حقوق اللہ اور حقوق العباد
(سورۃ البقرہ کی آیت 83 کی روشنی میں )
مسجدجامع القرآن ، قرآن اکیڈمی ڈیفنس کراچی میں امیر تنظیم اسلامی محترم شجاع الدین شیخ حفظ اللہ کے24اکتوبر2025ء کے خطاب جمعہ کی تلخیص
خطبہ ٔمسنونہ اور تلاوتِ آیاتِ قرآنی کے بعد!
آج ہم ان شاء اللہ سورۃ البقرہ کی آیت 83 کی روشنی میں تذکیر بالقرآن کا اہتمام کریں گے ۔ سورۃ البقرہ مدنی سورت ہے اور اس میں بنی اسرائیل کے حوالے سے بھی کافی ذکر ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ موجودہ مسلمان اُمت سابقہ مسلمان اُمت کے احوال سے سبق سیکھے اور صراطِ مستقیم پر قائم رہے ۔ فرمایا:
{وَاِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَ بَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ} ’’اور یادکروجب ہم نے بنی اسرائیل سےپختہ عہد لیا تھا۔ ‘‘
بنی اسرائیل کا مسئلہ یہ تھا کہ وہ اللہ کی نافرمانیاں کرتے تھے ، بار بار عہد توڑتے تھے ، اللہ کے نبیوں کی بات نہیں مانتے تھے ۔ اُن کی سرکشیوں کا تذکرہ بھی قرآن مجید میں بار بار آیا ہے ۔ مثلاً اِسی سورۃ البقرہ میں آگے فرمایا:
’’اور جب آیا اُن کے پاس اللہ کی طرف سے ایک رسولؑ تصدیق کرنے والا اُس کتاب کی جو اُن کے پاس موجود ہے‘تو اہل ِکتاب میں سے ایک جماعت نے اللہ کی کتاب کو پیٹھوں کے پیچھے پھینک دیا‘گویا کہ وہ جانتے ہی نہیں۔‘‘ (آیت:101)
اسی طرح سورۃ التوبہ میں فرمایا :
’’اُنہوں نے اللہ کی آیات کوفروخت کیا حقیر سی قیمت کے عوض‘پس وہ لوگوں کو روکتے رہے اللہ کے رستے سے (او ر خود بھی رُکتے رہے)یقینا ًبہت ہی برا ہے جو کچھ یہ کر رہے ہیں۔‘‘(آیت:9)
دنیا کے چند ٹکوں اور مفادات کی خاطر اللہ تعالیٰ کی آیات کا سودا کر دیا، اللہ کے احکام کو پس پشت ڈال دیا، اللہ کی کتاب میں تحریف کر دی۔ زیر مطالعہ آیت میں میثاق کا لفظ استعمال ہوا، جس کے معنی ہیں پختہ عہد ، پکا وعدہ۔گویا ایسا وقت بھی آیا کہ جب اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے پختہ عہد لیااور اس کے بعد کچھ احکامات دئیے گئے ۔
وہ احکامات کیا تھے ؟ کیوں اتنے اہم تھے کہ ان کے لیے پختہ عہد لیا گیا؟ یہی آج کے ہمارے مطالعے کا اصل موضوع ہے ۔ البتہ یہ ذہن میں رہے کہ بنی اسرائیل کے حوالے سے یہ تذکرہ محض قصے کے طور پر نہیں آیا بلکہ اس میں موجودہ اُمّت کے لیے بہت بڑا سبق ہے ۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا :
’’لازماً میری اُمّت پر وہ حالات آ کر رہیں گے جو بنی اسرائیل پر آئے تھے، بالکل ایسےہی جیسے جوتا دوسرے جوتے کے بالکل مشابہ ہوتا ہے۔‘‘
یعنی کہ موجودہ اُمت بھی اُن فتنوں کا شکار ہو سکتی ہے جن کا شکار ہو کر سابقہ اُمت نے اپنا مقام و مرتبہ کھو دیا۔ لہٰذا قرآن مجید میں بنی اسرائیل کا تذکرہ اِس لیے بھی آتاہے کہ موجودہ اُمّت اس سے سبق سیکھے ۔ قرآن مجید کتابِ ہدایت ہے ۔ ایک جگہ فرمایا :
{لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ} (ابراہیم:1)’’ تا کہ آپﷺ نکالیں لوگوں کو اندھیروں سے روشنی کی طرف۔‘‘
