اداریہ
رضاء الحق
کعبہ پہلو میں ہےاور سودائی بت خانہ ہے
یہود کی بدبودار تاریخ سے کون واقف نہیں ہر نماز کی ہر رکعت میں مسلمان جب ’’ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْهِمْ‘‘ کا نعرہِ مستانہ لگاتا ہے تو ازروئے حدیث مبارکہ یہود پر ہی اللہ تعالی کے غضب کی دعا کر رہا ہوتا ہے۔ (جامع ترمذی: 2954، حکم صحیح) اللہ تعالی کے آخریکلام(قرآن مجید) کی دوسری اور طویل ترین سورت، البقرہ میں اکٹھے 10رکوع (5 تا 14)میں اِس سابقہ اُمت مسلمہ کے گناہوں اور اللہ اوراُس کے رسولوںؑ سے بغاوت کے واقعاتگنوا کر گویا اُن پر فردِ جرم عائد کر دی گئی اور بالآخر اُنہیں دنیا کی امامت یعنی خلافت کے منصب سے معزول کر دیا گیا۔خاتم النبییّن سید المرسلین محمدمصطفیٰ ﷺکی اُمّت کو حال اور مستقبل کی اُمّتِ مسلمہ قرار دیا گیا اور دنیا بھر کے انسانوں تک ہدایت کو پہنچانے کی ذِمّہ داری اولاً نبی اکرمﷺ(اور ان کی جماعت، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم) کے کندھوں پر ڈالی گئی۔ اُن نفوسِ قدسیہ نے اللہ کے دین کو قائم و نافذ کرنے کی اِس ذِمّہ داری کو بھرپور انداز میں نبھایا اور ہجرتِ مدینہ کے بعد کم و بیش7 قمری برس کے قلیل عرصے میں جزیرہ نمائے عرب کی حد تک تو اللہ کی نصرت سے دین کو قائم اور نافذ بھی فرما دیا۔ صرف یہی نہیں بلکہ نبی کریم ﷺنے اس دینی فریضہ کو ادا کرنے کا طریقہ یعنی ’اسوہ‘ بھی ہم تک پہنچا دیا۔ آپ ﷺنے خطبۂ حجۃالوداع کے موقع پر انسانیت کو اللہ کے صحیح معنوں میں’’عبد‘‘بننے کا منشور تو عطا فرمایا ہی، ساتھ ہی دنیا بھر میں دین اسلام کو قائم و نافذ کرنے کی جدوجہد کی ذِمّہ داری کو تاقیامِ قیامت پیدا ہونے والے ہر مسلمان پر بھی ڈالا کہ یہی دنیا اور آخرت دونوں میں فوز و فلاح کی راہ ہے ۔۔۔ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول اور جہنم کی آگ سے چھٹکارے کا راستہ یہی ہے۔ حضورﷺ کے وصال کے بعد یہ مقدس کام خلافتِ راشدہ کے دور میں بھی بطریق ِاحسن جاری رہا۔پھر یہود ہی کی ایک سازش کے نتیجے میں مسلمانوں کی وحدانیت میں رخنہ پڑ گیا، جس کی تفصیل میں جانے کا موقع نہیں۔ہم نے اتنی لمبی تمہید اِس لیے باندھی ہے کہ مستحضر رہے کہ دنیا کو انفرادی اور اجتماعی، ہر دو سطحوں پرامن و سکون کا گہوارہ بنانے کی جدوجہد کرنا اب اُمت محمدی ﷺ کا فرضِ منصبی ہے۔
دوسری طرف مخالفت میں ابلیس لعین اور اُس کے جتھے ہیں، جن میں منظم ترین ٹولہ اِس وقت یہود کا ہے۔ یہود شیطان کے پیغام کو آگے بڑھاتے ہوئے عملی طور پر انسانیت کو اپنے ساتھ جہنم میںگھسیٹنا چاہتے ہیں۔ اِس تحریر میں ہماری کوشش ہوگی کہ کسی درجے میںگزشتہ تقریباً ڈیڑھ صدی کے دوران اہم ترین یہودی بڑوں (Elders)، سیاست دانوں اور رباعیوں(یہود کے نام نہاد مذہبی پیشواؤں)کے چند بیانات ریکارڈ پر آجائیں تاکہ یہ بات اظہر مِن الشمس ہو جائے کہ ناجائز یہودی ریاست اسرائیل عربوں اور دیگر مسلمانوں سے کیے گئے وعدوں میں کتنی مخلص ہے۔ آج امن کے اِنہی داعیان نے ماضی میں مسلمانوںکے حوالے سے کیا کیا ہرزہسرائیاں کی ہیں۔ شاید’’امن معاہدہ‘‘، ’’دو ریاستی حل‘‘،’’جنگ بندی‘‘ اورامریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پیش کردہ ’’علاقائی استحکام کا منصوبہ‘‘ کی گردان کرنے والوں کی دل کی آنکھ بھی کھل جائے اور عوام الناس پر یہود کا مکروہ چہرہ عیاں ہو جائے۔ مشتے نمونہ از خروارے ملاحظہ فرمایئے:
