(منبرو محراب) اعمال صالح کی فضیلت اور اہمیت - ابو ابراہیم

11 /

اعمال صالح کی فضیلت اور اہمیت


(قرآن و حدیث کی روشنی میں )

مسجدجامع القرآن ، قرآن اکیڈمی ماڈل ٹاؤن لاہور میں امیر تنظیم اسلامی محترم شجاع الدین شیخ حفظ اللہ کے17اکتوبر2025ء کے خطاب جمعہ کی تلخیص

خطبہ ٔمسنونہ اور تلاوتِ آیاتِ قرآنی کے بعد!
آج ان شاء اللہ ہم  سورۃ النحل کی آیت 97  کی روشنی میں تذکیر بالقرآن کا اہتمام کریں گے اور اس کے ساتھ ساتھ کچھ حالات حاضرہ پر بھی گفتگو ہوگی۔ زیرمطالعہ آیت میں فرمایا : 
{مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثٰی وَہُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّہٗ حَیٰوۃً طَیِّبَۃًج وَلَنَجْزِیَنَّہُمْ اَجْرَہُمْ بِاَحْسَنِ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(97)} ’’جس کسی نے بھی نیک عمل کیا ‘ خواہ وہ مرد ہو یا عورت‘ بشرطیکہ ہو وہ مؤمن تو ہم اسے (دُنیا میں) ایک پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے۔اور (آخرت میں) ہم انہیں ضرور دیں گے ان کے اجر ‘اُن کے بہترین اعمال کے مطابق۔‘‘ 
اعمال صالح کا موضوع قرآن حکیم کے بنیادی مضامین میں سے ایک ہے۔ اعمال صالحہ کی قبولیت کے لیے ایمان شرط ِاول ہے ۔ ایمان والا بندہ ہو یا بندی، اس کو یکساں اجر ملے گا ، یہ نہیں کہ فرق کیا جائے گا ۔ ان کو اس دنیا میں بھی پاکیزہ زندگی عطا کی جائے گی اور آخرت میں سب سے بڑھ کر پاکیزہ زندگی عطا کی جائے گی ۔ایک دوسری تشریح کے مطابق ان کے جو سب سے بہترین اعمال ہوں گے ان کی نسبت سے سارے اعمال کا اجر عطا کیا جائے گا ۔ 
تنظیم اسلامی کے تحت ڈاکٹراسراراحمدؒ کے دروس پر مشتمل ایک منتخب نصاب تیار کیا گیا ہے جس میں قرآن مجید کے مخصوص حصوں کا مطالعہ کرایا جاتاہے تاکہ جو لوگ مکمل قرآن کا تفصیلی مطالعہ نہیں کرسکتے اُن کے سامنے مختصر مطالعہ کے ذریعے دین کا جامع تصور ، فرائض دینی کا جامع تصور اور دینی ذمہ داریوںکا تصور واضح ہو جائے اور ان ذمہ داریوں کو ادا کرنے کا شوق اور جذبہ بھی پیدا ہو جائے اور ان دینی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی عملی شکل بھی بندوں کے سامنے واضح ہو جائے۔اس منتخب نصاب کا پہلا حصّہ سورۃ العصر کے مطالعہ پر مشتمل ہے ۔ وہاں بھی اعمال صالح کا ذکر آتاہے: {اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ}(آیت:3)’’سوائے اُن لوگوں کے جو ایمان لائے اور انہوںنے نیک اعمال کیے‘‘
اس کے ذیل میں ڈاکٹر اسراراحمدؒ اعمال صالح کی ایک بہترین تعریف بیان کیا کرتے تھے کہ کوئی بھی عمل ، عمل صالح تب کہلائے گا جب نیت خالص ہوگی۔ بظاہر کوئی بڑے سے بڑا نیک عمل ہو لیکن نیت میں کھوٹ آجائے ، دکھاواآجائے تو وہ نیک عمل نہیں رہے گا ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((مَنْ صَلَّی یُرَائِیْ فَقَدْ اَشْرَکَ))(مسند احمد )  ’’جس نے دکھاوے کی نماز ادا کی اس نے شرک کیا۔ ‘‘
