اداریہ
رضاء الحق
سوڈان اور ستائیسویں آئینی ترمیم
سوڈان کی کہانی نہ صرف عجیب بلکہ عبرت ناک ہے۔پہلی سوڈانی خانہ جنگی اس وقت شروع ہوئی جب سوڈان نے ابھی آزادی حاصل نہیں کی تھی (1956ء)، اور جنوبی حصے کے عیسائی فوجیوں نےمغربی ممالک کی آشیرباد کے ساتھ شمالی اکثریت پر مبنی افریقی النسل اور عرب النسل حکومت کے خلاف بغاوت کر دی۔ اِس بغاوت کی بنیادی وجہ یہ بتائی گئی کہ جنوبی باشندوں کو یہ خوف تھا کہ عرب-اسلامی بالادستی اُن پر مسلط کی جائے گی، لہٰذا اُنہوں نے خودمختاری کا مطالبہ کر دیا۔ یہ جنگ سترہ برس تک جاری رہی اور بالآخر 1972ء میں ادیس ابابا معاہدے پر اختتام پذیر ہوئی، جس کے تحت جنوبی سوڈان کو محدود خود اختیاری دےدی گئی۔دوسری سوڈانی خانہ جنگی اُس وقت بھڑک اٹھی جب صدر جعفر نمیری نے پورے سوڈان میںاسلامی شریعت نافذ کر دی۔ مغرب کے ممالک نےسوڈان کے جنوبی علاقہ کے عیسائیوں کے انسانی حقوق کی پامالی کا بہانہ بنا کر جنوبی علاقہ میں عیسائی افواج کو اسلحہ سے لیس کر کے اِس بغاوت کی بھر پور حمایت کی۔ اس کے ساتھ ہی سوڈان کے جنوبی علاقہ کے عیسائیوں نے 1972ء میں دی گئی خودمختاری کے معاہدے کو بھی یک طرفہ طور پر ختم کر دیا۔ اِس تنازعے میں شمال کی نمائندگی خرطوم میں قائم سوڈانی حکومت کر رہی تھی، جبکہ جنوب کی قیادت سوڈان پیپلز لبریشن موومنٹ (SPLM) کے عسکریت پسند سربراہ جان گارانگ کے ہاتھ میں تھی۔ اس جنگ کے نتیجے میں قحط، لڑائی اور جبری نقل مکانی کے باعث کم و بیش 20 لاکھ افراد جان بحق ہوئے۔
غزہ پر مکمل خاموشی بلکہ ناجائز صہیونی ریاست اسرائیل کی معاونت کرنے والی بین الاقوامی برادری، فوری طور پرحرکت میں آئی اور اِسے عیسائیوں کے لیے انسانی بحران قرار دے کر امن منصوبے پیش کرنا شروع کر دئیے۔بالآخر 2005ء میں سوڈانی حکومت اور سوڈان پیپلز لبریشن موومنٹ کے درمیان ایک امن معاہدہ طے پا گیا، جس کے تحت جنوبی سوڈان کو خودمختار حکومت دی گئی، تیل کی آمدنی کی تقسیم کا نظام وضع کیا گیا، اور چھ سال بعد آزادی کے لیے ریفرنڈم کرانے کا وعدہ کیا گیا۔ اگرچہ جان گارانگ اُسی سال معاہدے کے فوراً بعد انتقال کر گیا، تاہم ’امن عمل‘ جاری رہا۔جنوبی سوڈان کی آزادی کا خواب بلکہ صحیح تر الفاظ میں سازش 2011ء میں کامیاب ہو گئی۔جنوری 2011ء میں ہونے والے ریفرنڈم میں تقریباً 98 فیصد ووٹروں نے آزادی کے حق میں فیصلہ دیا (جس میں نہ جانے کتنے فارم 47 تھے)، اور یوں 9 جولائی 2011ءکو جنوبی سوڈان باقاعدہ طور پر ایک آزاد ریاست کی حیثیت اختیار کر گیا۔
دوسری طرف شمالی سوڈان میں اسلام پسند ڈکٹیٹر عمر حسن احمد البشیر، جو ایک سابق سوڈانی فوجی افسر اور سیاستدان تھے، کی حکومت قائم رہی۔عمر البشیر 1989ء سے 2019ء تک مختلف عہدوں کے تحت سوڈان کے سربراہِ مملکت رہے۔ آخر کار2019ء میں ایک فوجی بغاوت کے نتیجے میںاُن کی 30سالہ حکومت کا خاتمہ کر دیا گیا۔ عمر البشیر کی حکومت کے خاتمے کے بعد سوڈان ایک نازک عبوری دور میں داخل ہوا، جس میں فوجی اصلاحات، اقتدار کی تقسیم، اور علاقائی بغاوتوں جیسے مسائل حل طلب رہے۔ مہینوں پر محیط بڑے پیمانے پر مظاہروں کے بعد، ایک عبوری فوجی کونسل تشکیل دی گئی ،جس کے تمام اراکین کا تعلق فوجی اسٹیبلشمنٹ سے تھا ۔اِس دوران سوڈانی مسلح افواج (SAF)، جس کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل عبد الفتاح عبد الرحمٰن برہان ہیں اور ریپڈ سپورٹ فورسز (آرایس ایف/RSF)، جس کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل محمد حمدان دقلو ، جنہیں ہمدتی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے اور دونوں متحارب جرنیل کسی دور میں دوست رہے ہیں، نے آپس میں جنگ کی ٹھان لی۔
یہاں اِس بات کا بھی تذکرہ کرتے چلیں کہ سوڈان سونا، تیل اور دیگر قیمتی معدنیات سے مالا مال ہے، جن میں یورینیم بھی شامل ہے۔ سونے کے ذخائر کے حوالے سے سوڈان کا دنیا میں تیسرا نمبر ہے۔ اگرچہ جھڑپوں کا آغاز 2021ء میں ہی ہو چکا تھا ، لیکن دونوںجرنیلوں کے درمیان کشیدگی بڑھتی گئی، جو بالآخر 15 اپریل 2023ء کو کھلی جنگ میں تبدیل ہو گئی۔ یہ جنگ نہ صرف دارالحکومت خرطوم بلکہ دارفور، کردوفان اور مشرقی علاقوںخاص طور پر الفشیر تک پھیل گئی، جس میں فضائی حملے اور نیم فوجی کارروائیاں بھی شامل تھیں، جس میں شہری بڑے پیمانے پر جان بحق ہوئے۔میڈیا اور دیگر رپورٹوں کے مطابق دو سوڈانی مسلمان جرنیلوں کی ذاتی دشمنی اور ہوسِ زر و جاہ کے باعث ملک میں خانہ جنگی کے نتیجے میں2023ء سے اب تک 60،000 سے 100،000تک افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔’ہرج‘‘ (قتل و غارت گری)کا یہ عالم ہے کہ مصنوعی سیارے سے لی گئی تصاویر میں الفشیر کی زمین سرخ دھبوں سے بھری دکھائی دے رہی ہے، جو درحقیقت اِس قتلِ عام اور نسل کُشی کے نتیجے میں گرے ہوئے بے گور و کفن انسانی لاشے ہیں۔ جاں بحق ہونے والوں کی تعداد غزہ میں اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں شہید ہونے والے مسلمانوں سے کم نہیں، جو عالمِ اسلام کے لیے باعثِ شرم ہے۔
آر ایس ایف تو خاص طور پر ایک نیم فوجی جتھہ ہے، جس میں دولت کمانے کے لیے 20 ممالک کے کرائے کے قاتل شامل ہیں۔ آر ایس ایف کے فوجیوں کی تعداد ڈیرھ لاکھ تک بتائی جاتی ہے۔ بعض اطلاعات کے مطابقآر ایس ایف کے قاتلوں کو مشرق وسطیٰ کی ایک امیر عرب ریاست سونے کے بدلے جدید ترین اسلحہ فراہم کر رہی ہے ۔ دوسری طرف سوڈانی فوج کو ایک دوسری عرب ریاست دریائے نیل پر قبضہ کی خاطر اسلحہ فراہم کر رہی ہے۔سوڈان کی جغرافیائی اہمیت، بحیرہ احمر تک رسائی، اور قدرتی وسائل پر کنٹرول کی کشاکش نے اس تنازعے کو عالمی سطح پربھی اہم بنا دیا ہے۔ ایک حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے کہ مومنین کی مثال آپس کی محبت اور شفقت کے معاملے میں ایک جسم کی مانند ہے جس کا ایک حصّہ تکلیف میں ہو تو سارا جسد بے آرام ہو جاتا ہے، لیکن حیرت اور افسوس کی بات بلکہ المیہ یہ ہے کہ سوڈان میں مسلمانوں کے قتلِ عام اور نسل کُشی پر مسلم ممالک اور تناظیم مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔
دارفور، کردوفان اور مشرقی سوڈان جیسے خطے پہلے ہی محرومی کا شکار تھے، اب قدرتی وسائل سے مالا مال اور زرخیز زمین کے حامل سوڈان بھر میںبنیادی سہولیات کے فقدان، بھوک اور خوراک کی شدید قلت نے بدترین قحط کو بھی جنم دے دیا ہے۔ بین الاقوامی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق کم و بیش ڈیڑھ کروڑ سوڈانی شہریوں کو اپنے ہی ملک میں بے گھر کر دیا گیا ہے۔ معیشت تباہ ہو چکی ہے۔ شہری علاقوں میں بازاروں پر گولہ باری، جنسی تشدد، جبری بھرتی، اور نسلی بنیادوں پر حملے عام ہو چکے ہیں۔ سوڈان کے شہری نقل مقانی پر مجبور ہیں، مگر جائیں تو کہاں؟
یہ بحران اس بات کی واضح مثال ہے کہ اگر فوجی اصلاحات اور حکمرانی کے مسائل حل نہ کیے جائیں تو بظاہر نظر آنے والی انقلابی تبدیلیاں بھی خانہ جنگی میں بدل سکتی ہیں۔ انسانی سطح پر اس جنگ کے اثرات نہایت ہولناک ہیں۔ سوڈان، جو افریقہ میں اسلام کا قلعہ ہوا کرتا تھا، آج اُس کی حالتِ زار اُس حدیث مبارکہ کا عملی نمونہ پیش کر رہی ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ اُمّتِ مسلمہ کے لیے سب سے بڑا فتنہ مال ہے۔
سوڈان کی درد ناک کہانی میں مسلمانانِ پاکستان، خصوصاً حکمرانوں اور مقتدر حلقوں کے لیے انتہائی واضح پیغام موجود ہے۔ اشرافیہ کے مفادات کے لیے کی جانے والی 27 ویں آئینی ترمیم سے عوامی مسائل حل ہوں گے اور نہ ہی ملکی تحفظ و سلامتی کو کوئی فائدہ ہو گا۔ فیلڈ مارشل کے عہدے کو باقاعدہ آئین کا حصّہ بنا دینے اور بڑے صاحب کو بیک وقت چیف آف دی آرمی سٹاف اور چیف آف ڈیفنس فورسز بنا دینے کا ملک کے 25 کروڑ افرادکے مسائل کے حل سے کیا تعلق؟ صدرِ مملکت کو تا حیات فوجداری مقدمات سے استثنیٰ دینے کا بھی عوام کی فلاح، مملکت کے تحفظ اور ملک میں اسلامی نظام کے قیام سے کوئی تعلق نہیں۔ خبروں کے مطابق اب تو سپریم کورٹ کے دو سینئر ججوں نے بھی احتجاجاً استعفیٰ دے دیا ہے کہ آئینی ترمیم آئینِ پاکستان اور عدلیہ کی آزادی کو دفن کرنے کے مترادف ہے! نصح و خیر خواہی کے جذبہ کے تحت ہماری حکمرانوں اور مقتدر حلقوں سے دردمندانہ گزارش ہے کہ دوسروں کے انجام سے عبرت حاصل کریں اور مملکتِ خداداد پاکستان ، جس کا قیام ہی اسلام کی بنیاد پر ہوا تھا، اُس میں اسلام کے نظامِ عدلِ اجتماعی کے نفاذ کی طرف پیش قدمی کریں۔ اِسی میں ہماری دنیا اور آخرت دونوں کی کامیابی ہے۔ اللہ تعالیٰ پاکستان پر رحم فرمائے۔ آمین!
جہاں تک سوڈان کا تعلق ہے تو مسلم ممالک خانہ جنگی کے خاتمے کے لیے عملی اقدامات کریں اور جرنیلوں پر مستقل جنگ بندی اور مذاکرات کے لیے دباؤ ڈالیں۔ سوڈان میں جاری انسانی المیہ اور نسل کُشی کو رکوانا مسلم ممالک کی ہی دینی ذمہ داری ہے۔ اللہ تعالیٰ اُنہیں انسانیت کی اِس تذلیل کو بند کروانے اور اپنے مسلم بھائیوں کی مدد کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین!
tanzeemdigitallibrary.com © 2025