سوڈان میں ساری قتل و غارت گری اور لوٹ مار مال و دولت
کی لالچ کی وجہ سے ہورہی ہے ،
جس کو دینی فرائض کاجامع تصور سمجھ میں آجائے اور اس کے باوجود وہ
غلبۂ دین کی جدوجہد میں حصہ نہ لے تویہ نفاق کی واضح ترین نشانی ہے
انسانیت کی سب سے بڑی خدمت نظامِ عدلِ اجتماعی کا قیام ہے تاکہ انسان
انسانوں کی غلامی سے نکل سکیں ،
قیامِ پاکستان کا مقصد اسلامی نظام کا قیام تھا تو پھر اس کی خارجہ پالیسی
بھی اسلامی اصولوں کے مطابق ہونی چاہیے ۔
خصوصی پروگرام’’ امیر سے ملاقات‘‘ میں
امیر تنظیم اسلامی محترم شجاع الدین شیخ کے رفقائے تنظیم و احباب کے سوالوں کے جوابات
میزبان :آصف حمید
مرتب : محمد رفیق چودھری
سوال: اس سال تنظیم اسلامی، سالانہ اجتماع کے بجائے زونل اجتماعات کیوں منعقد کر رہی ہے؟
امیر تنظیم اسلامی:عام طور پر تنظیم اسلامی کا سالانہ اجتماع پاکستان بھر کی سطح پر نومبر ہی کے مہینے میں مرکزی اجتماع گاہ بہاولپور میں ہواکرتاہے لیکن اس مرتبہ سیلابی صورت حال کی وجہ سے ہماری مرکزی اجتماع گاہ بھی متاثر ہوئی ہے کیونکہ وہاں پانی کھڑا رہا ہے اور کئی کئی فٹ تک مٹی اور ریت چھوڑ گیا ہے ۔ ہم نے جائزہ لینے کے بعد طے کیا کہ انتظامی سطح پر وہاں اجتماع ممکن نہیں ہے ۔ لہٰذا یہ فیصلہ کیا گیا کہ زونز کی سطح پر اجتماع کا انعقاد ہوگا ۔ انتظامی سطح پر ہم نے تنظیم کو چھ زونز میں تقسیم کر رکھا ہے ۔دو زون کراچی میں ہیں ، ایک لاہور میں ، اسی طرح اسلام آباد ، ملتان اور پشاور میں ایک ایک زون ہے ۔ ہر سال ہماری کوشش ہوتی ہے کہ سالانہ اجتماع میں رفقاء کے ساتھ ساتھ احباب بھی شرکت کریں جو ڈاکٹر اسراراحمدؒ کو سنتے ہیں یا اُن سے محبت کرتے ہیں ۔ لیکن اس مرتبہ چونکہ زونل سطح پر اجتماع ہورہا ہے ، کہیں مسجد میں ، کہیں اکیڈمی میں اور وہاں جگہ کی کمی اور محدود انتظامات کا مسئلہ بہرحال ہوگا جس کی وجہ سے اس مرتبہ احباب کی شرکت نہیں ہو سکے گی تاہم احباب اور عوام کی سہولت کے لیے ہم خطابات کی ویڈیو ریکارڈنگ اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارمزکے ذریعے شیئر کریں گے جس سے عام لوگ بھی استفادہ کر سکیں گے ۔ ایک پیغام ہم نے رفقاء تنظیم کے لیے الگ سے بھی ریکارڈ کروایا ہے جس میں سالانہ اجتماع کے مقاصد اور اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے۔ منہج کی یاددہانی ، فکر کی مضبوطی ، دینی ذمہ داریوں کی یاددہانی ، رفقاء سے تعارف اور اُن کے دعوتی تجربات سے سیکھنا اور استفادہ کرنا اور پھر اپنے ایمان اور فکر کی تازگی کے ذریعے دعوتی عمل کو تیز تر کرنا دینی اجتماعات کے بنیادی مقاصد ہوتے ہیں ۔ اس کے علاوہ اللہ کی راہ میں جان و مال کو خرچ کرنا ، سفر اور گھر سے دوری کی تکالیف کو برداشت کرنا ، ان سب چیزوں سے ثواب بھی حاصل ہوتاہے اور تربیت بھی ہوتی ہے ۔
سوال: سوڈان میںاِس وقت جس ظلم اور جبر کا بازار گرم ہے ، اس کے بنیادی اسباب کیا ہیں ؟