قرآن مجید کے اسباق کا بنیادی مقصد یہ ہوتا ہے کہ انسان اُس سے روشنی حاصل کرکے انسانی معاشرے کو جہالت اور گمراہی کے اندھیروں سے نکالیں ۔زیر مطالعہ آیت میں میثاق کا ذکر کرنے کے بعد آگے فرمایا :
{ لَا تَعْبُدُوْنَ اِلَّا اللہَقف}(البقرۃ:83) ’’ تم نہیں عبادت کرو گے کسی کی سوائے اللہ کے۔‘‘
بنی اسرائیل سے جو میثاق لیا گیا، اُس میں پہلا حکم یہ تھا کہ وہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں ۔ یہ تمام پیغمبروں کی دعوت کا بنیادی اور مرکزی نکتہ رہا ہے ۔ جیسا کہ سورۃ الاعراف میں حضرت نوح d کی دعوت کا تذکرہ آیا :
{یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللہَ مَا لَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗ ط } (آیت:59)’’اے میری قوم کے لوگو !اللہ کی بندگی کرو ‘ تمہارا کوئی معبود اس کے سوا نہیں ہے۔‘‘
سورہ البقرہ میں رسول اللہ ﷺ کی دعوت کو بیان کیا گیا :
{یٰٓـاَیـُّھَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّــکُمُ } (البقرہ :21) ’’اے لوگو! بندگی اختیار کرو اپنے اُس ربّ(مالک) کی ۔‘‘
سابقہ انبیاء کرام fاپنی قوم کے لیے دعوت لے کر آتے تھے جبکہ اللہ کے آخری رسول ﷺ کی دعوت تمام لوگوں کے لیے ہے ۔ لہٰذا یہاں’’ الناس‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ۔ تاہم تمام انبیاء کرامf کی دعوت کا بنیادی نکتہ یہ رہا کہ صرف اللہ کی ہی عبادت کرو ، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو ۔ لفظ ’عبادت‘ عبد سےہے اور ’عبد‘ عربی میں غلام کو کہتے ہیں۔ ملازم اور غلام میں فرق ہوتاہے ۔ ملازم چند گھنٹے اجرت پر کام کرتاہے اور اس کے بعد آزاد ہوتا ہے جبکہ غلام ہمہ وقت مالک کے احکامات پر عمل کرنے کا پابند ہوتاہے ۔ پھر یہ کہ ملازم مخصوص کام کے لیے ہوتاہے ، مثال کے طور پر ڈرائیور ہے تو وہ صرف گاڑی چلائے گا ، صفائی نہیں کرے گا ، باروچی ہے تو وہ کھانا پکائے گا دیگر کام نہیں کرے گا لیکن غلام پابند ہوتاہے کہ اُس کو جو بھی حکم دیا جائے اُس کو ہر صورت میں پورا کرے ۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے ۔ جیسا کہ فرمایا :
{وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ (56)} (الذاریات)’’ اور مَیں نے نہیں پیدا کیا جنوں اور انسانوں کو مگر صرف اِس لیے کہ وہ میری بندگی کریں۔‘‘
آج عبادت کا تصور بگاڑ دیا گیا ہے ۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ عبادت کا مطلب صرف نماز ، روزہ ، زکوٰۃ ، حج تک محدود ہے ۔ باقی اجتماعی اور انفرادی زندگی میں نہ خوشی کے موقع پر اللہ یاد ہے ، نہ غمی کے موقع پر ، نہ بزنس میں ، نہ آفس میں ، نہ عدالت میں ، نہ پارلیمنٹ اور سیاست میں۔ مسجد سے باہر نکلے تو سب کچھ بھول گئے ، روزہ افطار کرتے ہی تقویٰ کا معنی بھول گئے ۔ عبادت اِس طرزعمل کا نام ہرگز نہیں ہے ۔ عبادت کا حقیقی مفہوم یہ ہے کہ بندہ 24 گھنٹے ، ہر لمحہ اور ہر کام میں اللہ کو یاد رکھے اور ہر کام اللہ کے احکامات کی روشنی میں سرانجام دے ۔ فرمایا :
