(کارِ ترقیاتی) قریب آگئی شاید … - عامرہ احسان

11 /

قریب آگئی شاید …


عامرہ احسان

دنیا انقلابات کی زد میں ہے۔ انقلاب، زندگی، اِس میں بے قراری، غور و فکر، بدلنے کی خواہش کی زبردست علامت ہے۔ یہ جیتے جاگتے، زندہ ضمیر لوگوں کے سینوں میں فکر و تدبر اور کچھ کر گزرنے کی چاہت سے ایک طوفان برپا ہے جو احساسات کی دنیا میںمتعدی، چھوت کی بیماری کی طرح پھیلتا چلا جاتا ہے۔ ابتدائی نتائج ہنگامہ خیز ہوتے ہیں۔ جتنا دبانے کی مصنوعی کوششیں ہوتی ہیں، اس میں اتنی ہی شدت پیدا ہوتی ہے۔ گویا پورا بدن لال بھبھوکا ہو کر دروڑوں، دھپڑوں (Skin Rash) سے بھر جائے۔ یہ ردِ عمل، ’الرجی‘ کی طرح ہوتا ہے۔ جس کی تہہ، وجہ تک پہنچے بغیر علاج شافی نہیں ہوتا۔ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی! آج دنیااستعماریت (Colonization)  کے چہرے بدل بدل کر انسانیت کے وجود میں کچوکے لگانے پر شدید رد عمل کا نتیجہ ہے۔ جو مغرب، لاطینی جنوبی امریکہ، افریقہ سے لے کر پورے کرۂ ارض پر و با بن کر پھیلا ہے۔ دو سال اسے نرمی، بد ترین سختی، جیلوں، کیریئر تباہ کرنے، کچل ڈالنے، دھمکانے کی ہر کوشش ناکام ہو چکی۔ ہزار بار حکیموں نے اس کو سلجھایا، مگر یہ مسئلہ ’غزہ‘ رہا وہیں کا وہیں۔ 7 اکتوبر 2023ء طوفان الاقصیٰ نے ایک جھکڑ، گردشی تیز رفتار طوفان، ’ہری کین‘ کی صورت اختیار کرلی۔ جس طرح سے Hurricane طوفان مرکز میں ملبہ، مٹی، گرد اور بارش بھری ہوتی ہے۔ تیز رفتارہوا کی چیخ چنگھاڑ، شاں شاں دہلاتی آواز ہوتی ہے۔ وہی سب غزہ میں مرکز بنا گردشی طوفان تھا، جس کے ظلم کے جھکڑ، بمباریوں، درندگی کے بے پناہ مظاہر کے اثرات دنیا کے کونے کونے تک محسوس کیے گئے۔ آسمان تک اڑتی لاشیں،  سرکٹے بچے، ملبے میں شرق تا غرب دبے ایک ایک رہائشی عمارت کے سینکڑوں مکین جو بلا مبالغہ اب دس لاکھ تک کل تعداد پہنچ گئی ہوگی۔ 
نتیجہ اس طولانی تمہید کا یہ ہے کہ ایک طرف امریکہ اور مغربی حکمراں، (اور ان کی بغل میں چپکے کھڑے    مسلم حکمران بھی) اسرائیلی عزائم کو آخری انتہا تک جانے دے رہے ہیں یعنی گریٹر اسرائیل بنا ڈالنے، الاقصیٰ پر قبضہ، فلسطینی یا صفحۂ ہستی سے مٹ جائیں یا علاقے سے مکمل انخلاء ہو۔ اِس پر کچھ دم لے کر اسرائیل کو جانے دیا جائے۔ مگر اس تعاون کے عوض مذکورہ مسلمان ملک محفوظ رہیں!