امیر تنظیم اسلامی:افریقہ کے بہت سے علاقوں میں سونا، چاندی اور دیگر معدنیات موجود ہیں ، طاقتور قوتیں انہیں وہاں سے طاقت کے زور پر نکال کر لے جاتی ہیں اور دولت کے حصول کا ذریعہ بناتی ہیں ۔ یہ ساری قتل و غارت گری اور لوٹ مار اسی مال و دولت کے لالچ کی وجہ سے ہوتی ہے ۔دنیا میں جہاں بھی معدنیات زیادہ پائی جاتی ہیں، وہاں آج ایسے حالات کا سامنا ہے ، پاکستان میں بھی بلوچستان اور خیبر پختونخوا کا امن بھی اسی وجہ سے داؤ پر لگا ہوا ہے ۔ سوڈان کے مسلمانوںمیں دینی جذبات بھی موجود ہیں اور وہ علاقہ ناجائز اسرائیل سے زیادہ دور بھی نہیں ہے۔ صہیونیوں کا گریٹر اسرائیل کا جو منصوبہ ہے اس میں دینی جذبات رکھنے والے مسلمانوں کو رکاوٹ سمجھا جاتاہے ۔ لہٰذا سوڈان میں مسلمانوں کا خون بہائے جانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے ۔ حدیث رسول ﷺ ہے کہ عنقریب قومیں تم پر ایسے ٹوٹ پڑیں گی جیسے کھانے پر دعوت دی جاتی ہے ۔ پوچھا گیا :یارسول اللہﷺ! کیا اس وقت ہم تعداد میں کم ہوں گے ۔ فرمایا : تم بہت بڑی تعداد میں ہوگے مگر اللہ تمہارے دشمنوں کے دلوں سے تمہارا رعب نکال دے گا اور تمہارے دلوں میں وہن کا مرض ڈال دے گا ۔ پوچھا گیا : یارسول اللہ ﷺ !وہن کیا ہے ؟ فرمایا : ((حب الدنیا وکراھیۃ الموت)) ’’ دنیا کی محبت اور موت سے نفرت۔‘‘( سن ابی داؤد)
آج اُمت کا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے ۔یہ دنیا کی محبت اور لالچ ہی ہے جو مسلمانوں کے ہاتھوں مسلمانوں کا خون بہا رہی ہے۔ اِس خونی کھیل میں دو مسلم ممالک کے حکمران بھی ملوث ہیں ۔ لیکن اس ساری صورتحال کا فائدہ اُن اسلام دشمن قوتوں کو پہنچ رہا ہے جو اُمت کو تقسیم کرکے اپنے کنٹرول میں رکھنا چاہتی ہیں اور وہ نہیں چاہتیں کہ جہاں مسلمانوں میں دینی جذبات ہوں وہاں امن اور استحکام پیدا ہو ۔ دشمن کی یہی پالیسی ہمیں اپنے خطہ میں بھی نظر آتی ہے جہاں ایک طرف پاک افغان کشیدگی ہے اور دوسری طرف دشمن ہمارے ایٹمی دانت توڑنے کی باتیں کر رہے ہیں۔ اللہ کے رسول ﷺ کی حدیث ہے کہ ایسا وقت آئے گا جب قاتل کو معلوم نہیں ہوگا کہ وہ کیوں قتل کر رہا ہے اور مقتول کو بھی علم نہیں ہوگا کہ اُسے کیوں قتل کیا جارہا ہے ، یہ دونوں جہنمی ہوں گے ۔ بدقسمتی سے آج مسلمان بھی اس صورت حال کا شکار ہیں ۔ الا ماشاء اللہ !
سوال: اس وقت مسلمانوں کا عمومی کردار کیساہے ؟
امیر تنظیم اسلامی:سچا مسلمان تو وہ ہے جس کے دل میں ایمان ہو ، آخرت کی جوابداہی کا احساس ہو ، اُس کے اعمال اور کردار میں ایمان کی جھلک ہو۔ اس کے برعکس اگر زبان پر دعویٰ تو اسلام کا ہو لیکن دل میں نہ ایمان ہو اور نہ ہی کردار و اعمال میں اُس کی جھلک ہو ، اسلام دشمنوں کے ساتھ تعلقات ہوں تو پھر منافقت اور کس چیز کا نام ہوگا ؟ بخاری ومسلم کی ایک حدیث کے مطابق منافق کی چار نشانیاںبتائی گئی:’’جب بات کرے تو جھوٹ بولے، وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے ، امانت میں خیانت کرے اور جھگڑا ہو جائے تو گالم گلوچ پر اُتر آئے ۔ ‘‘ جس میں یہ ساری نشانیاں ہوں وہ حدیث کے مطابق پکا منافق ہے ۔ ڈاکٹر اسراراحمدؒ جب حقیقتِ نفاق کے موضوع پر کلام کرتے تھے تو فرماتے تھے کہ جس کو دین اور دینی فرائض کا جامع تصور سمجھ آجائے کہ دین ایک مکمل نظام ِحیات ہے اور انفرادی اور اجتماعی زندگی کے ہر گوشہ پر اپنا نفاذ چاہتاہے لیکن اس کے باوجود وہ دین کے غلبہ اور اقامت کی جدوجہد نہ کرے تو یہ نفاق کی واضح ترین نشانیوں میں سےہے ۔ آج ہمیں معلوم ہے کہ یہ ملک اسلام کے غلبے کے لیے حاصل کیاگیا تھا اور ختم نبوت کے بعد یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ اللہ کے دین کے غلبے اور نفاذ کے لیے جدوجہد کریں کیونکہ اللہ تعالیٰ اس کا حکم دے رہا ہے : ’’قائم کرو دین کو۔اور اس میں تفرقہ نہ ڈالو۔‘‘(الشوریٰ:13)
