(منبرو محراب) مال اور اولاد کا فتنہ (آزمائش) - ابو ابراہیم

6 /

مال اور اولاد کا فتنہ (آزمائش)


(سورۃ الانفال کی آیت 28 کی روشنی میں )

مسجدجامع القرآن ، قرآن اکیڈمی لاہور میں امیر ِتنظیم اسلامی محترم شجاع الدین شیخ  حفظ اللہ کے7نومبر 2025ء کے خطاب جمعہ کی تلخیص

خطبہ ٔمسنونہ اور تلاوتِ آیاتِ قرآنی کے بعد!
قرآن حکیم میں یہ موضوع بار بار آیا ہے کہ یہ دنیا اصل حقیقت نہیں ہےبلکہ یہ عارضی اور فانی ہے ۔ یہاں اللہ نے بندوں کو امتحان کے لیے بھیجا ہے ۔ اسی امتحان کے تعلق سے اس دنیا میں کچھ دنیوی محبتیں ہیں، کچھ ایسے متعلقات ہیں کہ جن کے ساتھ انسان کو زندگی گزارنا   ہے، ان سب کے بارے میں قرآن حکیم یہ تصور دیتا ہے کہ یہ سب بطور آزمائش تمہیں عطا کیے گئے ۔ اسی تناظر میںہم آج سورۃ الانفال کی آیت نمبر 28کامطالعہ کریں گے۔ان شاء اللہ ۔فرمایا :
{وَاعْلَمُوْٓا اَنَّمَآ اَمْوَالُکُمْ وَاَوْلاَدُکُمْ فِتْنَۃٌلا} ’’اور جان لو کہ تمہارے اموال اور تمہاری اولاد فتنہ ہیں‘‘
سورۃ الانفال مدنی سورت ہے اور اس میں   غزوہ بدر کے حوالے سے تبصرہ اور تفصیلات بھی آئی ہیں ۔ اس آیت سے قبل یہ تقاضا بیان ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺسے خیانت نہ کی جائے اور آپس کے معاملات میں خیانت نہ کی جائے ۔ اگلی آیت میں تقویٰ کا تقاضا ہے ،درمیان میں بتایا جا رہا ہے کہ یہ مال اوراولاد فتنہ ہے۔ قرآن حکیم میں فتنہ کا لفظ آزمائش اور امتحان کے لیے بھی استعمال ہوا ہے ، عذاب کے لیے بھی استعمال ہوا ہے ۔ جیسا کہ سورۃ الانفال ہی میں فرمایا : 
{وَاتَّقُوْا فِتْنَۃً لَّا تُصِیْبَنَّ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْکُمْ خَآصَّۃًج}(الانفال:25) ’’اور ڈرو اُس فتنے(عذاب) سے جو تم میں سے صرف گنہگاروں ہی کو اپنی لپیٹ میں نہیں لے گا۔‘‘
جب اللہ کا عذاب آتا ہے تو ہر خاص و عام پر آتا ہے البتہ جو لوگ نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیتے ہیں وہ عذاب سے بچ جاتے ہیں ۔ جیسا کہ سورۃ الاعراف میں اصحاب ِ سبت کا واقعہ بیان ہوا ہے ۔ اسی طرح فتنہ کا لفظ اسبابِ عذاب کے لیے بھی آیا ہے ۔ جیسا کہ فرمایا :
{ یَوْمَ ہُمْ عَلَی النَّارِ یُفْتَنُوْنَ 13} (الذاریات) ’’جس دن یہ لوگ آگ پر سینکے جائیں گے۔‘‘
یعنی فتنہ ایسی چیز ہے جس کے ذریعے لوگوں کو امتحان میں ڈالا جاتاہے ،مشکلات اور مصائب میں ڈالا جاتاہے ، انہیں سینکا جاتاہے ، جیسے بھٹی میںکسی دھات کو ڈالا جاتا ہے تو کھرا اور کھوٹا الگ ہو جاتاہے ۔ اسی طرح  جو واقعتاً اللہ اور اُس کے رسولﷺ کی اطاعت کرنے والے ہیں ، تقویٰ کے تقاضوں پر عمل کرنے والے ہیں، وہ اس امتحان میں کامیاب ہو جائیں گے۔ لیکن محض دعوے کرنے والے اور نعرے لگا نے والےبے عمل ناکام ہو جائیں گے ۔ مال اور اولاد دنیوی محبت کی دو بہت بڑی علامات بھی ہیں۔ اس دنیا کی حقیقت کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن میں    کم ازکم تین مرتبہ یہ فرمایا :{وَمَا الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَـآ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ(158)} (آل عمران)’’اور یہ دنیا کی زندگی تو اس کے سوا کچھ نہیں کہ صرف دھوکے کا سامان ہے۔‘‘