البتہ دنیا کا دھیان بٹانے کو طرح طرح کی کانفرنسوں، ان کے اعلامیوں، یقین دہانیوں کے پس پردہ عزائم دنیا کے عوام، بالخصوص Gen-Zبخوبی بھانپ چکی ہے۔ چنانچہ ان کے مظاہروں، احتجاج، مطالبات میں کوئی کمی نہیں آئی۔ حال ہی میں آئر لینڈ میں صدر منتخب ہونے والی کیتھرین کو نولی نے دنیا سے دو ٹوک اپنے موقف کا اظہار غزہ کے حوالے سے کیا۔ ’فلسطینیوں کو اپنی قیادت کا فیصلہ خود کرنے کے حق کا احترام کریں۔ کوئی غیر ملکی طاقت یہ اتھارٹی نہیں رکھتی کہ وہ یہ فیصلہ صادر کرے کہ فلسطینیوں کی نمائندگی کون کر سکتا ہے۔ آئر لینڈ کے اپنے استعمار (تلے دبے رہنے) کے تجربات کے پیش نظر میں بہت چوکس، حساس، محتاط ہوں کسی آزاد قوم کو یہ بھاشن دینے کے لیے کہ وہ اپنا ملک کیسے چلائیں۔RTE نیوز اور     ور جن میڈیا پر انہوں نے انتخابات سے پہلے 30 ستمبر کو جو انٹرویو دیا اس میں دوٹوک کھرے رویے کی حد حیران کن تھی۔ حماس کو اُنہوں نے فلسطینی قوم کا رگ وریشہ (part of fabric) قرار دیا۔ اس پر شدید چبھن ہوئی اسرائیل اور اسرائیل نوازوں کو جب انٹرویو میں اس پر وجہ پوچھی گئی تو کہنے لگیں۔ ’انتخابات میں عوام نے انہیں منتخب کیا تھا۔ بھاری اکثریت نے اُن کی حمایت کی تھی۔ وہ اپنے معاشرے کی سول سوسائٹی کا حصہ ہیں۔ ہم اموات کی تعداد کے لیے انہی کے اعدادو شمار پر بھروسا کرتے ہیں۔‘ جب حماس کے دہشت گرد قرار دئیے جانے پر کیتھرین سے پوچھا تو کہنے لگیں، ’یہ تو ایک نام ہے جو انہیں دیا گیا ہے۔ اسرائیل ایک دہشت گرد ریاست کے طور پر کام کر رہی ہے۔ ہم اسے وہی پکاریں اور کہیں گے جو وہ کر رہے ہیں۔ وہ بالکل کنٹرول سے باہر ہیں۔ نہایت واشگاف ہمدردی، حمایت اہل غزہ سے اس پورے انٹرویو میں اور اسرائیل پر تنقید کے باوجود آئرلینڈ کے عوام نے انہیں   بھر پور حمایت دے کر صدر بنایا ہے۔ یہ عوام کا غزہ ؍اسرائیل جنگ پر بھی ریفرنڈم ہے۔ یادر ہے کہ آئر لینڈ کے عوام نے دو سال اس تنازعے میں غزہ کا بے پناہ ساتھ دیا ہے۔ اور کیوں نہ ہو حقائق خوفناک حد تک دل شکن، اعصاب شل کر دینے والے ہیں۔ یہ منظر دیکھئے: غزہ کی ایک اور بیٹی آلاء ملبے میں سے اپنے باپ کی باقیات نکالے کھڑی ہے جہاں اُس کے خاندان کے 35 افراد دب مرے۔ باپ کو پہچان کر اس کے پڑے ڈھانچے پر سے کھوپڑی ہاتھ میں اٹھائے کھڑی ہے۔ ضمیرِ عالم سے سوال کر رہی ہے: کیا دنیا میں کوئی اپنے باپ کو اِس حال میں دیکھنا گوارا کر سکتا ہے؟ کیا اب میری یادوں میں باپ کی یہی تصویر چپکی رہے گی؟ شرم کا مقام ہے!‘ (وہ شرم الشیخ میں بیٹھنے والوں مالدار شیوخ اور مسلم کٹھ پتلیوں سے سوال کرتی ہے!) عرب کہاں ہیں؟ ریڈ کر اس؟ یو این؟ 
الحمد للہ باقی دنیا زندہ ہے! اداروں اور حکومتوں کے ہاتھ ان کی نوکریوں، مفادات اور زیادہ تر بے حسی   نے باندھ رکھے ہیں۔ ورنہ ایک معروف فٹ بال کوچ