لیکن اِس واضح حکم کے باوجود ہم دین کے قیام و نفاذکے لیے کچھ نہیں کر رہے ، اِس کے برعکس ہمارے تعلقات دین دشمنوں کے ساتھ بڑھ رہے ہیں تو یہی نفاق کی وہ کیفیت ہے جس کی قرآن میں بار بار نشاندہی کی گئی ہے ۔
سوال: منہج انقلاب ِنبوی ﷺ سے سبق ملتا ہے کہ انسانیت کی فلاح و بہبود کے کام کرنا اسلامی تعلیمات کے عین مطابق ہے۔ اس وقت ملک میں دو تنظیمیں ایسی ہیں جو سیلاب اور زلزلے جیسے قدرتی آفات میں سب سے بڑھ کر متاثرین کی مدد کر رہی ہیں ۔ تنظیم اسلامی ایسے فلاحی اقدامات کیوں نہیں کرتی؟(حسن ریاض، چکلالہ راولپنڈی)
امیر تنظیم اسلامی:اسلام خدمت خلق اور خدمت انسانیت کی تعلیم دیتا ہے۔ مغرب کے سوشل ویلفیئر کے تصور سے بہت پہلے اسلام نے انسانیت کی خدمت کی نہ صرف عظیم مثالیں قائم کیں بلکہ اعلیٰ تعلیمات بھی دی ہیں ۔ بھوکوں کو کھانا کھلانا ، یتیموں اور مسکینوں کی مدد کرنا ، مسافروں اور محتاجوں کی ضروریات کا خیال رکھنا ، کمزور اور ضعیفوں کا سہارا بننا ، یہ سب وہ خدمات ہیں جن کا قرآن اور حدیث میں بار بار حکم دیا گیا ہے ۔ مسلم شریف میں حدیث قدسی ہے ۔ اللہ فرمائے گا اے میرے بندے! میں بھوکا تھا، تو نےمجھے کھلایا نہیں ،میں پیاسا تھا، تو نے مجھے پلایا نہیں، میں بیمار تھا تو نے میری عیادت نہ کی اور میں بے لباس تھا تو نے مجھے لباس نہ دیا؟ بندہ عرض کرے گا: اللہ! تو رب العالمین ہے ، تجھے اِن باتوں کی کیا حاجت ہے؟ اللہ فرمائے گا : میرا فلاں بندہ بھوکا تھا، پیاسا تھا، بے لباس تھا، بیمار تھا، تو نےاُسے کھلایا ہوتا پلایا ہوتا عیادت کی ہوتی لباس دیا ہوتا تومجھے پا لیتا۔انسان تو بڑی بات ، اسلام جانوروں کے ساتھ بھی حسن سلوک کی تعلیم دیتاہے ۔ احادیث میں ذکر ہے کہ کتے کو پانی پلانے کی وجہ سے ایک شخص کی مغفرت کر دی گئی اور ایک بلی کے بھوکا مرجانے کی وجہ سے ایک عورت کو جہنم کی سزا ملی۔ مغرب کا تصورِ خدمت ِ خلق صرف اس مادی دنیا تک محدود ہے لیکن اسلام سب سے بڑی خدمت اس کو سمجھتا ہے کہ لوگوں کو جہنم کی آگ سے آزاد کیا جائے ۔ بخاری شریف میں حدیث ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا : لوگو ! تمہارا حال یہ ہے کہ تم جہنم کی آگ میں گرنے کے لیے بھاگے جارہے ہو اور میں تمہیں پکڑ پکڑ کر اس آگ سے بچانا چاہتا ہوں ۔ مغرب صرف جسم اور ظاہر کو دیکھتا ہے لیکن اسلام روح اور باطن کی فلاح بھی چاہتا ہے ۔ سب سے بڑھ کر روح کے بارے میں فکرمند ہونا ضروری ہے۔ قرآن میں یہ نہیں کہا گیا کہ بچوں کے لیے گھر بناؤ ، گرمی لگے تو اے سی چلاؤ ، بھوک لگے تو کھانا کھلاؤ کیونکہ اس دنیا میں تو ایک چڑیا بھی اپنے بچوں کو پال لیتی ہے ، ان کے لیے گھونسلہ بنا لیتی ہے۔ اس لیے قرآن میںخود کی اور اپنے اہل و عیال کی آخرت کو بچانے کی فکر دلائی گئی ہے :
{قُوْٓا اَنْفُسَکُمْ وَاَھْلِیْکُمْ نَارًا}(التحریم:6) ’’ بچائو اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اُس آگ سے۔‘‘
اللہ کے رسول ﷺ غریبوں کی مدد بھی کرتے تھے ، یتیموں اور مسکینوں کا خیال بھی رکھتے تھے ، بوڑھی اور ضرورت مند خواتین کے گھر جاکر ان کے کام بھی کرتے تھے۔ تجارت سے جو منافع حاصل ہوتا، اُسے ضرورت مندوں میں تقسیم کردیتے تھے لیکن جب اللہ کا حکم آگیا کہ :