{وَاعْبُدْ رَبَّکَ حَتّٰی یَاْتِیَکَ الْیَقِیْنُ(99)}(الحجر) ’’اور اپنے رب کی بندگی میں لگے رہیں یہاں تک کہ یقینی شے وقوع پذیر ہو جائے۔‘‘
دوسری جگہ فرمایا : {وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ(102)} (آل عمران)
’’اور تمہیں ہرگز موت نہ آنے پائے مگر فرمانبرداری کی حالت میں۔‘‘
انسان کی انفرادی اور اجتماعی دونوں طرح کی زندگی میں اللہ کی بندگی کا نظام غالب ہونا چاہیے ۔ زیر مطالعہ آیت میں آگے فرمایا :
{وَبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا} (البقرہ :83) ’’اور والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو گے۔‘‘
میثاق کی پہلی شق حقوق اللہ کے متعلق تھی کہ صرف اللہ کی بندگی کی جائے اور کسی قسم کا شرک نہ کیا جائے ۔ اس کے بعد اب حقوق العباد کے بارے میں حکم ہے ۔ آج کے دجالی تصورات کے تحت بعض لوگ حقوق اللہ کو بائی پاس کرکے صرف حقوق العباد پر زور دیتے نظر آتے ہیں ۔ حالانکہ اللہ کے پیغمبروںؑ کی تعلیمات میں اور اللہ کی کتابوں میں سب سے پہلے حقوق العباد پر زور دیا گیا ہے اِس کے بعد حقو ق العباد کی ادائیگی کا حکم دیا گیاہے ۔ معلوم ہوا کہ حقوق العباد بھی اتنے اہم ہیں جتنے حقوق اللہ ہیں لیکن اللہ کا حق سب سے پہلے ہے۔ روز محشر سب سے پہلا سوال اللہ کے حق (نماز)کے بارے میں ہی ہوگا ۔ پھر حقوق العباد میں بھی سب سے پہلے والدین کے حقوق کا ذکرآیا۔ قرآن مجید میں کم ازکم پانچ مرتبہ اللہ تعالیٰ نےاپنے حق کے فوراً بعد والدین کے حقوق کی بات کی ہے۔تاہم اصولی طور پر سب سے بڑھ کر محبت اللہ تعالیٰ سے ہوگی ، اِس کے بعد اس کے رسول ﷺ سے ہوگی اور ا س کے بعد والدین کا نمبر آئے گا ، اِسی طرح اطاعت کے معاملے میں بھی اللہ اور اُس کے رسول ﷺ کے بعد والدین کا نمبر آئے گا ، شادی شدہ عورت اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے بعد شوہر کی اطاعت کی پابند ہوگی ۔ حضور ﷺنے فرمایا کہ جس عورت سے اُس کا شوہر راضی ہو وہ جنت کے جس دروازے سے چاہے داخل ہو جائے ۔ ہاں شادی ہو جانے کے بعد بھی ایک عورت پر اپنے ماں باپ کا حق اپنے مقام پر رہے گا، وہ ختم نہیں ہو جائے گا۔ والدین کے حقوق کے معاملے میںیہ بھی حکم ہے کہ اگر والدین کسی غیر شرعی کام کا حکم دیں تو اولاد اُس کو نہ مانے لیکن حسن ِسلوک کا حکم ہر حال میں لاگو ہوگا ۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن میں خاص طور پر والدین سے حسن سلوک کا حکم دیاگیا ہے ۔ احسان کے معنی ہیں بہتر سے بہتر سلوک کرنا۔ جیسا کہ اللہ کے نبی ﷺ نے ہر نماز کے بعد یہ دعاپڑھنا سکھائی :((اَللّٰہُمَّ اَعِنِّیْ عَلٰی ذِکْرِکَ وَشُکْرِکَ وَحُسْنِ عِبَادَتِکَ )) (ابودائود)
’’اے اللہ! میری مدد فرمائیے کہ میںآپ کا ذکر کروں اور آپ کا شکرکروں اور آپ کی اچھی عبادت کروں۔‘‘