       دوسری شرط یہ ہے کہ وہ معروف ہو ، منکر نہ ہو ۔ یعنی اچھی نیت سےکوئی بُرا عمل کرے تو وہ نیک نہیں ہو جائے گا ۔کوئی مسجد سے جوتیاں چرائے اور بازار میں جا کے بیچے اور کہے کہ اس سے جو پیسے ملیں گے میں بھوکوں کو کھانا کھلاؤں گاتو یہ نیک عمل ہرگز نہیں ہوگا ۔تیسری شرط یہ ہے کہ شریعت نے اس کام سے روکا نہ ہو۔چوتھی شرط یہ ہے کہ خلافِ سنت نہ ہو ۔ مغرب کی نماز کے بعد دورکعت سنت ادا کرنی ہیں لیکن میں دو کی بجائے 4 رکعت سنت کی نیت کروں تو یہ نیک عمل نہیں ہوگا ۔ شرائط پوری ہوں گی تو وہ نیک عمل ہوگا ۔ 
اس کے بعد اعمال صالحہ میں دین کے تمام تقاضے شامل ہو جاتے ہیں ۔ ان میں حقوق اللہ بھی ہیں ،  حقوق العباد بھی ہیں ، عبادات بھی ہیں ، معاملات بھی ہیں ، اخلاقیات بھی ہیں ۔ پھر اجتماعی زندگی کے معاملات بھی ہیں ۔ ان میں بھی بنیادی 4شرائط لازم ہوں گی ۔ 
زیر ِمطالعہ آیت میں مرد اور عورت کے لیے برابراجر کا ذکر کیا گیا ۔ بعض صحابیات ؇نے پوچھا: یارسول اللہ ﷺ ! قرآن کریم میں مردوں کا تو بہت ذکرآتا ہے لیکن خواتین کا ذکر نہیں آتا ۔اس کے جواب میں سورۃ الاحزاب کی یہ آیت نازل ہوئی ، اس میں بھی اعمال صالح کا ذکر ہے : 
’’یقیناً مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں‘اور مؤمن مرد اور مؤمن عورتیںاور فرماں بردار مرد اور فرماں بردار عورتیں‘ اور راست باز مرد اور راست باز عورتیںاور صبر کرنے والے مرد اور صبر کرنے والی عورتیں‘ اور خشوع کرنے والے مرد اور خشوع کرنے والی عورتیںاور صدقہ دینے والے مرد اور صدقہ دینے والی عورتیں‘اور روزہ رکھنے والے مرد اور روزہ رکھنے والی عورتیںاور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والی عورتیں‘اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرنے والے مرد اور ذکر کرنے والی عورتیں‘اللہ نے ان سب کے لیے مغفرت اور بہت بڑا اجر تیار کر رکھا ہے۔‘‘(آیت:35)
یہاں اہم مسئلہ زیر غور رہے کہ اجر کے اعتبار سے مرد اور خواتین برابر ہیں ۔ ان میں سے جو بھی نیک عمل کرے گا، بشرطیکہ وہ مومن ہو تو اس کو برابر اجر ملے گا ۔ لیکن دنیوی فرائض اوردنیوی ذمہ داریوں کے اعتبار سے اللہ کے دین میں عورت پر وہ ذمہ داریاں عائد نہیں کیں جو مرد پر ڈالی ہیں ۔ مثال کے طور پر معاش کی پوری ذمہ داری اللہ نے مرد پر ڈالی ہے کہ وہ محنت کرے ، حلال کمائے اور اپنے کنبے کی پرورش کرے ۔ اسی طرح قتال کی ذمہ داری اللہ نے مرد پر ڈالی ہے عورت پر نہیں ڈالی ۔ لیکن آج کی دجالی تہذیب میں میڈیا ، نصاب ، تعلیمی اداروں ، فلموں اور ڈراموں کے ذریعے دماغوں پر یہ سوچ مسلط کی جارہی ہے کہ عورت اور مرد برابر ہیں، عورتوں کو مردوں کے شانہ بشانہ میدان میں آنا چاہیے ، ترقی کی دوڑ میں عورتوں کا بھی حصّہ ہونا چاہیے وغیرہ وغیرہ ۔ حالانکہ     اللہ تعالیٰ نے بناوٹ ، نفسیات ، جذبات ، قوت ، برداشت اور کئی لحاظ سے دونوں میں بہت بڑا فرق رکھا ہے ۔ اللہ جو کہ مرد کا خالق ہے وہ عورت کا بھی خالق ہے۔ اسی نے خود مرد اور عورت کے فرائض اور ذمہ داریوں کا تعین کر دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے گھر کا نظام چلانے کے لیے مرد کو گھر کا سربراہ بنایا : {اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآئِ}(النساء: 34 ) ’’مرد عورتوں پر حاکم ہیں‘‘ 