یہ دنیا کی محبت ، چمک ، لالچ سب فریب ہے ، ختم ہونے والی ہے ، کچھ بھی کام نہیں آئے گا سوائے نیک اعمال کے ۔ مولانا روم ؒ نے ایک مثال دی ہے کہ کشتی کا بقدر ضرورت حصّہ پانی میں رہے تو چلتی رہے گی لیکن اگر زیادہ حصّہ پانی میں چلاجائے تو ڈوب جائے گی ۔ اسی طرح ہمیں اس دنیا میں بقدر ضرورت رہنا چاہیے ، اگر اس میں زیادہ ڈوب کر اللہ کی بندگی کے تقاضے فراموش کر بیٹھے تو آخرت کی دائمی ناکامی مقدر بن جائے گی ۔ اللہ تعالیٰ محفوظ فرمائے ۔ 
اس دنیا کی اہمیت صرف ایک اعتبار سے ہے اور وہ یہ ہے کہ آخرت کی دائمی کامیابی یا ناکامی کا انحصار اس عارضی اور فانی دنیا کے اعمال پر ہے ۔ اللہ کے پیغمبر ﷺ نے فرمایا: تم میں سے کوئی اپنی انگلی کو سمندر کے پانی میں ڈالے اور نکال کر دیکھے کتنا پانی لگ کر آیا ۔دنیا کی زندگی کی مثال اس پانی کی سی ہے جو انگلی پر لگ کرآیا جبکہ آخرت کی زندگی کی مثال سمندر کی سی ہے (مسلم)
آپﷺ نے فرمایا: اِس دنیا کے مال و اسباب کی حیثیت اگر اللہ کی نگاہوں میں ایک مچھر کے پر کے برابر بھی ہوتی تو اللہ کسی کافر کو پانی کا ایک گھونٹ بھی نہ دیتا(مسند احمد)
ایک سچے مسلمان کی نظر میں اِس فانی اور چند روزہ دنیا اور اس کی چمک کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی ۔ وہ کہاں کا مسلمان ہےجو کافروں کی عارضی دولت اور عشرت دیکھے اور اس کے منہ سے رال ٹپکنا شروع ہو جائے ۔ سچا مسلمان تو وہ ہے جس کا ایمان اور یقین آخرت پر رہے اور اس کے دل میں آخرت کی فکر زیادہ ہو ۔ اسلام یہی سکھاتا ہے ۔ اسی وجہ سے جب ہم کسی کے انتقال کی خبر سنتے ہیں تو کہتے ہیں :     انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مومن کے نزدیک دنیاو مافیہا کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ صحابہ کرام ؇ کے ہمراہ تشریف لے جارہے تھے کہ راستے میں بکری کا مردار بچہ کچرے کے ڈھیر پر پڑا ہوا نظر آیا ۔ آپ ﷺ نے  فرمایا : تم میں سے کون اِس مردار کو ایک یا دو درہم میں خریدے گا ؟ کہا یا رسول اللہ ﷺ ! یہ تو بدبو دار اورمردار ہے ، اِسے کوئی کیوں خریدے گا؟آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ کی قسم جتنا بکری کا یہ مردار بچہ تم سب کی نظروں میں حقیر اور ذلیل ہے ، یہ دنیا اور اِس کا مال و اسباب اِس سے کئی گنا بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی نظروں میں ذلیل، حقیر اور کمتر ہے ۔ اس نظر سے ہم دنیا اور اس کے مال و اسباب کو دیکھیں گے تو  آخرت کی دائمی زندگی میں کامیاب ہوں گے۔ان شاء اللہ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے ۔ آمین ! البتہ دنیا کا مال دنیا کی ضرورت توہے ۔ اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے بعض چیزوں کو مرغوب بنایا ہے ۔ جیسے سورۃ آل عمران میں فرمایا : 