Pep Guardiolaنے تو کہا: ’جو ہم غزہ میں دیکھتے ہیں وہ نہایت تکلیف دہ ہے۔ میرا پورا جسم درد کرتا ہے (اس دکھ سے۔) یہ نظریے کی بات نہیں، زندگی سے محبت کی بات ہے۔ یہ خاموش رہنے سے انکار کی بات ہے جو اس وقت نہایت اہم ہے۔‘ اتنے ہی درد سے آسٹریلیا کی ریاست تسمانیہ کا سینیٹر نک میکم جارحانہ انداز سے غزہ پر ظلم کے خلاف چلا رہا ہے۔ دنیا ان امن پلانوں کے جھانسے میں آنے کو تیار نہیں۔ حکومتوں پر یلغار ہے۔ بات جو سپینی نژاد مانچسٹر میں معروف فٹ بال کوچ نے کہی۔ ہمیںیہ حدیث یاد دلاتی ہے ، جو پوری امت کو جسد ِواحد قرار دیتی ہے۔ جس کے ایک عضو کی تکلیف پورے بدن کو بخار میں مبتلا کر دیتی، درد کا باعث بنتی ہے! یہ درد (ہمارے سپین میں بہے شہداء کے خون کے عوض) سپینی فٹ بالر کے حصے آگیا! ہم آپس میں الجھنے، بگڑنے جھگڑنے سے فارغ نہیں ۔ سیکولرازم کے جام پیئے گزشتہ 25 برسوں سے امریکہ کے ہاتھ پر بیعت کیے بیٹھے ہیں۔ اب اسرائیل کے ساتھ صہیونی معاہدے کے بندھن میں بندھنے کے راستے تلاش کر رہے ہیں۔ مسلم ممالک کو درجہ بہ درجہ بڑے اہتمام سے کمزور اور معاشی طور پر مفلوج، بین الاقوامی معاشی اداروں کا دست نگر بنا دیا ہے۔ خانہ جنگیوں کے فتنے اٹھا کر قوت سلب کرلی۔ سوڈان، یمن، لیبیا، مراکش کسی نہ کسی صورت اپنی بلاؤں میں گرفتار ہیں۔ادھر غزہ میں دو مسلم ممالک کے ساتھ پاکستانی فوج کی تعیناتی کی خبر عالمی بشمول اسرائیلی میڈیامیں گردش کر رہی ہے!اگر چہ تاحال کوئی باضابطہ سرکاری اعلان نہیں ہوا لیکن سیاسی،سماجی حلقوںمیں اس پر شدید تشویش کا سلسلہ چل پڑا ہے!(ڈان: 28،29اکتوبر)
پاکستان نے 20 سال امریکہ کی جنگ لڑی، برادر ملک کے خلاف۔ ساری قربانیوں کے باوجود ریکارڈ اٹھا کر دیکھ لیجیے، ہمی پر امریکہ نے اپنی شکست کا الزام منڈھ دیا۔ اب ٹرمپ طویل ملاقاتوں میں نجانے مزید کیا پھونک بیٹھا ہے جو آپس میں پھراُلجھ بیٹھے ہیں۔استنبول مذاکرات کی ناکامی کے باوجود تعلقات سلجھانے کی کوشش جاری رہنی چاہیے ۔ بھارت الجھاؤ کا فائدہ اٹھانے سے گریز نہ کرے گا۔ مہینہ بھر کی ہماری سرحدات پر اس کی فوجی مشقیں ؟ اسے اسرائیل امریکی گٹھ جوڑ اور عزائم      کا تسلسل سمجھئے۔ امریکہ نے 8 مسلم ممالک کو یو این   جنرل اسمبلی کے اجلاس میں بٹھا کر اپنی راہیں ہموار کیں۔ اب ملائیشیا آسیان کانفرنس کے موقع پر نجانے وہاں کیا پٹیاں پڑھائے گا۔ ساری تیاری گریٹر اسرائیل، ملحمۃ الکبریٰ کی ہے۔ مسلمان آمد دجال ،علامات قیامت، باب الفتن کی احادیث سے منہ موڑے بیٹھے جانتے ہی نہیں۔ مغرب اسرائیل سے سر جوڑ کر پچھلی صدی سے ایک ایک حدیث بارے ساز و سامان کر رہا ہے۔ اب خراسان سے اٹھنے والے لشکر کا اہتمام روکنے کی فکر ہے۔ سو افغانستان پاکستان جو ان کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے، اسے قابو میں رکھنے اور اپنی ڈال دینے کا اہتمام ہے۔ تاہم اللہ کا پلان برتر ہو کر رہتا ہے اور ہو گا! پوری دنیا انقلاب کی تیاری میں ہے۔ شناخت LGBTQ میں کھو دینے والے، دیوانہ وار،  مردانہ وار غزہ کے غم میں حیات نو پا رہے ہیں۔ سوخدانخواستہ ہم سے یہ قافلہ چھوٹ گیا تو وہ بازی لے جائیں گے۔ فلوٹیلا کہانیاں اور اسرائیلی جیلوں میں پٹ کر بھی پُر عزم گریٹا جیسوں کو ہی دیکھ لیں!
دلوں میں ولولۂ انقلاب ہے پیدا
قریب آگئی شاید جہانِ پیر کی موت