بدقسمتی سے اب افغانستان ملاعمرؒ والا امارت اسلامیہ نہیں رہا
بلکہ ایک نیشن سٹیٹ بن چکا ہےاور افغان وزیر خارجہ کی
بھارت میں سرگرمیاں اس کا واضح ثبوت ہیں :رضاء الحق
جب تک افغان طالبان اللہ کے لیے جہاد کر رہے تھے تب تک وہ ہمارے
ہیرو تھے، لیکن اب وہ علاقائی اور لسانی عصبیت کی بناء پر ہم سے
لڑ رہے ہیں اور وارلارڈ ز بن چکے ہیں :ڈاکٹر محمد عارف صدیقی
’’پاک افغان مسئلہ اور سیز فائر ‘‘
پروگرام ’’ زمانہ گواہ ہے ‘‘ میں معروف تجزیہ نگاروں اور دانشوروں کا اظہار خیال
میز بان : وسیم احمد باجوہ
مرتب : محمد رفیق چودھری
سوال:پاکستان اور افغانستان کےمابین مذاکرات کا پہلا دورقطر میں مکمل ہوا جس کے نتیجے میں وقتی طور پر سیز فائر ہوا ہے ،آپ کیا سمجھتے ہیں کہ اس کے نتیجے میں پاکستان میں دہشت گرد کارروائیوں میں کوئی کمی آئے گی ؟
ڈاکٹر محمد عارف صدیقی:افغانستان کے ساتھ ہمارا تین چار دہائیوں سے جذباتی تعلق رہا ہے کیونکہ وہ ایک برادری اسلامی ملک ہے ، اسی وجہ سے ہم نے سوویت یونین کے خلاف جہاد میں ان کا ساتھ دیا اور انہوں نے کشمیر کی آزادی کی تحریک میں کچھ ساتھ دیا ۔ جہاں بھی اللہ کے نظام کے لیے ، اللہ کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق ، اللہ کے دشمنوں کے ساتھ جنگ ہوگی تو اسے جہادکہا جائے گا اور مسلمان غیر مشروط طور پر مسلمانوں کا ساتھ دیں گے۔ اسی وجہ سے ہم نے اہل غزہ کا بھی ساتھ دیا ۔ اس کے برعکس جب قبائلی ، علاقائی ، لسانی عصبیت آجائے گی تو وہاں اُمت تقسیم ہو جائے گی اور آپس میں ہی لڑائی شروع ہو جائے گی۔ جب تک افغان طالبان اللہ کے لیے جہاد کر رہے تھے تب تک وہ ہمارے ہیرو تھے۔ ہم نے دنیا کو بتایا کہ یہ امارت اسلامیہ افغانستان ہے اور ان کی اچھی اچھی چیزوں کو پروموٹ کرتے رہے اور ان کی غلطیوں اور کوتاہیوں پر پردہ ڈالے رکھا ۔
اب چونکہ ان کا معاملہ جہاد کا نہیں ہے بلکہ لسانی اور علاقائی عصبیت کا ہے، توگویا اب ہم مجاہدین کے خلاف نہیں لڑ رہے بلکہ وارلارڈز کے خلاف لڑ رہے ہیں جن کی آغوش میں بیٹھے TTPکے جتھے بھتے اور تاوان کے لیے لوگوں کو اغواء کرتے ہیں، راہداریاں بند کرتے ہیںاور دہشت گردی پھیلاتے ہیں ۔ دہشت گردی بھی کئی طرح کی ہوتی ہے ۔ جب ہم نے افغان بھائی چارے میں افغانوں کو پاکستان میں پناہ دی تو یہاں کلاشنکوف کلچر ، قبضہ گروپ ، نشہ کا کلچر اور ڈرگ مافیا پروان چڑھے اور سود کا کاروبار بھی پھیلا ۔ اس کے ساتھ ساتھ سرحد پار سے آکر یہاں دہشت گردی بھی ہوتی رہی۔ یہاں سے ڈالر بھی افغانستان میں سمگل ہو رہے تھے ۔ جب پاکستان نے افغان بارڈر پر سختی شروع کی اور افغانوں کو واپس بھیجنا شروع کیا تو یہ سب برائیاں آہستہ آہستہ کم ہورہی ہیں۔ اب آپ اندازہ لگائیے کہ ہم نےان کا جہاد میں ساتھ دیا ، ان کے لیے اپنے ملک کے دروازے کھول دیے ، ان کو بھائیوں کی طرح منڈیوں میں ، بازاروں میں ہر جگہ رسائی دی ، ہر طرح سے سپورٹ کیا لیکن انہوں نے اس کا کیا صلہ دیا ۔ اب بھی جو کچھ دہشت گردی کے واقعات ہورہے ہیں اس میں ان کےوہ لوگ ملوث ہو سکتے ہیں جو پاکستان میں ہیں لیکن ہمارے ریاستی ادارے اس پر قابو پالیں گے ان شاء اللہ۔
سوال:پاک افغان مذاکرات کے پہلے دور میں سرحد پارسے دہشت گردی ، سمگلنگ ، اغوابرائے تاوان اور ڈیورنڈ لائن کے معاملے پر بات چیت ہوئی۔ کیا ان مسائل کے حل کی طرف بھی کوئی قدم بڑھایا جائے گا ؟
رضاء الحق:افغان طالبان جب تک حکومت میں نہیں تھے تو معاملہ کچھ اور تھا لیکن جب کوئی پارٹی حکومت میں آجاتی ہے تو اس کی ذمہ داریاں بھی بڑھ جاتی ہیں۔ اگر ان کے ہوتے ہوئے بھی افغان سرزمین پاکستان میں دہشت گردی اور دیگر جرائم کے لیے استعمال ہورہی ہے اور تمام تر شواہد کے ہوتے ہوئے بھی وہ اس سے انکار کر رہے ہیں تو یہ ان کا ذمہ دارانہ کردار ہرگز نہیں ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ 2001ء کے بعد جب امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر 50 ممالک کو اکٹھا کیا اورپاکستان کو بھی مجبور کیا تو پاکستان کی سرزمین افغانستان کے خلاف استعمال ہوئی۔ یہ پاکستان کا منفی کردار تھا ، لیکن وہ ماضی ہے جس کو پیچھے چھوڑ کر ہمیں آگے بڑھنا چاہیے ۔ افغانستان میں بھی کئی لوگ تھے جو امریکہ کا ساتھ دے رہے تھے اور امریکہ جب گیا تو اس کے جہازوں کے ساتھ لٹک لٹک کر مررہے تھے۔ اس کے حمایتی آج تک خوار ہورہے ہیں ۔ افغان طالبان کی موجودہ حکومت دوبارہ اس نہج پر نہیں آسکی جس پر اپنے پہلے دور میں تھی ۔ بڑا واضح فرق نظر آرہا ہے ۔
سوال:اس کی کیاوجہ ہے ؟ اس وقت جو اس تحریک کے بانی تھے وہ لیڈ کر رہے تھے اور اب ان کی اگلی نسل ہے۔کیا یہ وجہ ہو سکتی ہے؟
رضاء الحق: اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ اس وقت TTP نہیں تھی ۔ اس وقت افغان طالبان ملاعمرؒ کی قیادت میں بڑے خلوص کے ساتھ ایک خاص مقصد کو لے کر چل رہے تھے ۔اس وقت وہ ان وارلارڈز کے خلاف لڑ رہے تھے جو دہشت گردی ، ہیروئن ، سمگلنگ سمیت تمام تر برائیوں کے پشت پناہ تھے۔ ان کو ختم کرکے افغان طالبان نے ملک اور قوم کو متحد کیا ، اسلامی نظام نافذ کیا ، اللہ تعالیٰ نے ان کی مدد کی ۔ پاکستان نے بھی ان کو تسلیم کیا، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے بھی تسلیم کیا ۔ لیکن نائن الیون کے بعد جب پاکستان نے امریکی دباؤ میں آکر یوٹرن لے لیا تو اس کے منفی نتائج برآمد ہوئے۔ ٹی ٹی پی جیسے مسائل اس کے بعد ہی پیدا ہوئے ۔ ڈیورنڈ لائن کا مسئلہ 1913ء کے قریب حل ہو چکا تھا ، برٹش انڈیا اور افغان حکومت کے دستخط ہو چکے تھے ۔ لیکن پاکستان کے قیام کے ساتھ ہی اس مسئلے کو دوبارہ کھڑا کیا گیا ۔ ایک ملک جو خودکو امارتِ اسلامیہ افغانستان کہتا ہے اس کے لیے مناسب نہیں ہے کہ وہ پڑوسی مسلم ملک پر قبضے کی بات کرے ۔ ان کے وزیر دفاع جب ڈیورنڈ لائن کی بات کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ اٹک تک کا علاقہ ہمارا ہے ۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ امارت اسلامیہ نہیں ہے بلکہ ایک نیشن سٹیٹ ہے جو نظام خلافت کے لیے نہیں بلکہ لسانی ، نسلی اور علاقائی عصبیت کے لیے کام کررہے ہیں۔ حالانکہ پاکستان نے لاکھوں افغان مہاجرین کو پناہ دی ، ان کو روزگار اور معاش کے یکساں مواقع فراہم کیے ۔ حامد کرزئی اور اشرف غنی کے دور میں بھارتی قونصل خانے پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے اڈے بنے رہے۔ 15اگست 2021ء کو جب امریکہ افغانستان سے دم دبا کر بھاگا اور افغان طالبان کی حکومت دوبارہ قائم ہوئی تو بھی افغانستان کی سرزمین سے پاکستان میں دہشت گردی جاری رہی ۔ اس دہشت گردی کو روکنے کے لیے پاکستان کو مجبوراً افغان بارڈر پر سختی کرنا پڑی اور افغان مہاجرین کی واپسی کا بھی فیصلہ لینا پڑا ۔اب جو مذکرات ہو رہے ہیں وہ افغان طالبان سے ہیں ، ٹی ٹی پی سے نہیں ہیںکیونکہ افغان طالبان ہی اُن کو سپورٹ کر رہے ہیں ۔ اللہ کرے یہ مذاکرات نتیجہ خیز ثابت ہوں ۔
سوال: مذاکرات میں ہونے والے فیصلوں کو سامنے کیوں نہیں لایا جائے گا؟ نیز مذاکرات کا دوسرا دور ترکیہ کی میزبانی میں شروع ہو رہا ہے ،اگر کوئی معاہدہ ہو جاتاہے تو اس کا ضامن کون ہوگا ؟
ڈاکٹر محمد عارف صدیقی:مذاکرات میں ہونے والے فیصلے تو سامنے آہی جائیں گے، لیکن ممکن ہے کہ فریق ثانی کی فیس سیونگ کی خاطر شرائط کو خفیہ رکھا جائے ۔ جہاں تک دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کا نیٹو کا ساتھ دینے کا تعلق ہے تو یہ جنگی حکمت عملی تھی جو سامنے کچھ اور ہوتی ہے لیکن پس پردہ کچھ اور ہوتی ہے ۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ جب امریکہ افغانستان سے شکست کھا کر نکلا ہے تو اس نے پاکستان پر یہ کہہ کر الزام لگایا ہے کہ اس شکست کی اصل وجہ پاکستان ہے ۔ اس کا مطلب ہے کہ امریکہ کو شکست بھی پاکستان کی وجہ سے ہوئی ہے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر پرویز مشرف کے امریکہ کا ساتھ دینے کی وجہ سے پوری پاکستانی قوم افغانستان کے نزدیک مجرم ہے تو پھر حامد کرزئی اور اشرف غنی کے خلاف کارروائی نہ کرنے کی وجہ سے افغان عوام کی اکثریت بھی مجرم ہے ۔ انہو ں نے بھی امریکہ کا ساتھ دیا ہے ۔ لہٰذا پہلے وہ اپنے گھر کے مجرموں کو سزا دیں ۔ معاہدے کا ضامن کوئی بھی نہیں ہوتا ، صرف طاقت ہی ضامن ہوتی ہے۔ جب پاکستان نے عسکری طاقت کا مظاہرہ کیا ہے تو وہ مذاکرات کی میز پر آنے پر مجبور ہوئے ہیں ۔ جہاں تک اُن کے اس دعوے کا سوال ہے کہ ہم نے روس کو نکالا ، امریکہ کو نکالا تو یہ وہ شناخت ہے جو ہم نے انہیں دی کیونکہ جب تک وہ اسلام کی خاطر لڑے ہم نے انہیں حوصلہ دیا اور انہیں اخلاقی مدد دی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ روس کے آگے چند گھنٹوں میں ڈھیر ہوگئے تھے ۔ جب پاکستان اور دنیا بھر کے مجاہدین جنگ میں شامل ہوئے تو روس کو شکست ہوئی ، کتنے پاکستانی مجاہدین جاکر افغانستان میں شہید ہوئے۔ رسالے یہاں سے شائع ہوتے رہے ، تربیت گاہیں یہاں پر تھیں ۔ اسلحہ بارود ، سٹریٹجک ، لوجسٹک سپورٹ یہاں سے جاتی رہی ۔ پھر امریکہ کو بھی شکست پاکستان کی وجہ سے ہوئی جیسا کہ خود امریکی تھنک ٹینک کہتے ہیں ۔یہ وہ لوگ ہیں جو صرف طاقت کی زبان سمجھتے ہیں ۔ پاکستان عسکری سطح پر جب تک مضبوط رہے گا تو یہ معاہدہ بھی رہے گا لیکن اگر پاکستان کمزور ہوا تو یہ معاہدے کی کوئی پرواہ نہیں کریں گے ۔
سوال: اس وقت قطر اور ترکیہ کے علاوہ دیگر کون کون سے ممالک ہیں جو پاک افغان مذاکرات کے لیے کوشاں ہیں ؟اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ افغان سرزمین دوبارہ پاکستان میں دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہوگی ؟
رضاء الحق: یقیناً اس کا روڈ میپ طے کیا جائے گا اور یہی شرط ایجنڈے میں سب سے اوپر ہوگی۔جب سے مذاکرات شروع ہوئے ہیں تو سرحد کے اُس پار سے دہشت گردی کے واقعات میں کمی آئی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ افغان حکومت دہشت گردوں پر اثر رکھتی ہے اور ان کو روک سکتی ہے ۔ پھر یہ کہ افغان طالبان کے بھی کئی دھڑے ہیں۔ حقانی گروپ خاصہ پروپاکستانی ہے، کندھاری گروپ سخت رویہ رکھتا ہے اور افغان طالبان کے موجودہ امیر کا تعلق بھی اسی گروہ سے ہے جبکہ ایک تیسرا گروہ بھی ہےجس نے دوحہ میں امریکہ سے مذاکرات کیے اور دوحہ آفس چلایا ۔ دوسری بات یہ ہے کہ جب سے ان کے بھارت کے ساتھ سفارتی تعلقات بڑھے ہیں تب سے ہی سرحدی چھیڑ چھاڑ بڑھی ہے اور اب بھارت وہاں اپنے قونصل خانے دوبارہ کھول رہا ہے ۔ ایک ایسا ملک جو مسلمانوں پر مظالم ڈھا رہا ہے ، مساجد گرا رہا ہے اس کے ساتھ معاہدے کرنا ، کشمیر کو اس کا اندرونی معاملہ قرار دینا ، بھارت کو افغانستان میں سفارت خانے کھولنے کی اجازت دینا ، خواتین کے جھرمٹ میں بیٹھ کر پریس کانفرنس کرنا اور بتوں کی تصاویر والے کمروں میں بیٹھ کر بھارتی اعلیٰ عہدیداروں سے ملاقات کرنا کسی اسلامی ریاست کا کام ہرگز نہیں ہو سکتا۔ اس کا مطلب ہے کہ موجودہ افغان طالبان نے اسلامی بیانیہ سے یوٹرن لے لیا ہے ۔ حالانکہ اللہ نے انہیں موقع دیا ہے کہ وہ اسلام کے غلبے کے لیے کام کریں لیکن اگر وہ اسلام سے بے وفائی کریں گے تو اللہ کے لیے یہ مشکل نہیں کہ ان کی جگہ کسی اور کو اسلام کے لیے چن لے ۔ان کی اُمت سے بے وفائی کا فائدہ اسلام دشمنوں کو ہوگا اور اُمت کا نقصان ہوگا ۔
سوال: ڈونلڈ ٹرمپ کا دعویٰ ہے کہ پاک بھارت جنگ سمیت میں نے 8 جنگیں ختم کروائی ہیں اور اگر میں چاہوں تو پاک افغان تنازعہ بھی حل کر واسکتا ہوں ۔ آپ ان کے اس دعوے کو کس نظر سے دیکھتے ہیں ؟
ڈاکٹر محمد عارف صدیقی:ڈونلڈ ٹرمپ کا اگر آپ کیریئر دیکھیں تو ابتدامیں وہ ایک مسخرہ تھا ۔ فلموں میں مزاحیہ کردار ادا کرتا تھا ۔ اس کے بعد کچھ عرصہ وہ ریسلنگ کا پروموٹر بھی رہا اور مقابلے فکس کرواتا رہا ۔ اس کے خیال میں اس وقت جو جنگیں ہورہی ہیں وہ ویسے ہی ہورہی ہیں جیسے ریسلنگ کے مقابلے ہوتے تھے اور وہ انہیں آسانی سے رکوا دے گا۔ یوکرائن کے معاملے میں اسے درجنوں مرتبہ خفت اُٹھانی پڑی ہے ۔اس کے بیانات ایسے ہی ہیں جیسے ہمارے ہاں سیاستدان کہتے ہیں کہ سیاسی بیان کوئی قرآن کا حرف نہیں ہوتا ۔ لہٰذا اس کے بیانات کو سنجیدہ مت لیں ۔ وہ ایک مسخرہ ہے ۔
سوال:بعض پاکستانی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ افغان قوم گزشتہ 40 سال سے جنگ وجدال میں مصروف رہی ہےاور ان کے نزدیک مذاکرات، ڈائیلاگ، امن کی بات یا مشورہ کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ انہیں صرف بندوق کی زبان سے ہی سمجھایا جا سکتاہے ۔ اس میں کتنی سچائی ہے ؟
رضاء الحق: جی میں اس اصول سے بالکل اتفاق کرتا ہوں اور قرآن میں بھی یہی رہنمائی دی گئی ہے کہ جب مسلمانوں کےدو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں صلح کرواؤ اوراس کے بعد جو گروہ صلح سے پھر جائے تو سب مل کر اس کے خلاف جنگ کرو۔ یہاں تک کہ وہ حق کی طرف لوٹ آئے ۔‘‘(الحجرات:9)
افغان طالبان کو طاقت کی زبان ہی سمجھ میں آئے گی اور طاقت ہی معاہدے کی ضامن ہوگی۔ اطلاعات کے مطابق اب وہ ٹی ٹی پی کو مغربی علاقوں میں شفٹ کر رہے ہیں ، اس کا مطلب ہے کہ وہ ان کو پاکستان کے حوالے نہیں کرنا چاہتے۔بجائے اس کے وہ پاکستان کے حوالے کرتے تو پاکستان ان سے خود نمٹ لیتا اور اس کے بعد افغان طالبان کے ساتھ تعلقات بھی بہتر رہتے ۔
