ یہ تاریخی حقیقت ہے کہ اسرائیل کا قیام دنیا کے کسی قاعدے وضابطے کی بنیاد پر عمل میں نہیں آیا۔ یہ سراسر ظلم وناانصافی پرمبنی شیطانی منصوبہ ہے جوبرطانیہ نے اپنے غاصبانہ دورمیں مسلم دنیاپرمسلط کیاتھا۔ بالفوراعلان اس طرح کیا گیا کہ جیسے دنیامیں انگریزوں کے سوا کوئی اور انسانی شرف کاحامل نہیں ہے۔ یہ احساس بالفور اعلامیہ کو دیکھنے کے بعد ہرذی شعورانسان کو ہوگا۔اس کا خلاصہ ملاحظہ کیجیے:
’’بالفور اعلامیہ ایک تاریخی بیان ہے جو 2 نومبر 1917ء کو برطانیہ کی جانب سے آرتھر بالفور کی طرف سے صہیونی تحریک کے نام لکھا گیا، جس میں برطانوی حکومت نے فلسطین میں ایک یہودی ریاست کے قیام کی حمایت کا یقین دلایا اور اس کی سہولت کے لیے اپنی بہترین کوششیں بروئے کار لانے کا وعدہ کیا۔ اس اعلامیے کے نتیجے میں 1948ء میں اسرائیل کا قیام ہوا اور لاکھوں فلسطینیوں کی بے دخلی کا آغاز ہوا، جس سے خطے میں فساد برپا ہوا۔
اعلانِ بالفور برطانوی حکومت کی صہیونی یہودیوں سے ایک خفیہ معاہدے کی توثیق تھی جس کا تعلق پہلی جنگِ عظیم کے بعد سلطنتِ عثمانیہ کے ٹکڑے کرنے سے تھا۔ یہ بعد میں سامنے آ گیا۔ اس اعلان کی علامت برطانوی دفترِ خارجہ کے ایک خط کو سمجھا جاتا ہے جو 2 نومبر 1917ء کو آرتھر جیمز بالفور (سیکریٹری خارجہ) نے صہیونیوں کے نام لکھا تھا۔ اس خط میں برطانیہ نے صہیونیوں کو اس بات کا یقین دلایا ہے کہ وہ فلسطین کی سرزمین میں ایک یہودی ریاست کے قیام میں بھر پور اور عملی مدد دیں گے۔ خط میں یہ بھی بتایا گیا کہ اس معاہدہ کی توثیق برطانوی کابینہ کے ایک خفیہ اجلاس میں 31 اکتوبر 1917ء کو ہو چکی ہے۔ اسی اعلان کے تحت اسرائیل کا قیام عمل میں آیا۔
یہ معاہدہ، اعلان اور خط دو یہودیوں ،حییم وایزمن جوبعد میں اسرائیل کا پہلا صدر بنا اور ناہوم سوکولو کی متواتر کوششوں کا نتیجہ تھا جو لندن میں صہیونی یہودیوں کے نمائندے تھے۔ ان کی خواہش تھی کہ فلسطین کے دس لاکھ لوگوں کو وہاں سے نکال کر وہاں ایک یہودی ریاست کا قیام عمل میں لایا جائے۔ یہ اعلان بعد میں نہ صرف ترکی کے ساتھ ایک معاہدہ کا حصہ بھی بنا جب ترکی جنگِ عظیم اول ہار گیا بلکہ اس کو خفیہ طور پر وائزمین نے کچھ عربوں سے بھی منوایا جو اس زمانے میں اقتدار کی شدید ہوس میں مبتلا تھے اور اس کے لیے سلطنتِ عثمانیہ کے خاتمے سمیت کچھ بھی کرنے کو تیار تھے۔
