پاک افغان کشیدگی گریٹ گیم کا حصّہ ہے اور بدقسمتی سے
ہمارا اپنا ہی برادراسلامی ملک اِس گریٹ گیم میں ہمارے
خلاف استعمال ہورہا ہے :آصف حمید
دونوں طرف کے علماء حضرات کشیدگی کو کم کرنے میں اپنا
کردار ادا کریں کیونکہ کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ
اپنے مسلمان بھائی کا ناحق خون بہائے : توصیف احمدخان
’’پاک افغان مذاکرات اور غزہ امن معاہدہ ‘‘
پروگرام ’’ زمانہ گواہ ہے ‘‘ میں معروف تجزیہ نگاروں اور دانشوروں کا اظہار خیال
میز بان : آصف حمید
مرتب : محمد رفیق چودھری
سوال: پاک افغان کشیدگی تشویشناک صورت حال اختیار کر چکی ہے جس سے اُمت ِمسلمہ کو ناقابل تلافی نقصان کا اندیشہ ہے۔ اُس سے قبل ایران عراق جنگ کی وجہ سے بھی اُمت نے بہت نقصان اُٹھایا ۔ وہ عرب ممالک جو صہیونیوں کے ساتھ بیٹھنا پسند نہیں کرتے تھے، اِس جنگ کی وجہ سے امریکہ کے چنگل میں پھنستے چلے گئے اور اب ایک ایک کرکے سب اسرائیل کے آگے جھکتے چلے جارہے ہیں ۔ اسی طرح نائن الیون کے بعد پاکستان کو بھی امریکہ نے افغانستان کے خلاف استعمال کیا ، 57ہزار ڈرون حملے پاکستان سے افغانستان پر کیے ۔ افغانستان سے جاتے ہوئے امریکہ نے TTPکو وی آئی پی طریقہ سے رہا کیا اور اپنا اسلحہ بھی وہاں چھوڑ گیا اور اس کے بعد پاکستان کے ساتھ کشیدگی شروع ہوگئی جو جنگ کی سی صورت حال اختیار کر چکی ہے ۔ ایسا لگ رہا ہے کہ پاکستان کو اس جنگ میں دھکیلا گیا ہے ۔ آپ کیا کہتے ہیں اس بارے میں ؟
توصیف احمد خان:یہ گریٹ گیم کا حصّہ ہے ۔ جس طرح ہمیں کھینچ کر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ڈالا گیا بلکہ اسی طرح اب افغانستان کے خلاف جنگ میںبھی کھینچا جارہا ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اُس وقت پاکستان پر ایک ڈکٹیٹر مسلط تھا اور یہ بدنامی پاکستان کے حصّے میں آئی کہ اس نے امریکہ کا ساتھ دیا ۔ لیکن دوسری طرف دیکھا جائے توپاکستانی قوم نے افغان طالبان کا ساتھ بھی دیا ۔ہم گڈ اور بیڈ طالبان کا موقف بھی اپناتے رہے ۔امریکہ جب افغانستان سے گیا تو اس نے ناکامی کا سارا الزام پاکستان پر لگایا ۔ یعنی کچھ تو پاکستان کا کردار امریکہ کی ناکامی میں تھا ۔ افغان طالبان ایک گوریلا فورس ہے وہ کس طرح اکٹھی ہو کر ایک ہفتے کے اندر اندر افغانستان پر چھا گئی۔ دوسری بات یہ ہے کہ غلطیاں دونوں جانب سے ہوئی ہیں ۔ اگر پاکستان میں ایک ڈکٹیٹر نے امریکہ کا ساتھ دیا ہے تو دوسری افغان طالبان نے بھی TTPکو رہا کیا ہے ۔ 7.7ارب ڈالرز کا اسلحہ امریکہ خود افغانستان میں چھوڑ کر گیا ہے ، اس کو غلط ہاتھوں میں جانے سے روکنا افغان طالبان کا کام تھا ۔ ہمارا مطالبہ یہ تھا کہ آپ TTPکو پاکستان میں دہشت گردی سے روکیں۔ لیکن انہوں نے نہیں روکا ۔
سوال: افغان طالبان کا کہنا ہے کہ اگر ہم TTPکے خلاف کوئی کارروائی کرتے ہیں تو وہ ہمارے خلاف بغاوت کر سکتے ہیں یا داعش کے ساتھ مل سکتے ہیں ؟
