چنگیزیٔ افرنگ!
عامرہ احسان
آئے روز ایک نئی کہانی ہے۔ پچھلی سے یکسر مختلف۔ ٹرمپ شاید سب سے زیادہ یوٹرن لینے والا ہے۔ کہاں تو نیو یارک میں کامیاب ہونے والے میئر ممدانی پر آگ بگولا ہونے کی یہ حد تھی کہ اسے غیر ملکی غیر قانونی قرار دے کر امریکہ بدر کرنے کے ارادے کا اظہار، وہ کمیونسٹ، یہودی دشمن، پاگل دیوانہ تھا۔ ڈیمو کریٹ پارٹی پر شدید تنقید تھی، اُسے لا کھڑا کرنے پر۔ پھر نجانے کون سی گیڈر سنگھی ظہران ممدانی نے استعمال کی کہ موسم یکسر بدلنے لگا وائٹ ہاؤس میں۔ (ممدانی کی والدہ ہندو ہیں۔’گیڈر سنگھی‘، ہندو توہم پرستی کا حصہ ہے کہ اس کے طلسمی اثرات بدروحوںسے تحفظ دیتے ہیں!) بہر طوریکایک ایک سر پھرے لیڈر کو گیڈر بنا دینے کا کارنامہ تو ہوا۔ ممدانی کے آنے سے پہلے ہی ٹرمپ نے گرم جوش ملاقات کی امید ظاہر کردی۔ اور آنے پر تو یکا یک ریشہ خطمی ہو گئے۔ صحیح معنوں میں گدھے کو باپ بنانے کا دو طرفہ منظر تھا۔ ممدانی بھی بڑے ادب و احترام سے رہا۔ ٹرمپ نے (گدھا: ڈیموکریٹ پارٹی کا نشان) تو ایسا کرنا ہی تھا۔ ممدانی کی تعریف کی کہ اتنی کم عمری میں اتنے جغادری امیدواروں کو ہرا دیا۔ ’تعریف‘بڑی شے ہے جہانِ تگ و دو میں! تعریف شدگان کی ٹرمپ نے فہرست گنوائی۔ اور اب اسی کلب میں ممدانی بھی تھا۔ اگر چہ یہ کہا گیا کہ یہ ٹرمپ کی مجبوری بھی تھی۔ کشنر، ٹرمپ، وٹ کاف اور دیگر دوست احباب کے نیویارک میں کاروباری مفادات نے ٹرمپ کو سیانا، ’یوٹرنیا‘ بنا دیا۔ امریکی سرمایہ دارانہ نظریے کے تحت پیسے کی خدائی دنیا میں اصل پالیسی ساز ہے۔
امریکہ کس حد تک آزاد، خودمختار اور کتنا یہودی سرمائے کی قید میں ہے۔ ’فرنگ کی رگِ جاں پنجۂ یہود میں ہے۔‘ اقبال کی مومنانہ فراست نے جو ایک صدی پہلے کہا تھا آج اظہر من الشمس ہے۔ صرف نیویارک میئر کے انتخابات میں بیس ارب پتیوں نے ممدانی کے خلاف لاکھوں ڈالر جھونکے۔ یہ جمہوریت تمام تر یہودی ڈالروں کا کٹھ پتلی تماشا ہے۔ ان کے ذریعے منتخب ہو کر آنے والا امریکی صدر اسرائیل کے اشاروں پر ناچتا اور پوری دنیا کو نچاتا ہے۔ سینیٹر برنی سینڈرز کے مطابق غزہ پر ہتھیاروں کی فراہمی، جنگی اخراجات کا 70 فی صد حصہ ادا کر نے والا امریکہ تھا، عوام کے ٹیکسوں سے حاصل کردہ! (براؤن یونیورسٹی اعداد و شمار)
