(نقطۂ نظر) پاک افغان تنازعہ، حقیقت کیا ہے؟ - ابو موسیٰ

11 /

پاک افغان تنازعہ، حقیقت کیا ہے؟

ابو موسیٰ

گزشتہ چند ماہ میں پاکستان اور افغانستان کے تعلقات بدترین سطح پر پہنچ گئے ہیں۔ ایک طرف پاکستان افغانستان پر الزام لگا رہا تھا کہ T.T.P اور بعض دوسرے دہشت گرد گروہ افغانستان سے پاکستان داخل ہو کر دہشت گردی کا ارتکاب کرتے ہیں جس سے پاکستان کے بہت سے سرکاری اہلکار اور شہری شہید ہو جاتے ہیں اور دوسری طرف پاکستان نے معاملات کو حل کرنے کے لیے کسی قسم کے مذاکرات کرنے کی بجائے کابل پر فضائی حملہ کر دیا اور دہشت گردوں کے سربراہ کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا۔ اِس سے دونوں ممالک میں جنگ کی کیفیت پیدا ہوگئی۔ افغانستان نے بھی پاکستان کی سرحد کے اندر زمینی حملہ کرکے ہلاکتوں کا دعویٰ کیا۔ عالمی امن کے ٹھیکیدار امریکہ کے صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ اِس جنگ کو تو بند کروانا میرے لیے بہت آسان ہے۔ بہرحال چین اور کچھ اسلامی ممالک درمیان میں آئے۔ پہلے اڑتالیس گھنٹوں کا سیز فائر اور قطر میں مذاکرات کا پہلا راؤنڈ ہوا اب ترکی میں دوسرا راؤنڈ ہورہاہے۔
پاکستان کے وزیر دفاع نے اِن مذاکرات کے دوران اعلان کیا ہے کہ اگر ہمارے مفادات کے مطابق مذاکرات نتیجہ خیز نہ ہوئے تو افغانستان سے ہماری کھلی جنگ ہوگی۔ افغانستان ایک land locked ملک ہے اور جنگ میں اہم ترین اور فیصلہ کن ہتھیار یعنی فضائیہ سرے سے اُس کے پاس ہے ہی نہیں، لہٰذا یہ ایک یکطرفہ جنگ ہی ہوگی۔ اِس لیے پاکستان کے وزیردفاع کا یہ حکم سمجھنا چاہیے کہ معاملات کو ہمارے مفادات میں طے کرو ورنہ … ملک میں اِس وقت بحث چھڑی ہوئی ہے کہ پاکستان اور افغانستان کا یہ تنازعہ دونوں میں سے کس ملک کی زیادتیوں اور غلطیوں سے پیدا ہوا ہے۔ حکومتی ذرائع اور اُن کے ہم خیال لوگوں کو سراسر افغانستان نہ صرف غلطی پر نظر آتا ہے بلکہ وہ افغانیوں کو ایک احسان فراموش اور دہشت گردی کو سپورٹ کرنے والی قوم قرار دیتے ہیں، لہٰذا اُنہیں سبق سکھانے کی باتیں کر رہے ہیں۔ جبکہ ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف اِس تنازعہ اور دہشت گردی کو ماضی سے اب تک اپنی ریاست کی غلط پالیسوں اور خواہ مخواہ کے آپریشنوں کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ وہ شدت سے مذاکرات کے قائل ہیں۔ اُن کا دعویٰ ہے کہ اُن کے دور میں درست پالیسی کی وجہ سے دہشت گردی میں کمی آئی تھی، لیکن پھر سخت اور جنگجو ا نہ پالیسی کی وجہ سے دہشت گردی نہ صرف دوبارہ شروع ہوگئی ہے بلکہ بہت بڑھ گئی ہے۔ گویا وہ ریاست ِ پاکستان پر تنازعہ بڑھانے کا الزام دیتے ہیں۔