{قُمْ فَاَنْذِرْ (2) وَرَبَّکَ فَکَبِّرْ (3)} (المدثر)’’آپؐ اٹھئے اور (لوگوں کو) خبردار کیجیے۔اور اپنے رب کو بڑا کرو!‘‘
اس کے بعد آپؐ نے تجارت بھی چھوڑ دی اور اپنا سارا وقت دین کی دعوت اور اقامت دین کی جدوجہد میں صرف کیا ۔ انفرادی سطح پر خدمت ِخلق کے کام بھی جاری رہے لیکن سب سے بڑھ کر جو فریضہ انجام دیا وہ لوگوں کو جہنم کی آگ سے آزاد کروانا تھا ۔ معلوم ہو ا کہ یہ انسانیت کی سب سے بڑی خدمت ہے ۔ اِس کے بعد دوسرے نمبر پر اِس دنیا میں عدلِ اجتماعی کا نظام قائم کرناہے تاکہ انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے نکال کر رب کی بندگی کی طرف لایاجائے ۔ جیسا کہ فرمایا :
’’کسی گردن کا چھڑا دینا۔یا کھانا کھلا دینا بھوک کے دن میں۔اُس یتیم کو جو قرابت دار بھی ہے۔یا اُس محتاج کو جو مٹّی میں رُل رہا ہے۔‘‘(البلد:13تا16)
عدل کا نظام قائم ہو گا تو لوگوں کو جینے کا حق ملے گا ۔ دنیا اس کی برکات دیکھنا چاہے تو خلافت راشدہ کی تاریخ کا مطالعہ کر سکتی ہے ۔ خصوصاً حضرت عمر کے دور میں وہ مثالیں قائم ہوئیں جن کی مغرب بھی آج پیروی کر رہا ہے۔آپ فرماتے تھے کہ دریائے فرات کے کنارے ایک کتا بھی بھوک سے مرگیا تو عمر سے اس کے بارے میں پوچھا جائے گا ۔ ایک بوڑھا یہودی بھیک مانگتا ہوا دیکھاتو آپ ؓنے اُس کا وظیفہ مقرر کردیا اور فرمایا کہ جب تم جوان تھے تو کما کر ریاست کو بھی دیتے تھے ، آج تم ضعیف ہو تو ریاست کی ذمہ داری ہے کہ تمہاری کفالت کرے ۔ سیکنڈے نیوین ممالک میں عمرلاز کےنام سے آج بھی قوانین نافذ ہیں ۔ لہٰذا خدمت خلق کا اصل پیکج اسلام کے پاس ہے ۔حضرت عمربن عبدالعزیزؒ کے دور میں کوئی زکوٰۃ لینے والا نہیں ملتا تھا۔ ڈاکٹر اسراراحمدؒ کا ایک خطاب ’’خدمت خلق کا قرآنی تصور‘‘کے عنوان سے ہے جو کتابی شکل میں بھی شائع ہو چکا ہے ۔ اس میں بہت بہترین مثال انہوںنے پیش کی ہے کہ فرض کریں کسی بستی پر توپ کے گولے برسائے جارہے ہیں جس کی وجہ سے 50لوگ مرجاتے ہیں ، 50 زخمی ہو جاتے ہیں ، لوگ انسانی ہمدردی کے تحت زخمیوں کو ہسپتال پہنچاتے ہیں ۔ متاثرین کی مدد کرتے ہیں ، کچھ عرصہ بعد پھر توپ کے گولے برسائے جاتے ہیں اور لوگ زخمیوں کو ہسپتال پہنچاتے ہیں ، مردوں کو دفناتے ہیں اور متاثرین کی مدد کرتے ہیں ۔ تیسری مرتبہ پھر یہی ہوتاہے ۔ پھر ایک سیانے نے مشورہ دیا کہ کیوں نہ پہاڑ پر چڑھ کر گولے برسانے والوں کا خاتمہ کر دیا جائے تاکہ بستی میں امن ہو ۔ اصل خدمت یہ ہوگی ۔ اسی طرح آج ہزاروں تنظیمیں ہیں، این جی اوز ہیں جو فلاحی کام کر رہی ہیں ، لیکن عدل کا نظام نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کو انصاف نہیں مل رہا ،دولت کی غیر منصفانہ تقسیم ہے ، ظلم و جبر کا راج ہے ۔ جب تک اس نظام کو تبدیل نہیں کیا جائے گا لوگوں کو جینے کا حق نہیں ملے گا ۔ لہٰذا انسانیت کی سب سے بڑی خدمت باطل نظام کا خاتمہ کرنا ہے ۔ تنظیم اسلامی کے پلیٹ فارم سے ہمیں جب موقع ملتا ہے حسب توفیق خدمت خلق کے کام بھی کرتے ہیں ، زلزلہ اور سیلاب متاثرین کے لیے ، غزہ کے مسلمانوں کے لیے اور اکثر قدرتی آفات کے مواقع پر اپنا حصہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن نظام ِعدل کے لیے جدوجہد کرنا تنظیم اسلامی کا اولین ہدف ہے اور یہی منہج انقلاب نبوی ﷺ سے ہمیں درس ملتا ہے کہ انفرادی سطح پر خدمت خلق کے کام کیے جائیں لیکن اجتماعی سطح پر نظام عدل کے قیام کےلیے جدوجہد کی جائے تاکہ عادلانہ نظام قائم ہو ۔
