(منبرو محراب) آسان نکاح مگر کیسے؟ - ابو ابراہیم

9 /

آسان نکاح مگر کیسے؟


(قرآن و حدیث کی روشنی میں)

مسجدجامع القرآن ، قرآن اکیڈمی لاہور میں امیر ِتنظیم اسلامی محترم شجاع الدین شیخ حفظ اللہ کے21نومبر 2025ء کے خطاب جمعہ کی تلخیص

خطبہ ٔمسنونہ اور تلاوتِ آیاتِ قرآنی کے بعد!
ماہ نومبر کے آخری ایام ہیں ۔ ان دنوں میں تقریباً جنوری تک پاکستان بھر میں نکاح کی تقریبات کا انعقاد ہوتا ہے۔ اس سنت کی ادائیگی کے حوالے سے اللہ کے رسول ﷺ کی کیا تعلیمات ہیں اور کس طریقے سے اس سنت کو اداکرنا چاہیے ،اس کے برعکس آج معاشرے میں فرسودہ رسومات اور فضول اخراجات کی وجہ سےاس پاکیزہ عمل کوجوکہ پیغمبروں کی سنت اور دین کا اہم تقاضا ہے ،  کتنا بڑا بوجھ اور مصیبت بنا دیا گیا ہے۔ اس حوالے سے ہی کچھ گزارشات آج کی نشست میں رکھنا مطلوب ہیں۔ہمارے استاد ڈاکٹر اسراراحمدؒ نے اس حوالے سے باقاعدہ ایک اصلاحی تحریک چلائی اور کوشش کی کہ نکاح کے موقع پر جو تقریب ہوتی ہے، اس کو بھی بامقصد بنایا جائے۔سنت کے مطابق نکاح مسجد میں ہو، اس میں قرآن کے ذریعے دعوت اور تذکیر کا پہلو شامل ہو اور نکاح کی اس تقریب کو آسان سے آسان بنانے کی کوشش کی جائے۔ ڈاکٹر صاحب ؒ کی اسی تحریک کو تنظیم اسلامی نے جاری رکھا ہوا ہے ،ہمارے مدرسین عموماً مسجد میں ہی نکاح پڑھاتے ہیں اور اس موقع پر واعظ و نصیحت کا اہتمام کرتے ہیں اور اِس میں یہ باتیں بھی سامنے رکھتے ہیں کہ نکاح کی سنت کے اصل مقاصد کیا ہیں ، اس موقع پر کرنے کے اصل کام کیا ہیں جن کا دین تقاضا کرتاہے اور کن کاموں سے شریعت نے منع کیاہے۔ 
ہمارا دین بہت ہی پیارا اور فطری دین ہے اور خالق کا عطا کردہ ہے۔ رحمۃ للعالمین ﷺ کے ذریعے عطا ہواہے ۔ اس دین نے نکاح کے عمل کو بہت آسان اور پاکیزہ بنایا ہے ۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے :
{یُرِیْدُ اللّٰہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلَا یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَز}( البقرہ:187 )’’اللہ تمہارے ساتھ آسانی چاہتا ہے اور وہ تمہارے ساتھ سختی نہیں چاہتا۔‘‘ 
اللہ نے دین کو ایسے عطا فرمایا کہ وہ ہمارے لیےعمل کے لحاظ سےفطری اور آسان ہو جائے۔اسی طرح رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
((   إِنَّ الدِّينَ يُسْرٌ))’’دین تو آسان ہے۔‘‘