 ’’مزین کر دی گئی ہے لوگوںکے لیے مرغوباتِ دنیا کی محبت جیسے عورتیں اور بیٹے‘اور جمع کیے ہوئے خزانے سونے اور چاندی کے۔‘‘ 
یہ سب چیزیں مرغوباتِ دنیا میں شامل ہیں لیکن آگے فرمایا :  ’’یہ سب دُنیوی زندگی کا سروسامان ہے۔‘‘ (آل عمران:14)
یہ دنیا کی زندگی کا تھوڑا سا ساز و سامان ہےلہٰذا ضرورت کے مطابق انہیں اپنا نا پڑتاہے ۔ تبھی تو اس حوالے سے شریعت کے احکامات بھی ہیں۔ زکوٰۃ تب دیں گے جب مال ہوگا ۔ جب جائیداد ہوگی تو وراثت تقسیم ہوگی اور شریعت کے احکام لاگو ہوں گے ۔ اسی طرح اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا حکم ہے لیکن مال ہوگا تو اللہ کی راہ میں خرچ ہوگا۔زندگی گزارنے کے لیے مال و اسباب کی ضرورت  ہوتی ہے ۔ تاہم بنیادی طور پر مال بھی ایک فتنہ ہے ، امتحان ہے ۔ مال کی طمع انسان کو غفلت میں ڈال سکتی ہے ۔ سورۃ التکاثر میں فرمایا :{اَلْہٰىکُمُ التَّکَاثُرُ(1) حَتّٰی زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ(2)} ’’تمہیں غافل کیے رکھا ہے بہتات کی طلب نے!یہاں تک کہ تم قبروںکوپہنچ جاتے ہو۔‘‘
اگر مال کی محبت میں انسان اِس قدر ڈوب جائے کہ شرعی احکام سے بھی منہ موڑ لے ، اللہ کی بندگی کے تقاضے چھوڑ دے یا بندوں کے حقوق پامال کرے تو پھر یہ تباہی ہے ۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے : 
{یٰٓــاَیـُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَکُمْ وَاَھْلِیْکُمْ نَارًا}( التحریم:6)’’اے اہل ِایمان! بچائو اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اُس آگ سے‘‘
لیکن آج مال کی محبت اتنی زیادہ ہوگئی کہ اپنے لیے بھی وقت نہیں ہے کہ اللہ سے لو لگا کر اپنے نفس ، اپنی روح کا حق ادا کرنے کی کوشش کریں ۔ اللہ کے رسول ﷺ کی تعلیم تو یہ ہے کہ :
’’ تمہارے بدن کا بھی تم پر حق ہے، تمہاری آنکھ کا بھی تم پر حق ہے اور تمہاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے۔ ‘‘(صحیح بخاری)
 قرآن کریم میں ہم پڑھتے ہیں: 
{اِذَا زُلْزِلَتِ الْاَرْضُ زِلْزَالَہَا(1)} {وَاَخْرَجَتِ الْاَرْضُ اَثْقَالَہَا(2)}(الزلزال)’’جب زمین ہلائی جائے گی جیسے کہ ہلائی جائے گی۔اور زمین اپنے سارے بوجھ نکال کر باہرپھینک دے گی۔‘‘
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’زمین سونے چاندی سمیت تمام خزانے اُگل دے گی،قاتل دیکھ کر کہے گا کہ اسی(مال ) کی وجہ سے تو میں نے قتل کیا تھا، رشتہ دار ی توڑنے والا کہے گا:اسی وجہ سے تو میں نے رشتہ داری توڑی تھی،چور دیکھ کر کہے گا کہ اسی مال کی وجہ سے میرا ہاتھ کاٹا گیا تھا پھر سب اس مال کو چھوڑ دیں گے اور کوئی اس میں سے کچھ نہیں لے گا۔ ایک اور حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ ہر اُمّت کا کوئی فتنہ ہے اور میری امت کا فتنہ مال ہے۔ ‘‘اسی مال کی وجہ سے بھائی بھائی کا گلا کاٹ رہا ہے ، اولاد ماں باپ کے ساتھ ظلم کرتی ہے ، کمزور رشتہ داروں  کی جائیداد ہڑپ کرلی جاتی ہے ۔ جو زیادہ طاقتور ہیں وہ دو چار کنال نہیں بلکہ کئی کئی میل تک قبضہ کرکے بیٹھے ہوئے ہیں اور ہاؤسنگ سوسائٹیاں بنا رہے ہیں ۔ اسی مال کی وجہ سے قتل بھی ہوتے ہیں ، ڈاکے بھی پڑتے ہیں ، اِسی مال کی وجہ سے کرپشن اور رشوت کا بازار گرم ہوتاہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :”اللہ کی قسم! میں تمہارے متعلق فقر سے نہیں ڈرتا لیکن مجھے تمہارے متعلق اِس بات کا اندیشہ ہے کہ دنیا تم پر فراخ کر دی جائے گی جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فراخ کی گئی تھی، پھر تم اِس کے متعلق ویسے ہی رغبت رکھو گے جیسے اُنہوں نے اِس کے متعلق رغبت رکھی، اور وہ تمہیں ہلاک کر دے گی جیسے اُس نے انہیں ہلاک کر دیا۔‘‘
آج رسول اللہ ﷺ کے یہ الفاظ حرف بہ حرف سچ ثابت ہورہے ہیں ۔ رسول اللہ ﷺ نے یہ بھی فرمایا:  میری اُمت کے غرباء میری امت کے امراء سے 500 برس پہلے جنت میں جائیں گے ۔ اس لیے کہ انہیں کم حساب دینا پڑے گا ۔مال کا ہونا آزمائش ہے مگر زیادہ ہونا زیادہ بڑی آزمائش ہے ۔ اللہ کے رسول ﷺنے فرمایا: بندے کے قدم قیامت کے دن اپنی جگہ سے اُٹھ نہیں سکیں گے جب تک پانچ سوالات کے جوابات نہ دے ۔ ان میں ایک سوال یہ بھی ہوگا کہ مال کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا ۔ اسی مال کی وجہ سے اگر حرام میں پڑ گئے، ظلم اور تکبر کا راستہ اختیار کیا ، دوسروں کے حقوق غصب کیے تو آخرت میں دائمی ناکامی ہوگی لیکن اگر جائز طریقے سے مال کمایا ، اللہ اور بندوں کے حقوق ادا کیے ، اللہ کی راہ میں خرچ کیا تو یہی مال آخرت کی زندگی میں زیادہ اجر کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ جیسا کہ فرمایا :
 ’’مثال اُن کی جو اپنے مال اللہ کی راہ میں (اللہ کے دین کے لیے) خرچ کرتے ہیں ایسے ہے جیسے ایک دانہ کہ اُس سے سات بالیاں (خوشے) پیدا ہوں اور ہر بالی میں سو دانے ہوں۔‘‘ (البقرہ :261)
یعنی دس گنا سے لے کر 700 گنا تک آخرت میں اجر ملے گا اور اللہ جس کو چاہے گا اور بڑھا چڑھا کر عطا کرے گا۔ اللہ کے رسول ﷺفرماتےہیں :ہر دن اللہ کی طرف سے دو فرشتوں کا نزول ہوتا ہے،ایک کہتا ہے اے اللہ! جو تیری راہ میں دے رہا ہے، اُسے اور دے اور دوسرا کہتا ہے: اے اللہ جو روک رہا ہے تو اس کا رزق روک دے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا : تم کھجور کا ایک دانہ دے کر بھی جہنم کی آگ سے خود کو بچا سکتے ہو تو بچا لو ۔ اللہ کے رسول ﷺ کا فرمان ہے :
((کسب الحلال فریضہ بعد الفرائض ))’’رزق حلال کمانا فرض ہےمگر دیگر فرائض کے بعد ۔ ‘‘
یعنی صرف مال کمانا ہی زندگی کا مقصد نہیں ہے بلکہ پہلے دیگر دینی فرائض کو ادا کرنا ہے،اس کے بعد رزق حلال کمانے کی باری آئے گی ۔ اس کے یہ معنی بھی لیے جا سکتے ہیں کہ رزق کمانے کے معاملے میں تو کمی بیشی ہو سکتی ہے مگر دیگر فرائض میں کمپرومائز یا کمی بیشی ہرگز نہیں ہوسکتی ۔ لیکن آج پیسہ ہی سب کچھ سمجھ لیا گیا ہے ، پیسے کی خاطر تمام دینی فرائض کو پس پشت ڈالا جارہا ہے،حقوق اللہ اور حقوق العباد کو بھی پس پشت ڈالا جارہا ہے ۔ حالانکہ اُمتی کا سب سے بڑا فریضہ صحیح معنوں میں خود اللہ کا بندہ بن کر اللہ کی بندگی کی دعوت دینا اور اقامت دین کی جدوجہد میں اپنی جان و مال کو کھپانا ہے جس کے لیے صحابہ کرام ؇ نے اپنے گھر بار چھوڑے اور اپنی زندگیاں وقف کیں اور جو اللہ کے   رسول ﷺ کی 23 سال پر مشتمل سب سے بڑی سنت تھی ۔ 