میزبان:ایک دفعہ مسلم سینٹر آف نیویارک میں ایک فنڈ ریزنگ ڈنر تھا جس میں محترم ڈاکٹراسرار احمدؒ کو بھی خطاب کے لیے بلایا گیا تھا، عبدالستارایدھی مرحوم بھی وہاں موجود تھے ، امام کعبہ بھی موجود تھے ۔ عبدالستار ایدھی نے اپنی تقریر میں کہا کہ سب سے بڑا کام خدمت خلق ہے اور میں نے تو ضیاء الحق سے بھی کہا تھا کہ یہ حج وغیرہ بند کرو اور سارے پیسے خدمت خلق کے لیے دو۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ میں تو قرآن بھی صحیح طور پر پڑھنا نہیں جانتا ، لوگ پتا نہیں کیوں مجھے مولانا کہتے ہیں ۔ ڈاکٹر اسراراحمدؒ کی جب خطاب کی باری آئی تو اُنہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ سے بڑھ کر انسانیت کی خدمت کون کرسکتاہے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : لوگو ! تم بھاگ بھاگ کر جہنم کی طرف جارہے ہو اور میں تمہیں پکڑ پکڑ کر جہنم کی آگ سے بچانے کی کوشش کررہا ہوں ۔ لہٰذا سنت رسول ﷺ سے ثابت ہے کہ سب سے بڑی خدمت دین کو قائم کرنے کی جدوجہد کرنا ہے ۔
امیر تنظیم اسلامی:کراچی کی سڑکوں پر عبدالستار ایدھی کی تصاویر لگاکر اُن کے ذریعے ایک سلوگن پیش کیا گیا کہ میرا مذہب انسانیت ہے ۔ خدا کے بندو! کیا اسلام انسانیت کی فلاح نہیں سکھاتا ؟اس طرح کے سلوگن دے کر لوگوں کے ذہنوں میں مذہب بےزاری کے بیج بوئے جاتے ہیں کہ حج پر پیسہ خرچ کرنے کی کیا ضرورت ہے ، وہی پیسہ خدمت خلق پر لگاؤ ، قربانی کے جانور خریدنے کی بجائے غریبوں کی مدد کرو وغیرہ ۔ مولانا مودودی ؒ نے کہا کہ اس طرح تو پھر کل تم کہو گے کہ روزہ بھی نہ رکھو ، نماز بھی نہ پڑھو ۔ گویا تم دین کو ختم کرنا چاہتے ہو ۔ تم یہ کیوں نہیں کہتے کہ جوا اور سود ختم کردو ، ذخیرہ اندوزی اور ناجائز منافع خوری اور حرام خوری بند کرو۔ شادی بیاہ پر کروڑوں کی فضول خرچیوں پر پابندی لگاؤ ۔ دینی فرائض ہی کیوں تمہارا ٹارگٹ ہیں ، بڑے بڑے گناہوں اور ظلم و نانصافی کے کاموں کے خلاف کیوں نہیں بولتے ؟
سوال: تنظیم اسلامی نظام خلافت راشدہ کی داعی ہے۔ کیا وجہ ہے کہ تنظیم کے اندر خلافت قائم نہیں؟ (نوید صابر،جہلم)
امیر تنظیم اسلامی: شاہ ولی اللہؒ اور دیگر اسلاف نے خلافت کی جو شرعی تعریف بیان کی ہے اس کے مطابق خلیفہ زمین پر اللہ کا نمائندہ ہوتاہے ، یعنی زمین پر اللہ کے دین کو قائم کرنا اُس کی ذمہ داری ہوتی ہے ۔ یہ ذمہ داری پہلے انبیاء کے پاس ہوا کرتی تھی لیکن ختم نبوت کے بعد یہ ذِمّہ داری اُمت کے کندھوں پر آگئی ہے۔ جیسے ختم نبوت کے بعد شہادت علی الناس کی ذِمّہ داری، دعوت دین کی ذمہ داری اُمت کے کاندھوں پر ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
’’اللہ کا وعدہ ہے تم میں سے اُن لوگوں کے ساتھ جو ایمان لائیں اور نیک عمل کریں‘کہ وہ ضرور انہیں زمین میں خلافت (غلبہ) عطا کرے گا ‘جیسے اُس نے اُن سے پہلے والوں کو خلافت عطا کی تھی۔‘‘ (النور:55 )