آج ہمارے ہاں ایک جملہ بڑا مشہور ہے کہ مولویوں نے دین کو مشکل بنا دیا ہے ۔ ہر معاملے میں مذہب اور مذہبی طبقہ کو مجرم ٹھہرانا سیکولر تہذیب کا خاصا ہے۔ تاہم یہ حقیقت بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ علماء میں  علماء حق بھی ہیں ، علماء سو بھی ہیں ۔ یہ فرق بہرحال رہنا چاہیے۔ البتہ نکاح کے معاملے میں علماء کا قصور نہیں ہے ۔ کسی عالم نے یہ نہیں کہا کہ نکاح کے عمل کو بوجھ بناؤ ،یا یہ سب خرافات ، رسومات ، اُلٹے سیدھے خرچے اور گناہ کے کام کرو گے تو نکاح ہوگا ۔ ہرگز نہیں بلکہ یہ مصیبت عوام نے خود اپنے ہاتھوں سے پالی ہوئی ہے۔ یہ سب قرآن و سنت سے انحراف کا نتیجہ ہے ۔ ایک اورمقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا : 
{وَمَا جَعَلَ عَلَیْکُمْ فِی الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍ ط} (الحج:78) ’’اور دین کے معاملے میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی۔‘‘ 
اللہ نےاپنے بندوں سے جو تقاضے کیے ہیں وہ ایسے ہیں کہ ان پر بندے عمل درآمد کر سکتے ہیں ۔ ایک اصولی بات بھی قرآن میں بیان ہوئی : 
{لَا یُکَلِّفُ اللہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَہَاط} (البقرۃ:286) ’’اللہ تعالیٰ نہیںذمہ دار ٹھہرائے گا کسی جان کو مگر اس کی وسعت کے مطابق۔‘‘ 
اللہ انسان کو اتنا ہی مکلف یا ذمہ دار ٹھہراتا ہے، جتنی اس کو اللہ نےصلاحیت عطا فرمائی ہے ۔ پھر اللہ تعالیٰ یہ بھی فرماتا ہے :
{اَلَا یَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ ط}(الملک:14) ’’کیا وہی نہ جانے گا جس نے پیدا کیا ہے؟‘‘
اللہ تعالیٰ خالق ہے اور ہم اس کی مخلوق ہیں ، اسے خوب معلوم ہے کہ کس بندے میں کتنی صلاحیت ہے ۔ اسی طرح اس کو معلوم ہے کیا چیز بندوں کےفائدے کی ہے اور کیا اُن کے لیے نقصان دہ ہے ۔اس کے مطابق ہی اس نے ہر عمل کا تقاضا کیا ہے ۔ البتہ یہ ضمنی نقطہ بھی ذہن میں رہے کہ دین میں آسانی سے مراد وہی آسانی ہے جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے عطا فرمائی، اپنی عقل سے آسانیاں اور رخصتیں اختراع کرنا ، میٹھے میٹھے اسلام کو قبول کرلینا لیکن دین کے راستے میں تھوڑی بہت مشکل اور مشقت کو برداشت کرنے سے بھاگنا ہرگز مراد نہیں ہے ۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں رسول اللہﷺ کی ذمہ داریوں  کے بارے میں فرماتا ہے :
’’اور حرام کر دیں گے اُن پر نا پاک چیزوں کو ‘ اور اُن سے اُتارد یں گے اُن کے بوجھ اور طوق جو اُن (کی گردنوں) پر پڑے ہوں گے۔‘‘(الاعراف:157)
لوگوں نے اپنے پاس سے قوانین ، عقائد اور رسومات اختراع کرکے اپنے آپ کوجس بوجھ تلے دبا لیا ہے ، رسول اللہ ﷺ لوگوں کے کندھوں سے اُس بوجھ کو ہمیشہ کے لیے اُتارنے کے لیے آئے ہیں اور جو غلامی کے طوق لوگوں کے گلے میں پڑے ہیں، اُن سے نجات دلانے کے لیے آئے ہیں ۔ 