        اس لحاظ سے مردوں کے ذمہ زیادہ بڑی اور بھاری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ، وہ اللہ کے دین کے لیے جہاد و قتال میں بھی حصہ لے گا ۔ وہ محنت مزدوری کرکے گھر والوں کی کفالت بھی کرے گا ۔ جبکہ خاتون گھر میں رہ کر اولاد کی اچھی تربیت اور پرورش کرے گی ۔ اس لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے عورت پر وہ بوجھ نہیں ڈالا جو مرد پر ڈالا ہے لیکن دینی تقاضوں اور فرائض کی ادائیگی پر عورت کو مرد کے برابر اجر ملے گا ۔ اگر وہ ایمان پر رہتے ہوئے     نیک اعمال کریں گے تو اس کا بدلہ انہیں اس دنیا میں بھی ملے گا کہ انہیں اس دنیا میں بھی پاکیزہ زندگی عطا کی جائے گی اور آخرت کا اجر تو اس سے بھی عظیم ہوگا ۔ اجر اور ثواب کے حصول میں عورت مرد کا مقابلہ کر سکتی ہے اور اس سے آگے نکلنے کی بھی کوشش کر سکتی ہے ۔ البتہ فرائض دینی کی ادائیگی کے لحاظ سے دائرہ کار میں فرق ہوگا ۔ اس حوالے سے ڈاکٹر اسراراحمدؒ کا ایک جامع خطاب ’’مسلم خواتین کے دینی فرائض ‘‘کے عنوان سے ہے ۔ اس میں ڈاکٹر صاحبؒ نے وضاحت کی ہےکہ مردوں کے ذمے باہر کی ذمہ داریاں نسبتاً زیادہ ہیں، معاش کے اعتبار سے بھی اور دعوتی کام اور اقامت دین کی جدوجہد کے اعتبار سے بھی۔ عورت کا اصل میدان اس کا گھر ہے ۔ مردوں کے لیے باجماعت نماز کی پابندی کو لازم کیا گیا ہے، عورت کے لیےیہ لازم نہیں کی گئی ۔ تاہم اللہ کو راضی کرنے کی کوشش کرنا ، اللہ اور اس کے رسولﷺکے احکام پر عمل کے حوالے سے آگے بڑھنا، آخرت کی کامیابی کے لیے محنت کرنا ، یہ وہ میدان ہے جس میں عورت محنت کرکے مرد سے آگے نکل سکتی ہے ۔اولین شرط ایمان ہے ۔ 
ایمان کیا ہے ؟ اس کی تفصیل بھی احادیث میں آتی ہے ۔ فرمایا : ((تصدیق بما جابہ نبی ﷺ)) ہر وہ خبر جو رسول اللہ ﷺ نے دی ہے اس کی تصدیق کرنا ایمان ہے۔یہودی بھی اللہ کو مانتا ہے ، آخرت کو مانتا ہے ، موسیٰ ؈کو مانتا ہے لیکن محمد ﷺ کو نہیں مانتالہٰذا وہ مسلم نہیں ہے ۔ عیسائی بھی اللہ کو مانتے ہیں ، آخرت کو بھی مانتے ہیں ، حضرت عیسیٰ ؈کو بھی مانتے ہیں لیکن نبی اکرم ﷺ پر ایمان نہیں لاتے لہٰذا وہ مسلم نہیں ہیں ۔ ایمان والا وہی قرار پائے گا جو ان شرائط و تفصیلات کے ساتھ ایمان لائے جو محمد مصطفیٰﷺ نے عطا فرمائیں۔ اس کے بعد ایمان کی اقسام ہیں ۔ ایک ایمان مجمل ہے ،ایک ایمان مفصل ہے ۔ اس کے بعد عقائد کی تفصیلات ہیں ۔ اصول یہ ہے کہ جو چیز محمد مصطفیٰ ﷺ نے عطا فرمائی اس کو مانے۔ اس سے کم تر پر عمل بظاہر کتناہی اچھا کیوں نہ ہو وہ اللہ کےہاں قابل قبول نہیں ہوگا۔ فرمایا: {فَلَنُحْیِیَنَّہٗ حَیٰوۃً طَیِّبَۃًج } ’’ ہم اسے (دُنیا میں) ایک پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے۔‘‘ 