ڈاکٹر اسراراحمدؒ فرماتے تھے کہ خلافت کی ذمہ داری اجتماعی طور پر اُمت کے کندھوں پر ہے ۔ یعنی دین کے قیام اور نفاذ کے لیے اجتماعی جدوجہد کرنا اُمت کا فریضہ ہے ، اس اجتماعیت کا ایک امام یعنی خلیفہ ہوگا ۔ اس اجتماعیت میں شامل ہر مسلمان اس بات کا ذِمّہ دار ہےکہ وہ اللہ کے دین کی نمائندگی کرے ، اس کے نفاذ کے لیے جدوجہد کرے ۔ سب سے پہلے اپنی ذات پر اسلام کو نافذ کرنا ہے ، اس کے بعد اپنے گھروالوں پر، پھر جہاں بھی میرا اختیارہے وہاں اسلام کے نفاذ کی جدوجہد کروں گا ۔ اس دائرہ کو آگے بڑھاتے جائیں تو جن کے پاس قوت ، اختیار اور اقتدار ہے ان پر سب سے زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے :
’’وہ لوگ کہ اگر انہیں ہم زمین میں تمکن ّعطا کر دیں تو‘وہ نماز قائم کریں گے‘اور زکوٰۃ ادا کریں گے‘اور وہ نیکی کا حکم دیں گے اور برائی سے روکیں گے۔‘‘ (الحج: 41 )
حکمرانوں کا نماز قائم کرنا عام آدمی کی نماز جیسا نہیں ہوگا ، اس سے مراد نماز کا پورا نظام قائم کرنا ہے ۔ اس میں مساجد کا انتظام ، ائمہ کا تقرر ، اُن کے وظیفے وغیرہ ہر چیز شامل ہوگی ۔ اس طرح زکوٰۃ و عشر کا بھی ایک نظام ہوگا ، صاحب ِنصاب لوگوں سے زکوٰۃ لے کر مستحق لوگوں تک پہنچانا حکومت کی ذِمّہ داری ہوگی ۔ اسی طرح نہی عن المنکر و امر بالمعروف کا پورا نظام قائم کرنا حکمرانوں کی ذمہ داری ہوگی۔ وہ فرائض اور واجبات پر عمل درآمد کرائیں گے اور بدی کو روکیں گے۔ شاہ ولی اللہؒ فرماتے ہیں کہ وہ تمام امور جن کو انجام دینے کی ذِمّہ داری رسول اللہ ﷺ پر تھی اب اُن کی نیابت کرتے ہوئے ان تمام امور کو انجام دینا ہی خلافت ہے اور اس کی ذمہ داری اُمت کے کندھوں پر ہے۔ حضورﷺ نے عبادات بھی سکھائیں، معاملات بھی سکھائے، اخلاقیات بھی سکھائیں اور اقامت دین کی جدوجہد میں قربانیاں بھی پیش کیں ۔ یہ سارے کام کرنا اُمت پر بھی لازم ہیں ۔ تنظیم اسلامی کا بنیادی مقصد منہج انقلاب نبوی ﷺ کے مطابق اقامت دین کی جدوجہد کرنا ہے ۔ یہ بیعت کے منصوص ، مسنون ، ماثور اور معروف طریقے پر قائم اجتماعیت ہے ، جس طرح خود حضور ﷺ نے بیعت لی ، خلفائے راشدین نے بیعت لی اور اس کے بعد جب کوئی بھی دینی اجتماعیت قائم ہوئی تو اکثر نے بیعت کی بنیاد پر ہی تحریک کھڑی کی ۔ ماضی قریب میں ہندوستان میں تحریک شہیدین بھی اس کی ایک مثال ہے ۔ تنظیم اسلامی میں اسی طرح شوریٰ کا نظام ہے جس طرح اسلاف میں تھا۔ تمام فیصلے قرآن و سنت کی روشنی میں اور مشاورت سے ہوتے ہیں ۔آج تک کسی امیر تنظیم نے خلاف شریعت معاملے کا حکم نہیں دیا ، الحمد للہ ۔ یہ طے ہے کہ جو بھی کوئی خلاف ِشریعت حکم دے گا تو اُسے نہیں مانا جائے گا ۔ اگر تنظیم کے اندر یا رفقاء میں کوئی خلاف شریعت چیز ہو تو اس کی جو بھی نشاندہی کرے گا تو ہم کھلے دل سے قبول کریں گے اور شکریہ بھی ادا کریں گے کہ اصلاح کا موقع فراہم کیا ۔خلافت کو سمجھنے کے لیے ایک اور اصول سورۃ الحجرات کی پہلی آیت میں فرمایا:
{لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللہِ وَرَسُوْلِہٖ } ’’ مت آگے بڑھو اللہ اور اُس کے رسول (ﷺ)سے ۔‘‘
اللہ اوراس کے رسول ﷺ نے جو حدود مقرر کردی ہیں ان کے اندر رہتے ہوئے ہم نے اپنی ذات ، گھر بار اور اپنے معاشرے پر دین کو غالب کرنے کی کوشش کرنی ہے ۔ یہی خلافت اور نمائندگی کا تقاضا ہے ، اس میں اگر تنظیم یا اس کے رفقاء کسی غلطی پر ہیں تو اس کی نشاندہی کریں ، ہم اصلاح کے لیے شکر گزار ہوں گے ان شاء اللہ !