l ’’گریٹر اسرائیل کا قیام میرا ’’تاریخی‘‘ اور ’’روحانی‘‘ مشن ہے۔‘‘ (اسرائیلی وزیر اعظم،نتن یاہو: 13 اگست 2025ء کے ایک انٹرویو سے حوالہ)
l ’’یہ روشنی کے بچوں (اسرائیلیوں )اور ظلمت کے بچوں(فلسطینیوں )کے درمیان جنگ ہے۔‘‘ (اسرائیلی وزیر اعظم،نتن یاہو: 10 اکتوبر2023ء)
l ’’ فلسطینیوں کے سر قلم کردینے چاہیے۔‘‘(سابق اسرائیلی وزیر خارجہ ایوگڈور لائبرمین: نومبر2024ء کے ایک انٹرویو سے حوالہ)
l ’’میں نے کئی عربوں کو قتل کیا ہے اور مجھے اس پر کچھ افسوس نہیں ‘‘ (سابق وزیر اعظم، نفتالی بینٹ : جون 2020ء کے ایک انٹرویو سے حوالہ)
l ’’فلسطینی بچے چھوٹے سانپ ہیں،اِن کی ماؤں کو بھی قتل کردو۔‘‘ (موجودہ اسرائیلی وزیر خزانہ بیزلیل سموتریچ، اکتوبر 2023ء؛ فرانس میں صہیونیت کے حوالے سے منعقد ہ ایک کانفرنس میں گفتگو سے حوالہ)
l ’’فلسطینیوں کی بستیوں کا صفایا کردینا چاہیے۔‘‘ (اسرائیلی وزیر برائے قومی سلامتی، ایتامار بن گویر:دسمبر 2023ء کا ایک انٹرویو)
l ’’غزہ کے حیوانوں کا صفایا کردو۔‘‘ (موجودہ امریکی وزیرِ خارجہ، مارکو روبیو: جنوری 2023ء کے ایک انٹرویو سے حوالہ)
l ’’اسرائیل کو ان حیوانوں سے پاک کردو تا کہ مسیح (الدجال) جلد آسکے۔‘‘(دی ریبی:2009ء میں نیتن یاہو سے ایک مقالمہ)
l ’’فلسطینیوں کے مقدس مقامات کو تباہ کرنا اور اُن کے مرد ،عورت ،بچے اور مویشی ہر چیز کو ہلاک کرنا ہمارا عقیدہ ہے۔‘‘ربی مانیس فریڈ مین: کتاب ”Doesn't Anyone Blush Anymore“ سے ایک حوالہ)
l ’’فلسطینیوں کے ساتھ کوئی نرمی نہ برتی جائے ۔عمالقیوں کو قتل کرنا اوراُن کے شیر خوار بچوں کو بھی نہ بخشنا۔‘‘ (ربی اسرائیل ہیس: 2016ء کی ایک تقریر سے حوالہ)
l ’’میں برطانیہ کے یہودیوں کے ساتھ غیر مشروط وفاداری پر پُرزوراندازمیں اصرار کرتا ہوں ۔ہمیں ہر حال میں صہیونیوں کے مقاصد کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے میں ہر طرح کی مدد کرنا ہوگی۔‘‘ (سابق برطانوی وزیرِ اعظم ونسٹن چرچل، فلسطین کے حوالے سے برطانیہ کا ایڈمنسٹریٹر 1922ء۔ رِک رِچ مین کی کتاب سے ایک حوالہ)
l ’’فلسطینیوں کے بارے میں جو چاہو فیصلہ کرو ساٹھ لاکھ فلسطینیوں کی کوئی اہمیت نہیں۔اہم صرف صہیونیت ہے۔‘‘(سابق برطانوی وزیرِخارجہ لارڈ بالغور، 1917 ء میں برطانوی پارلیمان میں بالفور اعلامیہ پیش کرنے والا، لارڈ لائنل وائٹر روٹھ شیلڈ کا بغل بچہ: 1919ء کی ایک تقریر سے حوالہ)
قارئین محترم اِس کے بعد ہمارے پاس کہنے کے لیے اِس کے سوا بچ ہی کیا گیا ہے:
کعبہ پہلو میں ہےاور سودائی بت خانہ ہےکس قدر شوریدہ سر ہے شوق بے پرواہ تیرا
tanzeemdigitallibrary.com © 2025