جس طرح اللہ چاہتا ہے کہ اُس کی عبادت بہترین طریقے سے کی جائے ۔اسی طرح اللہ یہ بھی چاہتا ہے کہ انسان اپنے والدین کے ساتھ بہترین سلوک کرے ۔ ایک تو وہ معاشرے ہیں جہاں باپ کا پتہ ہی نہیں ہے وہ بیچارے محروم معاشرے ہیں اور اگر کچھ ماں باپ رہ بھی گئے، بیچاروں کو کوئی پوچھنے والا نہیں اور اُن کو بڑے خوبصورت ناموں کے ساتھ اولڈ ہومز میں ڈال دیا جاتاہے ۔ سال میں ایک مرتبہ مدرڈے اور فادر ڈے منا لیا جاتاہے ۔ ڈوب مرنے کا مقام ہے اس تہذیب کے لیے ۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا : تمہارے ماں باپ تمہاری جنت بھی ہیں ، تمہاری جہنم بھی ہیں ۔ اُن کی خدمت انسان کو جنت کی طرف لے جاتی ہے جبکہ اُن کی نافرمانی انسان کو جہنم کی طرف لے جاتی ہے ۔پہلا عقل پرست اللہ کی وحی کے مقابلے میں عقل کو ترجیح دینے والا شیطان تھا ۔ آج شیطان کے ایجنڈے کی تکمیل کرتے ہوئے اس مملکت میں کچھ نوجوان یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ ماں باپ کو شادی کی خواہش تھی ، اُنہوں نے کرلی لیکن ہم مصیبت میں پیدا ہوگئے ، کونسے والدین کے حقوق؟انا للہ و انا الیہ راجعون ۔ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا : افضل عمل کونسا ہے ؟ فرمایا : نماز کو اُس کے وقت پر ادا کرنا ، اس کے بعد ماں باپ کے ساتھ حسن ِسلوک کرنا۔کئی صحابہ کرام ؇کے واقعات روایات میں مذکور ہیں جنہوں نے رسول اللہ ﷺ سے جہاد میں شامل ہونے کی اجازت چاہی لیکن آپ ﷺ نے انہیں بوڑھے والدین کے پاس رُکنے کا کہا ۔ فرمایا : جاؤ ان کی خدمت کرو ۔ یہی تمہارا جہاد ہے ۔ حضور ﷺ نے فرمایا : والد کی رضا ، اللہ کی رضاہے اور والد کی ناراضگی اللہ کی ناراضگی ہے ۔ حضورﷺ نے فرمایا کہ جنت تمہاری ماں کے قدموں کے پاس ہے ۔ حضور ﷺ ممبر پر تشریف لے جارہے تھے ، ایک سیڑھی پر قدم رکھا تو فرمایا: آمین !، دوسری سیڑھی پر قدم رکھا تو فرمایا : آمین ، تیسری سیڑھی پر قدم رکھتے ہوئے بھی یہی فرمایا ۔ صحابہ ؇نے پوچھا : یارسول اللہ ﷺ ، یہ کیا ماجرا ہے ؟ فرمایا : جبرائیل امین نے بددعادی کہ جس شخص کے ماں باپ بوڑھے ہوجائیں اور وہ اُن کی خدمت کرکے جنت نہ کما سکے وہ برباد ہو جائے ۔ اس پر میں نے آمین کہا ۔ اب جس شخص کی بربادی کے بارے میں فرشتوں کے سردار بددعا دیں اور نبیوں کے سردار آمین کہیں ، اُس کی بربادی میں کیا کسر باقی رہے گی۔ ایک روایت میں ہے کہ جس نے اپنے والدین کو محبت سے دیکھا ، اُس کو ایک مقبول جج کا ثواب مل گیا ، جتنی مرتبہ دیکھے گا ، اتنی مرتبہ حج کا ثواب ملے گا ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں والدین کے ساتھ حسن ِسلوک کی توفیق عطافرمائے ۔ آمین۔ آگے فرمایا :
{وَّذِی الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنِ} ’’اور قرابت داروں کے ساتھ بھی (نیک سلوک کرو گے) اور یتیموں کے ساتھ بھی اور محتاجوں کے ساتھ بھی۔‘‘(البقرہ:83)