راقم کی رائے میں اگر تاریخ کا مطالعہ کیا جائے اور غیر جانبدار ہو کر حالات کا تجزیہ کیا جائے تو دونوں طرف کی غلطی سامنے آئے گی۔ پاکستان کا معاملہ یہ ہے کہ چند سال پہلے تک ریٹائرڈ جرنیل بڑے بڑے جرنلسٹ اور آج کے وہ حکمران جو پہلے اپوزیشن میں تھے، وہ عوامی جلسوں میں بآواز بلند کہتے رہے ہیں کہ یہ دہشت گردی ہمارے اپنوں کی کرتوتوں کا نتیجہ ہے۔ کسی کا نام یا نعرے لکھنے کی ضرورت نہیں ہے ڈالر ڈالر کی آوازیں بھی زیادہ پرانی بات نہیں ہے۔ محاورے کے طور پر کہا جاسکتا ہے کہ یہ کل کی بات ہے اور آج کی اپوزیشن میرصادق اور میر جعفر کے طعنے بڑی فصاحت اور بلاغت سے دیتی تھی۔ راقم کی مراد ہے کہ ہماری ایلیٹ خاص طور پر سیاست دانوں نے دہشت گردی کو کبھی اُس طرح سنجیدہ نہیں لیا جیسے لیا جانا چاہیے تھا۔ وہ اپنے اپنے سیاسی مفادات کا کھیل کھیلتے رہے۔ اسٹیبلشمنٹ کبھی بہت بُری اور کبھی بہت اچھی۔
تازہ ترین صورتِ حال یہ ہے کہ دہشت گردی کا سارا ملبہ افغانستان پر ڈال دو، لیکن اِس کا ہرگز ہرگز یہ مطلب نہیںکہ افغانستان اِس حوالے سے بالکل بے قصور ہے۔ مجموعی صورتِ حال کا جائزہ لیا جائے اور پاکستان کی تاریخ کو بالکل آغاز سے کھنگالہ جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ غلطی دونوں اطراف سے ہے، البتہ دیانت داری کا تقاضا ہے کہ تسلیم کیا جائے پاکستان نے غلطیوں اور زیادتیوں کے انبار لگائے۔ افغانستان نے بھی غلطیاں کیں لیکن افغانستان کبھی اِس قابل ہی نہ تھا کہ بڑی زیادتیوں کا ارتکاب کر سکتا ہے۔
آئیے آغاز سے جائزہ لیں کہ دونوں اطراف سے کیا اغلاط اور زیادتیاں ہوئیں اور دونوں اِس کے کیا جواز پیش کرتے ہیں؟ 1947ء میں پاکستان قائم ہوا تو افغانستان دنیا کا واحد ملک تھا جس نے اقوامِ متحدہ میں اُس کی انٹری کی مخالفت کی۔ گویا افغانستان نے زیادتی کا آغاز کیا جب ہندوستان جیسے ملک نے مخالفت نہیں کی تھی جو تقسیمِ ہند کے خلاف تھا تو افغانستان نے یہ بدنامی اپنے سرکیوں لی۔
حقیقت یہ ہے کہ افغانستان کو سپر پاورز کا قبرستان کہا جاتا ہے یقیناً یہ درست بات ہے اور تاریخ کا فیصلہ اِسی طرح نظر آتا ہے ایک عرصہ پہلے وہ برطانیہ جو اپنے وقت کی سپریم پاور تھی اُسے وہاں دفن کر چکا تھا۔ بعدازاں اُس نے سوویت یونین اور امریکہ کو ذلیل و خوار کرکے اپنے ملک سے نکالا۔ اگرچہ پاکستان کا اِس میں اہم رول رہا جس کا ذکر آگے آئے گا۔ راقم کو افغانستان سے اور افغان طالبان کی حکومت سے جو اختلاف پیدا ہوا، وہ اُن کے وزیر خارجہ ملّا امیر متقی کے حالیہ بھارت کے دورے پر ہوا۔ افغانستان ایک خود مختار آزاد ملک ہے، اُس کے لیڈر جہاں چاہیں جس کسی ملک کا بھی دورہ کریں، یہ اُن کا حق ہے۔ لیکن راقم کو اُن کے دورے کے دوران اختلاف بعض واقعات اور افغان طالبان کے اِس لیڈر کے افعال اور طور طریقے سے ہوا۔ (1) وہاں ایک پریس کانفرنس کا انعقاد ہوا جس میں ایک خاتون صحافی بھی تھی حضرت نے خاتون کی موجودگی پر اعتراض کیا۔ دہلی انتظامیہ نے اُس خاتون کو نکال دیا۔ اِس پر وہاں کی اپوزیشن نے طوفان اٹھا دیا۔ اگلی پریس کانفرنس میں انتظامیہ نے کئی خواتین عین سامنے بٹھا دیں حضرت نے خاموشی اختیار کر لی۔ اعتراض یہ ہے کہ یا تو پہلے بھی اعتراض نہ کرتے اور اگر کیا تھے تو اُس پر بعدازاں بھی قائم رہتے۔ (2) ایک سیمینار سے خطاب کرنے تشریف لے گئے وہاں سٹیج پر جو فلیکس لگا ہوا تھا اُس پر بامیان کے بُت بنے ہوئے تھے، جس کو ملّا عمر نے پاش پاش کرکے ساری دنیا کی مخالفت مول لی تھی۔ (3) BJP مسلمان دشمنی میں اپنا ثانی نہیں رکھتی۔ راقم یہ مطالبہ نہیں کرتا کہ افغان طالبان کا نمائندہ اُن کے ملک جا کر اِس پر کھلم کھلا تنقید کرتا لیکن یہ تو کہا جا سکتا تھا کہ ہم افغانستان میں اقلیتوں سے اچھا سلوک کرتے ہیں۔ لہٰذا ہم یہ توقع کرتے ہیں کہ بھارت سمیت تمام دنیا اپنی اقلیتوں سے اچھا سلوک کرے۔ (4) افغانستان پاکستان کی وجہ سے ہرگز بھارت سے تعلقات خراب نہ کرے لیکن اللہ کے شیدائی اور اسلامی نظام کے داعی کی حیثیت سے قرآنِ پاک کے اِس حکم کے بارے میں اپنے رویے کی وضاحت کریں کہ اللہ مشرکوں سے تعلق رکھنے کے حوالے سے کیا حکم دیتا ہے۔ (5) اللہ کے رسول ﷺ نے دشمن کی لاشوں کی بے حرمتی کے حوالے سے کیا حکم دیا ہے کیا افغان طالبان کا اسلام پاکستان کے مسلمان فوجیوں کی لاشوں کا مثلہ کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ بہرحال افغان طالبان کی حکومت جس کے بارے میں راقم کی رائے یہ ہے کہ دنیا بھر میں اُن کی واحد حکومت ہے جو اسلامی نظام کے قریب ہے۔ اُس ملک کے وزیر خارجہ کا ایک ہفتہ ایسے ملک میں قیام کرنا جو اسلام دشمنی میں دنیا بھر میں سرفہرست ہے، بذاتِ خود ایک اچھا منظر پیش نہیں کرتا جس پر راقم اظہارِ افسوس کے سوا کیا کر سکتا ہے۔
اب آجائیے پاکستان کی طرف سے ہونے والی غلطیوں اور زیادتیوں کی بھاری بھر کم فہرست کی طرف۔ علاوہ ازیں اِس دعویٰ کی طرف کہ پاکستان نے افغانیوں پر بڑے احسان کیے اور وہ بڑے احسان فراموش ہیں۔ احسانات کے حوالے سے خاص طور پر لاکھوں مہاجر افغانیوں کو پناہ دینے اور اُنہیں خوراک مہیا کرنے کا بہت ذکر کیا جاتا ہے اور یہ غلط بھی نہیں پاکستان نے ایک عرصہ تک اِن پناہ گزینوں کا بوجھ اٹھائے رکھا اور یہ یقیناً کوئی ایسی بات نہیں جسے معمولی کہا جائے یا اُس سے صرفِ نظر کیا جائے۔ لیکن دوسری طرف احسان کا کوہِ ہمالیہ ہے جو افغانیوں نے ہم پر کیا تھا۔ اُسے فراموش کرنا انتہائی بداخلاقی کا مظاہرہ ہوگا۔ وہ احسان کیا تھا؟ اُسے سمجھنے کے لیے ماضی میں جانا پڑے گا اور تاریخ کا گہرائی اور باریک بینی سے مطالعہ کرنا ہوگا۔
پاکستان کا قیام یقینی طور پر اصلاً تو مسلمانانِ برصغیر کی جانی اور مالی قربانیوں کا نتیجہ تھا۔ لیکن قدرت نے کچھ اُس کے لیے ماحول بھی بنایا تھا اور عالمی سطح پر حالات بھی سازگار کیے تھے۔ دوسری جنگِ عظیم کے نتیجہ میں دو عالمی قوتیں سامنے آئیں امریکہ اور سوویت یونین یہ دونوں قوتیں سیاسی اور معاشی حوالے سے متضاد و نظام ہائے زندگی کی علمبردار تھیں۔ برصغیر میں جب آزادی کی تحریک چل رہی تھی تو ہندو جماعت کانگرس اور برطانیہ میں اُس وقت کی لیبر پارٹی کی حکومت پاکستان کے قیام کی شدید مخالفت کر رہی تھیں۔ جبکہ امریکہ جو اُبھرتی ہوتی سپر پاور تھی، اُس کے لیے اہم ترین معاملہ سوویت یونین کو آگے بڑھنے سے روکنا تھا۔ یہاں رک کر یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ ہندوستان کی ہندو آبادی میں کیمونزم تیزی سے پھیل رہا تھا۔ کانگرس کے بعض لیڈر برطانیہ کو خوف زدہ کرنے کے لیے بھی اپنا رحجان سچا یا جھوٹا کیمونزم کی طرف ظاہر کر رہے تھے۔ اِس پر امریکہ کو تشویش تھی۔ لہٰذا 1946ء میں امریکہ کے ایک اعلیٰ سطح حکومتی وفد نے ہندوستان کا دورہ کیا اور اُن کے قائداعظم سے بھی طویل مذاکرات ہوئے۔ وفد کی واپسی پر قائداعظم نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان خطے میں امریکہ کے مفادات کا تحفظ کرے گا۔
دوسری طرف اگرچہ سوویت یونین کی طرف سے سرکاری طور پر تو کسی نے مسلم لیگ کے رہنماؤں سے ملاقات تو نہیں کی لیکن سوویت یونین کے حق میں بھی اگرچہ بڑی کم تر سطح پر لیکن لابنگ ہوتی رہی۔ خاص طور پر اُس وقت کے بعض مسلمان ادیب اور شاعر اُس سے متاثر نظر آئے۔ اُسی زمانے میں ایک ناکام فوجی بغاوت (coup) تاریخ کا حصہ ہے۔ وہ بغاوت بھی اُن لوگوں سے متاثر تھی جو ’’ایشیا سرخ ہے‘‘ کا نعرہ زوردار طریقے سے لگا رہے تھے۔ اب اِس بات کو جاننے کی کوشش کریں کہ جس شے کو خان عبدالولیٰ خان اور اُن کے ہمنوا بڑا اچھالنے کی کوشش کرتے رہے اور جس پر اُنہوں نے قائداعظم کو انگریز کا ایجنٹ قرار دینے سے بھی دریغ نہ کیا، وہ درحقیقت تھی کیا؟ امریکہ چاہتا تھا کہ کیمونسٹ اور لادین سوویت یونین اور وہ بھارت جہاں کیمونزم کے جراثیم موجود تھے، اُن کے درمیان ایک مذہبی ریاست وجود میں آجائے تاکہ سوویت یونین اور اُس کے معاشی و سیاسی نظام کے راستے کو روکا جاسکے۔ افغانستان کو سوویت یونین گھڑے کی مچھلی سمجھتا تھا اور امریکہ کو افغانستان سے کوئی توقعات نہیں تھی۔ تاریخی شہادتیں موجود ہیں کہ برطانیہ پر امریکہ نے دباؤ ڈالنا شروع کر دیا کہ وہ تقسیم ہند کے راستے میں حائل نہ ہو۔
جنگ عظیم دوئم میں فتح کے باوجود برطانیہ بُری طرح زخمی تھا اور امریکہ کے سامنے بے بس نظر آتا تھا۔ لہٰذا پاکستان کے قیام کے مخالف ہونے کے باوجود برطانوی حکومت عملی طور پر کچھ کرنے کی پوزیشن میں نہ تھی۔ آگے بڑھنے سے پہلے یہ وضاحت لازم ہے کہ راقم عبدالولی خان کے نقطۂ نظر کا حامی ہرگز نہیں۔ سادہ سی بات ہے کہ کوئی فرد، گروہ یا ریاست کسی بھی وجہ سے آپ کے مشن میں مددگار ثابت ہو رہی ہے تو وہ مدد آپ کیوں نہ لیں۔ بلکہ یہ کہنا مناسب ہوگا کہ ایسی مدد نہ لینا اپنے مشن سے غداری کے مترادف ہوگا۔
قصۂ کوتاہ برصغیر کی تقسیم اور بھارت سوویت یونین کے بیچ ایک مذہبی ریاست کا قیام در حقیقت الحاد کی بنیاد پر کھڑی ایک سپر پاور کے منہ پر زناٹے دار تھپڑ تھا، جس پر سوویت یونین تلملا اُٹھا۔ سوویت یونین اور امریکہ میں جو برتری کی دوڑ چل رہی تھی، اُس میں معاشی طور پر امریکہ اور ایٹمی اور خلائی دوڑ میں اُس وقت سوویت یونین قدرے آگے نظر آتا ہے۔ افسوس قائداعظم کے بعد ہمارے سیاسی اور فوجی حکمرانوں نے امریکہ سے دوستی سے آگے بڑھ کر سرنگوں ہونے کا رویہ اختیار کر لیا جس سے بھارت کا رحجان سوویت یونین کی طرف بہت زیادہ ہوگا۔ دوسری طرف عسکری برتری کے زعم میں مبتلا سوویت یونین اِس خطے سے امریکہ کو نکال باہر پھینکنا چاہتا تھا۔
