اداریہ
رضاء الحق
یہ لاتوں کے بھوت!
یہ بات ہم کئی مرتبہ صفحہ قرطاس پر لا چکے ہیں کہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے۔ ایسوں کی سرشت میں کمینگی اور دجل شامل ہوتے ہیں۔ آپ ایڑی چوٹی کا زور لگا لیں، اِن کی یہ سرشت بدلے نہیں بدلتی۔ حق اور انصاف کا ساتھ دینے کے سینکڑوں وعدے کریں گے۔ دیگر افراد یا ریاستوں کو اپنے وعدوں کا ضامن بنائیں گے اور قسمیں کھا کھا کر یقین دلائیں گے کہ اب کے بعد نہیں ہوگا۔ مگر جیسے ہی موقع ملتا ہے سب وعدے اور دعوے پاؤں تلے روند ڈالتے ہیں۔ اگر موقع نہ بن رہا ہو تو خود اپنی شیطنت سے موقع گھڑ لیتے ہیں۔
یہی حال ناجائز صہیونی ریاست اسرائیل کا ہے۔ 10 اکتوبر 2025ء کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مصّر کے شہر شرم الشیخ میں سینہ تان کر اعلان کیا کہ’’ اُس کی برکت‘‘ سے اسرائیل اور حماس کے مابین جنگ بندی (ceasefire) کا پہلا مرحلہ طے پا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اِس معاملے میں جنگ بندی کے الفاظ کا استعمال ہی نامناسب ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ معاہدے کا یہ مرحلہ اصولی طور پر ناجائز صہیونی ریاست اسرائیل کو غزہ کے مسلمانوں کی نسل کُشی (Genocide) کو روکنے سے متعلق ہے تو بات کچھ درست بنتی ہے۔ بہرحال ہم قارئین کو الفاظ کے ہیر پھیر میں اُلجھانے کی بجائے جنگ بندی کا لفظ ہی استعمال کر لیتے ہیں۔جنگ بندی کے اس پہلے مرحلے کی اہم شقیں یہ تھیں کہ حماس باقی ماندہ دو درجن کے قریب اسرائیلی جنگی قیدی جو 7اکتوبر 2023ء کو آپریشن ’’طوفان الاقصیٰ‘‘ کے نتیجے میں گرفتار کیے گئے تھے کو رہا کر دے گا، جس کے بدلے میں اسرائیل ہزاروں فلسطینی قیدیوں، جن کے جرائم فلسطین و غزہ کی آزادی کی جدوجہد، مسجد اقصیٰ کی حرمت کی حفاظت کرنا اور ناجائز صہیونی آبادکاروں کو دیس نکالا دینے کی بات کرنا تھے، میں سے 2ہزار کو اسرائیلی عقوبت خانوں سے رہا کر دے گا۔ اسرائیل اپنی فوجیں کچھ پیچھے ہٹا لے گا اور غزہ کے بھوک و افلاس سے تڑپتے عوام تک بین الاقوامی امداد پہنچنے میں رکاوٹ نہیں ڈالے گا۔ جب تک جنگ بندی کا پہلا مرحلہ نافِذ العمل رہے گا، اسرائیل غزہ میں مزید کسی کو قتل (شہید) نہیں کرے گا اور باقی معاملات جنگ بندی کے اگلے مرحلے میں طے ہوں گے۔ اس معاہدہ پر سب ہی کے تو دستخط موجود تھے… حماس، اسرائیل، امریکہ جبکہ تین مسلم ممالک ترکیہ، مصر اور قطر نے ضامن کے طور پر دستخط کیے کہ فریقین معاہدے کی خلاف ورزی نہ کریں۔لیکن…
ـخوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا
قارئین کے ہاتھوں میں جب یہ تحریر ہوگی تو اس نام نہاد معاہدے کے پہلے مرحلہ کو دو ہفتے سے کچھ زائد وقت گزر چکا ہوگا اور معاہدے پر دستخط کرنے سے لے کر اِس تحریر کے رقم ہونے تک ناجائز دجالی ریاست اسرائیل نے غزہ کے مسلمانوں کو گولیاں برسا کر شہید کرنا ابھی تک بند نہیں کیا۔’’الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ‘‘ کی تشریح کوئی اپنے سر کی آنکھوں سے دیکھنا چاہے تو دیکھ لے! اسرائیل نے معاہدے کے پہلے مرحلے میں اپنے کیے ہوئے تمام وعدوں کو پامال کر کے رکھ دیا ہے۔ غزہ کے افلاس سے تڑپتے شہریوں کے خلاف معاہدہ کے باوجود اب بھی بھوک کو نسل کُشی کے ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔ معاہدے میں کیے گئے وعدے سے بہت کم امداد غزہ جانے کی اجازت دے رہا ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ اسرائیلی پارلیمنٹ (کنیسٹ) نے مغربی کنارے (غرب اُردن) کو بھی اسرائیل میں ضم کرنے کے دو بل منظور کر لیے ہیں۔ جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل پورے ارضِ مقدس پر قبضہ کرکے مسلمانوں کو فلسطین سے بے دخل کرنے پر تُلا ہوا ہے۔ کیا یہ سب جنگی جرائم نہیں؟ انسانیت کے خلاف جرائم نہیں؟