توصیف احمد خان:اُن کو روکنا افغان طالبان کی ذِمّہ داری ہے ۔ اگر اُن کی کوئی مجبوری ہے تو اس کی وجہ سے ہم اپنے بچے شہید کیوں کروائیں ؟ اس کا حل نکالنا اُن کا کام ہے ۔
سوال: ہمارے پاس طاقتور سکیورٹی ادارے ہیں ، ڈرون ٹیکنالوجی ہے ، بہترین سرویلنس کا نظام ہےجس سے ہم TTPکو آنے سے روک سکتے ہیں ۔ دوسری طرف ہمارے ملک میں کافی عرصہ سے لوگ ریاستی جبر کا شکار ہیں ، یہاں تک کہ لوگ ریاستی اداروں کے خلاف ہوگئے ہیں، کیا تنگ آئے ہوئے یہ لوگ بیرونی دشمنوں کے ساتھ نہیں مل جائیں گے ؟ ایسے حالات کیوں پیدا کیے گئےاور ان کو سدھارنے کے لیے کیا کیا جارہا ہے ؟
توصیف احمد خان: بحیثیت قوم ہماری ایک فطرت ہے کہ جب پانی سرسے اونچا ہو جاتاہے تو پھر سوچنا شروع کرتے ہیں ۔ ریاستی جبر نہیں ہونا چاہیے تھا اور اگر ہوا تھا تو متاثرین کی دلجوئی کرنی چاہیے تھی اور بیرونی سازشوں کو کامیاب نہیں ہونے دینا چاہیے تھا ۔ پاکستان میں جتنی بھی دہشت گردی ہوئی ہے ، اندرونی مدد کے بغیر نہیں ہو سکتی تھی۔ اس سہولت کاری کا موقع نہیں دینا چاہیے تھا اور جو لوگ واقعتاً دہشت گردی میں ملوث تھے، ان کے خلاف گرینڈ آپریشن ہونا چاہیے تھا ۔ انہی کمزوریوں نے ہمیں دوبارہ وہیں پر لا کھڑا کیا ہےجہاں ہم پہلےموجودتھے ۔ دہشت گردی کے خلاف ہم تب ہی کامیاب ہوں گے جب بیرونی دشمنوں کے ٹھکانوں پر بھی نظر رکھیں گے کہ کون ان کی مدد کررہا ہے ، کون ٹریننگ دے رہاہے ۔ ان کی پناہ گاہیں کہاں کہاں ہیں اور اس کےساتھ ساتھ اندرونی ناراض لوگوں کو بھی اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کریں گے ۔ دوسری طرف افغان طالبان کو اپنی ذمہ داری پوری کرنی ہوگی ۔ بنوں اٹیک میں کندھار کے ڈپٹی گورنر کا بیٹا ملوث تھا جس کی لاش پاکستان نے واپس کی ہے ۔ ایک اور لڑکا جو خود کش حملے میں ملوث تھا، اس کا باپ فرانس میں رہتا ہے اور فرانس میں بھی اس کی نماز جنازہ ادا کی گئی ۔ یہ واضح ثبوت ہیں ۔ اس کے بعد بھی اگر افغان طالبان ان کو نہیں روکتے تو پھر پاکستان کی غلطی نہیں ہے ۔
سوال:کیا افغان حکومت اس قابل ہے کہ وہ 2600 کلومیٹر طویل سرحد کی حفاظت کر سکے ؟
توصیف احمد خان:اگر یہ2600 کلومیٹر طویل سرحد پاکستان سے پوری طرح کنٹرول نہیں ہو سکتی تو افغان طالبان کی کمزور حکومت کس طرح کنٹرول کر سکتی ہے ؟ اس صورت حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے امریکہ ، اسرائیل اور انڈیا پاکستان میں دہشت گردی کو ہوا دے رہے ہیں کیونکہ وہ پاکستان کو غیر مستحکم کرنا چاہتے ہیں اور بدقسمتی سے ہمارا اپنا برادر اسلامی ملک ہی اس گیم میں ہمارے خلاف استعمال ہورہا ہے ، اس کے علاوہ ہمارے اپنے ہی لوگ مختلف نعروں کی زد میں آکر ہمارے خلاف استعمال ہورہے ہیں ۔ اس لیے دونوں ملکوں کو چاہیے کہ وہ ہوش کے ناخن لیں ، جنگ کی بجائے مذاکرات کو کامیاب کریں ۔ اگر افغان طالبان مذاکرات کی میز سے یہ کہہ کر اُٹھ جاتے ہیں کہ TTPہمارے قابو میں نہیں ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ مسئلہ حل کرنا ہی نہیں چاہتے ۔ حالانکہ اس کا یہ حل بھی موجود ہے کہ دونوں ممالک مل کر ان کو قابو میں کر سکتے ہیں ۔ اس کے برعکس اگر افغان حکومت غیروں کے ہاتھوں میںکھیلے گی تو اس کا نقصان اُن کو بھی ہوگا ۔ کیا بھارت بھی کبھی افغان طالبان کا دوست ہو سکتاہے ۔
سوال:افغان میڈیامذاکرات کے عمل کو کس نظر سے دیکھ رہا ہے ؟
توصیف احمد خان:افغان میڈیاتو بالکل ہی کسی اور طرف نکل گیا ہے ۔ وہ مسلم بھائی چارہ کیبات کرنے کی بجائے نیشنلسٹ ہو چکا ہے ۔افغان حکومت اور میڈیا کو سمجھنا چاہیے کہ امن نہ صرف خطے کے لیے ضروری ہے بلکہ خود افغانستان کے استحکام کے لیے بھی بہت ضروری ہے ۔ پھر یہ کہ تمام تجارتی گزرگاہیں پاکستان سے ہو کر گزرتی ہیں ۔ قطر اور ترکیہ نے مذاکرات کا جو موقع فراہم کیا تھا اس کو ضائع نہیں کرنا چاہیے ۔ دونوں ممالک کا مستقبل خطے کے استحکام سے وابستہ ہے ۔ پاکستان بھی یہ نہ سمجھے کہ افغانستان پر حملہ کرکے محفوظ رہ سکے گا ۔اس کے نتیجہ میں ایک گوریلا جنگ شروع ہو جائے گی اور امریکہ ، اسرائیل اور انڈیا کو موقع مل جائے گا ۔
سوال: ہماری آپس کی اس جنگ سے کن قوتوں کو فائدہ پہنچ سکتاہے ؟
توصیف احمد خان:امریکہ نہ افغانستان کا دوست ہے اورنہ ہی پاکستان کا ۔ وہ پہلے ہی بگرام ایئر بیس واپس لینے کی بات کررہا ہے ۔ اگر افغان طالبان خود کہہ رہے ہیں کہ TTPاُن کے قابو میں نہیں ہے تو اِس کا مطلب ہے کہ وہ خود حل کی طرف نہیں آنا چاہتے ۔ بصورت دیگر قطر اور ترکیہ جیسے برادر مسلم ممالک نے اگر میز پر بٹھایا تھااور افغان طالبان کی نیت درست ہوتی تو وہ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے اور کہتے کہ آئیں ہم مل کر خطے میں امن کے لیے کوشش کرتے ہیں ۔ اس کے برعکس انہوں نے ڈیورنڈ لائن کا مسئلہ چھیڑ دیا ۔ 1893ء میں جب افغانستان برطانیہ کا باجگزار تھا تو اس وقت 12 لاکھ پاؤنڈ میں امیر عبدالرحمن کے ساتھ برطانیہ کا معاہدہ ہوا تھا اورڈیورنڈ لائن کا تعین ہوا ۔ اس کے بعد اس کا بیٹا حبیب اللہ افغانستان کا حکمران بنا تو اس کے ساتھ 1901ء میں دوبارہ معاہدہ ہوا اور وظیفہ بڑھا دیا گیا۔ 1919ء میں حبیب اللہ کے بیٹے امان اللہ کی برطانیہ کے ساتھ جنگ ہوئی ۔ مذاکرات کے بعد امان اللہ نے ڈیورنڈ لائن کو تسلیم کرلیا اور معاملہ ختم ہوگیا۔ 20 جون 1947 ءکوجب پاکستان بننے کے قریب تھا توبنوں میں کانگریس کا ایک اجلاس منعقد ہوا جس میں تیسرے آپشن کی بھی تجویز پیش کی جاتی ہے کہ اگر صوبہ سرحد کے لوگ چاہیں تو افغانستان کے ساتھ شامل ہو سکتے۔ اس کے بعد ڈیورنڈ لائن کا مسئلہ دوبارہ کھڑا ہو گیا ۔ 1950ء کی دہائی میں تیرہ پر حملہ کرکے وہاں افغان گورنمنٹ تشکیل دی گئی ۔ پھر لوئردیر میں پختونستان کی حکومت تشکیل دینے کی بات کی گئی ۔ پھر 6 ہزار افغان ٹروپس باجوڑ پر حملہ کرتے ہیں اور وہاں پر پختونستان حکومت قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔فروری 1975ء کی دہائی میں حیات محمد خان شیرپاؤ کو انہی لوگوں نے قتل کیا ۔ ضیاء الحق کے دور میں سردار داؤد اور دیگر افغان رہنماؤں کے ساتھ مذاکرات ہوئے اور مل کر سوویت یونین کے خلاف جنگ لڑی گئی ۔ لاکھوں افغان مہاجرین کو پاکستان نے پناہ دی اور انہیں اپنے بھائیوں کی طرح پالا پوسا ۔ مانا کہ پرویز مشرف نے غلط کیا اور اس کو پوری پاکستانی قوم بھی غلط کہتی ہے ۔ اگرافغان طالبان امریکہ کے ساتھ بیٹھ کر مذاکرات کر سکتے ہیں تو وہ پاکستانی قوم کے ساتھ بھی کر سکتے ہیں ۔ اُن کے لیے بھی امن اتنا ہی ضروری ہے جتنا ہمارے لیے ۔
سوال:پاکستان کا عجیب معاملہ ہے۔ ایک طرف کشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے دوسری طرف ڈیورنڈ لائن بھی متنازعہ ہے ۔ ایسی صورت حال میں کیا کرنا چاہیے؟
توصیف احمد خان: اطلاعات یہ ہیں کہ افغان وزیر خارجہ نے بھارت کے دورہ کےموقع پر کشمیر کو بھارت کا حصّہ تسلیم کیا ہے۔ حالانکہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق متنازعہ علاقہ ہے ۔
سوال:پاک افغان مذاکرات میں ناکامی کی اصل وجہ کیا ہے اور کون اس کا ذمہ دار ہے ؟
توصیف احمد خان:احمد شاہ مسعود کا بیٹا کہہ رہا ہے کہ افغان طالبان کا ماڈل قوم پرستی ہے ۔ اب اگر افغان طالبان دہشت گردوں کی سرکوبی میں پاکستان کا ساتھ دیتے ہیں تو اس میں خیر ہے لیکن اگر وہ ساتھ نہیں دیتے تو پاکستان کو احمد شاہ مسعود کے بیٹے ، حکمت یار اور طالبان مخالف گروہوں کو انگیج کرنا پڑے گا لیکن اس میں بھی یہ خطرہ ہے کہ ان پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا کہ وہ بگرام ایئر بیس امریکہ کو نہیں دیں گے ۔ وہ پاکستان سے بڑھ کر امریکہ کا ساتھ دیں گے اور یہ پاکستان اور چین دونوں کے لیے بہتر نہیں ہوگا ۔ اسی لیے چین نے بھی پاک افغان مذاکرات میں کردار ادا کیا ۔لیکن لگتا ہے کہ افغان طالبان گریٹ گیم کا حصّہ بن چکے ہیں۔ اس لیے ڈیورنڈ لائن کو متنازعہ بنا رہے ہیں ۔ دہشت گردی کو بڑھاوا دینے میں افغانستان کی بھی خیر نہیں ہوگی اور ایک وقت ایسا آئے گا یہ زہر افغانستان میں بھی پھیلے گا ۔ میری تجویز یہ ہے کہ پاکستان کےعلماء اور مذہبی طبقہ اس کشیدگی کے خاتمہ میں اپنا کردار ادا کریں اوراُمّت کی بنیاد وں کو مضبوط کریں ۔ پاکستانی علماء کا ایک اور وفد افغانستان بھیجا جانا چاہیے ۔ یقیناً وہ علماء کی بات سنیں گے ۔ مسلمان کا خون پاکستان میں بہے یا افغانستان میں بہے ، یہ قطعاً مسلمان کے لیے جائز نہیں ہے ۔
سوال:کیا افغان طالبان کو یہ نہیں دیکھنا چاہیے کہ کہیں وہ بھارت کے ہاتھوں استعمال تو نہیں ہورہے اور اسی طرح کیا پاکستان کو یہ نہیں دیکھنا چاہیے کہ کہیں وہ امریکہ کے ہاتھوں استعمال تو نہیں ہورہا ؟