بالفور اعلامیہ کا مقصد یہودیوں کا تعاون حاصل کرنا تھا۔ برطانوی حکومت کو امید تھی کہ اس اعلامیے کے بعد امریکہ اور باقی دنیا میں بسنے والے یہودی پہلی عالمی جنگ میں مکمل طور پر جرمنی کے خلاف اتحادیوں کا ساتھ دیں گے۔ مؤرخین کا ماننا ہے کہ برطانیہ سمیت یہودی کمیونٹی معاشی اثرورسوخ رکھتی تھی اور خصوصاً عالمی سرمایہ کاری میں بااثر ہونے کی وجہ سے برطانیہ کو ان کی مدد درکار تھی۔ چند ماہرین کا یہ بھی ماننا ہے کہ برطانیہ نے جنگ کے بعد مشرق وسطیٰ میں اپنا اثرورسوخ برقرار رکھنے کے لیے یہ اقدام کیا۔ اس تحریر کا مقصد جو بھی ہو، بالفور اعلامیہ نے 1948 ءمیں اسرائیل کو جنم دیا اور خطے سے لاکھوں فلسطینیوں کو بے دخل کیا۔فلسطینیوں کے نزدیک اسی اعلامیے سے اُن کی مشکلات کا آغاز ہوا جو آج تک جاری ہیں۔ فلسطینیوں کے مطابق اس دستاویز میں اُن کا نام تک نہیں لیا گیا اور اُنھیں فلسطین کی ’غیر یہودی آبادی‘ کے نام سے پکارا گیا۔پہلی عالمی جنگ میں سلطنت عثمانیہ کی شکست کے بعد اتحادیوں نے بالفور اعلامیے کی حمایت کی اور فلسطین باقاعدہ طور پر برطانیہ کے زیر اثر آ گیا۔ اس دوران بڑی تعداد میں یہودی فلسطین میں بسنا شروع ہوئے تو 1930ء میں عرب آبادی نے تشویش کا اظہار کیا اور یوں دونوں کے درمیان تنازع کا آغاز ہوا۔اس تنازع کو کم کرنے کے لیے برطانیہ نے یہودیوں کی آمد پر چند پابندیاں لگانے کا فیصلہ کیا لیکن عالمی جنگ کے بعد یہودی ریاست کے قیام کا دباؤ مزید بڑھا جب ہولوکاسٹ کی جعلی کہانی سامنے آئی۔14 مئی 1948 ءکو فلسطین سے برطانوی مینڈیٹ کا اختتام ہوا اور برطانیہ نے اس خطے کو خیر آباد کہا تو اسی دن اسرائیل نے آزادی کا اعلان کر دیا۔
بحیثیت مسلمان یہ ہمارا عقیدہ ہے کہ حرمین شریفین کی طرح مسجد اقصیٰ پر تمام مسلمانوں کا برابر کا حق ہے۔ مسلم دنیا کا برسراقتدار طبقہ بھی اس حقیقت سے آگاہ ہے مگر حکمرانی کا نشہ یااقتدار کے چھن جانے کاڈر اُنہیں اس حقیقت کو تسلیم کرنے سے روکتا ہے۔یہ اسی عقیدے کا گہرا احساس تھا جس نے فلسطین کے مفتی اعظم مفتی امین الحسینی کو برصغیر کے مسلمانوں کے قائداعظم محمد علی جناح کے ساتھ رابطہ کرنے پر مجبور کیا۔1937ء اور 1947ء کے دوران مفتی امین الحسینی کے قائداعظم کے نام کئی خطوط موجود ہیں جن میں قائد اعظم سے درخواست کی گئی کہ 27رجب کو ( واقعہ معراج کا دن)یوم فلسطین منایا جائے۔ قائد اعظم نےمفتی امین الحسینی کے کہنے پر بار بار 27 رجب کو یوم فلسطین منایا۔ 27رجب کو یوم فلسطین منا کر قائد اعظم اور مسلم لیگ بار بار مسجد اقصیٰ کے ساتھ اپنی محبت کا اظہار کرتے رہے کیونکہ شب معراج کو نبی کریم حضرت محمد ﷺ کو خانہ کعبہ سے مسجد اقصیٰ لے جایا گیا تھا ۔ پھر جب برطانیہ اور امریکا کی کوششوں سے اقوام متحدہ کے ذریعے تقسیم فلسطین کی قرارداد منظور ہوئی اور اسرائیل قائم کیا گیا تو قائد اعظم نے تقسیم فلسطین کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ۔