سوال: پاکستان کی خارجہ پالیسی میں اسلامی نظریات اور فلسطینی مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے کیا تبدیلیاں ضروری ہیں؟یعنی اگراللہ کی نصرت سے کوئی دارالاسلام قائم ہو جاتا ہے تو ایسی اسلامی مملکت کی خارجہ پالیسی کے اصول کیا ہونے چاہئیں ؟
امیر تنظیم اسلامی:دارالاسلام ، دارالکفراور دارالمسلمین کے درمیان فرق کو اگرہم سمجھ لیں تو جواب آسان ہو جائے گا ۔ دارالکفر تو وہ ہے جہاں کفار رہتے ہیں یا کفر کا نظام چل رہا ہو ۔ اسی طرح جہاں مسلمان رہتے ہیں لیکن اسلام کا نظام نافذ نہیں ہے تو وہ دارالمسلمین کہلائے گا۔ دارالاسلام وہ ہوگا جہاں اسلام کا نظام چل رہا ہو ۔ پھر دارالاسلام کی سرحد نہیں ہوا کرتی کیونکہ اللہ کے پیغمبر کا مشن تو عالمگیر ہے اور اللہ کے پیغمبر ﷺ کی دعوت قیامت تک کے لیے ہے۔ لہٰذا کسی ایک خطہ میں اسلام قائم اور نافذ ہو جائے تو دین کا تقاضا یہ ہوگا کہ اس دائرہ کو تمام انسانیت تک پھیلایا جائے تاکہ تمام انسان اللہ کے نظام ِ عدلِ اجتماعی کی برکات سے مستفید ہو سکیں۔ خلافت کے قیام کے لیے جدوجہد کی ذِمّہ داری مسلمانوں پر ہے ۔ مسلمان اللہ کے رسول ﷺ کے نمائندے ہیں اور ان کا فریضہ ہے کہ تمام دنیا میں اسلام کا پیغام پہنچائیں ۔ یہ بھی دارالسلام کی خارجہ پالیسی میں شامل ہونا چاہیے ۔ پاکستان کا معاملہ یہ ہے کہ ؎
اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ِہاشمی
پاکستان دارالمسلمین میں بھی خاص جگہ رکھتاہے کیونکہ جدید دنیا میں یہ واحد ملک ہے جس کو ہم نے دارالاسلام بنانے کے لیے حاصل کیا تھا ۔ اس کا نام بھی اسلامیہ جمہوریہ پاکستان ہے ۔ ہمارے باپ دادا نے پاکستان کی طرف ہجرت اس لیے کی تھی تاکہ یہاں اسلام کا نظام قائم کیا جاسکے ورنہ انڈسٹری ، فلمیں ، گانے ، سود کا دھندہ ، بے حیائی کا طوفان تو بھارت میں بھی تھا ۔ جب قیامِ پاکستان کا مقصد اسلامی نظام کا نفاذ تھا تو پھر اس کی خارجی پالیسی بھی اسلامی اصولوں کے مطابق ہونی چاہیے ۔ ہاں ساری دنیا سے ہمارا رابطہ رہے گا۔قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ’’اے لوگو! ہم نے تمہیں پیدا کیا ہے ایک مرد اور ایک عورت سے‘اور ہم نے تمہیں مختلف قوموں اور قبیلوں میں تقسیم کر دیا ہے تا کہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔‘‘( الحجرات: 13)
ہم سب کا خالق و مالک ایک ہے ۔ ہم سب کےاولین والدین بھی ایک ہیں ۔ اس لحاظ سے پوری دنیا کے انسان ایک عالم گیر برادری ہیں ۔ اس سطح پر سب سے رابطہ تو رہے گا مگر خارجہ پالیسی قرآن وسنت کی روشنی میں ترتیب دی جائے گی کیونکہ سب کافر بھی برابر نہیں ہوتے ۔ جیسا کہ سورۃ الممتحنہ میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ جو کافر مسلمانوں سے جنگ کرتے ہیں ، ان کو ان کے گھروں سے نکالتے ہیں یاان کے دشمنوں کا ساتھ دیتے ہیں ان کے ساتھ حسن سلوک والا معاملہ نہیں ہوگا بلکہ ان کو اپنا دشمن سمجھا جائے گا۔البتہ کفار میں سے جو لوگ مسلمانوں سے جنگ نہیں کرتے ، ان کو کسی قسم کی اذیت نہیں پہنچاتے ، اُن کے ساتھ حسن سلوک والا معاملہ کیا جائے گا۔ مسلمانوں کا دلی تعلق مسلمانوں کے ساتھ ہی ہوگا ۔ قرآن ایک اور اصول بھی دیتاہے ۔ مثلاً :
{ تَـعَالَوْا اِلٰی کَلِمَۃٍ سَوَآئٍ م بَیْنَنَا وَبَیْنَـکُمْ اَلَّا نَعْبُدَ اِلَّا اللہَ}( آل عمران: 64 ) ’’ آئو ایک ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان بالکل برابر ہے‘کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں‘‘
اہلِ کتاب بھی اللہ کو مانتے ہیں ، مشترکات میں ہم ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کر سکتے ہیں ۔اسی طرح قرآن یہ اصول بھی دیتاہے :
{اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ }(الحجرات:10 ) ’’یقیناً تمام اہل ِایمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔‘‘