یہ بڑے تاکید کے الفاظ ہیں کہ ہم لازماً انہیں پاکیزہ زندگی عطا فرمائیں گے ،بشرطیکہ وہ مومن ہوں اور نیک اعمال کرنے والے ہوں ۔ یہ دنیا کی زندگی بھی ہو سکتی ہے ، برزخ کی زندگی بھی ہوسکتی ہے اور آخرت کی زندگی بھی ہوسکتی ہے اس حوالے سے تینوں آراء موجود ہیں ۔ اکثر مفسرین اس کی طرف بھی گئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ قناعت والی زندگی بندے کو عطا کرتا ہے۔ بندے کا ایمان ہوگاکہ جو میرے مقدر میںہے، وہ مجھے مل کر رہے گا، نہ اس سے کم نہ اس سے زیادہ۔جو ملے گا اس پر شکر ادا کرے گا، ہوس کا شکار نہیں ہوگا۔ کسی دوسرے کے پاس زیادہ دیکھ کر حسد کا شکار نہیں ہوگا۔ دوسرے کے پاس اگر کچھ ہے تو مومن کا ایمان بتاتا ہے اس کواللہ نے دیا ہے لیکن کم ہے یا زیادہ ہے ، یہ سب امتحان ہے ۔ اگر کوئی حرام سے دولت کے ڈھیر جمع کر رہا ہے تو اس کو اتنا ہی عذاب بھی ہوگا ۔ کوئی حلال کی کم کمائی پر گزارہ کر رہا ہے تو اس کے لیے اتنا ہی حساب کم ہو جائے گا ۔ اللہ کے فیصلوں میں حکمت ہوتی ہے ۔ مومن اللہ کی رضا پر راضی رہے گا ۔ وہ دولت     کے لیے حرام میں منہ نہیں مارے گا ، رشوت ، کرپشن ،   قتل و غارت گری میں ملوث نہیں ہوگا ،لوگوں کے حقوق پامال نہیں کرے گا۔ نحوست والی زندگی نہیں گزارے گا۔ پاکیزگی والی زندگی گزارے گا۔صرف زبانی کلامی ایمان سے یہ مرتبہ حاصل نہیں ہوگا بلکہ اس کے لیے دل سے ایمان لانا ضروری ہے ۔ دل میں ایمان ہوگا تو اس اظہار اعمال صالح کی صورت میں ہوگا ۔ دل میں اگر ایمان ہوگا تو زبان پر لازماً شکر کے کلمات ہوں گے ، اللہ سے غافل نہیں ہوگا ، حسد اور حرص میں نہیں پڑے گا ۔ اگر کوئی آزمائش بھی آئے گی تو ’’انا للّٰہ و انا علیہ راجعون‘‘ کہہ کر اپنے آپ کو مطمئن رکھے گا۔ مصائب پر صبر کر لے گا۔ اللہ کے فیصلے پر راضی رہے گا۔ اُسے پتا ہوگا کہ :
{مَا اَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَۃٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللہِ ط} (التغابن: 11) ’’نہیں آتی کوئی مصیبت مگر اللہ کے     اذن سے۔‘‘
حدیث میں ذکر آتاہے کہ مومن کا معاملہ بڑا عجیب لیکن خوبصورت ہے۔ اس کے ہر معاملے میں خیر ہی خیر ہے۔ نعمت ملتی ہےتو شکر ادا کرتا ہے ، کوئی مصیبت آجائے تو صبر کرتاہے، دونوں صورتوں میں اس کو اجر ملتا ہے ۔  حضورﷺ نے فرمایا:یہ کیفیت مومن کے سوا کسی کو حاصل نہیں ہوتی۔ یہ مومن کی شان ہے ۔ اس کے برعکس کافر کو دنیا میں اگر کچھ مل جائے گا تو وہ تکبر اور غرور میں مبتلا ہو جائے گا ، عیاشیوں میں پڑ جائے گا ، دین سے غافل ہو جائے گا ،اختیار مل جائے گا تو غلط استعمال کرے گا ، اس کا جسم بھی ناپاکی میں مبتلا ہوگا اور اس کی زندگی بھی ناپاکی اور نحوست والی ہوگی ۔ اس کی زبان بھی نحوست والی ہو جاتی ہے۔کفر کی بھی مختلف قسمیں ہیں ۔ وہ مسلمان جس کوایمان بالقلب کی دولت نصیب نہیں اس کی حرکتیں بھی کافرانہ ہو جاتی ہیں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا:((مَنْ تَرَکَ الصَّلَاۃَ مُتَعَمِّدًا فَقَدْ کَفَرَ جِھَارًا))’’ جس نے جان بوجھ کر نماز ترک کر دی وہ کفر کر چکا ۔‘‘ (جامع ترمذی)
