(دعوت و تحریک) تحریکی کارکن اور حالات کا امتحان - محمد نبی محسن (باجوڑ)

11 /

تحریکی کارکن اور حالات کا امتحان

محمد نبی محسن (باجوڑ)

راقم الحروف کے دل میں اسلامی نظام کے قیام کی تڑپ ہمیشہ ایک زندہ حقیقت رہی ہے۔ یہ تڑپ ہی ہے جو نیندیں حرام کرتی ہے اور سکون چھین لیتی ہے۔ تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ انقلاب کبھی ڈرائنگ رومز میں بیٹھ کر برپا نہیں ہوئے، بلکہ قربانی، جدوجہد اور عزم و استقلال کے ذریعے ہی دنیا نے بڑے انقلابات دیکھے ہیں۔ انقلابِ فرانس ہو یا روس اور ایران کے انقلابات، یہ سب چند باہمت اور درد مند نوجوانوں کی قربانیوں کے نتیجے میں ممکن ہوئے۔
آج کرۂ ارض پر تہذیبوں کا تصادم اپنے عروج پر ہے۔ مغربی تہذیب اپنی جڑیں مضبوط کر چکی ہے جبکہ اسلامی تہذیب کو اجنبیت کا سامنا ہے۔ ایسے وقت میں اسلامی تہذیب کے احیاء کے لیے جان، مال اور وقت کی قربانی ناگزیر ہے۔
دنیا کی تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ انقلابات ہمیشہ ایسے ہی لوگوں نے برپا کیے جو حالات کے جبر میں بھی اپنے نظریے سے پیچھے نہ ہٹے۔ آج جب میں اپنے    گرد و پیش پر نظر ڈالتا ہوں تو دل اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے بے قرار ہے۔ مگر علاقے کے سکیورٹی کے حالات کچھ ایسے ہیں کہ نہ رفقاء سے ملاقات ممکن ہے اور نہ اجتماعات کا انعقاد۔ ایک تحریکی کارکن کے لیے اجتماعات کی محفلیں ایسی ہیں جیسے مچھلی کے لیے پانی۔ ان کے بغیر تحریک کی روح گویا قید ہو جاتی ہے۔
لیکن کیا اس کیفیت میں ہم ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائیں؟ ہرگز نہیں۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے حضور ہمیں   جواب دہی کرنی ہے۔ ایک کارکن کا اصل جوہر تو انہی ناسازگار حالات میں ظاہر ہوتا ہے جب زبان پر مہر لگانے کی کوشش کی جا رہی ہو، اجتماعات پر پابندیاں ہوں، اور راستے مسدود دکھائی دیں۔ بظاہر یہ کمزوری محسوس ہوتی ہے، مگر درحقیقت یہی محصوریت کارکن کے اخلاص اور تعلق مع اللہ کو مضبوط کرتی ہے۔
اگر آج میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ بیٹھ کر منصوبہ بندی نہیں کر سکتا، تو کیا مشن رک گیا ہے؟ ہرگز نہیں۔ میں اپنی تنہائی کو بھی ایک محاذ بنا سکتا ہوں:
قرآنِ کریم کا گہرا مطالعہ، منتخب نصاب پر غور و فکر، رفقاء کی تعلیم و تربیت کے لیے منصوبہ بندی، اور سب سے بڑھ کر رات کے آخری حصے میں رب کے حضور کھڑے ہو کر دعا۔
یہ وہ چراغ ہیں جو اندھیروں میں بھی جلائے جا سکتے ہیں۔
زبان پہ مہر لگانا تو کوئی بات نہیں
بدل سکو تو بدل دو میرے خیالوں کو
جب کوئی فرد کسی تحریک یا نظریے کو خلوصِ دل سے قبول کرتا ہے تو اُس کی زندگی کا ہر لمحہ اسی نظریے کے فروغ اور بقا کے لیے وقف ہو جاتا ہے۔ وہ اپنی صلاحیتوں، وقت اور سکون کو قربان کرنا اپنی ذمہ داری ہی نہیں بلکہ اپنا شرف اور افتخار سمجھتا ہے۔ دراصل یہی غیرت اور حمیت کا تقاضا ہے کہ جس فکر کو اپنایا جائے، اسے دوسروں تک پہنچایا جائے اور اس کی بنیاد پر ایک صالح نظام کے قیام کی جدوجہد کی جائے۔
ایک تحریکی کارکن کی زندگی عام انسانوں سے یکسر مختلف اور نمایاں ہوتی ہے۔ وہ کبھی رفقائے کار کے ہمراہ فکری معرکہ آرائی میں مصروف دکھائی دیتا ہے، کبھی  قرآنِ حکیم کی درس گاہوں میں علم و شعور کی شمعیں روشن کرتا ہے۔ کبھی تربیتی مجالس میں افکار کی آبیاری کرتا ہے، تو کبھی عوامی اجتماعات کی  منصوبہ بندی میں مگن رہتا ہے۔ یہی فکر و عمل کی یکجائی ہے جو اس کی راتوں کو بے خواب اور دنوں کو بے قرار کیے رکھتی ہے۔
مگر جب ایک کارکن سے یہ مواقع چھین لیے جائیں، رفقاء سے ملاقات دشوار ہو جائے اور ہر طرف خطرات کے سائے منڈلانے لگیں، تو یہ کیفیت گویا عملی طور پر ایک زندان میں بدل جاتی ہے۔ ایسے میں وہ خود کو ایک پنجرے میں محبوس پرندے کی مانند محسوس کرتا ہے:
قفس میں چین نہیں، اُڑنا تری بربادی
نہ راس قید ہے، نہ آزادی
یہی کربناک صورتحال آج علاقے کے عوام اور کارکنان کو درپیش ہے۔ عام شہری ہوں یا تحریکی رفقاء، سب شدید مشکلات اور کڑی آزمائشوں سے گزر رہے ہیں۔ ان حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے فولادی حوصلے، صبرِ جمیل اور غیر معمولی استقامت درکار ہے۔
سوال یہ ہے کہ ہم اس حال تک کیوں پہنچے ہیں؟ آخر وہ کون سے اسباب ہیں جن کی بنا پر ہم اللہ کے غضب کی گرفت میں ہیں؟ آج کا سب سے بڑا تقاضا یہی ہے کہ ہم اپنے اعمال کا احتساب کریں، اجتماعی اصلاح کی طرف سنجیدگی سے قدم بڑھائیں اور سچے دل سے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کریں۔
یقیناً آج کا دن سخت ہے، لیکن کل کا سورج انہی دعاؤں اور استقامت کی روشنی سے طلوع ہوگا۔ حالات ہمیشہ ایک جیسے نہیں رہتے۔ جو کارکن ہر موسم میں اپنے ایمان کے چراغ روشن رکھتے ہیں، اللہ کی نصرت انہی کے شاملِ حال ہوتی ہے۔
آخر میں دعا ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہمارے رفقاء پر رحم فرمائے، ہماری مشکلات کو آسان کرے، اور ہمیں سیرتِ نبویؐ کے ساتھ جڑے رہنے کی توفیق دے۔
اللہ تعالیٰ ہم پر رحم فرمائے، ہمارے گناہوں کو معاف کرے اور اس مملکتِ خداداد کو حقیقی معنوں میں اسلام کا مضبوط قلعہ بنا دے۔آمین یا رب العالمین!