سوال: 40 سالہ جنگ و جدل کے دور میں پاکستان نے اپنا قومی اور دینی فریضہ سمجھ کرافغانوں کی ہر طرح سے مدد کی لیکن جیسے ہی افغانستان میں تھوڑا استحکام آیا تو اس کا جھکاؤ بھارت کی طرف ہوگیا اور اب وہ بھارت کی زبان بولنے لگے ۔ کیا یہ سیدھی سیدھی احسان فراموشی نہیں ہے ؟
ڈاکٹر محمد عارف صدیقی: آج بھی اگر افغان طالبان اسلام کے لیے جہاد کریں گے تو ہم ان کی مدد کریں گے کیونکہ ہم اُمت کے تصور پر قائم ہیں ۔ وہ افغان جو اُمت کے لیے کام کرتاہے، وہ میرا بھائی ہے ۔ لیکن جو افغان اپنے مفاد کے لیے اُمت کو بیچ دے، وہ میرا بھائی نہیں ہے ۔ ایمن الظواہری کو کس نے بیچا ؟حالانکہ انہوں نے افغانوں کی مدد کے لیے خود کو خطرے میں ڈالا تھا ۔ یہ کمزوریاں بعض افغان قبائل میں ہیں کہ وہ ڈالروں کے لیے کسی کو بھی بیچ دیتے ہیں چاہے کوئی مجاہد ہی کیوں نہ ہو ۔ افغانستان اگر بھارت سے تعلقات رکھتا ہے تو اس پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن اگر بھارت کے ہاتھوں ہمارے خلاف استعمال ہوگا ، ہمارے خلاف بھارت کی زبان بولے گا تو پھر وہ ہمارا برادر اسلامی ملک ہرگز شمار نہیں ہوگا ۔اگر افغان گورنمنٹ اپنی کرکٹ ٹیم کے ساتھ بھی کھڑیہے جس کا کپتان پاکستان کے خلاف زہر اُگلتا ہے، وہ بارڈر پرناجائز سمگلنگ کرنے والوں کے ساتھ بھی کھڑی ہے، وہ بھارت کے ساتھ بھی کھڑی ہے جو افغانستان میں ایک اور مکتی باہنی تیار کر رہا ہے تو پھر یہ احسان فراموشی سے بھی آگے کی بات ہے ۔ اگر پرویز مشرف نے صلیبی افواج کا ساتھ دیا تو اس وقت پاکستانی قوم مشرف کے خلاف اور افغانوں کے ساتھ کھڑی تھی ۔ اسی طرح اگر افغان عوام کے اندر ذرہ برابر بھی اسلامی حمیت باقی ہے تو انہیں اسی طرح کرنا چاہیے جیسے پاکستانی عوام نے کیا تھا۔
سوال: الدین النصیحہ کے تقاضے کے تحت اس فورم سے ہمیشہ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ قرآن و حدیث کی تعلیمات کی روشنی میں ہم اپنے حکمرانوں ، عسکری اداروں کو مشورہ دیں ۔ اس تناظر میں آپ پاک افغان تنازعات کے حل کے لیے حکمرانوں اور عسکری اداروں کو کیا مشورہ دیں گے ؟
ڈاکٹر محمد عارف صدیقی:میں افغانیوںسے مخاطب ہوکر کہتا ہوں کہ آپ کو عزت، غیرت اور تکریم پر سمجھوتہ نہیںکرنا چاہیے۔ آپ میں دنیا کے بہت عظیم ترین مجاہد تھےاور ہیں ۔ مگر آپ کی صفوں کے اندرکالی بھیڑیں بھی ہیں جو آپ کی عزت ، غیرت اور تکریم کو داغدار کر رہی ہیں ۔ آپ اپنی غیرت کو پہچانیں ۔ملاعمر ؒکے دور میں جب آپ لوگوں نے بُت گرائے تھے تو پوری دنیا کا آپ نے سامنا کیا تھا اور آج جب آپ کے وزیرخارجہ بھارت میں پریس کانفرنس کر رہے تھے تو پیچھے بامیان کے بتوں کی تصاویر آویزاں تھیں لیکن آپ کے وزیر خارجہ کے چہرے پر کوئی ندامت نہیں تھی ۔