      اللہ تعالیٰ خود پاک ہے اور پاک کو پسند فرماتاہے ۔ صدقہ حرام سے کیا جائے تو اللہ کےہاں قبول نہیں ہوتا۔ مومن کا مال بھی پاکیزہ ہو گا ، اس کا کردار بھی پاکیزہ ہوگا ، وہ راہِ خدا میں پاکیزہ چیزوں میں سے خرچ کرے گا اوراللہ کے ہاں اجر پائے گا ۔ جبکہ کافر کی ہر چیز ناپاک ہو جائے گی ۔ لہٰذا دونوں کا نتیجہ اور انجام ایک جیسا نہیں ہوسکتا ۔ 
اس تناظر میں ہم اپنا بھی جائزہ لیں کہ کیا واقعی ہمیں ایمان بالقلب کی دولت نصیب ہے ، کیا ہم بھی ایک مومن کی طرح صبر و شکر کے عادی ہیں ، ہوس اور حرام سے بچنے کا اہتمام لازم سمجھتے ہیں ؟اللہ کے فیصلوں پر راضی رہتے ہیں ؟کیا ہم کوشش کررہے ہیں کہ ہماری زبان پاک ہو ،فکر اور کردار پاک ہو ، باطن پاک ہو ، نیت اور اعمال پاک ہوں ؟اگر میری ذات پاک ہوگی تو دوسروں کے لیے نفع کا باعث بنے گی، نقصان یا ظلم کا باعث نہیں بنے گی۔ان سب باتوں پر ہمیں غور کرنا چاہیے ۔زیر مطالعہ آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
{وَلَنَجْزِیَنَّہُمْ اَجْرَہُمْ بِاَحْسَنِ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(97)}’’اور (آخرت میں) ہم انہیں ضرور دیں گے ان کے اجر‘ اُن کے بہترین اعمال کے مطابق۔‘‘ 
یہاں بھی تاکید کے ساتھ بتایا جارہا ہے کہ ہم ضرور ان کے بہترین اعمال کے مطابق ان کو بدلہ دیں گے ۔ اس دنیا میں ہمارے لیے جنت کا معاملہ اجنبی ہے ، ہم اس کا تصور نہیں کرسکتے ۔ لہٰذا اللہ تاکید کے ساتھ ہمیں متوجہ کر     رہا ہے۔یہ دنیا بہرحال عارضی ہے ۔ ایمان والوں کو     اللہ تعالیٰ دنیا میں قناعت ، صبر اور شکر والی پاکیزہ زندگی عطا کرے گا لیکن دنیا فانی ہے ، اصل اور دائمی پاکیزہ زندگی مومنین کو آخرت میں نصیب ہوگی ۔ اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ ان کے بہترین اعمال کے مطابق ان کے تمام نیک اعمال کا بدلہ دیا جائے گا ۔ یعنی ان کے اعمال تو بہت ہوں گے ۔ البتہ اعمال کی کیفیت ایک جیسی نہیں ہوتی ۔ مثال کے طور پر بندہ کبھی خشوع و خضوع کے ساتھ نماز پڑتا ہے اور شوق سے تہجد بھی پڑھتا ہے لیکن کبھی دو رکعت فرض بھی بھاری محسوس ہوتے ہیں۔البتہ جو بہترین معیار کے اعمال ہوں گے ان کا اجر بھی اتنا ہی زیادہ ہوگا ۔ اللہ فرمار ہا ہے کہ مومن کے تمام اعمال کا اُتنا ہی اجر دیا جائے گا جتنا ان کے بہترین اعمال کا اجر ہوگا ۔ یہ اللہ کی شان کریمی اور رحمت کا بیان ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں اس رحمت کا مستحق بننے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین !
حالات حاضرہ
غزہ میں عارضی طور پر جو جنگ بندی کا معاملہ ہوا ہے ، اس میں اللہ تعالیٰ خیر عطا فرمائے ، ہم پہلے بھی دعا کرتے تھے اور اب بھی کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فلسطین کے مسلمانوں کو ہر طرح کے شرور سے بچا کر رکھے اور حماس کی قیادت کو مزید بہتر اور صحیح فیصلوں کی توفیق عطا فرمائے ۔ گزشتہ دو سال میں غزہ پر مسلسل اسرائیل مظالم کے دوران ہم نے کئی بار ملک گیر سطح پر مہمات بھی چلائیں جن میں قوم سے بھی اور حکمرانوں سے بھی اپیل کی گئی کہ اہلِ غزہ کے لیے دعا بھی کریں ، ان کی مالی مدد بھی کریں ، اور عملی طور پر حکمران جو کچھ کر سکتے ہیں وہ ضرور کریں تاکہ روزِ محشر ہم معذرت پیش کرسکیں ۔ جن جن لوگوں نے بھی فلسطین کے مسلمانوں کے لیے کوئی کردار ادا کیا اللہ تعالیٰ انہیں اس کا بہترین اجر عطا فرمائے ۔ معلوم نہیں آگے کیا ہونا ہے ۔ تاہم فوری طور رپر جو سب سے بڑا مسئلہ اس وقت اہلِ غزہ کو درپیش ہے وہ ان کا بے گھر اور بے سہارا ہونا ہے ۔ ان کے گھر ملیا میٹ ہو چکے ہیں ، مارکیٹیں ، سکول ، ہسپتال ،سب کچھ تباہ ہو چکاہے ۔ اب ان کے پاس کچھ بھی باقی نہیں بچا ۔ ایسی صورتحال میں پوری اُمت مسلمہ کا فرض ہے کہ ان کی بھر پور مالی مدد کی جائے تاکہ وہ دوبارہ آباد ہو کر زندگی بسر کرنے کے قابل ہو جائیں ۔ اُمت کو یہ بہت بڑا مرحلہ اور کٹھن مرحلہ درپیش ہے ۔ تنظیم اسلامی کی جانب سے کچھ اداروں کا ذکر کیا جاتا رہا ہے کہ ان کے پا س مالی امداد جمع کروائی جا سکتی ہے ۔ رفقائے تنظیم کو معلوم ہے لیکن احباب بھی ہم سے رابطہ کرسکتے ہیں۔ باقی جہاںجس کا اعتبار ہو وہاں وہ اہلِ غزہ کے لیے مالی امداد جمع کر وا سکتا ہے ۔ اہلِ غزہ نے اپنے حصّے کا کام بخوبی سرانجام دیا ، اب اُمت کے ہر فرد کو اپنے حصّے کا کام کرنا ہے ۔ اللہ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔ 
دوسری طرف ملک میں جو سیلابی صورتحال پیدا ہوئی تھی، اس کے بعد بھی بہت سے لوگ بے گھر ہو گئے تھے اور بعض ابھی تک گھروں کو نہیں جا سکے ۔ معلوم نہیں کتنے گھر تباہ ہو چکے ہیں اور کتنا نقصان ہو چکا ہے ۔ان سیلاب زدگان کی بحالی معاملہ بھی پاکستانی قوم کے لیے ایک بڑا امتحان ہے ۔ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے اور روزِمحشر حقوق العباد کے بارے میں پوچھا جائے گا ۔ جہاں تک ہو سکے ان کی بھی مدد کی جائے ۔ 