کیا افغانستان پر اپنے احسان جتانے والے معزز پاکستان کے شرفاء اِس سوال کا جواب دیں گے کہ افغانستان کے بادشاہ ظاہر شاہ سے لے کر سوویت یونین کے افغانستان میں داخل ہونے تک کیا تمام حکمران سوویت یونین کے تابع نہیں تھے۔ یہ تاریخی حقیقت ہے پھر سوویت یونین نے اپنی افواج افغانستان میں داخل کرنے کی ضرورت کیوں محسوس کی۔ ایک ایسے land locked ملک میں جہاں غربت ہی غربت تھی؟ بعض عسکری ماہرین کا خیال ہے کہ وہ گرم پانیوں تک پہنچنا چاہتا تھا۔ یہ بات بھی ممکن ہے لیکن اصل بات یہ تھی کہ وہ اپنے اور بھارت کے درمیان ایک نام نہاد ہی سہی مذہبی ریاست ختم کرکے امریکہ کو اِس خطے سے نکالنا چاہتا تھا۔ جس سے سرمایہ دارانہ نظام کے عالمی سطح پر بھی شکست زدہ ہونے کے امکانات پیدا ہو سکتے ہیں۔ اِسی زعم کے تحت وہ افغانستان میں داخل ہوا۔ اُس وقت کی سویت یونین کی عسکری قوت اور پاکستان کی حالت کا اندازہ کریں تو پاکستان شاید پورے ایک دن کی مار بھی نہ تھا۔ لیکن اللہ کا شکر ہے کہ اُس کے اندازے اِس لیے غلط ثابت ہوگئے کیونکہ افغانستان کے مجاہدین نے اُسے افغانستان میں ہی الجھا کر رکھ دیا اور وہ پاکستان کی طرف بڑھ ہی نہ سکا۔ یہاں بھی عوام کو ایک غلط بات بتائی جاتی ہے کہ افغانستان کی جنگ تو پاکستان نے لڑی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ جب سوویت یونین افغانستان میں داخل ہوا تو امریکہ نے برملا کہا تھا کہ افغانستان تو سوویت یونین لے گیا۔ اب ہمیں پاکستان کے بارے میں سوچنے کی ضرورت ہے۔ امریکہ اور پاکستان دونوں اُس وقت حیران ہی نہیں ششدر رہ گئے جب روسی مجاہدین نے مزاحمت شروع کر دی اور افغانستان کی زمین سوویت فوجیوں کے لیے گرم کر دی۔ تب امریکہ کی آشیر باد پر مالی اور اسلحی مدد پاکستان کے توسط سے افغان مجاہدین کو ملی۔ سوویت یونین کو شکست وریخت سے دوچار کرنے میں یقیناً امریکہ اور پاکستان کا ہاتھ ہے، وہ مددگار ضرور بنے لیکن جنگ تو اصلاً مجاہدین ہی نے لڑی۔
تاریخ پر بحث کرنے کا اصل مقصد یہ ہے کہ معلوم ہو کہ احسان کس کا بڑا ہے پاکستان کا جس نے پناہ گزینوں کی مدد کی، اُنہیں سنبھالا اُنہیں خوراک دی یا اُن کا زیادہ تھا جنہوں نے سوویت یونین کے اُن عزائم کو خاک میں ملا دیا جن کے مطابق وہ پاکستان کو روند کر بھارت تک اپنی سرحدیں لے جانے کے خواب دیکھ رہا تھا۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ سویت یونین کے لیے ناممکن تھا لیکن اِسے ناممکن بنانے کے لیے بھی کسی ذریعے یا واسطے کی ضرورت تھی یا نہیں، اِس سے انکار تاریخی اور زمینی حقائق سے انکار ہوگا۔