ممبر یورپی پارلیمنٹ، ڈایا نا سوسا کا نے کہا، کیونکہ میں وکیل ہوں، اس لیے قوانین کی بات کروں گی۔ ’اسرائیل ایک دہشت گر دریاست کی طرح کام کرتی ہے۔ یہ ناقابل یقین ہے کہ کس طرح پوری دنیا کی سیاست اس بات کو قبول کرے جو نسل کشی اور انسانیت کے خلاف جنگی جرم ہے۔ حماس نے سو دو سو مار دئیے۔ مگر 2 سال سے اسرائیل دہشت گرد ریاست کی طرح چل رہا ہے۔ کیا تمام ممالک ایک دن غزہ بن جائیں گے؟ ہم مائیں ہیں بچوں والی! اگر تم میرے بچے مارو گے میں تمہارے بچے مار ڈالوں گی۔ یہاں بیٹھ کر ہم (نری) سفارت کاری کی بات کیسے کر سکتے ہیں۔ اسرائیل کے ساتھ ہم تجارت کیسے کر سکتے ہیں؟ جمہوریت نہیں چل سکتی جب اسرائیل لوگوں کو مار رہا ہے۔ قتل، قتل،قتل! ہر وقت ان کے ہاتھوں پر خون ہے۔ یہ نسل کشی ہے، اِسے ختم کرو۔
جو وحشت آج غزہ میں ہوئی اس کا پیمانہ دیکھیے۔ ایک نوجوان گری عمارات کے ملبوں پر کھڑا ہے۔ ملبے صاف کرتے ہیں تو نیچے سے کھوپڑیاں، ہڈیاں، لاشیں، موت نکل رہی ہے۔ نوجوان کہتا ہے غزہ کا۔ جب ہم نے 27 لاشیں نکالیں تو گوشت کے ٹکڑے بکھرے تھے۔ خون میرے منہ پر لگ گیا۔ گوشت میرے ہاتھوں سے گر گیا۔ کیسے ہم نے انھیں کفن کے تھیلوں میں یوں محفوظ کیا گویا گوشت گرِل( Grill) کیا جانے کو رکھتے ہیں۔ ان ملبوں سے زہریلی گیسیں، پھیپھڑوں کے لیے سخت مضر، نکل رہی ہیں۔ دل کے امراض بڑھ رہے ہیں۔ غرض لا منتہا خوفناک نتائج ہیں۔ صرف انسانی، معاشی، معاشرتی مسائل نہیں۔ کرۂ ارض کے لیے تباہ کن اور موسمیاتی بحران کے بے شمار اسباب امریکہ، اسرائیل، یورپی حکومتوں سے نتھی ہیں۔ انسانیت کی تباہی،حق تلفی، دنیا بھر کو جنگوں کا اکھاڑہ بنا کر پھر عالمی دن منانا ہر ایک کا!بچوں کا عالمی دن؟ غزہ میں اسرائیل نے 56 ہزار بچے والدین سے محروم، یتیم کیے ایک یا دونوں ماں باپ مار ڈالے۔ 20 ہزار بچے (گورنمنٹ میڈیا آفس) اور Lancetادارے کا عدد لاکھوں بچوں کے قتل کا ہے۔ 65 ہزار بچے فاقوں کی زد میں آئے۔ 40 ہزار ننھے بچے، بچوں کا دودھ نہ ملنے سے اسرائیل نے بھینٹ چڑھائے۔اور رہے ہم دو ارب مسلمان تو ایک غزہ والے نے کہا۔ یہ مسلم ممالک؟ ’ایسا وطن جہاں حسنِ یوسف ؑہے۔ یعقوبؑ جیسا غم ہے اور برادران ِیوسف جیسا (دھوکا) خرابی اور فساد ہے‘۔ اور یہی سچ ہے۔ باقی سب اشک شوئی ہے! دو ارب مسلمان اگر غزہ کے غم میں یوں روئے ہوتے جتنا بعض گوریوں کو ہلکان، بے حال ہو کر روتے دیکھا، تو یہ آنسوؤں کا دریا گٹھلی برابر اسرائیل کو بحر مردار میں پہنچا دینے کو کافی تھا۔ المیہ تو ہے کہ جب یورپی پارلیمنٹ کی ممبر کا غم غزہ کے عورتیں ،بچے تھے، تو ہماری سینیٹر زرقا سہروردی آگ بگولا تھیں کہ (اسلامی جمہوریہ پاکستان کے) کچھ اسلامی بینکوں نے زنانہ سٹاف کو عبایا پہننے کا پابند کیا ہے! انہیںکیوں خصوصی’ مذہبی‘، ہیئت اختیار کرنے پر مجبور کیا جائے۔ اور کمیٹی سلیم منڈی والا کی صدارت میں،اس ہیئت پر متوحش تھی کہ سٹیٹ بینک آف پاکستان مداخلت کرے! (کسی کی یہ جرأت کیوں ہو کہ وہ پاکستانی خواتین کو ’مذہبی حلیہ‘ حیاداری پر مجبور کرے!)
اسرائیل، امریکہ کے لیے کیا مقام رکھتا ہے؟ 8 جون 1967 ء کو امریکی بحری جہاز یو ایس ایس لبرٹی کا اسی IDF، اسرائیلی فوج کے ہاتھوں کیا بھو سا بنا،پڑھیے، آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی۔ مختصر ترین، کہا یہ ہے کہ بحرِ روم میں پوری اطلاعی کارروائی دونوں ممالک ما بین ہونے کے بعد امریکی جہاز مکمل شناخت کے ساتھ بحرِ روم پہنچا۔ جا بجا جہازپر امریکی ہونا لکھا ہوا پڑھا جاسکتا تھا۔ مگر جب امریکی بحری فوجی پورے اطمینان سے عرشے پر دھوپ کا مزا لے رہے تھے ٹھنڈی ہوا میں،بلا نام و نشان سیاہ جیٹ جہازوں نے بھر پور حملہ کرکے رابطے کاٹنے کو تمام انٹینے (ماسوا ایک کے )اڑا ڈالے، فائرفائٹر (آگ بھڑک اٹھی تھی) قتل، معذور اور زخمی کیے۔ 25 منٹ کا رروائی جاری رہی۔ بمشکل تمام تار جوڑ کر چھٹے بحری بیڑے کو اطلاع دی، مدد طلب کی۔ مگر جو نہی امدادی جہاز ہوا میںا بھرے، سیکرٹری دفاع رابرٹ میکنا مارا نے انہیں فوری واپس بھیج دیا۔ دوسرے امریکی بحری جہاز نے مزید جیٹ بھیجے۔ فوراً واپس جاؤ،امریکی صدر جانسن نے کہا: مجھے پروا نہیں اگر ہمارے کچھ فوجی مر جائیں مگر میں اپنے اتحادی اسرائیل کو شرمسار نہیں کر سکتا۔ فوراً واپس جاؤ ؟ موجود نیوی افسر کہتا ہے: ’تین تار پیڈو بردارکشتیاں جوہمارے پیچھے آئیں۔ اور حملہ کیا ،ان پر ستارۂ داؤی (اسرائیلی نشان) واضح تھا۔ ہمارے ساتھیوں کو قتل کیا جاتا رہا۔ 17 گھنٹے کے انتظار کے بعد امریکی جہازوں کی مدد آئی اور ہمارے بدترین زخمی ساتھیوں کو لے جایا گیا۔ ہمیں حکم تھا اس بارے کبھی زبان نہ کھولنے کا۔ اس پر سزا، جیل، جرمانہ موت ہوتی! 57 سال سے ہماری حیثیت کچرے کوڑے کی تھا۔ ہم نے کسی کو نہیں مارا۔ اسرائیل نے ممتاز ترین نیول شپ کا یہ حشر کیا۔( امریکہ کو اس کی اوقات بتا دی! ) صرف چند بہا در قانون ساز تھے جنہوں نے زبان کھولی اور راز یوں کھلے۔ ‘ یہ USS لبرٹی کے ریٹائرڈافسران کی ایسوسی ایشن کے صدر، 77 سالہ فلپ ٹرنرکی تحریر ہے!
ٹرمپ’امن‘ پلان منظوری کے بعد سے اسرائیل 342 فلسطینی قتل کر چکا ہے۔ 497 جنگ بندی کی خلاف ور زیاں کر چکا ہے۔’ فلسطینی ریاست‘ کا قیام نیتن یا ہو اور اس کی اتحادی جماعت ڈٹ کر مکمل رد کر چکے ہیں۔ اسی دوران اسرائیل نے لبنان میں یواین امن فوج پر حملے کیے، کوئی نہ روک سکا۔ احمد الشرع فدوی ہو چکا مگر شامی شہریوں پر حملے جاری ہیں۔نیتن یاہو گریٹر اسرائیل دھڑا دھڑ بنا رہا ہے۔ ہم کس دنیا میں رہ رہے ہیں؟
دنیا اسرائیل کی نفرت سے ابل رہی ہے۔ امریکی، برطانوی بھی۔ ایسے میں ٹرمپ اور بلیئر جیسے کھلے مسلم کش سر برا ہوں کا بورڈ آف’Peace‘ نہیں ’Piece‘ہو گا جس میں مسلمانوں کے ٹکڑے کیے جائیں گے اور مسلم افواج کی ISF صرف دانت پیس کر رہ جائے گی۔ خدانخواستہ اس اسرائیلی دفاع میں مسلمان ISF کے مارے گئے یا ISF کے ہاتھوں فلسطینی تو دنیا، آخرت اورامت،کہیں قبولیت نہ ہوگی۔ رئیس عرب ممالک تو انکاری ہو گئے ہیں، ہم مظلوم فلسطینیوں کی مدد 2 سال ڈیڑھ مہینہ نہ کر پائے تو اب یہ اقصیٰ کا نہیں اسرائیل کا تحفظ ہوگا عند اللہ اور عند الناس! اللہ ہماری حفاظت فرمائے۔ (آمین)
عالم ہمہ ویرانہ ز چنگیزیٔ افرنگ!