مال کے بعد اولاد بھی ایک بڑی آزمائش ہے ۔ اللہ نے فرمادیا :{وَابْتَغُوْا مَا کَتَبَ اللہُ لَـکُمْ ص} (البقرۃ:187) ’’اور تلاش کرو اُس کو جو کچھ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے لکھ دیاہے۔‘‘ 
اولاد کا حصول نکاح کے مقاصد میں سے ایک بڑا اہم مقصد ہے تبھی تو گھر گھر ہستی کے معاملات آگے چلیں گے، معاشرہ پھلے پھولے گا ۔ ورنہ آج یورپ پریشان ہے ،  برطانیہ میںبچوں اور نوجوانوں کا گروتھ ریٹ 2 فیصد سے بھی نیچے آگیا ۔ وہاں کی لوکل خواتین کےہاں بچے پیدا نہیں ہورہے ، کیونکہ ایک ٹرینڈ بن گیا کہ نکاح نہیں کرنا ، ظاہرہے پھر غیر فطری زندگی گزارنے کے نتائج معاشرے کو بھگتنے پڑتے ہیں ۔جاپان والوں کا حال دیکھ لیں ، بوڑھے مر رہے ہیں، جوان موجود نہیں ہیں ، کراچی یونیورسٹی کو انہوں نے کہا ہم فنڈز دیں گے تم بچوں کو جاپانی زبان سکھاؤ ، ہم ان کو لے کر جائیں گے تاکہ نوجوانوں کا تناسب بڑھا سکیں ۔ فرانس والوں کو دوسری جنگ عظیم کے بعد مصیبت پڑ گئی کہ اُن کے پاس بچے ہی نہیں تھے۔ پھر حکومت نے کہا کہ بچے پیدا کرو، ریاست تمہیں سپورٹ کرے گی۔ یہ غیر فطری طرز ِزندگی کے تباہ کن نتائج ہیں ۔ اولاد کا ہونا ضروری ہے تب ہی گھر آباد ہوں گے اور معاشرے آگے بڑھیں گے ۔ اسلام اولاد میں بیٹے اور بیٹی کو یکساں اہمیت دیتاہے ۔ 
 ’’وہ پیدا کرتا ہے جو چاہتا ہے ۔جس کو چاہتا ہے بیٹیاں دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے بیٹے دیتا ہے۔‘‘(الشوریٰ :49)
اللہ تعالیٰ علیم بھی ہے ، قدیر بھی ۔اُس کو پتہ ہے کس کو کیا دینا ہے، کس کو کیا نہیں دینا۔ بیٹے ہوں یا بیٹیاں دونوں صورتوں میں آزمائش بھی ہیں ۔ ان کی اچھی تعلیم و تربیت کرکے انسان جنت کما سکتا ہے، بصورت دیگر یہی اولاد جہنم کا ذریعہ بھی بن سکتی ہے ۔ اللہ کے رسول ﷺ  نے فرمایا: یہ اولادبخل ، کنجوسی اور بزدلی کا باعث بن جاتی ہے، آدمی کمزور پڑ جاتا ہے اور یہ جنت کے پھول بھی ہیں۔پھر فرمایا : اب تم دیکھو ، تم کیا کر رہے ہو ۔ یعنی ایسا تو نہیں کہ اُن کی ہر جائز و ناجائز خواہش کو پوری کرنے کے لیے تم اللہ کے احکام کو پامال کر رہے ہو ؟ اگر ایسا ہے تو پھر اس امتحان میں تم ناکام ہو ۔ اولاد کی خاطر کسی شرکیہ طرزعمل میں پڑ جانا، یعنی اللہ کو چھوڑ کر غیروں سے اولاد مانگنا بھی تباہی اور ہلاکت ہے ۔ پھراولاد کی تربیت بھی ایک بڑا امتحان ہے ۔ اولاد کی پرورش کے لیے حلال و حرام کی تمیز کھو دینا اس امتحان میںبہت بڑی ناکامی ہے ۔ اولاد کو اللہ کا بندہ بنانا ، رسول اللہ ﷺ کا سچا اُمتی بنانا ، اللہ کے دین کے غلبے کی جدوجہد میں لگانا ، ان کو جہنم کی آگ سے آزاد کرنے کی کوشش کرنا ، یہ سب والدین کی ذمہ داریوں میں شامل ہے ۔ اسی لیے تو قرآن فرماتا ہے :
’’اے اہل ِایمان! بچائو اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اُس آگ سے۔‘‘(التحریم:6)