آسان نکاح:مگر کیسے؟
ہمارے ہاں اب تو شادی بیاہ کے کارڈ انگریزی میں ہی چھپتے ہیں۔ حالانکہ ہم سب اُردو بولتے بھی ہیں، سمجھتے بھی ہیں۔ اُردو میں جب چھپتے تھے تو ہم لکھتے تھے کہ ولیمہ مسنونہ ہوگا یا نکاح مسنونہ کی تقریب ہو رہی ہے، لیکن اب انگریزی میں کچھ اور ہی لکھتے ہیں ۔ جب تک ہم مسنونہ کا لفظ لکھتے تھے تو کم ازکم سنت رسول ﷺ کی طرف نسبت تو ہو جاتی تھی ۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتاہے : 
{لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ} (الاحزاب:21)’’(اے مسلمانو!) تمہارے لیے اللہ کے رسول ؐمیں ایک بہترین نمونہ ہے۔ ‘‘
یہ آیت صرف ماہ ربیع اوّل میں تلاوت کرنے یا سیرت کانفرنس میں پڑھنے یا سوشل میڈیا پر بطور ثواب فارورڈ کرنے کے لیے نہیں ہے بلکہ یہ اِس لیے نازل کی گئی ہے تاکہ ہم اِس کو سامنے رکھ کر اپنی زندگی کو گزارنے کی کوشش کریں۔اللہ کے رسول ﷺ کے کئی نکاح  ہوئے، آپ ﷺ کی بیٹیوں کے بھی نکاح ہوئے ، آپ ﷺ نے کئی صحابہ؇ کے نکاح پڑھائے۔ آپ ﷺ کا کوئی ایسا عمل نہیں ہے جو احادیث میں محفوظ نہ ہو۔ جبکہ نکاح جیسی اہم سنت کے متعلق تو سینکڑوں احادیث موجود ہیں ۔ لہٰذا ایسا ہرگز نہیں ہے کہ اُمت اندھیرے میں ہے ۔ معروف حدیث ہے کہ فاطمۃ الزہرا ؅  کا نکاح مسجد نبوی میں ہوا اورصرف 12 صحابہ؇ نکاح کی تقریب میں موجود تھے ۔ اس کے بعد ایک بوڑھی صحابیہ ام ایمن؅ بی بی فاطمہ؅ کا ہاتھ پکڑ کر اُن کو سیدنا علی؄ کے حجرے میں چھوڑ کر واپس آگئیں۔سیدنا علی؄ میں خوداری بھی خوب تھی، کسی پر بوجھ بننا گوارا نہ کیا، اپنی زرہ فروخت کرکے جو رقم حاصل ہوئی ، اُس سے ولیمہ اور مہر کا انتظام کیا اور جو رقم باقی بچی وہ لا کر رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ پر رکھ دی کیونکہ ابو طالب کی وفات کے بعد آپ ﷺ ہی حضرت علی؄ کے سرپرست تھے ۔ اُس رقم سے اللہ کے رسول ﷺ نے کچھ سامان منگوایا اور حضرت فاطمہ ؅ کو گھریلو ضروریات کے لیے عطا فرمایا ۔ اِس سامان میں ایک کھجور کی چھال کا بھرا ہوا بستر ، دو تکیے ، ایک چکی ، پانی اور کھانے پکانے کا ایک ایک برتن شامل تھا ۔ یہ کوئی جہیز ہرگز نہیں تھا بلکہ حضرت علی؄ کی رقم سے خریدا گیا گھریلو ضرورت کا بنیادی سامان تھا ۔ ایک غلط فہمی کی وجہ سے آج اس کو جہیز سمجھ لیا گیا ہے اور ایک رسم کے طور پر شادی کی رسومات میں شامل کر لیا گیا ہے ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون!  