آپ اسلام کے مجاہدین تھے اگر آج اسلام مخالف چیزوں پر آپ کو اعتراض نہیں ہے تو پھر آپ 40 سالہ جنگ میں شہید ہونے والے مردوں ، عورتوں اور بچوں کے خون سے غداری کر رہے ہیں ، پھر آپ نے اپنی قبائلی غیرت اور حمیت کو بیچ دیا ہے۔ پاکستانی اسلام کے مجاہدین کے بھائی ہیں ، اگر آپ اسلام کے مجاہد بنیں گے تو ہم اب بھی آپ کا پہلے کی طرح ساتھ دیں گے لیکن اگر اس کے برعکس آپ رویہ رکھیں گے تو اس کے نتائج خود آپ کی تباہی کی صورت میں نکلیں گے ۔
رضاء الحق: قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : {اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ }(الحجرات) ’’یقیناً تمام اہلِ ایمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔‘‘
اسی طرح سورۃ الفتح کے میں فرمایا : {اَشِدَّآئُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآئُ بَیْنَہُمْ } (الفتح:29) ’’ وہ کافروں پر بہت بھاری اور آپس میں بہت رحم دل ہیں۔‘‘
یہ ہدایات اللہ نے مسلمانوں کے لیے دی ہیں ۔اگر افغان طالبان اس کے مطابق عمل کرتے تو آج افغان بارڈر پر فوجوں کی ضرورت ہی نہ پڑتی ۔ مگر ہمیں افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ افغان طالبان کا رویہ پہلے کچھ اور تھا مگر اب کچھ اور ہے ۔ بجائے اس کے کہ ہم اللہ کے رسول ﷺ کی ان احادیث کے مطابق تیاری کریں جن میں خراسان سے اسلامی لشکروں کے نکلنے کی بشارتیں دی گئی ہیں ،الٹا اسلام مخالف رویہ اپنا لیں، بھارت میں جاکر بتوں کی تصاویرکے سامنے بیٹھیں اور بھارت کے تربیت یافتہ دہشت گردوں کے ذریعے پاکستان میں مسلمانوں کا لہو بہائیں تو یہ رویہ اسلامی نہیں ہے ۔ اسلامی رویہ تو یہ ہوتا کہ آپ بھارت میں جاکر کہتے کہ اُن بتوں کو پس منظر سے اُتارو ورنہ میں جارہا ہوں ۔ جس طرح صحابہ کرامؓ نے فارس کی سلطنت میں پہنچ کر باقاعدہ اسلامی بیانیے کا اعلان کیا تھا کہ ہم یہاں کفرکے خاتمے ، شرک کے بتوں کو توڑنے اور انسانوں کو باطل کی غلامی سے آزاد کروانے آئے ہیں۔ بحیثیت مسلمان اسلام اور اسلامی نظام کا قیام ہی ہمارا ون پوائنٹ ایجنڈا ہونا چاہیے ۔ پاکستان بھی ہم نے اسلام کے نام پر لیا ہے ۔ غلطیاں ہر جگہ اور ہر ایک سے ہو سکتی ہیں ، انبیاء کے بعد معصوم کوئی بھی نہیں ہے ، لیکن اصلاح اور توبہ کا دروازہ ہروقت کھلا ہے ۔ ہمیں چاہیے کہ پاکستان کو حقیقی معنوں میں اسلامی فلاحی ریاست بنائیں ۔ افغان طالبان بھی اپنے ملک کو صحیح معنوں میں امارت اسلامیہ افغانستان بنائیں۔ پھر مل کر خراسان کے مشن کو پورا کریں جس کی پیشین گوئی اللہ کے رسول ﷺ نے فرمائی ہے ۔ اس کے مطابق ہم نے مل کر یہود و ہنود اور لشکر ِدجال کا مقابلہ کرنا تھا بجائے اس کے آپس میں ہی لڑپڑنا خود فتنہ دجال میں مبتلا ہونے کے مترادف ہے ۔