والدین کے بعد قریبی رشتہ داروں کا حق ہے ، ان کے ساتھ احسان کرنے کا حکم دیا گیا ۔ پھر جو یتیم اور مسکین ہیں اُن کے ساتھ بھی ۔ یہ دنیا کی زندگی امتحان ہے ۔ کسی کو بہت زیادہ عطا کرکے آزمایا جارہا ہے ، کسی کو محروم کرکے ، کسی کو کس حال میں اور کسی کو کس حال میں رکھ کر آزمایا جارہا ہے ۔لہٰذا معاشرے میں جو یتیم اور مسکین لوگ ہیں، اُن پر بھی آزمائش ہے لیکن اُن سے بڑی آزمائش اُسی معاشرے کے مالداروں کے لیے بھی ہے کہ وہ اللہ کے دئیے ہوئے مال میں سے یتیموں اور مسکینوں کے حقوق ادا کرتے ہیں یا نہیں ۔ سورہ نور کے آخری رکوع میں اللہ تعالیٰ نے تقریباً دس گھروں کا ذکر کیا ہےجو قرابت داروں میں شمار ہوتے ہیں ۔ ان تمام سے احسان کرنے کا حکم دیا گیا ۔ اللہ چاہتاہے کہ ہمارا گھر ، خاندان اور ہمارا کنبہ متحد و منظم رہے، خاندان متحد رہے گا تو ایک دوسرے کے حقوق کا بھی خیال رہے گا اور غریب و مسکین کی مدد ہوتی رہے گی ۔ لیکن اِس کے برعکس شیطان چاہتا ہے کہ گھراُجڑ جائیں ، خاندانی نظام تباہ اور برباد ہو جائے۔ جیسا کہ احادیث میں ہے کہ شیطان کے چیلے آکر اُس کے سامنے اپنی اپنی کارکردگی کی رپورٹ پیش کرتے ہیں مگر سب سے زیادہ وہ اپنے اس چیلے سے خوش ہوتاہے جو میاں بیوی میں جدائی ڈال دے ۔قرآن میں رحمی رشتوں کا بھی ذکر آیا ہے ۔ احادیث کے مطابق رحم کا لفظ اللہ کی صفت رحمان سے آیا ہے ۔ حدیث قدسی کے الفاظ ہیں ۔ اللہ فرماتا ہے جو رحمی رشتوں کو جوڑے گا، میں بھی اُس کو جوڑوں گا جو رحمی رشتوں کو توڑے گا، میں بھی اُس کو توڑ دوں گا ۔ حدیث کے مطابق صلہ رحمی یہ نہیں ہے کہ کوئی آپ کے ساتھ نیکی کرے تو آپ بھی اس کے ساتھ نیکی کریں بلکہ صلہ رحمی یہ ہے کہ کوئی رشتہ دار آپ کا بُرا چاہتا ہے، مگر آپ اُس کا بھلا چاہیں ۔ پہلی وحی کے موقع پر جب آپ ﷺ گھبرائے ہوئے گھر آئے تو اُم المومنین حضرت خدیجہ kنے آپﷺ کو حوصلہ دیا کہ آپﷺ تو رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی سے پیش آنے والے ہیں ، اللہ آپ ﷺ کا بُرا کیوں چاہے گا ۔ معلوم ہوا کہ صلہ رحمی آپ ﷺ کی سنت میں شامل ہے ۔ حدیث میں ہے کہ :((لا یدخل الجنۃ قاطع))’’رشتے کو توڑنے والا جنت میں داخل نہیں ہوگا ۔‘‘ آج معمولی باتوں پر قریبی رشتہ داروں سے تعلق توڑ دیا جاتا ہے اور سالہاسال ایک دوسرے سے بات کرنا بھی گوارا نہیں کیا جاتااور اس برائی کو فخریہ بیان کیا جاتاہے۔ حالانکہ یہ جاہلیت کی باتیں ہیں ۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا : کوئی مسلمان اپنے مسلمان بھائی سے تین دن سے زیادہ خفا نہ رہے ۔ اللہ نے فرمایا کہ جو رحمی رشتوں کو توڑے گا میں اس کو توڑ دوں گا ۔ آج ہارٹ اٹیک ، کینسر اور دیگر کئی بیماریاں عام ہورہی ہیں ان کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ رحمی رشتوں کو توڑا جارہا ہے ۔ اللہ کے رسول ﷺ فرماتے ہیں جو چاہتا ہے کہ رزق میں اضافہ اور برکت ہو وہ صلہ رحمی کرے ۔ معلوم ہوا کہ صلہ رحمی سے برکتیں آتی ہیں ۔ اس کے برعکس قطع تعلقی سے نحوست آتی ہے ۔ حدیث میں آتاہے جو یتیم کا مال ہڑپ کرتا ہے وہ اپنے پیٹ میں انگارے بھر رہا ہے ۔ حضورﷺ نے فرمایا : یتیم کی کفالت کرنے والا روزقیامت میرے ساتھ کھڑا ہوگا ( آپ ﷺ نے اپنے ہاتھ کی دو انگلیوں کو جوڑ کر دکھایا)۔ کسی نے کہا حضورﷺ! میرا دل سخت ہوگیا ہے ۔ فرمایا : یتیم کے سر پر دست شفت رکھو ۔ آج مسلمانوں کے دل بہت سخت ہوگئے ہیں ۔ غزہ کے 70 ہزار شہداء کی لاشیں دیکھ کر بھی دل نرم نہیں ہورہا ۔ آج ڈپریشن اور فرسٹریشن کا مرض بھی عام ہوتا جارہا ہے ۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ ہمارے دل سخت ہوگئے ہیں ۔ اس کا فطری علاج یہی ہے کہ ہم معاشرے میں یتیم اور مساکین کے حقوق ادا کرنے کی کوشش کریں ۔ اللہ تعالیٰ آسانیاں عطا فرمائے گا۔آپ ﷺ نے فرمایا : مسلمانوں کے گھرانوں میں سے بہترین گھر وہ ہیں جہاں کسی یتیم کے ساتھ بھلا سلوک ہو تا ہے ۔ اسی طرح مسکین وہ ہے جو محنت کرکے کماتاہے مگر کمائی اتنی نہیں ہے کہ بنیادی حاجات پوری ہو سکیں ۔ ایسے افراد کے ساتھ بھی حسن ِسلوک کا حکم دیا گیاہے ۔ آج معاشرے میں بہت بڑی تعداد ایسے ہی لوگوں کی ہے ۔ ان سب کا حق ہے کہ اُن کی مدد کی جائے اور باقی سب کا فرض ہے کہ ان کی مدد کریں ۔ روزِ قیامت اس بارے میں سب سے پوچھا جائے گا ۔ مسکین کو زکوٰۃ بھی دی جا سکتی ہے ۔اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا : جو کسی بیوہ یا مسکین کی کفالت میں لگا ہو ، وہ اللہ کی راہ میں لگا ہوا ہے ، یعنی جہاد فی سبیل اللہ میں ۔ ایک حدیث کے الفظ ہیں : ((ھَلْ تُنْصَرُوْنَ وَتُرْزَقُوْنَ اِلَّابِضُعَفَا ئِکُمْ )) (رواہ البخاری) ’’تمہیں مدد دی جاتی ہے اور تمہیں رزق دیا جاتا ہے تمہارے کمزوروں کی(دعائوں کی) وجہ سے۔‘‘ وہ کمزور گھر میں بوڑھے ماں باپ بھی ہو سکتے ہیں ، بچے بھی ہو سکتے ہیں ، رحمی رشتوں میں یتیم اور مساکین بھی ہو سکتے ہیں ۔ ملازمین اور پڑوسی بھی ہوسکتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے ۔ آمین ! آگے فرمایا :
{وَقُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا} ’’اور لوگوں سے اچھی بات کہو۔‘‘
اللہ کےرسول ﷺ فرماتے ہیں : یہی زبان انسان کو جنت میں بھی لے جاتی ہے اور جہنم میں بھی ۔ ایک اور حدیث کے الفا ظ ہیں کہ سب سے زیادہ جو چیز انسان کو جہنم کی طرف لے جانے والی ہے وہ انسان کی زبان ہے ۔ شرک اور کفر کے کلمات بھی زبان سے نکلتے ہیں ، والدین کے سامنے چیخنا چلانا ، غیبت کرنا ، کمزوروں کی تذلیل کرنا ، غصہ کرنا ، الزام تراشی اور بہتان تراشی کرنا وغیرہ وغیرہ ، ان جیسی بہت سی برائیاں زبان سے ہوتی ہیں ۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ زبان سے اچھی بات نکالو ۔ اسی زبان سے انسان بہت سی نیکیاں بھی کما سکتاہے ۔ دین کی دعوت دینا ، علم نافع پھیلانا، نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا ، اچھا مشورہ دینا ، والدین سے نرمی سے گفتگو کرنا اور ایسے ہی سینکڑوں کام انسان زبان سے کرکے جنت کما سکتاہے ۔ آگے فرمایا :
{وَّاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّکٰوۃَ ط} ’’اور نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ ادا کرو۔‘‘
شروع میں عبادت کا ذکر تھا اور اب نماز اور زکوٰۃ کا علیحدہ سے ذکر ہے ۔ معلوم ہوا کہ نماز و روزہ سے ہٹ کر بھی عبادت کا تصور اسلام میں ہے اور وہ ہے اللہ کی بندگی کرنا اور اللہ کی بندگی پر مشتمل اجتماعی نظام قائم کرنا ۔ مفسرین نے عبادت کی چار قسمیں لکھی ہیں : 1۔ دل سے کی جانے والی عبادات قلبی عبادت کہلاتی ہیں ۔ 2۔ زبان سے کی جانے والی عبادات قولی عبادت کہلاتی ہیں ۔
3۔ بدن سے کی جانے والی عبادات بدنی عبادت میں شمار ہوتی ہیں ۔ 4۔ مال سے کی جانے والی عبادات مالی عبادت میں شامل ہوتی ہیں ۔ یعنی عبادت پوری زندگی کی بندگی کا نام ہے ۔ جیسا کہ فرمایا :
{اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ (162)}(الانعام)’’ میری نماز‘ میری قربانی‘ میری زندگی اور میری موت اللہ ہی کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔‘‘
آخر میں فرمایا:{ثُمَّ تَوَلَّـیْتُمْ اِلَّا قَلِیْلًا مِّنْکُمْ وَاَنْتُمْ مُّعْرِضُوْنَ(83)}’’پھر تم (اس سے) پھر َگئے سوائے تم میں سے تھوڑے سے لوگوں کے ‘اور تم ہو ہی پھر جانے والے۔‘‘
میثاق میں بنی اسرائیل کو جن احکامات پر عمل کرنے کا حکم دیا گیا تھا، وہی احکامات اسلام کی دعوت میں بھی شامل تھے مگر بنی اسرائیل نے اسلام کا انکار کردیا ۔ سوائے چند یہودیوں کے جنہوں نے اسلام قبول کرلیا ۔ فرمایا کہ تم ہو عہد سے پھر جانے والے اور آج تک کی تاریخ یہ ثابت کرتی ہے کہ یہودیوں نے ہمیشہ عہد کرکے اس کوتوڑا ہے۔ حالیہ دنوں میں بھی غزہ جنگ بندی معاہدہ ہوا تھا مگر اسرائیل نے ابھی تک نہتے فلسطینیوں پر ظلم جاری رکھا ہوا ہے ۔ ہم پوری اُمّت ِمسلمہ سے اپیل کرتے ہیں کہ اہل غزہ کے لیے دعا ئیں بھی کی جائیں ، اُن کی مالی مدد بھی کی جائے کیونکہ آپ سب دیکھ سکتے ہیں کہ وہ بے گھر ہو چکے ہیں ، اُن کے کاروبار روزگار سب تباہ ہو چکے ہیں ۔ اُنہوں نے اُمّت کی طرف سے فرض کفایہ ادا کردیا اب اُمّت پرفرض ہے کہ وہ اُن کی بحالی میں اُن کی مدد کریں ۔ اس کے علاوہ اسرائیل نواز کمپنیوں کی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم کو بھی جاری رکھنا ہے ۔ صہیونیوں کا مقصد گریٹر اسرائیل کا قیام ہے ، اس کے لیے وہ مسجد اقصیٰ کو بھی گرانا چاہتے ہیں اور پورے خطے پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں ۔ لیکن ہمارے حکمران اِس غلط فہمی میں ہیں کہ ٹرمپ امن کا علمبردار ہے اور وہ اسرائیل کو روک دے گا ۔ اسی بہانے وہ حماس سے ہتھیار چھیننا چاہتے ہیں۔ ہمارامسلم حکمرانوں سے سوال ہے کہ آج بوسنیا کے مسلمان کہاں گئے ؟ ان سے بھی امن کے نام پر ہتھیار چھینے گئے تھے اور پھر ان کے بچوں کو ذبح کیا گیا ، عورتوں کی عصمت دری کی گئی اور سب کا قتل عام کیا گیا ۔ وہی تاریخ غزہ میں بھی دہرائی جارہی ہے ۔ اللہ تعالیٰ مسلم حکمرانوں کواور مقتدر حلقوں کو ہدایت اور سمجھ عطا کرے ۔ آمین!