رہے ’’ثالث‘‘ ڈونلڈ ٹرمپ اور ’’ضامن‘‘ ترکیہ، مصر اور قطر ،تو معاہدہ کی اس سنگین ترین خلاف ورزیاں کرنے پر کسی نے اسرائیل کے سامنے چوں تک نہیں کی۔
حِمیّت نام ہے جس کا، گئی تیمور کے گھر سے
ہمیں اطمینان اس بات پر ہے کہ حماس نے ہتھیار ڈالنے والی شق، جو ٹرمپ کے ابتدائی 20 نکاتی ’’امن فارمولے‘‘ میں موجود تھی، اس کو نہیں مانا۔ احادیث مبارکہ کے مطابق اس بابرکت سرزمین میں کفار کے خلاف قیامت تک جہاد جاری رہے گا۔سیدنا انس ؓ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ ﷺنے فرمایا:’’تین (خصلتیں) ایمان کی اصل بنیاد ہیں، (لا الٰہ الا اللہ) ’’اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔‘‘ کا اقرار کرنے والے شخص کے درپے ہونے سے رک جانا، کسی گناہ یا کسی اور خلاف شرع عمل کی وجہ سے کسی کو اسلام سے خارج مت کرو، جہاد جاری ہے، جب سے اللہ نے مجھے مبعوث فرمایا ہے، اور یہ اس وقت تک جاری رہے گا جب اِس اُمّت کا آخری شخص دجال سے قتال کرے گا، کسی ظالم کا ظلم اسے روک سکے گا نہ کسی عادل کا عدل، اور تقدیر پر ایمان رکھنا۔‘‘ اس حدیث کو ابوداؤد نے روایت کیا ہے۔ (مشكوة المصابيح/كتاب الإيمان/حدیث: 59)
مملکت ِخداداد کی بات کریں تو سویلین وزیراعظم ٹرمپ کو ’’ امن کا اصل داعی‘‘ اور’’ نوبل انعام برائے امن کا حقیقی حقدار‘‘ قرار دے چکے ہیں۔ جبکہ عسکری قیادت کے بارے میں ٹرمپ جملے کا آغاز ہی یوں کرتا ہے، ’’میرا پسندیدہ فیلڈ مارشل!‘‘ بقول شاعر:
پستی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے
ناجائز صہیونی ریاست اسرائیل کی پارلیمان(کنیسٹ) میں ٹرمپ نے خطاب کے دوران، جسے انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ تمام پاکستانی ٹی وی چینلز پر براہِ راست دکھایا گیا،جنگی مجرم نیتن یاہوکو کامیاب ترین لیڈر قرار دیا ، جس نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ ہر امریکی صدر درحقیقت اسرائیل کا بغل بچہ ہوتا ہے۔ آج بھی ٹرمپ کے مکمل اور اصل ’’امن منصوبے‘‘ میں فلسطینیوں کے لیے اسرائیلی غلامی کے سوا کچھ نہیں، بلکہ بین السطور اسرائیل کو باقاعدہ مشرقِ وسطیٰ کا تھانیدار بنانے اور گریٹر اسرائیل کے منصوبے کو تیزی سے آگے بڑھانے کی توثیق کی گئی ہے ۔ ٹرمپ اور نیتن یاہو کی شدید خواہش ہے کہ تمام عرب اور غیرعرب مسلم ممالک جلد از جلد اسرائیل کو تسلیم کر کے اُس سے سفارتی، سیاسی اور تجارتی تعلقات قائم کر لیں تاکہ (خاکم بدہن) قضیہ فلسطین اور مسجدِ اقصیٰ کی حرمت کا معاملہ ہی ختم ہو جائے۔
یہی ابراہم اکارڈز کی نئی صورت ہے
مسلم ممالک جان لیں کہ اسرائیل اُس بچھو کی مانندہے جس کی فطرت میںاسلام ، مسلمانوں اور مسلمان ممالک کو ڈسنا ہے۔ لہٰذا مسلم ممالک اسرائیل اور اُس کے معاونین کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کی بجائے اِس ناجائز صہیونی ریاست کے خاتمہ کے لیے متحد ہوں۔ کیونکہ… لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے!