امارت ِاسلامیہ افغانستان کی قیادت کا امتحان !
ڈاکٹرضمیراخترخان
اسلامی جمہوریہ پاکستان اور امارتِ اسلامیہ افغانستان کے درمیان حالیہ تنازع کو سمجھنے کی ضرورت ہے تاکہ دوہمسایہ مسلم ممالک کے مخالفین کو اپنے مذموم مقاصد کوحاصل کرنا ممکن نہ ہوسکے۔ خاص طور پرہندوستان تو اس تاک میں رہتا ہے کہ اُسے پاکستان کو غیرمستحکم کرنے کا کوئی موقع ہاتھ آئے۔ امارتِ اسلامیہ افغانستان کی موجودہ قیادت کوشایدیاد نہ ہو کہ امیرالمؤمنین ملاعمر ؒ کے دورمیں بھی ہندوستان نے کوشش کی تھی کہ امیرالمؤمنین کوپاکستان کے خلاف استعمال کیاجائے ۔ خاص طور پر جب پرویزمشرف نے امریکہ کے ساتھ افغانستان کے خلاف دست تعاون بڑھایا تھا۔ اس وقت ہندوستانی سفیرنے ملاعمرؒ سے ملاقات کر کے یہ کہا تھا کہ پاکستان نے امریکہ کا ساتھ دے کر آپ کو نقصان پہنچایا ہے۔ اگر آپ اجازت دیں تو ہم پاکستان کو سبق سکھائیں۔ ملاعمر ؒ نے جوجواب دیا تھا وہ امارتِ اسلامیہ کی موجودہ قیادت کو اپنے سامنے رکھنا چاہیے۔ انہوں نے فرمایا تھا’’پاکستان نے امریکہ کا ساتھ دے کر غلطی کی ہے۔ ہم پاکستان کے خلاف آپ کا ساتھ دینے کی غلطی نہیں کریں گے۔‘‘ یوں ایک صاحب ِفہم وفراست مؤمن نے اپنے مؤمن بھائیوں کے خلاف دشمن کا آلہ کار بننے سے اپنے آپ کو بچا لیا اور اس امتحان میں کامیاب ٹھہرے۔ امارت اسلامیہ کی موجودہ قیادت کے لیےبھی یہ امتحان کی گھڑی ہے۔ وہ اپنے پہلے امیرالمؤمنین کی تقلیدکریں تو اس امتحان میں کامیاب ہوں گے ۔ ان شاء اللہ!
ملاعمرؒ کا ایک اور بیان جسے ہمارے نامورصحافی وادیب محترم عرفان صدیقی نے روایت کیا ہے وہ امارتِ اسلامیہ کی موجودہ قیادت کی خدمت میں پیش کرتے ہوئے ہم درخواست کریں گے کہ وہ اپنے پہلے امیرالمؤمنین کے اس بیان کی لاج رکھتے ہوئے ہندوستان کے حوالے سے اپنے طرز عمل کی اصلاح فرمائیں۔ بیان ملاحظہ ہو: صدیقی صاحب لکھتے ہیں:’’ تیس برس قبل، 1995ءمیں، جب قندھار کے ایک زخم خوردہ ریسٹ ہاؤس میں، مولانا سمیع الحق مرحوم کے پہلو میں بیٹھے، میں تازہ تازہ نمُو پاتے طالبان کے راہنما ملا محمد عمر ؒکی تقریر سُن رہا تھا تو سامعین تصویرِ حیرت بنے بیٹھے تھے۔ ملا محمد عمرؒ کہہ رہے تھے ’’میرے پاکستانی بھائیو! ہم قیامت تک آپ کا احسان نہیں بھولیں گے۔ ہم اپنی نسلوں کو بھی بتا کر جائیں گے کہ اگر پاکستان اور افغانستان، دونوں پر آزمائش کا وقت آ جائے تو پہلے پاکستان کی جنگ لڑنا۔ میرے بھائیو! یہ لفظ لکھ لو۔ جہاں آپ کا پسینہ گرے گا وہاں ہمارا لہو گرے گا۔‘‘
امارتِ اسلامیہ کی موجودہ قیادت ملاعمر ؒ کے دورمیں کم عمر تھی ۔ تب کابل حکومت کے موجودہ سربراہ اعلیٰ شیخ ہیبت اللہ اخوندزادہ کی عمر صرف اٹھارہ برس تھی۔ دوحہ میں افغان وفد کی نمائندگی کرنےوالے وزیردفاع ملا محمد یعقوب پانچ سال کے بچے تھے۔ افغان مذاکراتی وفد کے تیسرے رُکن ملا عبدالحق واثق کی عمر تب بیس سال بھی نہ تھی۔ اسی واسطے ان کو یاد دلاتے ہیں کہ آپ کے پہلے امیر المؤمنین اور پیشوا نے پاکستان کے بارے میں ان مؤمنانہ خیالات کا اظہار فرمایا تھا۔ ہمیں معلوم ہے کہ امریکہ افغان مجاہدین کے ہاتھوں 20 سال رسوا ہوتا رہا اور یہاں سے جاتے ہوئے ہتھیارافغان عوام کے درمیان پھینک کر گیاتھاجس کامقصد آپ کے لیےمشکلات پیدا کرنا تھا۔ مزیدبراں امریکہ نے آپ کے اثاثے بھی ضبط (غبن) کر رکھے ہیں جس کی وجہ سے آپ معاشی مشکلات کا بھی شکار ہیں ۔ اس پر مستزادٹی ٹی پی کی آزمائش بھی آپ کے گلے پڑ گئی۔ یہ بھی سب کو معلوم ہے سارے عالم کفرنے آپ کی حکومت کو تسلیم نہ کر کے آپ کو پریشان کیا۔ پاکستان نے بھی آگے بڑھ کر افغانستان کو تسلیم نہ کیا۔ یہ سارے مسائل اپنی جگہ مگر حالیہ پاک افغان محاذآرائی پر لوگ پریشان ہیں دونوں طرف کے عوام پوچھتے ہیں کہ ان کو کس کی نظرلگ گئی، یہ دونوں ممالک تو یکجان دو قالب تھے۔ آخر افغان حکمرانوں کو کیا ہوگیا کہ وہ شکست خوردہ انڈیا کی اجڑی ہوئی ویران گود میں جا بیٹھے۔ ہم نے یہ کہنے کی جسارت اس لیے کی کہ حال ہی میں بھارت کادورہ کرتے ہوئے امارتِ اسلامیہ افغانستان کے وزیر خارجہ امیرخان متقی نے کشمیرکے حوالے سے جوبیان دیا وہ نہ صرف یہ کہ پاکستان کے لیے تکلیف کا باعث ہے بلکہ اس نے کشمیریوں کے جذبات واحساسات کو مجروح کیا ہے ۔ اُنہوں نے تو حد کر دی کہ مسلمانوں کو جیلوں میں ڈالنے والی مسلم دشمن مودی حکومت کے مؤقف کو درست تسلیم کرتے ہوئے جموں و کشمیر کو بھارت کا حصہ قرار دیا۔ اس پر کشمیریوں کا شدیدردعمل سامنے آیا ہے۔ افغانستا ن کی طالبان حکومت کو دین و ایمان کے رشتے سے اپنے منصفانہ مؤقف کا حامی و ہمدرد سمجھنے والے کشمیریوں کے لیے افغان وزیر خارجہ کا یہ بیان جس قدر غیرمتوقع اور تکلیف دہ تھا، اس کا کچھ اندازہ کل جماعتی حریت کانفرنس کے کنوینیرغلام محمد صفی کے ان الفاظ سے لگایا جاسکتا ہے کہ ’’کشمیری تو یہ توقع کر رہے تھے کہ مولوی امیر متقی بھارت جا کر ہمارے حق میں بات کریں گے لیکن انہوں نے بھارت کے مؤقف کو آگے بڑھایا۔ یہ غیر متوقع عمل کشمیریوں، پاکستانیوں اور افغان عوام سب کے لیے حیران کن، الارمنگ اور آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔ ‘‘
جس طرح امیرالمؤمنین ملاعمرؒ کو احساس تھا کہ پاکستان کے افغانوں پرہر قسم کے ہزاروں احسانات ہیں۔ اسی طرح موجودہ قیادت کو احسان کابدلہ احسان نہیں تو کم ازکم بے وفائی اور غداری سے نہیں دینا چاہیے تھا۔ افغان یاد رکھیں کہ مشکل وقت میں اُنہیں پاکستان کے سوا کہیں پناہ نہیں ملے گی۔ یہ وہ احساسات ہیں جو ساری مسلم دنیا میں پائے جاتے ہیں۔ ہم امارتِ اسلامیہ کے ذمہ داران سے درخواست کریں گے کہ وہ اسلام کے حکم {اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَ اَخَوَیْکُمْ} (الحجرات:10) ’’مؤمن تو آپس میں بھائی بھائی ہیں انہیں اپنے بھائیوں کے مابین اصلاح کرتے رہنا چاہیے۔‘‘ کو ملحوظ خاطر رکھیں اور کسی کافر ملک کے ساتھ مل کر پاکستان کو نقصان پہنچانے کی ہرگزکوشش نہ کریں۔اس وقت جولوگ امارتِ اسلامیہ کی قیادت کررہے ہیں اُنہیں پاکستان کوبڑے بھائی کا مقام دے کراس کے ساتھ تعاون کرناچاہیے تاکہ دونوں پڑوسی مسلم ممالک اپنے اصل ہدف اسلامی نظام کے مکمل نفاذ کی طرف یکسوئی سے پیش قدمی کر سکیں جس سے نہ صرف یہ کہ ہمارے وقتی مسائل حل ہوں گے بلکہ اللہ کی نعمت سے ہم بھائی بھائی بن جائیں گے۔ ہم اپنے افغان بھائیوں کو یاد دلانا چاہتے ہیں کہ افغانستان میں ہونے والے جہاد کے تینوں ادوار میں پاکستان ایک بیس کیمپ کے طور پر استعمال ہوا۔ چاہے وہ روس سے جہاد کا دور تھا یا طالبان کا سات سالہ دور یا نیٹو فورسز کےخلاف ۔ جہاد سے اس قریبی تعلق اور مشاہدے نے بھی سرفروشی اور جفا کشی کے جذبات پیدا کیے ہیں جس سے مادہ پرستی اور تنعم کی زندگی بسر کرنے والی قومیں کوسوں دور ہوتی ہیں۔ افغانستان کھل کر اپنی مجبوریاں پاکستان کے سامنے رکھے تاکہ باہمی اعتماد قائم رہے۔ اس وقت یہ معّمہ بھی حل ہونے میں نہیں آ رہا کہ کابل انتظامیہ کی پاکستان سے دشمنی کی حدوں تک پہنچ جانے والی پرخاش کے اسباب کیا ہیں؟ اُس نے اپنی حکمتِ عملی کو بھارت سے کیوں جوڑ لیا ہے اور اُس کے مقاصد کا آلۂِ کار کیوں بنتی جارہی ہے؟ طالبان کی حکومت کم وبیش پانچ سال پہلے بھی قائم تھی۔ طالبان کے اس پانچ سالہ عہد میں، وہ کچھ بہرحال نہیں ہوا جو گزشتہ چار برس سے جاری ہے۔ بلکہ یہ کہنے میں کوئی مبالغہ نہیں کہ گزشتہ پینتالیس برس سے آتشکدہ بنے افغانستان اور آتی جاتی مختلف النوع حکومتوں کے باوجود پاکستان کے خلاف کبھی دہشت گردی کی ایسی منظم، مسلسل اور خوں آشام کارروائیاں نہیں ہوئیں جو موجودہ افغان انتظامیہ کے چار سالہ عہد میں ہوئیں۔ گزشتہ برس، 2024ءمیں 2546 افراد، دہشت گردی کا لقمہ بنے جن میں مسلح افواج کے سینئر افسران کی بڑی تعداد شامل تھی۔ اس سال کے پہلے نو مہینوں میں، لقمہ دہشت گردی بننے والوں کی تعداد 2414تک پہنچ چکی ہے۔ اِس قدر خون ریزی کے بارے میں افغانستان کا محض یہ کہہ دینا کہ ’’یہ پاکستان کا داخلی معاملہ ہے۔‘‘ پست درجے کا مذاق ہی کہلایا جاسکتا ہے۔
پاکستان کی جغرافیائی اہمیت اس کو عالم اسلام میں ایک غیر معمولی مقام دلاتی ہے۔ ایک طرف بحیرہ عرب ہے جو ایک آبی شاہراہ ہے، دوسری طرف گلوب پر غیر معمولی اہمیت رکھنے والے چین، ہندوستان اور ایران جیسے ممالک ہیں۔ تیسری طرف افغانستان ہے جو وسطی ایشیائی ریاستوں کے لیے گیٹ وے کی حیثیت رکھتا ہے۔ امریکا اور اس کے چالیس اتحادیوں کا غیر معمولی نقصانات اٹھانے کے باوجود اس خطے کو چھوڑنے سے گریز اس کی بے انتہا اہمیت ظاہر کرنےکے لیے کافی ہے۔ عالم اسلام کی سب سے بڑی اور مضبوط فوج پاکستان کی ہے جو جدید ترین ہتھیاروں سے لیس ہے۔ عالم ِکفر کو کسی اسلامی ملک میں اِس قسم کی تربیت یافتہ، عددی طور پر بہت بڑا حجم رکھنے والی اور اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کا دنیا بھر سے لوہا منوانے والی فوج کا وجود کسی طور قابل قبول نہیں۔ اسی لیے ہندوستان کی سرتوڑ کوشش ہے کہ وہ پاکستان کو نیچا دکھائے ۔ ایسے میں برادر اسلامی ملک افغانستان کا ہندوستان کے ساتھ گٹھ جوڑ کفریہ طاقت کی تقویت کا باعث بنے گا جو کسی طرح بھی جائز نہیں ہے۔
یاد رکھیے ! پاکستان عالم اسلام کا واحد ایٹمی صلاحیت سے لیس ملک ہے۔ بلکہ اس وقت اس کا شمار دنیا کے ان آٹھ ممالک میں ہوتا ہے جو ایٹمی طاقت کہلاتے ہیں۔ آج پاکستان کو اسی جوہری صلاحیت سے محروم کرنے کے لیے عالم کفر ہر سطح تک جانے کے لیے تیار ہے۔ پاکستان کی اِسی جوہری صلاحیت پر بھروسا کرکے بہت سے اسلامی ممالک اپنے دشمنوں کے خوف سے آزاد ہیں۔ حرمین شریفین کی طرف اٹھنے والی میلی نگاہوں کے راستے میں ایک بڑی رکاوٹ پاکستان کی فوجی اور جوہری صلاحیت ہے جس کا ماضی میں ان کو تجربہ ہوچکا ہے۔ سعودی عرب کےپاکستان کے ساتھ دفاعی معاہد ے نے عالمی سطح پر پاکستان کو ہیرو اور ناقابل تسخیر بنادیا ہے۔ ایک درجن سے زائد مسلم ممالک پاکستان سے دفاعی معاہدہ چاہتے ہیں۔ ان تمام خصوصیات کو دیکھتے ہوئے پاکستان کو بلا شرکت غیرے عالم ِاسلام کا قائد اور دنیا کا رہنمامانا جاسکتا ہے۔ اس ملک کو پہنچنے والا کوئی بھی نقصان در حقیقت دین، دینی اداروں، دینی محنتوں اور اسلامی تہذیب و تمدن کا نقصان ہوگا اور چو نکہ بظاہر کوئی متبادل جگہ یا ملک بھی نظر نہیں آرہا جہاں کئی صدیوں کی محنت کے اس اثاثے کو ٹھکانہ مل سکے تو ان حالات میں اس بات کو بخوبی سمجھا جا سکتا ہے کہ اس ملک کو کوئی نقصان پہنچا تووہ دین کوبھی پہنچنے والا ناقابل تلافی نقصان ہوگا۔
افغانستان کے ساتھ پائیدار تعلقات کے لیے پاکستان کو دو کام کرنے چاہیے ۔ پہلا کام طویل المدتی اور صبرآزما ہے۔ یہ اسلام کوغالب وقائم کرنے کا نبویؐ فریضہ ہے جوان دونوں برادرپڑوسی ملکوں کو ادا کرنا ہے۔ ان دونوں میں اسلام کے قیام وغلبے کا مطلب پورے عالم اسلام کو صراط مستقیم و سواء السبیل پر لانا ہے۔ عالمی غلبہ اسلام ، حضرت مہدیؑ کی مدد اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ مل کرعالم کفراور دجال کو شکست دینے کے لیے بھی لشکروں کے جانے کاذکراسی سرزمین کے بارے میں ملتا ہے جس میں یہ ممالک واقع ہیں۔ اِس لیے یہاں دین اسلام کے نفاذ کی کوششیں تیزترہونی چاہیں نہ کہ باہمی جھگڑوں میں پڑکروقت ضائع کرنا چاہیے۔
دوسرا فوری کام یہ کرنا ہے کہ کسی جذباتی نعرے بازی کے پیچھے لگنے کی بجائے واقعات اور حالات کا مکمل طور پر غیر جذباتی ہو کر مطالعہ کیا جانا چاہیے کہ مسائل کیا ہیں اور کون سے مسائل کس حد تک حل ہو سکتے ہیں ؟ دنیا بھر میں امن لانے کے لیے اور ایک دوسرے کو برداشت کرنے کے لیے سب سے مضبوط سیڑھی معاشی تعلقات ہوتے ہیں ۔ اگر ہم ریجنل کنیکٹیویٹی، جو جنوبی ایشیا سے وسطی ایشیا تک اور دونوں ممالک کے مابین بھی موجودہ سطح سے بہت بلند ہو، کو ممکن بنا دیں تو اس سے بہرہ مند کاروباری افراد اب وہ چاہے افغان طالبان کے سرکردہ افراد ہی کیوں نہ ہو ں جنگ سے اجتناب کریںگے ۔ اگر ہم کوئی مشترکہ بزنس ماڈل دونوں ممالک کے مابین نہ بنا سکے تو پھر سر درد برقرار رہے گا چاہے وقتی طور پر افاقہ ہی کیوں نہ ہو جائے ۔
آخر میں ہم پاکستانی اورافغانی مسلمانوں سے درخواست کریں گےکہ وہ موجودہ کشیدہ صورت حال کے دوران اپنے اپنے ملکوں کی حمایت میں اتنے آگے نہ جائیں کہ باہمی دشمنی ونفرت کو ہوا دینے لگیں ۔ دونوں طرف کے عوام صبروتحمل سے کام لیں اور حق وسچ کا ساتھ دیں۔ پراپیگنڈے کا شکار نہ ہوں اور امن وسلامتی کی دعائیں کریں۔ پاکستانی عوام کو معلوم ہوناچاہیے کہ عام افغانی پاکستان اور کشمیریوں کا ہم نوا ہے اور پاکستان اور کشمیریوں کی قربانیوں کو سمجھتا ہے۔
اللّٰهُمَّ آرِنَا الْحَقَّ حَقًّا وَارْزُقْنَا اتِّبَاعَهُ وَ اَرِنَا الْبَاطِلَ بَاطِلًا وَارْزُقْنَا اجْتِنَابَهُ