حضورﷺ فرماتے ہیں کہ اُمت ایک جسد واحد کی مانند ہے ، جسم کے ایک حصہ میں اگر تکلیف ہوتو پورا جسم درد محسوس کرتاہے ۔ غزہ کے معاملے میں اُمت خصوصاً حکمرانوں اور مقتدر طبقات کو جو درد محسوس کرنا چاہیے تھا وہ نہیں کیا گیا ۔ OIC کے چارٹر میں یہ لکھا ہوا ہے کہ مسجد اقصیٰ کی حفاظت کے لیے اور فلسطینی مسلمانوں کی آزادی کے لیے ہر رکن ملک پر فلسطینیوں کی اخلاقی ،مالی اور عسکری مدد کرنا لازم ہے ۔ سورۃا لنساء کی آیت 75 بھی پالیسی کا رُخ متعین کرتی ہے :
{وَمَا لَــکُمْ لَا تُـقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ} (النساء:75)’’اور تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم قتال نہیں کرتے اللہ کی راہ میں‘‘
یہ سب چیزیں ایک اسلامی ملک کی خارجہ پالیسی میں شامل ہونی چاہئیں ۔
سوال: بہت سے بزرگ شہریوں نے نیشنل سیونگ میں اپنی زندگی بھر کی جمع پونجی انوسٹ کر رکھی ہے ۔ اگر یہ انویسٹمنٹ ربا کے زمرے میں آتی ہے تو ان کے پاس جائز اور حلال آپشن کیا ہے جو محفوظ بھی ہو اور آمدن کا ذریعہ بھی ہو۔(انجینئر عمر سعید ملک،راولپنڈی)
امیر تنظیم اسلامی:سب سے پہلے تو یہ یقین ہونا چاہیے کہ تمام مخلوقات کے رزق کی ذِمّہ داری اللہ نے لے رکھی ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
{وَمَا مِنْ دَآبَّۃٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّا عَلَی اللہِ رِزْقُہَا} (ھود:6)’’اور نہیں ہے کوئی بھی چلنے پھرنے والا (جاندار) زمین پر ‘مگر اس کا رزق اللہ کے ذِمّہ ہے‘‘
معروف حدیث ہےکہ بچہ ماں کے بطن میں 4ماہ کا ہو جاتاہے تو اللہ تعالیٰ ایک فرشتے کو بھیج کر اس میں روح ڈالتا ہے، اسی وقت اُس کا رزق بھی طے ہو جاتاہے ۔ انسان کو ملے گا اُتنا ہی جتنا اس کے مقدر میں لکھ دیا گیا ہے ۔ اب یہ بندے کا امتحان ہے کہ وہ اُسے حلال ذرائع سے کماتاہے یا حرام کے ذریعے ۔ اگلی بات یہ ہے کہ مغربی تہذیب نے ہماری سوچ کو بدل دیا ہے ، مادہ پرستی عام ہے اور کچھ دینی تربیت کی کمی کی وجہ سے آج اولاد بوڑھے والدین کو بوجھ سمجھنے لگی ہے ۔ حالانکہ ان کی کفالت کی ذِمّہ داری اولاد پر عائد ہوتی ہے ۔ اولاد کی کمائی میں والدین کا بھی حق ہوتاہے ۔ اللہ فرماتاہے :
((هَلْ تُنْصَرُونَ وتُرْزَقُونَ إلَّا بضُعَفَائِكُمْ)) ’’تمہیں رزق تمہارےکمزوروں کی وجہ سےدیا جاتا ہے۔‘‘
جب دینی تربیت کا یہ پہلو ہم نظر انداز کرتے ہیں تو پھر اس طرح کے مسائل پیدا ہوتے ہیں ۔ بوڑھے اور بزرگ شہری جو ساری زندگی اولاد کو کما کر کھلاتے ہیں ، اب اپنی پنشن کو کہیں نہ کہیں انوسٹ کرکے بڑھاپے میں سہارا تلاش کرتے ہیں ۔ جتنے بھی سیونگ اکاؤنٹس ہیں ان کے بارے میں علماء کا اتفاق ہے کہ یہ ربا کے زمرے میں آتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے ربا کو حرام اور تجارت کو حلال قرار دیاہے۔ارشاد ہوتا ہے :{وَاَحَلَّ اللہُ الْبَیْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰواط}( البقرہ:275) ’’حالانکہ اللہ نے بیع کو حلال قرار دیا ہے اور ربا کو حرام ٹھہرایاہے۔‘‘
اب آپشن یہ بچتا ہے کہ کوئی ایسا ادارہ ہو جو نفع اور نقصان کی بنیاد پر انوسٹمنٹ کا موقع فراہم کرتا ہو اور اس میں سودی لین دین نہ ہو تو وہاں انوسٹمنٹ کی جا سکتی ہے ۔ البتہ یہ دور اخلاقی اعتبار سے تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے ، دیانت کے اعتبار سے خون سفید ہو چکا ہے ۔ کسی پر اعتبار نہیں کیا جا سکتاورنہ کیٹل فارمنگ میں بھی انوسٹمنٹ کی جاسکتی ہے ، اسی طرح اور بہت سےشعبے ہیں جہاںمضاربت کے اصولوں کے مطابق شراکت کی جاسکتی ہے ۔ اگر کوئی بوڑھا یا بوڑھی ایسی ہے جس کی کفالت کرنے والا کوئی بھی نہیں اور جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں تو شریعت جان بچانے کے لیے بقدر ضرورت حرام سے بھی استفادہ کی اجازت دیتی ہے مگر عیاشیوں کے لیے حرام کی قطعاً اجازت نہیں دیتی ۔ اصل میں ایسے لوگوں کی کفالت کی ذمہ داری ریاست پر عائد ہوتی ہے جن کا کوئی کمانے والا نہ ہو اور نہ وہ خود کما سکتے ہوں ۔ جیسا کہ حضرت عمر نے بوڑھےیہودی کو کہاتھا کہ تم گھر بیٹھو ، ریاست تمہاری کفالت کرے گی ۔ بہرحال انوسٹمنٹ کے لیے کوشش یہ کریں کہ نفع و نقصان کی بنیاد پر کام کرنے والے کسی ادارے میںہو ۔