اب حکومت پاکستان تقسیم فلسطین کو دو ریاستی حل قرار دے کر اس کی حمایت کرتی ہے لیکن قائداعظم کی طرف سے امریکی صدر ٹرو مین کے نام دسمبر 1947ء میں لکھے جانے والے خط میں اسرائیل کے وجود سے انکار کو جذباتیت قرار دے کر مسترد نہیں کیا جا سکتا۔ جب تک مسجد اقصیٰ سے اسرائیل کا قبضہ ختم نہیں ہوتا اسرائیل کو تسلیم کرنا قائداعظم کے ساتھ غداری ہے۔پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف ایک طرف تو ایسی آزاد فلسطینی ریاست کا مطالبہ کرتے ہیں جس کا دارالحکومت القدس شریف ہو، دوسری طرف یروشلم میں امریکی سفارت خانہ قائم کرنے والے ٹرمپ کے غزہ امن پلان کی اندھا دھند حمایت کر رہے ہیں ۔ وزیر خارجہ اسحاق ڈار کا فرمانا ہے کہ جو لوگ ٹرمپ کے امن پلان کی مخالفت کر رہے ہیں وہ دراصل فلسطینیوں کے خون پر اپنی سیاست چمکا رہے ہیں۔ ڈار صاحب کو جذباتی باتیں نہیں کرنی چاہئیں بلکہ دلیل سے بات کرنی چاہیے۔ وہ ٹرمپ جو یروشلم سے امریکی سفارت خانہ واپس تل ابیب لے جانے کے لیے تیار نہیں وہ ایک ایسی فلسطینی ریاست کے قیام کی حمایت کیسے کرے گا جس کا دارالحکومت القدس شریف ہو ؟ سب سے اہم بات یہ ہے کہ بہت سے امریکی مبصرین یہ سوال اُٹھا رہے ہیں کہ غزہ کے عوام کی اصل نمائندہ حماس ہے ۔ جب تک حماس اِس ٹرمپ پلان کی حمایت نہیں کرتی تو اس پر عمل درآمد کیسے ہوگا ؟ فلسطینی اتھارٹی کا تعلق تو پی ایل او سے ہے ۔ اگر پی ایل او ٹرمپ پلان کی حمایت اور حماس مخالفت کرے گی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ٹرمپ پلان سے فلسطینیوں کو تقسیم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ ادھر نیتن یاہو فی الحال تو آزاد فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں لیکن کچھ دن بعد وہ کہے گا کہ اگر کچھ اہم مسلم ممالک اسرائیل کو تسلیم کرلیں تو وہ بھی ایک فلسطینی ریاست کو تسلیم کرلے گا۔ لیکن وہ مسجد اقصیٰ کا قبضہ نہیں چھوڑے گا ۔ وہ صاحبانِ دانش جو ٹرمپ کے غزہ پلان کو مسئلہ فلسطین کے حل کی طرف اہم قدم قراردے رہے ہیں، وہ یہ بتا دیں کہ جب تک مسجد اقصیٰ سے اسرائیل کا ناجائز قبضہ ختم نہیں ہوتا مسئلہ فلسطین کیسے حل ہو سکتا ہے ؟ حماس کو غیر مسلح کرنے یا حماس کو ختم کر دینے سے مشرق وسطیٰ میں امن قائم نہیں ہو گا ۔ 1947ء میں مغربی طاقتوں نے مفتی امین الحسینی کو دہشت گرد قرار دے کر فلسطین بدر کر دیا۔ اُن کا انتقال بیروت میں ہوا ۔ انہیں غزہ میں دفن بھی نہ کرنے دیا گیا ۔ کیا وہاں امن قائم ہوا ؟ مفتی امین الحسینی کی شروع کردہ مزاحمت کا نیا نام حماس ہے جسے اسرائیل اور امریکا دہشت گرد کہتے ہیں ۔ اس کو فلسطین سے کیسے مائنس کیا جا سکتا ہے ؟ جب تک مسجد اقصیٰ سے اسرائیل کا قبضہ ختم نہیں ہوتا حماس ختم نہیں ہو سکتی ۔ اسرائیل فلسطینیوں کی موجودہ نسل کو تو ختم کر سکتا ہے لیکن اُن کی اگلی نسل پھر مزاحمت شروع کر دے گی ۔ مسئلہ فلسطین کاحل ٹرمپ یا ٹونی بلیئر کے پاس نہیں ہے۔ مسئلہ فلسطین کا حل مسجد اقصٰی کی آزادی میں ہے ۔ اگر ہم مسجد اقصیٰ سے اسرائیل کا قبضہ ختم نہیں کرا سکتے تو کم از کم ہمیں اس مشکل وقت میں اہل غزہ اور قائداعظم کے نظریے کے ساتھ بے وفائی تو نہیں کرنی چاہیے۔ آج اگر ہم اسرائیل کو تسلیم کرلیں گے تو کل کشمیر پر ہندوستان کے قبضے کو کس طرح ناجائز قرار دیں گے۔ ہم پھر یاد دلانا چاہتے ہیں کہ فلسطین پر اسرائیلی قبضے کو تسلیم کرلینے کا مطلب اپنے نبی علیہ السلام کے مسجد اقصیٰ پرحق تولیت (Custodianship ) سے دستبرداری کا اعلان ہوگاجو دنیا وآخرت دونوں میں رسوائی کا سبب بنے گا۔ اعاذنا اللہ من ذالک۔
اس مضمون کی ترتیب کے دوران غزہ کی صورت حال میں ایک تبدیلی آئی ہے۔ حماس نے اپنے نمائندے خلیل الحیہ کے ذریعے ٹرمپ کے پیش کردہ 20 نکاتی امن منصوبے کے حوالے سے مذاکرات میں شرکت پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ اس ضمن میں حماس کے اعلیٰ مذاکرات کار خلیل الحیہ نے منگل کو مصر میں اسرائیل کے ساتھ بالواسطہ بات چیت کے دوران کہا ہے کہ فلسطینی تنظیم ، صدرٹرمپ اور سپانسر ممالک سے ضمانت چاہتی ہے کہ جنگ ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گی۔انہوں نے اسرائیل کا حوالہ دیتے ہوئے منگل کو مصری ریاست سے منسلک میڈیا القاہرہ نیوز کو بتایا کہ ہمیں قابض پر بھروسا نہیں، ایک سیکنڈ کے لیے بھی نہیں۔غزہ میں دو سالہ جنگ روکنے کی غرض سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے 20 نکاتی امن منصوبے کے تحت اسرائیل اور فلسطینی تنظیم حماس کے درمیان بلاواسطہ مذاکرات کا مصر میں آج تیسرا دن ہے۔یہ بات چیت اس وقت شروع ہوئی جب 7 اکتوبر کو غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے دو سال مکمل ہوئے۔فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق مصری سیاحتی مقام شرم الشیخ میں جاری بات چیت میں قطر کے وزیر اعظم اور ترکی کے مندوبین آج (بدھ کو) شامل ہوں گے۔ خلیل الحیہ نے اسرائیل پر موجودہ جنگ کے دوران دو مرتبہ جنگ بندی کی خلاف ورزی کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ تاریخ میں اسرائیلی قابض نے اپنے وعدوں پر عمل نہیں کیا اور ہم نے اس جنگ میں دو بار اس کا تجربہ کیا ہے۔ اس لیے ہم حقیقی ضمانتیں چاہتے ہیں۔ ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ حماس کو ان دھوکے بازوں کے شر سے محفوظ رکھے۔