توصیف احمد خان:بالکل دونوں فریق اس پرجذبات سے نہیں بلکہ سنجیدگی سے غور کریں کہ وہ کسی کے ہاتھوں استعمال تو نہیں ہورہے اور استعمال ہونے میں نقصان کس کا ہوگا ؟ استعمال کرنے والی قوتوں کے اپنے مفادات ہوتے ہیں جو وہ ظاہر نہیں کرتیں لیکن استعمال ہونے والے کو بعد میں پتہ چلتا ہے کہ ان کو بے وقوف بنایاگیا ہے ۔ اسی وجہ سے دونوں ممالک کو ہوشیاری کے ساتھ معاملات کو دیکھنا ہوگا ۔
سوال:ہماری طرف سےفی الحال کتنی ہوشیار باشی ہو رہی ہے ؟ ٹرمپ اپنی ہر تقریر میںبھارت کے جہازوں کا ذکر کرتا ہے جو پاکستان نے گرائے تھے ۔کیا وہ بھارت کو اشتعال دلانے کی کوشش کررہا ہے ؟
توصیف احمد خان: سی آئی اے کا سٹیشن چیف پاکستان میں رہا ہے ۔اس نےANI کو انٹرویو دیااور کہا کہ 2008ء میں ہم حیران تھے کہ بمبئی حملوں کے بعد بھارت نے پاکستان پر حملہ کیوں نہیں کیا ۔ گویا انہیں اُمید تھی کہ بھارت حملہ کرے گا ۔ پہلگام حملہ کے بعد بھی ان کو یہی اُمید تھی کہ پاکستان کو مار پڑے گی مگر پاکستان نے اچھا جواب دے دیا ۔ بھارت چونکہ امریکہ اور اسرائیل کا اتحادی ہے اور ان دونوں نے بھارت کو بہت سپورٹ بھی کیا ، تھپکیاں بھی دیں لیکن بھارت وہ رزلٹ نہیں دے پایا جو وہ چاہتے تھے ۔ لہٰذا اب وہ ایسی باتیں کرکے بھارت کو غصّہ دلا رہے ہیں ۔ بھارت میں صہیونیوں کی طرح کا ہی ایک جنونی اور انتہا پسند طبقہ موجود ہے جو گریٹر اسرائیل کی طرح اکھنڈ بھارت کا منصوبہ رکھتا ہے ۔ ان دونوں کا آج بھی اعلانیہ اتحاد ہے ۔
میزبان: اللہ کے رسول ﷺ نے تین دفعہ قسم کھا کر فرمایا کہ اللہ کی قسم وہ شخص مومن نہیں ہے جس کی ایذا رسانی سے اس کا پڑوسی محفوظ نہ ہو ۔ ہم اپنے ارباب اختیار کو بھی یہ کہتے ہیں کہ ہماری طرف سے کسی مومن یا مسلمان بھائی یا اس کے گھر کے ساتھ ظلم نہیں ہونا چاہیے اور افغانستان کے مسلمانوں کو بھی کہتے ہیں کہ آپ دین کے علمبردار ہیں اور آپ کا دعویٰ ہے کہ آپ نے اسلام کا نظام قائم کیا ہے ، شریعت کو نافذ کیا ہے تو آپ کو دین اور شریعت کا لحاظ رکھنا چاہیے ۔ ڈاکٹر جاوید اقبال نے تو یہاں تک تعریف کی تھی کہ اگر افغانستان کی طرح ایک اور مسلم ملک میں بھی شریعت نافذ ہو جائے تو دنیا میں انقلاب آجائے گا ۔ افغان طالبان کو اس پر غور کرنا چاہیے کہ اُن کی ترجیحات کیا ہیں ؟
توصیف احمد خان:دونوں ممالک کے مسلمان عوام آپس میں بھائی بھائی ہیں ۔ اگر حکومتوں سے غلطیاں ہو رہی ہیں تو عوام کو ایک دوسرے کو دشمن قرار نہیں دینا چاہیے ۔ ہمیں اُمت کے تصور کو اجاگر کرنا چاہیے ۔
سوال:ہمارے آرمی چیف پہلے مصر گئے ، اس کے بعد اردن گئے ۔ اس دورے کا مقصد کیا تھا ؟ کیا پاکستان بھی غزہ میں اپنی فوج بھیجنے جارہا ہے ؟