ہمارے وزیراعظم امریکہ کے دور پر گئے اور ٹرمپ کے ساتھ اسٹیج پرکھڑے ہو کرٹرمپ کی تعریف میں قصیدے پڑھے گئے ۔ امریکہ کی دوستی کی وجہ سے ہم نے پہلے جو نقصان اُٹھایا ، اس سے ہم نے کوئی سبق نہیں سیکھا اور دوبارہ اس کے جال میں پھنس رہے ہیں ۔ ٹرمپ کو پاکستان کی جانب سے نوبل انعام کے لیے بھی نامزد کیا گیا حالانکہ غزہ کی تباہی کے پیچھے اصل کردار امریکہ اور ٹرمپ کا ہے ۔ اُس نے اسرائیل کی پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر کہاکہ ہم نے نیتن یا ہو کواتنے ہتھیار دیئے جتنے اس نے ہم سے مانگے اور مجھے بھی معلوم نہیں تھا کہ امریکہ کے پاس اتنے ہتھیار ہیں ۔ بدقسمتی سے پاکستانی میڈیا نے اسرائیلی پارلیمنٹ کی کارروائی کو لائیو دکھایا ۔ یہ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی پالیسی کے سراسر خلاف ہے ۔  آخر بعض لوگوں نے پیمرا کو اپنی شکایتیں درج کرائیں۔ ہم پاکستانی قوم سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ پاکستان کے حکمرانوں کو توجہ دلائیں اور پیمرا کو بھی متوجہ کریں کہ یہ پاکستان کی پالیسی نہیں ہے ۔ آخر ہماری غیرت کہاں چلی گئی ہے ۔ 
پاک افغان تعلقات کا معاملہ بھی گمبھیر ہو چکا ہے۔ سوشل میڈیا پر تو معاملہ بہت بگڑ چکا ہے ۔ تاہم ہمیں اصولی بات کرنی ہے ۔ دونوں برادرمسلم ممالک ہیں اور ہمسایہ بھی ہیں۔ اگر کچھ ناراضگیاں ہیں تومل بیٹھ کر مذاکرات کے ذریعے حل تلاش کرنا چاہیے ۔ اگر کوئی غلط فہمی ہے تو دور کرنی چاہیے۔ مسلمان مسلمان کا خون بہائے تو یہ اُمت کے لحاظ سے بھی اور آخرت کی جوابدہی کے لحاظ سے بھی قطعاً اچھا نہیں ہے ۔ ہماری آپس کی لڑائی ہمارے دشمنوں کو ہم پر غالب کرنے کا باعث بنے گی ۔ مسلمان تو بہت دور اندیش ہوتاہے اور اس کی فکر و نظر بہت وسیع ہوتی ہے ۔ احادیث میں ذکر ہے کہ خراسان سے اسلامی لشکر جائے گا جوحضرت مہدیؒ اور حضرت عیسیٰ ؈ کے ساتھ مل کر دجال کے لشکر کے خلاف جنگ کرے گا، جس     کے بعد پوری دنیا پر اسلام کا غلبہ ہوگا ۔ خراسان یہی خطہ ہے جہاں افغانستان ، شمالی ایران اور شمالی پاکستان ہیں ۔ اسلام دشمن قوتیں کبھی برداشت نہیں کریں گی کہ اس خطہ کے مسلمان متحد اور منظم ہو کر طاقت حاصل کریں ۔ اس لیے ہمیں ان سازشوں کو سمجھنا چاہیے ۔ ہماری خواہش ہے کہ دونوں طرف کے ذمہ دار لوگ مل بیٹھ کر کشیدگی کو ختم کریں اور دشمنوں کی چالوں کو اُن پر ہی پلٹ دیں ۔ پاکستان اور افغانستان اگر مل کر دشمنوں کے خلاف جہاد کا آغاز کریں تو اس خطہ میں امن اور استحکام پیدا ہوگا اور اس کے نتیجہ میں مستقبل کی تیاری آسان ہو جائے گی اور ہم وہ کردار ادا کرنے کے قابل ہو سکیں گے جس کا ذکر احادیث رسول ﷺ میں موجود ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح فیصلوں کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین !