(گوشۂ تربیت) حقیقتِ توکل - مرکزی شعبہ تعلیم و تربیت تنظیم اسلامی

6 /

حقیقت ِتوکّل

مرکزی شعبہ تعلیم و تربیت تنظیم اسلامی

انسان کا اپنی آرزو، خواہش یا ضروریات کے لیے  جائز وسائل کو اختیار کرنا، اللہ سے دعا کرنا، اور یہ یقین  رکھنا کہ وسائل تو میں نے مسنون درجہ میں اختیار کیے ہیں،لیکن میری خواہشات اور ضروریات پوری کرنے والی تو صرف اللہ کی ذات ہے، وہ چاہے گا تو میرا یہ کام ہو جائے گا، وگرنہ نہیں۔ اسی طرح کوئی بیماری یا مشکل ہو تو اُسے دور کرنے کے لیے دوا استعمال کرنا اور مشکل کے حل کے لیے جائز ذرائع اختیار کرنا، اِس یقین کے ساتھ کہ شفا دینے والا اور مشکل سے نجات دینے والا صرف اللہ تعالیٰ ہی ہےاسے توکل کہتے ہیں۔
یہ رویہ توکل کے خلاف ہے کہ انسان خود تو کچھ نہ کرے اور اللہ پر بھروسا کرنے کا دعویٰ کرے۔ یہ رویہ اِس لیے بھی درست نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل و شعور سے نوازا ہے، اور اگر انسان اپنی اس وَدیعت شدہ صلاحیت سے کام نہ لے تو گویا وہ اللہ تعالیٰ کی ناشکری کر رہا ہے۔ چرند و پرند کے لیے اللہ تعالیٰ نے خود اُن کے   حسبِ حال روزی کا بندوبست کر رکھا ہے، تاہم وہ بھی اپنی اپنی صلاحیت کے مطابق رزق حاصل کرنے کے لیے محنت کرتے ہیں۔
قرآنِ مجید میں بار بار اللہ تعالیٰ پر توکل کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ سورۃ آلِ عمران آیت 123، سورۃ المائدہ آیت 61، سورۃ التوبہ آیت 51، سورۃ التغابن آیت 13، اور سورۃ المجادلہ آیت 10 میں یہ الفاظ تکرار کے ساتھ وارد ہوئے ہیں:
{وَعَلَی اللہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ(122)} ’’ اور اہلِ ایمان کو اللہ ہی پر بھروسا کرنا چاہیے۔‘‘
انسان کو چاہیے کہ سوچ سمجھ کر اپنے کام کے لیے جائز راستہ اختیار کرے۔پھر اللہ تعالیٰ سے دعا کرے اور اُس پر ہی بھروسا کر کے اُس کام کو سرانجام دے۔ اپنی فکر و فہم اور غور و فکر کے مطابق جائز اسباب اختیار کرنا بھی ضروری ہے، لیکن ان ظاہری اسباب ہی کو فیصلہ کن سمجھنا توکل کے خلاف ہے۔
مریض اگر ڈاکٹر کے پاس جا رہا ہے تو وہ جائز اسباب اپنا رہا ہے۔ اُسے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ اسی ڈاکٹرکے ہاتھ میں شفا ہے، بلکہ وہ سمجھتا ہے کہ اسباب میں تاثیر اللہ تعالیٰ ہی ڈالتا ہے۔ ایک شخص کو اگر اگلے دن صبح سفر پر جانا ہے، تمام اسباب کا اُس نے انتظام کر رکھا ہے، اب اللہ تعالیٰ کو منظور ہوگا تو اس کے فراہم کردہ اسباب اس کے کام آئیں گے، وگرنہ نہیں۔ اِنْ شَاءَ للّٰهُ  کا مطلب بھی یہی ہے کہ اسباب تو تمام مہیا ہیں، مگر اللہ کو منظور ہو تو یہ اسباب نتیجہ خیز ہوں گے، ورنہ نہیں۔
البتہ چونکہ اللہ تعالیٰ اسباب کا محتاج نہیں، اس لیے کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ بغیر اسباب کے بھی اللہ تعالیٰ کسی شخص کی حاجت یا چاہت پوری کر دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ  تو مُسَبِّبُ ٱلْأَسْبَابِ ہے، اس کی مرضی ہو تو وہ خود کسی کے لیے اسباب بھی پیدا کر دیتا ہے جن کو اختیار کر کے بندہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو جاتا ہے۔
الغرض ترکِ اسباب نہ توکل کی حقیقت میں شامل ہے، نہ اس کے لیے شرط ہے۔ چونکہ ظاہری اسباب نظر آتے ہیں، لہٰذا بندہ اکثر دھوکہ کھا جاتا ہے اور اُن پر اعتماد کر لیتا ہے۔ ان اسباب کا کامیاب ہونا یا ناکام ہو جانا   اللہ تعالیٰ ہی کے اختیار میں ہے۔ انسان اگر پورے یقین کے ساتھ اللہ پر توکل کرے تو اللہ تعالیٰ اُس کے لیے کافی ہو جاتا ہے، جیسا کہ سورۃ الطلاق آیت 3 میں ارشادِ ربانی ہے:
{وَمَنْ یَّـتَوَکَّلْ عَلَی اللہِ فَہُوَ حَسْبُہٗ ط} ’’اور جو اللہ پر بھروسہ کرے تو وہ اس کے لیے کافی ہے۔‘‘
اسی طرح سورۃ الزمر آیت نمبر 38 میں نبی اکرم ﷺ کو خطاب کر کے فرمایا:
{قُلْ حَسْبِیَ اللہُ ط عَلَیْہِ یَتَوَکَّلُ الْمُتَوَکِّلُوْنَ(38)} ’’ کہہ دو! میرے لیے اللہ ہی کافی ہے، اسی پر بھروسا کرنے والے بھروسا کرتے ہیں۔‘‘
توکل یہ ہے کہ انسان اپنی سی کوشش اور جدوجہد کر کے اپنا معاملہ اللہ پر چھوڑ دے۔ یہی اسلام کی تعلیم ہے، اور یہی حق ہے۔ نفع نقصان کسی کے ہاتھ میں نہیں، اسی لیے بس اللہ تعالیٰ کے سامنے ہاتھ پھیلانا ہی حق ہے، اور اپنا معاملہ اُس کے سپرد کرنا ہی کافی ہے۔
پرندے اللہ پر بھروسا کر کے صبح اپنے آشیانوں سے نکلتے ہیں اور شام کو پیٹ بھر کر واپس لوٹتے ہیں۔   نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
’’اگر تم اللہ تعالیٰ پر بھروسا کرو جیسا کہ توکل کا حق ہے تو وہ تمہیں اس طرح رزق دے گا، جیسا کہ پرندوں کو رزق دیتا ہے۔ وہ صبح کو بھوکے نکلتے ہیں اور شام کو پیٹ بھرے اپنے گھونسلوں میں آ جاتے ہیں۔‘‘(ترمذی عن عمر بن الخطاب)
چونکہ اُن کو روزی کمانے کے لیے عقل و شعور اور مناسب اسباب نہیں دئیے گئے، اس لیے ان کا اللہ پر یہ توکل درست ہے، مگر انسان کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنا معاملہ حل کرنے کے لیے پوری جدوجہد کرے اور بھروسا اللہ ہی پر رکھے۔ البتہ جدوجہد کرنا ایسا ہو کہ اس میں اللہ کی نافرمانی نہ ہو۔
اللہ تعالیٰ کے کارساز ہونے کا یقین ہی اصل ایمان ہے۔ تمام انبیاء کرام ؑ نے یہی تعلیم دی اور اسی پر عمل کیا۔ جب حضرت ابراہیم ؑ کو آگ میں ڈالنے کا فیصلہ کیا گیا تو وہ آگ کا الاؤ دیکھ کر بالکل خوف زدہ نہیں ہوئے، بلکہ اس یقین کے ساتھ آگ میں کود گئے کہ بھروسا تو اللہ کی ذات پر ہے، اس کی منشاء کے بغیر آگ بھی نہیں جلا سکے گی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آگ کو حکم دیا:
{ یٰنَارُکُوْنِیْ بَرْدًا وَّسَلٰمًا عَلٰٓی اِبْرٰہِیْمَ (69)} (الانبیاء)’’ اے آگ! ابراہیم پر ٹھنڈی اور سلامتی والی ہو جا۔‘‘
چنانچہ آپ ؑ اس آگ سے سلامتی کے ساتھ باہر نکل آئے۔
آج بھی ہو جو براہیمؑ کا ایماں پیدا
آگ کر سکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا
اللہ تعالیٰ ہم سب کو تمام معاملات میں صحیح معنوں میں اللہ کی ذات پر توکل اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین!