(زمانہ گواہ ہے) ’’غزہ امن معاہدہ اور سلامتی کونسل کی قرارداد‘‘ - محمد رفیق چودھری

9 /

غزہ امن فوج میں اگر پاکستانی فوج بھی اسرائیلی درندوں کے ساتھ شامل

ہوگی تواس کا مطلب ناجائز اسرائیلی ریاست کو تسلیم کرنا ہوگا اور یہ

قائداعظم کے پاکستان کی آفیشل پالیسی سے انحراف ہوگا: رضاء الحق

غزہ کی جنگ کے دوران عرب ممالک کے پاس موقع تھا کہ وہ اہلِ غزہ

کی مدد کرکے گریٹر اسرائیل کا راستہ روک سکتے تھے، لیکن انہوں نے

لاتعلق رہ کر یہ موقع کھو دیا اور اب وہ خود بھی گریٹر اسرائیل کی زد

میں آنے والے ہیں : ڈاکٹر فرید احمد پراچہ

’’غزہ امن معاہدہ اور سلامتی کونسل کی قرارداد‘‘

پروگرام ’’ زمانہ گواہ ہے ‘‘ میں معروف تجزیہ نگاروں اور دانشوروں کا اظہار خیال

میز بان : وسیم احمد

مرتب : محمد رفیق چودھری

سوال: اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے حال ہی میں ایک قرارداد پاس کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ غزہ میں    قیام ِامن کے لیے ایک عالمی استحکام فورس تعینات کی جائے گی۔ کیا اس فورس کے ذریعے غزہ میں واقعی قیام امن ہو جائے گا؟ غزا، لبنان ، شام اور سوڈان میں ایک جنگی ماحول پیدا کرکے عالمی طاقتیں کہیں مشرق وسطیٰ کی تشکیل ِنو یعنی ری شیپنگ تو نہیں کرنا چاہ رہیں؟
ڈاکٹر فرید احمد پراچہ: جو کچھ عالمی طاقتوں بالخصوص امریکہ کے ماضی میں عزائم رہے ہیںاور اب ٹرمپ جن کا بار بار اظہار بھی کر رہا ہے ،اُن عزائم کے ہوتے ہوئے کوئی چیز بھی خارج از امکان نہیں ہے۔ سلامتی کونسل کی حالیہ قرارداد بھی ٹرمپ کے 20 نکات کی تائید میں پاس ہوئی ہے ۔ سلامتی کونسل کے 15 اراکین میں سے 13 نے اس کی تائید کی ہےجن میں پاکستان بھی شامل ہے ۔ صرف روس اور چین نے قراردادکے حق میں ووٹ نہیں دیا اسے ویٹو بھی نہیں کیا ۔ ان 20 نکات میں ایک تو قیدیوں کا تبادلہ شامل تھا جوکہ اسرائیل کی اصل مجبوری تھی ، اس کے علاوہ آزاد فلسطینی ریاست کا وعدہ تھا جس کے ذریعے مسلم ممالک اور حماس کی تائید حاصل کرنے کی کوشش کی گئی لیکن قرارداد میں واضح نہیں کیا گیا کہ آزاد فلسطینی ریاست کیسے قائم ہوگی اور نہ ہی یہ واضح کیا گیا کہ عالمی استحکام فورس کا دائرہ اختیار کیا ہوگا۔ چوتھا اور اہم نکتہ اسرائیل افواج کے انخلاء کے بارے میں تھا لیکن اس میں بھی واضح نہیں کیا گیا کہ یہ انخلاء کب اور کیسے ہو گا۔ چین کے مندوب نےبھی اپنی تقریرمیں یہی کہا کہ تمام نکات میں ابہام موجود ہے جس کی وجہ سے چین اس کی حمایت نہیں کرے گا ۔  روس نے تو کہا ہے کہ یہ قرارداد اصل میں اسرائیل کے جرائم اور مظالم کو چھپانے کے لیے پیش کی گئی ہے۔ پاکستان کے مندوب نے ترامیم پیش کیں اور وہ ترامیم بھی یہی تھیں کہ واضح ہونا چاہیے کہ آزاد فلسطینی ریاست کیسے بنے گی اور استحکام فورس کے اختیارات کیا ہوں گے لیکن ترامیم قبول نہیں کی گئیں اور پاکستان نے اسی تنخواہ پر قرارداد کی تائید کردی ۔ سوال پیدا ہوتاہے کہ اس کا فیصلہ کہاں ہوا ؟ پارلیمنٹ کہاں ہے ؟ پانچواں نکتہ یہ تھا کہ حماس سے ہتھیار واپس لیے جائیں گے ۔  جبکہ حماس نے کہا ہے کہ جب تک آزاد فلسطینی ریاست قائم نہیں ہوگی وہ ہتھیار واپس نہیں کریں گے ۔اسرائیل نے دو سال تک غزہ میں جس درندگی اور وحشت کا مظاہرہ کیا ہے اور ہزاروں فلسطینی بچوں ، عورتوں اور مردوں کا قتلِ عام کیاہے اس پر قرارداد میں ایک لفظ بھی نہیں کہا گیا ۔ نکتہ یہ بھی ہے کہ ٹاسک فورس کا سربراہ ٹرمپ ہوگا جس نے اپنے اقتدار میں ہمیشہ اسرائیل کو فائدہ پہنچایا ہے ۔ اب اس نے کہا ہے کہ فلسطین کو 3 ہزار سال بعد امن ملے گا۔ اسرائیلی پارلیمنٹ میں تقریر کرتے ہوئے اس نے اسرائیل کو فاتح قراردیا ۔ یعنی جس اسرائیل نے 30 ہزار بچوں اور عورتوں  سمیت 77 ہزار بے گناہ لوگوں کو غزہ میں شہید کر دیا اس کو ٹرمپ فاتح قرار دے رہا ہے ۔ اسی سے امریکی عزائم کا پتا چل رہا ہے۔ الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق ٹرمپ کے   نام نہاد امن معاہدہ کے بعد 31 دنوں میں سے 25 دن بمباری ہوتی رہی ہے ۔ ایسی صورت میں امن کیسے قائم ہوگا ۔ پھر یہ کہ شام ، لبنان اور سوڈان میں بھی قتل و غارت گری جاری ہے ۔ اس کا مطلب ہے کہ ایسے خدشات موجود ہیں کہ اسرائیل کی پشت پناہ عالمی طاقتیں مشرق وسطیٰ کی تشکیل نویعنی ری شیپنگ چاہ رہی ہیں۔ 
سوال: غزہ میں قیام امن کے حوالے سے سلامتی کونسل کی جو قرارداد تھی، اس میں پاکستانی مندوب کی جانب سے کچھ ترامیم تجویز کی گئیں لیکن پھر ان ترامیم کی منظوری کے بغیر ہی پاکستان نے قرارداد کی تائید بھی کردی ۔ ایسا کیوں ہوا اور کیا ہم اس تائید کو ابراہم اکارڈز میں شمولیت تصور کریں ؟
رضاء الحق: پہلی بات تویہ ہے کہ امن کیسے قائم ہوگا جب امن قائم کرنے والی قوتوں کے عزائم ہی کچھ اور ہوں ۔ 1994ءمیں یوگوسلاویہ میں سرب عیسائیوں نے مسلمانوں کا قتل عام کیا ، عورتوں کی عصمت دریاں کی ، بچوں کو شہید کیا ، جوانوں کو جمع کرکے گولیاں ماری گئیں، عالمی ادارے صرف زبانی طور پر سربیاکے اس قتل عام کو رکوانے کا کہتے رہے ، انہوں نے اس نسل کشی کو رکوانے کے لیے    عملی طور پر کوئی کردار ادا نہیں کیا ۔اسی طرح  اسرائیل نے دو سال سے غزہ میں جو نسل کشی جاری رکھی ہوئی  ہے اور اب نام نہاد معاہدے کے بعد بھی ناجائز صہیونی ریاست 497مرتبہ خلاف ورزی کر چکی ہے لیکن اس کے خلاف ایکشن لینا تو دور کی بات کسی نے اس کو موردالزام بھی نہیں ٹھہرایا اور نہ ہی قرارداد میں اس کا ذکر کیا گیا، اس کے برعکس سارا زور اس بات پر دیا گیا کہ حماس ہتھیار نہ اُٹھائے ۔ ان حالات میں بین الاقوامی امن فورس کیسے امن قائم کر پائے گی ؟ سوال یہ بھی پیدا ہوتاہے کہ امن فورس کے TORsکیا ہوں گے ، اگر پاکستانی فوج وہاں جائے گی تو کیا فیصلہ سازی میں بھی شریک ہو گی یا پھر صرف کرائے کے فوجیوں کے طور پر کردار ادا کرے گی ؟اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ اگرپاکستانی فوج اس بین الاقوامی فورس کا حصہ بنے گی جس میں اسرائیلی فوج بھی شامل ہوگی تو اس کا مطلب ناجائز اسرائیلی ریاست کو تسلیم کرناہی ہوگا ۔پھر ہم پاکستان کی اس آفیشل پالیسی سے ہٹ جائیں گے جس کا تعین بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے کیا تھا ۔    لہٰذا ہمارے حکمرانوں کو سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا چاہیے ۔   بین الاقوامی طاقتیں کافی عرصہ سے مشرق وسطیٰ کا نقشہ تبدیل کرنے کے منصوبے پر کام کر رہی ہیں ۔ 1980ء میں  امریکی  صدر رونالڈ ریگن کے دور میں ایک اسرائیلی نژاد صحافی ینون نے گریٹر اسرائیل کے حوالے سے ایک منصوبہ پیش کیا تھا جسے ینون پلان کہا جاتاہے ، اس میں باقاعدہ طور پر مشرق وسطیٰ کا نقشہ تبدیل کرکے گریٹر اسرائیل کو قائم کرنا شامل تھا۔ سوویت یونین کے خاتمہ کے بعد بش سینئر نے باقاعدہ اس نیوورلڈ آرڈ کا اعلان کردیا۔ اصل میں نیوورلڈ آرڈر کا منصوبہ بہت پرانا ہے ، پہلی اور دوسری جنگ عظیم بھی اسی منصوبہ کے تحت ہوئی ، اسی منصوبے کے تحت مسلمانوں کی اجتماعیت ختم کر کے نیشن سٹیٹس قائم کی گئیں اور IMFاور ورلڈ بینک کے ذریعے ان کی معیشت کو اپنے کنٹرول میں رکھا گیا ۔ اسی منصوبے کے تحت نیٹو جیسے اتحاد بنائے گئے اور دوسری طرف اس بات کو یقینی بنایا گیا کہ اُمت مسلمہ متحد نہ ہونے پائے ۔ مسلم حکمرانوں کو بھی اپنی مٹھی میں رکھا گیا ۔ پھر کلنٹن کے دور میں القاعدہ جیسے گروہ تخلیق کیے گئے ۔ اوکلاہامہ میں بمباری کا جھوٹا الزام مسلمانوں پر لگایا گیا اور کینیا میں امریکی سفارت خانے پر بم حملے القاعدے کے کھاتے میں ڈالے گئے ۔ ہیلری کلنٹن نے خود اعتراف کیا کہ القاعدہ اور داعش جیسے گروہ امریکہ نے بنائے ۔ پھر بُش جونیئر کے دور میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر باقاعدہ عالمِ اسلام کے خلاف جنگ شروع ہوگئی اور اس کے لیے نائن الیون کا فالس فلیگ ڈراما رچایا گیا۔  افغانستان اور عراق کو مکمل طور پر تباہ و برباد کیاجبکہ شام ، لبنان ، لیبیا میں خانہ جنگی پیدا کی گئی ، مصرمیں الاخوان کی جمہوری حکومت کو گرا کر ایک جرنیل سیسی کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کیا گیا اور اب سوڈان اور قطر پر بھی نظریں  ہیں ۔ بارک اوباما نے 2010ء میں پیوٹ ٹو ایشیا پالیسی دی جس میں یہ طے کیا گیا کہ اب جنگوں کا مرکز    مشرق وسطیٰ ہوگا اور جنوبی ایشیاء اور افریقہ میں بھی اس کے اثرات ہوں گے ۔ اب یہی کچھ ہمیں دنیا میں نظر آرہا ہے۔ نیتن یاہو سمیت اسرائیلی اعلیٰ عہدیداران گریٹر اسرائیل کا کئی بار اعلان کر چکے ہیں اور(معاذاللہ) مدینہ منورہ تک کے ان کے دعوے ہیں ۔ پاکستان کو بھی بھارت کے ذریعے زیر کرنے کی کوشش کی گئی مگر بھارت کو ہزیمت اُٹھانی پڑی۔ عرب ممالک اور پاکستان کی حکومتوں کو واضح طور پر یہ سب کچھ نظر بھی آرہا ہے لیکن اس کے باوجود اگر ہمارے حکمران دھوکہ کھارہے ہیں تو پھر ان پر افسوس ہی کیا جا سکتاہے ۔ اب ابراہم اکارڈزکی اگلی شکل جو وہ لے کر آئے ہیں وہ یہی ہے کہ جن ممالک پر زبردستی نہیں کی جا سکتی اُن کو کچھ مراعات دے کر اپنے ساتھ ملا لیا جائے ۔
سوال: ایک طرف امریکہ پاکستان کو امن فارمولے میں شامل کر رہا ہے اور دوسری طرف بھارت کے ساتھ معاہدے بھی کر رہا ہے تو کیا اب امریکہ بھارت کو روکے گا کہ وہ آپریشن سندور 2 نہ کرے ؟
رضاء الحق:جب تک امریکہ کا مفاد ہے وہ پاکستان کو استعمال کرے گا اور بھارت کو پاکستان پر حملے سے روکے گا کیونکہ ایک طرف امریکہ نے چین کو روکنا ہے اور دوسری طرف اسرائیلی مفادات کا تحفظ بھی کرنا ہے۔ فی الحال تو بہار کا الیکشن جیتنے کے لیے نریندر مودی نے سندور 2 کے بیانیہ کو خوب استعمال کیا ہے اور اس کے ذریعے بہار میں  کلین سویپ کیا ہے ۔ جب امریکہ کا مفاد ختم ہو جائے گاتو وہ انڈیا کے ساتھ مل کر پاکستان پر جنگ مسلط کرنے کی کوشش کرے گا ۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ ایک منصوبہ ان کا ہے اور ایک منصوبہ اللہ تعالیٰ کا ہے ۔ جیسا کہ قرآن میں فرمایا : {وَمَکَرُوْا وَمَکَرَ اللہُ ط وَاللہُ خَیْرُ الْمٰکِرِیْنَ (54)}(آل عمران) ’’اب انہوں نے بھی چالیں چلیں اور اللہ نے بھی چال چلی۔اور اللہ تعالیٰ بہترین چال چلنے والا ہے۔‘‘ آخر میں اللہ تعالیٰ کا منصوبہ ہی کامیاب ہوگا ۔ 
سوال: جب سے غزہ کا امن معاہدہ ہوا ہے اس وقت سے لے کر اب تک اسرائیل مسلسل خلاف ورزیاں کر رہا ہے اور مسلمان وہاں پر شہید ہورہے ہیں، ان حالات میں امن معاہدے پر عمل کیسے ہوگا ، قرارداد میں غزہ کی تعمیر نو کی جو بات کی گئی ہے اس کا کیا بنے گا ؟
ڈاکٹر فرید احمد پراچہ:ٹرمپ کا منصوبہ اصل میں اسرائیل کا ہی منصوبہ ہے اور جو قرارداد سلامتی کونسل سے پاس ہوئی ہے وہ بھی اسی منصوبہ کی تائید کرتی ہے ۔ جہاں تک عرب ممالک کا تعلق ہے تو وہ غزہ کی دوسالہ جنگ میں پہلے تو بالکل لا تعلق اور خاموش رہے ہیں جبکہ غزہ کے مسلمان قربانیاں دیتے رہے، حالانکہ مسجد اقصیٰ کی حفاظت اور فلسطین کی آزادی پوری اُمت کا مسئلہ ہے ۔ عرب اسرائیل جنگوں میں عرب اسرائیل کا اصل چہرہ بھی دیکھ چکے تھے کہ کس طرح اس نے مغربی کنارے اور غرب اردن پر قبضہ کیا ، پھر گولان کی پہاڑیوں پر قبضہ کیا ، یہ سارا کچھ عرب دیکھ چکے تھے ، جب غزہ کی جنگ جاری تھی تو ان عربوں کے پاس موقع تھا کہ وہ اہلِ غزہ کی مدد کرکے گریٹر اسرائیل کا راستہ روک سکتے تھے ۔ لیکن انہوں نے لاتعلق رہ کر یہ موقع کھو دیا ہے اور اب خود بھی گریٹر اسرائیل کی زد میں آنے والے ہیں ۔ قطر پر اسرائیلی حملے کے بعد انہوں نے کچھ ہاتھ پیر مارنا شروع کیے ہیں ۔ اہل غزہ نے تو دوسال میں جو بے مثال قربانیاں دی ہیں اُن سے ظاہر ہے کہ وہ ہار نہیں مانیں گے ، حماس نے بھی کہہ دیا ہے کہ ہم اقتدار تو چھوڑ سکتے ہیں لیکن غزہ اور فلسطین نہیں چھوڑ  سکتے۔اہل غزہ کی اس قدر قربانیوں کے بعد حماس انہیں تنہا قطعاً نہیں چھوڑے گی اور نہ ہی قبلہ اوّل کو کافروں کے حوالے کریں گے ۔ اگرچہ ٹرمپ اپنے منصوبے کی کامیابی کے لیے کوشش کرے گا ۔ جیسا کہ اس نے غزہ کی تعمیر نو اور مغربی کنارے میں سڑکوں کا جال بچھانے کی بات کی ہے اور عالمی فورس کے نام پراسرائیل اور اس کے معاون جو کچھ کرنا چاہ رہے ہیں وہ کامیاب نہیں ہوگا کیونکہ فلسطینیوں نے جس مقصد کے لیے اتنی بڑی قیمت ادا کی ہے وہ اس سے پیچھے ہرگز نہیں ہٹیں  گے ۔ 
سوال: حال ہی میںسعودی ولی عہد نے2018ء کے بعد امریکہ کا پہلا دورہ کیا ہے ۔وہاں  انہیںغیر معمولی  پروٹوکول دیا گیا  اور انہیں نان نیٹو اتحادی ڈکلیئر کیا گیا ،  کئی دفاعی معاہدے بھی کیے گئے اور پھر F-35طیاروں کی فراہمی کا عندیہ بھی دیا گیا ہے ۔ کیا یہ سب مراعات اسرائیل کو تسلیم کروانے کے لیے عنایت کی گئی ہیں ؟
رضاء الحق: بالکل اس میں دو رائے ہو بھی نہیں سکتیں۔ کیونکہ7 اکتوبر 2023 ء کو جب حماس نے  طوفان الاقصیٰ کے نام سے آپریشن کیا تو اس سے کم و بیش ایک ماہ قبل سعودی ولی عہد نے فوکس نیوز پر انٹرویو دیا تھا جس میںانہوں نے اس بات کا اظہار کیا تھاکہ ہم اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کے بہت قریب پہنچ چکے ہیں۔ اگر ایسا ہو جاتا تو گریٹر اسرائیل کا منصوبہ بہت پہلے آگے بڑھ چکا ہوتا کیونکہ سعودی عرب کو دیکھتے ہوئے اکثر مسلم ممالک اسرائیل کو تسلیم کر چکے ہوتے ۔ لہٰذا اس وقت حماس اور اہل فلسطین کے پاس کوئی اور راستہ نہیں بچا تھا سوائے اس کے کہ وہ اسرائیل کے خلاف آپریشن کرکے اس سلسلے کو روک دیں ۔ جہاں تک عالمی امن فورس کا تعلق ہے تو اس طرح کی فورس لبنان میں بھی انٹرنیشنل پیس کیپنگ فورس کے نام پر موجود ہے لیکن مکمل طور پر ناکام ہے کیونکہ جو قوتیں امن کی رَٹ لگا رہی ہیں وہ خود ہی امن نہیں چاہتیں۔ جس طرح اسرائیل معاہدے کی خلاف ورزیاں کر رہا ہے ، کیا عالمی فورس اسرائیل کو جواب دے گی ؟   لہٰذا عالمی فورس ایک ڈھکوسلا ہے جس کے نام پر عرب حکمرانوں کو غافل بنایا جارہا ہے ۔ خاص طور پر سعودی ولی عہد کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ وہ نام نہاد روشن خیالی اور جدت کے خواہش مند ہیں ، جیساکہ ستمبر 2023ء میں  فوکس نیوز پر انٹرویو کے دوران انہوں نے اپنی خواہشات کا اظہار بھی کیا تھا کہ ہم بہت سخت سلفی حکومت کے تحت رہے ہیں   اب ہم روشن خیالی اور جدت کی طرف جانا چاہتے ہیں۔ اس کے لیے ان کا ویژن 2030ء بھی ہے جس کے   تحت میوزک فیسٹولز اور لبرل کلچر کو فروغ دیا جارہا ہے ۔ اسی منصوبے کے تحت وہ نیوم سٹی بھی تعمیر کر رہے ہیں  جہاں دبئی کی طرح شراب اورمادر پدر آزادی ہوگی۔ اسی طرح دیگر مسلم حکمرانوں کی اکثریت بھی مغربی تہذیب کو پسند کرتی ہے ۔ قرآن میں واضح حکم ہے :{وَلَنْ تَرْضٰی عَنْکَ الْیَہُوْدُ وَلَا النَّصٰرٰی حَتّٰی تَــتَّبِعَ مِلَّـتَہُمْ ط}(البقرۃ:120)’’اور(اے نبیﷺ!  آپ کسی مغالطے میں نہ رہیے) ہرگز راضی نہ ہوں گے آپؐ سے یہودی اور نہ نصرانی جب تک کہ آپؐ پیروی  نہ کریں ان کی ملت کی۔‘‘
محمد بن سلمان نے دبے الفاظ میں یہ تک کہا تھا کہ اگر سعودی عرب میں مقدس مقامات نہ ہوتے تو سعودی عرب کو مغربی تہذیب سے ہم آہنگ کرنا بہت آسان ہوتا ۔ پاکستان بھی نائن الیون کے بعد امریکہ کا نان نیٹو اتحادی بنا تھا ، اس کا کیا حشر ہوا ، سعودی عرب کو اس سے سبق سیکھنا چاہیے ۔ F-35کا بھی سعودی عرب کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا ، کیونکہ امریکن ٹیکنالوجی GPS لاکڈ ہوتی ہے، امریکہ جب چاہے اس کو لاک کر سکتاہے جیسے قطر پر اسرائیلی حملہ کے وقت امریکی ٹیکنالوجی نے کام نہیں کیا۔ امریکہ کے ساتھ دفاعی معاہدوں کا بھی سعودی عرب کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا ۔ صرف امریکہ اور ٹرمپ کے مفادات پورے ہوں گے ۔ جیسا غزہ کی تعمیر نو کے حوالے سے ٹرمپ اور ایلون مسک کا منصوبہ ہے کہ اسے معاشی حب بنایا جائے گا ۔ لہٰذا مسلم ممالک کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں۔ 
سوال: سوڈان میں اس وقت جو قتل و غارت جاری ہے اس کا غزہ کی صورت حال سے کوئی تعلق ہے؟ اگر ہے تو وہ کیا ہے؟
ڈاکٹر فرید احمد پراچہ: اگر عالم اسلام نے اپنے معاملات کو اپنے ہاتھ میں لینے کی کوئی کوشش نہ کی تو غزہ اور سوڈان جیسی صورتحال کئی مسلم ممالک میں پیدا ہو سکتی ہے ۔ یہ ایک ماڈل بن جائے گا کہ فوج کے مقابلے میں ایک عسکری گروہ کھڑا کرکے اس کو سپورٹ کرو اور اس کے ذریعے اس ملک کے وسائل بھی لوٹو ، خانہ جنگی کروا کر مسلمانوں کے خون سے ہولی بھی کھیلو ۔ سوڈان میں سونا ، چاندی اور دیگر معدنیات وافر مقدار میں ہیں لیکن دیکھئے کہ ان وسائل کو مسلمانوں کا لہو بہانے کا ذریعہ بنایا جارہاہے ۔ یہ غزہ کی صورتحال سے مطابقت بھی ہے اور عالم اسلام کے لیے انتہائی تشویشناک بات بھی ہے ۔ 
رضاء الحق: امریکی سینٹ کام کے مطابق مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ ابراہم اکارڈز کا حصہ ہیں ۔ اگر جغرافیائی طور پر دیکھا جائے تو غزہ اور سوڈان کے درمیان صرف مصر آتاہے ۔ سوڈانی مسلمانوں میں اسلام کا جذبہ بہت زیادہ ہے ، دنیا میں حفاظ ِ قرآن کا سب سے زیادہ تناسب سوڈان میں ۔سوڈانی مسلمانوں نے عمر البشیر کے دور میں اسلامی نظام بھی نافذ کر دیا تھا ۔ اسلام دشمن قوتوں نے جب دیکھا کہ یہ لوگ عالمی نظام کے لیے خطرہ ہیں تو وہاں سیکولر عناصر پر مشتمل ایک باغی فوج(RSF) قائم کی گئی جس کو مغربی عناصر کےساتھ ساتھ ایک عرب مسلم ملک بھی سپورٹ کر رہا ہےا ور اس کے بدلے میں سونا حاصل کر رہا ہے ۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے مصر سے الاخوان کی حکومت کو ختم کرکے ایک فوجی ڈکٹیٹر کو مسلط کر دیا گیا ۔آج مصر میں الاخوان کی حکومت ہوتی تو اہل غزہ محصور نہ ہوتے ۔ اسی طرح جان بوجھ کر سوڈان کے مسلمانوں کو بھی قتل کیا جارہا ہے تاکہ وہ گریٹر اسرائیل کے راستے میں رکاوٹ نہ بن سکیں۔ یہی صورت حال پاکستان کے صوبوں  خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں بھی پیدا کی جارہی ہے ۔ 
سوال:ڈونلڈ ٹرمپ نےیوکرین میں جنگ رکوانے کے لیے 28 نکاتی فارمولا پیش کردیا ہے ۔ کیا ان 28 نکات میں یوکرین کے لوگوں کے لیے بھی کوئی خوشخبری ہے یا صرف روس کو ہی خوش کیا گیا ہے ؟
رضاء الحق:عالمی میڈیا کے ذریعے جوخبریں آرہی ہیں ان کے مطابق ان 28 نکات میں یوکرین کے لیے کوئی خوشخبری نہیں ہےبلکہ یوکرین کو مجبور کیا جارہا ہے کہ وہ اس پر راضی ہو جائے جو باقی بچا ہے ۔دراصل ان میں20 نکات خود روس نے تجویز کیے تھے اور باقی 8 نکات امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ مارک روبیو نے شامل کیے ۔ اس کے اپنے الفاظ ہیں کہ شاید یوکرین اس کو قبول نہ کرے ۔ ایسا معلوم ہوتاہے کہ روس کو شام کے بدلےاور غزہ کے حوالے سے قرارداد کو ویٹو نہ کرنے کے بدلے خوش کیا جارہا ہے۔ بظاہر یوکرین کا کوئی مستقبل دکھائی نہیں دے رہا ۔واللہ اعلم !
سوال:امریکہ غزہ میں قیام امن کے لیے ایک طرف قرارداد پیش کر رہا ہے اور معاہدے بھی کر رہا ہے لیکن پچھلے دوسال میں جب بھی غزہ میں جنگ بندی کے لیے قرارداد پیش کی گئی تو اسے امریکہ ویٹو بھی کرتا رہا ۔ امریکہ کے اس دہرے معیار پر آپ کیا کہیں گے ؟
ڈاکٹر فرید احمد پراچہ:دوغلا پن امریکہ پالیسی کا لازمی حصّہ ہے جس سے دنیا اب تنگ آچکی ہے ، یہاں تک کہ خود امریکی بھی امریکہ کی اس پالیسی سے تنگ آچکے ہیں۔ امریکہ میں اب یہ آوازیں اُٹھ رہی ہیں کہ ہم اپنے بجٹ کا16فیصد اسرائیل کو کس لیےدے رہے ہیں ؟ امریکی شہریوں کے ٹیکس کا پیسہ نسل کُشی کے لیے خرچ ہو رہا ہے ۔ امریکہ اور اسرائیل کے خلاف نفرت اس قدر بڑھ چکی ہے کہ جہاں بھی کوئی اسرائیلی ہوتا ہے وہاں سے لوگ واک آؤٹ کر جاتے ہیں۔ اس نفرت کا اثر امریکی انتخابات پر بھی پڑنے والا ہے ، اسی لیے ٹرمپ امن کا داعی بننے کی ایکٹنگ کر رہا ہے ۔ 
رضاء الحق:قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے بہت ہی خوبصورت انداز میں مسلمانوں، مسلم حکمرانوں اور مقتدر حلقوں کو یہ بات سمجھا دی ہے کہ : ’’اور نہ کمزور پڑو اور نہ غم کھائو‘اور تم ہی سربلند رہو گے اگر تم مؤمن ہوئے۔‘‘ (آل عمران:139)
جب تک مسلمان عوام، حکمران اور مقتدر حلقے اس بات کو نہیں سمجھیں گے اور اس کے مطابق عمل نہیں کریں گے ، سچا مومن بننے کی کوشش نہیں کریں گے تب تک مسلمان اس پوزیشن میں نہیں آسکتے کہ وہ دشمنوں کو جواب دے سکیں ۔ آج دنیا میں ویٹو کا حق صرف 5 ممالک کوحاصل ہے اور وہ سب کے سب غیر مسلم ہیں ۔ کسی ایک مسلمان ملک کے پاس ویٹو کا حق نہیں ہے ۔ جب تک ہم سچے مومن نہیں بنیں گے تب تک اسی طرح مار کھاتے رہیں گے ۔ ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ مسلم ممالک کے حکمرانوں اور مقتدر حلقوں کو صراط مستقیم پر چلنے اور متحد ہونے کی توفیق عطافرمائے۔ آمین !