یہ اہم ترین بات ہے، نوٹ کر لیں۔ پورے قرآن کریم میں کہیں یہ نہیں لکھا ہوا کہ اولاد کے لیے گھر بناؤ ،بھوک لگے تو کھانا کھلاؤ، سردی آ جائے تو کمبل اوڑھا دو، گرمی لگے تو اے سی لگاؤ ،یہ کام توہر کوئی کر لیتا ہے ۔ چڑیا بھی بچوں کے لیے گھونسلہ بناتی ہے اور ان کو پال لیتی ہے ۔ قرآن میں جو حکم دیا گیا ہے وہ سب چیزوں سے اہم ہے کہ اپنے گھر والوں کو جہنم کی آگ سے بچاؤ ۔ یہ سب سے بڑاامتحان ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
 ’’ (اے نبی ﷺ !ان سے)کہہ دیجیے کہ اگر تمہارے باپ ‘تمہارے بیٹے‘تمہارے بھائی‘تمہاری بیویاں (اور بیویوں کے لیے شوہر)‘تمہارے رشتہ دار اور وہ مال جو تم نے بہت محنت سے کمائے ہیں ‘اور وہ تجارت جس کے مندے کا تمہیں خطرہ رہتا ہے ‘اور وہ مکانات جو تمہیں بہت پسند ہیں ‘( اگر یہ سب چیزیں) تمہیں محبوب تر ہیں اللہ‘اُس کے رسول(ﷺ) اور اُس کے راستے میں جہاد سے ‘تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ سنا دے۔اور اللہ ایسے فاسقوں کو راہ یاب نہیں کرتا۔‘‘(التوبہ :24)
اگر اولاد کی محبت نے ، مال اور تجارت کی محبت نے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے سے روک دیا، ان کی محبت اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت پر غالب آگئی تو یہ بھی امتحان میں ناکامی ہے ۔ پھر یہ ناکامی صرف اُخروی نہیں بلکہ دنیا میں بھی اللہ کے عذاب سے دوچار کر سکتی ہے ۔  لوگ کہتے ہیں جی میرے مرنے کے بعد میرے بچوں کا کیا ہوگا ۔ حالانکہ اصل میں تو یہ سوچنا چاہیے کہ مرنے کے بعد میرا کیا ہوگا۔  لیکن بدقسمتی سے آج ہماری ترجیحات کچھ اور ہیں ۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا : نیک اولاد صدقہ جاریہ ہے ۔ اگر حلال رزق سے پرورش کی ، دینی تعلیم و تربیت دے کر سچا اُمتی بنایا تو اولاد صدقہ جاریہ بنے گی ۔مسند احمد کی روایت ہے کہ جب اولاد والدین کے لیے مغفرت کی دعا کرتی ہے تو والدین کا آخرت میںایک درجہ بلند ہو جاتاہے ۔ زیر مطالعہ آیت میں آگے فرمایا :
{وَّاَنَّ اللّٰہَ عِنْدَہٗٓ اَجْرٌعَظِیْمٌ(28)} ’’اور یہ کہ اللہ ہی کے پاس ہے بڑا اجر۔‘‘
بے شک مال اور اولاد بہت بڑی آزمائش ہیں لیکن اگر ہم اللہ کے دین کے راستے پر چل کر اس آزمائش میں کامیاب ہوگئے تو یقیناً یہ بہت بڑی کامیابی بھی ہوگی اور آخرت میں اس کا اتنا بڑا اجر ملے گا جس کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے ۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے : 
’’ہر انسان اپنی کمائی کے عوض رہن ہو گا۔‘‘(الطور :21)
آخرت میں اعمال کے اعتبار سے کوئی کم درجے پر ہوگا کوئی زیادہ اعلیٰ مقام پر ہوگا ۔ لیکن اللہ تعالیٰ نیک گھرانے پر خصوصی کرم کرے گا اور کم درجے والوں کو اعلیٰ درجے والوں سے ملا دے گا اور اس طرح وہ جنتی گھرانہ ایک ہو جائے گا ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اُن جیسا بننے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین !
حالات حاضرہ 
ستائیسویں آئینی ترمیم کے لیے جوڑ توڑ اور جبر و ستم جو کچھ بھی ہورہا ہے وہ قوم کے سامنے ہے ۔ ہمارا کام یہ ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ کی سنت کے مطابق اور خیر خواہی کے جذبے کے ساتھ حکمرانوں اور مقتدر حلقوں کو نصیحت کر یں ، انہیں نیک مشورہ دیں ۔ ہمارا کہنا یہ ہے کہ ریاستیں افراد سے نہیں چلتیں ، نظام سے چلتی ہیں ، نظام کو مضبوط کیا جائے ، نہ کہ شخصیات کے لیے ، عہدوں کے لیے یا اپنے بچاؤکے لیے آئین میں ترمیم کی جائے ۔ اس ملک کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے تو اس کو حقیقی معنوں میں اسلامی بنانے کے لیے بھی کوئی ترمیم کردو ۔ ہم نے یہ ملک اِسی بنیاد پر لیا تھا ۔ اگر بنیاد ہی مضبوط نہیں ہوگی توجتنی مرضی ہے ترامیم کرلیں ملک میں استحکام نہیں آئے گا۔ آئین میں لکھا ہوا ہے کہ حاکمیت اعلیٰ صرف اللہ کی ہے اور قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون نہیں بنے گا ۔ ڈاکٹر اسراراحمدؒ کا بھی یہی مطالبہ رہا ہے کہ ان شقوں کو پورے آئین پر بالادستی حاصل ہونی چاہیے ۔ حکمران بھی مسلمان ہیں ، طاقتور اداروں کے لوگ بھی مسلمان ہیں ، سیاسی جماعتوں  کے لوگ بھی مسلمان ہیں ۔ آخرت میں اللہ کو کیا جواب دو گے جب سوال ہو گا کہ باقی سب ترامیم تو تم نے کر لیں  لیکن اللہ کے دین کے نفاذ کے لیے کیوں کوئی آئینی کوشش نہیں کی ؟اصل ترمیم تو یہ ہونی چاہیے کہ آئین میں جتنی خلاف شریعت شقیں ہیں انہیں نکالا جائے اور ان کی جگہ ایسی شقیں شامل کی جائیں اور عمل داری کے لیے قوانین بنائے جائیں جو قرآن و سنت کے مطابق ہوں ۔ ملک میں اسلام نافذ ہوگا توملک میں استحکام آئے گا ۔ اگر ہم سب مل کر اللہ کوراضی کرنے کی کوشش کریں ، اللہ کے دین کو تھام کر سب مسلمان بھائی بھائی بن جائیں تو یہ ملک اور قوم کے لیے مفید ہوگا ۔ اگر اللہ کی خوشنودی اور اللہ کا دین مقصود نہیں ہوگا تو پھر سب کے اپنےاپنےنسلی ، لسانی اور صوبائی مفادات ہوں گے اور سب کے مفادات آپس میں ٹکڑائیں گے ۔ اس کے برعکس اگر ہم سب مل کر   نظریۂ پاکستان کو مضبوطی سے تھام لیں اوراس مملکت کوجس دین کے نفاذ کے حوالے سے اللہ تعالیٰ سے وعدہ کرکے  حاصل کیا گیا تھا اس کو ملک میں نافذ کریں ملک میں استحکام بھی آئے گا اور نسلی ، لسانی ، صوبائی اور علاقائی انتشار بھی ختم ہو جائے گا ۔اللہ تعالیٰ ہمارے حکمرانوں اورمقتدر حلقوں کو صحیح فیصلے کرنے کی صلاحیت ، سمجھ اور توفیق عطافرمائے ۔ آمین !