توصیف احمد خان: تین ماہ پہلے میں نے یہ سٹوری بریک کی تھی کہ فلسطینیوں کو غزہ سے نکال کر تین ممالک (سوڈان ، انڈونیشیا، مراکش)میں بھیجا جا سکتا ہے۔ اب جو نام نہاد سیز فائر ہوا ہے اس میں ایک شق یہ رکھی گئی تھی کہ مسلم ممالک کی فوج فلسطین میں جاکر نظام سنبھالے گی ۔ پھر اردن کے بادشاہ کی جانب سے بات سامنے آئی کہ وہ اپنی فوج غزہ میں نہیں بھیجیں گے ، ہم صرف ان کو تربیت دینے جا سکتے ہیں ۔ گویا کہ اردن کو اندازہ ہو گیا کہ امریکہ مسلمانوں کو آپس میں لڑانا چاہتا ہے۔ پھر ٹرمپ نے کہنا شروع کردیا کہ اگر حماس نے خلاف ورزی کی تو ہم اس کو ختم کر دیں گے ۔ا س کے بعد اسرائیل 120 مرتبہ جنگ بندی کی خلاف ورزی کر چکا ہے ۔ اس کے بعد یہ بات آنی شروع ہوئی کہ انڈونیشیا، آذربائیجان اور پاکستان کی فورسزکو وہاں بھیجا جا سکتاہے ۔ میرا کہنا یہ ہےکہ پاکستان ہو یا کوئی بھی ملک وہ زبردستی امن قائم نہیں کر سکتا جب تک کہ اسرائیل خوداس امن کا حصہ نہ بنے ۔ اگر معاہدے میں اس بات کو شامل نہیں کیا گیا کہ امن فورسز میں حماس بھی شامل ہوگی تو پھر یہ معاہدہ محض فریب تھا جس کا مقصد اسرائیلی قیدیوں کو بازیاب کرانا تھا ۔ جب تک عرب ممالک خود کھڑے نہیں ہوتے تب تک اسرائیل پیچھے نہیں ہٹے گا ۔ قطر پر حملہ کے بعد عرب ممالک نے کانفرنس بلائی، دوسال میں غزہ کے معاملے پر کیوں نہیں بلائی ؟اصل میں غزہ میں قتل و غارت گری کی وجہ سے امریکہ اور اسرائیل پوری دنیا میں تنہا ہو چکے تھے ۔ یہ معاہدہ انہیں دوبارہ میدان میں امن کے داعی کے طور پر لانے کی ایک کوشش ہے ۔ جہاں تک امن کی بات ہے تو معاہدے کے تحت سیز فائر کے پہلے فیز میں رفع کراسنگ سے 600 ٹرک روزانہ آنے تھےلیکن ابھی تک کراسنگ نہیں کھولی گئی ۔ صرف تجارتی سامان آرہا ہے جو بہت زیادہ قیمت پر اہل غزہ کو بیچا جارہاہے ۔ میرا اندازہ یہی ہے کہ امریکہ اور اسرائیل مزید بے عزت ہوں گے ۔
سوال: اسرائیل نے حالیہ دنوں میں بھی گریٹر اسرائیل کا ذکر کیا ہے ، ہر اسرائیلی فوجی کے بیج پر بھی گریٹراسرائیل کا نقشہ بنا ہوا ہے ۔ کیا عرب ممالک کو اس خطرے کا احساس ہو گیا ہے یا نہیں ؟ اور وہ بچنے کے لیے کیا کرنا چاہیں گے ؟
توصیف احمد خان: جنرل ویزلے نے جو سات جنگوں کا ڈیزائن ترتیب دیا تھا ۔ ان میں ایک وہی ایران عراق جنگ تھی جس کی وجہ سے عرب ممالک گرداب میں پھنستے چلے گئے ، اس کے بعد عراق نے جب کویت پر حملہ کیا تو وہ بھی اس ڈیزائن میں شامل تھا ۔ پھر عراق خود بھی تباہ ہوا ، شام ، لیبیا اور مصر بھی کمزور ہوئے۔ یہ چیزیں پہلے سے طے تھیں لیکن عرب حکمرانوں نے ان پر غور نہیں کیا ۔ اب بھی جب اسرائیل نے قطر پر حملہ کیا تو قطر کی سکیورٹی کی ذِمّہ داری امریکہ کے پاس تھی ۔ لیکن امریکہ نے اپنا سسٹم ڈاؤن کردیا اور حملہ ہونے دیا ۔ لیکن اس کے بعد بھی قطر نے ایگزیکٹو آرڈر والی گارنٹی امریکہ سے لی ہے۔ یہ حال ہے ان عرب حکمرانوں کا کہ ان کو سمجھ ہی نہیں آرہی کہ امن دشمن کون ہے ۔
tanzeemdigitallibrary.com © 2025