احسان کے حوالے سےمُسکت جواب کے بعد آگے بڑھتے ہیں اور چھوٹی چھوٹی ایک دوسرے کے خلاف زیادتیوں سے صرفِ نظر کرتے ہیں۔ پاکستان کی جانب سے ایک ایسی حرکت کا ذکر کرتے ہیں کہ اُس نے اپنے برادر ہمسایہ اسلامی ملک سے کتنی بڑی زیادتی یا ظلم کیا۔ کم از کم راقم اردو کی جس قدر لغت جانتا ہے، اُس زیادتی کی مذمت میں الفاظ دستیاب نہیں ہیں۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ نائن الیون کے بعد امریکہ افغانستان پر اپنی پوری قوت اور نیٹو کو ساتھ ملا کر حملہ آور ہوگیا۔ پاکستان میں نواز شریف کی عوامی حکومت کا تختہ الٹ کر پہلے ہی مشرف کو برسراقتدار لایا جا چکا تھا۔ پاکستان امریکہ کا صفِ اوّل کا حلیف بن گیا۔ پاکستان نے اپنے کچھ ایئربیس مکمل طور پر امریکہ کے حوالے کر دیئے۔ یہاں اِس بات کا ذکر کر دینے میں کوئی حرج نہیں کہ اُس وقت ایئر چیف نے سرگودھا کا ایئربیس دینے سے انکار کر دیا جس پر اُسے تین دن قید (حبسِ بے جا) رکھا گیا۔ بعدازاں وہ ایئرچیف ایک حادثہ کے شکار ہوگئے۔ اصل بات یہ ہے کہ پاکستان کے ایئربیس سے افغانستان پر امریکی سرکاری ریکارڈ کے مطابق ستاون (57) ہزار حملے کیے گئے۔ افغانیوں کی پاکستان سے زیادتیاں بیان کرنے والے تصور کریں کہ اگر خدانخواستہ خدانخواستہ کوئی سپر پاور افغانستان کے ایئربیس استعمال کرتے ہوئے پاکستان پر سات (7) ہزار حملے ہی کر دیتی، کیا ہم نے اُسے تاقیامت تک معاف کر دینا تھا اور کرنا چاہیے بھی نہ تھا۔
بتایا جاتا ہے کہ پاکستان دنیا کے اُن تین ممالک میں سے تھا جنہوں نے ملّا عمر کے افغانستان کو تسلیم کیا تھا بالکل درست ہے۔ لیکن یہ بھی تو دنیا کو بتائیں کہ جدید دنیا میں پاکستان واحد ملک ہے جس نے اپنے ملک سے سفارتی تعلقات رکھنے والے ملک کے سفیر ملّا عبدالسلام ضعیف کو سر بازار پیٹا اور امریکہ کے حوالے کر دیا۔ جدید تاریخ میں کم از کم راقم کے علم میں ایسی کوئی مثال نہیں۔ ملّاضعیف نے اِس پر باقاعدہ ایک کتاب لکھی ہے۔ بعض ’’دانشور‘‘ اِس حوالے سے اتنے بے خبر ہیں، وہ کیمرے کے سامنے بیٹھ کر عوام کو بتاتے ہیں کہ افغان طالبان اتنے بے شرم اور بے حیا ہیں کہ ایک مسلمان عورت عافیہ صدیقی کو امریکہ کے حوالے کر دیا۔ راقم کی یاداشت کے مطابق آج تک افغان طالبان نے کسی عورت کو کیا کسی مرد کو بھی امریکہ کے حوالے نہیں کیا۔ یہ کارہائے نمایاں صرف ہم نے انجام دیئے۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ اُس وقت کی بات ہے جب امریکہ نے افغانستان پر قبضہ کر لیا تھا۔ افغان طالبان پہاڑوں میں پناہ لے کر گوریلا جنگ کر رہے تھے۔ اُن دنوں میں جنرل پرویز مشرف نے عافیہ کو کراچی سے اٹھا کر بگرام ایئربیس پہنچایا تھا۔ وہاں سے اُسے امریکہ منتقل کر دیا گیا تھا۔ امریکہ کی خواہش پر ہم نے اپنے قبائلیوں پر بھی بہت بمباری کی، ڈرون حملے کروائے اور کیا کچھ نہ کیا، یہ الگ داستان ہے۔ بہرحال اصل بات یہ ہے کہ بمباریوں سے افغانیوں کو مارا اور کچلا تو جا سکتا ہے، نہ امن قائم ہو سکتا نہ دہشت گردی رک سکے گی۔ اِس کے لیے بڑی حکمت سے مذاکرات کرنا ہوں گے اور ٹارگٹڈ کارروائیاں کرنا ہوں گی۔ تاریخ سے عیاں ہے کہ صرف بندوق سے یہ مسئلہ کبھی حل نہ ہوگا۔ ززز