اللہ کے رسولﷺ کی چار بیٹیاں تھیں ، باقی کسی کو ایسا سامان کیوں نہیں دیا ؟ یہ نہیں بتایا جاتا کہ حضرت فاطمہ ؅  کو صرف اس لیے دیا کہ آپ ﷺ ہی حضرت علی؄ کے گھر کے سربراہ تھے اور حضرت علی؄ کی دی ہوئی رقم سے ہی یہ سامان خریدا گیا ۔ لہٰذا سنت میں جہیز کی کوئی رسم شامل نہیں ہے، بارات کی رسم بھی شامل نہیں ہے۔ حضرت فاطمہ ؅ کی رخصتی کے وقت کوئی بارات نہیں تھی ، البتہ بعد میں آپ ﷺ اُن کے گھر گئے ، وعظ و نصیحت کی اور ذمہ داریوں کا تعین کیاکہ حضرت فاطمہ ؅ نے گھر کو سنبھالنا ہے اور حضرت علی؄ نے باہر کی ذمہ داریوں کو پورا کرنا ہے ۔ 
دوسرا واقعہ مدنی دور کا ہے اور بخاری شریف میں نقل ہوا ہے ۔ عبدالرحمن بن عوف ؄بہت مالدار صحابی تھے اور عشرہ مبشرہ میں شامل تھے ۔ ایک دن حضور ﷺ نے آپ کے ظاہری حلیہ میں تبدیلی دیکھ کر وجہ دریافت فرمائی تو انہوں نے بتایا کہ اُن کا نکاح ہوا ہے ۔ یعنی  حضور ﷺ کو اُن کے نکاح کے بارے میں معلوم نہیں تھا ۔  یعنی نکاح کی تقریب کو اِس قدر سادہ رکھا جاتا تھا ۔ آج نکاح پڑھانے کے لیے بھی بڑے سے بڑے عالم کو دعوت دی جاتی ہے ، بڑی سے بڑی شخصیت کو مہمان خصوصی کے طور پر بلایا جاتاہے اور پوری برادری اور تمام جاننے والوں کو بلانا لازمی سمجھ لیا گیا ہے ۔ حالانکہ حضور ﷺ سے بڑھ کر مہمان خصوصی کون ہوسکتا تھا ، آپ ﷺ سے بڑا عالم کون تھا؟ لیکن آپ ﷺ کی سنت تھی کہ نکاح کو بالکل سادہ رکھا جائے ۔ البتہ آپ ﷺ نے عبدالرحمان بن عوف ؄سے مہر کے بارے میں ضرور پوچھا اور ولیمہ کا حکم دیا ۔ سنت رسول ﷺ میں بس یہی چیزیں ہیں ۔ 
7ہجری کو فتح خیبر کے بعد واپسی کے دوران  آپ ﷺ کا نکاح بی بی صفیہ سے ہوا ۔ بخاری شریف کی روایت ہے کہ نکاح کے بعد ایک سفید چادر بچھائی گئی ، کھجور ، پانی اور کھانے پینے کا جو سامان میسر تھا لا کر رکھ دیا گیا ۔ جو لوگ حاضر تھے وہ اس دعوت میں شریک ہوئے ۔ یہ  حضور ﷺ کا ولیمہ تھا ۔ اللہ فرماتا ہے : {لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ} سنت ِرسول ﷺ  کے مطابق نکاح کے موقع پر کرنے کے کام یہ ہیں جو احادیث میں بیان ہوئے ۔ سب سے پہلے رشتہ طے کرتے ہوئے دینداری کو ترجیح دی جائے (بخاری)۔ نکاح مسجد میں کرو ( ابن ماجہ ) ۔ اگر کوئی گواہوں کی موجودگی میں اپنے گھر میں بھی نکاح پڑھوا لے گا تو ہو جائے گا لیکن مسجد کی برکتیں بہت زیادہ ہیں۔حضور ﷺ نے فرمایا :’’ سب سے زیادہ برکت اُس نکاح میں ہے جو کم خرچ ہو۔‘‘ (ابن ماجہ) آج یہ سمجھ لیا گیا ہے جب تک زیادہ سے زیادہ خرچ نہیں کریں تو برکت نہیں ہوگی ۔ کہا جاتاہے کہ یہی تو موقع ہے خرچ کرنے کا ۔ اللہ کے بندو ! دکھاوا اور ریاکاری کرکے کس کو خوش کر رہے ہو ۔ اللہ کے رسول ﷺ کی تعلیم تو یہ ہے ،جو نکاح کم خرچ اور آسان ہوگا اس میں اتنی ہی برکت ہوگی ۔ آج ایک رسم بنالی گئی کہ لڑکی والے لڑکے والوں کے کم سن بچوں سے لے کر بوڑھوں تک ہر فرد کو نئے کپڑے سلوا کر دیں گے ۔ یہ بوجھ ہم نے خود اپنے اوپر لاد ے ہوئے ہیں ۔ برکت کیسے آئے گی ۔ مسنون نکاح تو یہ ہے کہ سادہ اور کم خرچ نکاح ہو ، لڑکے والے زیادہ سے زیادہ چھوہارے بانٹ دیں ۔ سنت میں نکاح کے موقع پر لڑکی والوں کا کوئی خرچ نہیں ۔ ڈاکٹر اسراراحمدؒ بہت اچھے انداز میں بیان کرتے تھے کہ کفالت کی ذِمّہ داری اللہ نے مرد کے کندھوں پر ڈالی ہے لہٰذا شادی میں جو خرچ ہوگا وہ لڑکے والے اُٹھائیں گے ۔ مرد کو مرد بننا چاہیے، غیرت سے عاری نہیں ہونا چاہیے۔یہ کیا مردانگی ہے کہ آج منہ پھاڑ پھاڑ کر لڑکی والوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ جہیز میں فلاں چیز بھی چاہیے ، فلاں بھی چاہیے ۔ اسلام میں تو لڑکی والوں پر کوئی خرچ ہی نہیں ہے ۔ نکاح کے موقع پر چھوہارے بھی لڑکے والے لاتے ہیں ۔ آج پہلے جہیز کے نام پر لڑکی والوں کو کنگال کیا جاتاہے ، اس کے بعد بسیں بھر بھر کر پوری برات لے جاکر بٹھائی جاتی ہے اور لڑکی والوں کا فضول خرچہ کروایا جاتا ہے۔ان فضول رسموں کی وجہ سے آج مجبور والدین بڑے بڑے فلاحی اور رفاہی اداروں کے پاس جاکر جھولی پھیلاتے ہیں کہ بچیوں کی شادی کے لیے آپ ہمیں زکوٰۃ دیں ، ڈونیشن دیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اللہ کے دین نے تو بیٹیوں کے ماں باپ پر کوئی خرچ ہی نہیں رکھا ۔ ساری ذمہ داری مرد پر ڈالی ہے ۔ 
مہر کا ادا کرنا مرد پر لازم ہے ۔یہ قرآن و سنت رسول ﷺ دونوں سے بھی ثابت ہے ۔ آج اس میں بھی غلط تصورات شامل کر لیے گئے ہیں ۔ زیادہ سے زیادہ مہر مقرر کیا جاتاہے اور اس کا تعلق طلاق سے سمجھا جاتاہے کہ اگر خدانخوستہ طلاق ہو جائے تو لڑکے والے مہر کی مد میں اتنی رقم دیں گے ۔ حالانکہ دین میں ایسی کوئی شرط نہیں ہے ۔ دین میں مہر کا تعلق طلاق سے نہیں بلکہ نکاح سے ہے ۔  مسند احمد کی ایک روایت ہےکہ جس نے کم یا زیادہ کوئی مہر طے کیا اور ادا کرنے کا ارادہ نہیں ہے تو قیامت کے دن وہ زانی کی حیثیت میں اللہ کے سامنے پیش ہوگا ۔ اول تو ایسا مہر مقرر ہی نہ کرو جو ادا نہ کرسکو اور اگر مقرر کرتے ہو تو اس کو ادا کرو ۔ 
نکاح کے بعد بیوی کی کفالت ، گھر کا خرچہ شوہر کے ذِمّہ ہے ۔ آج گھر نہیں ہے تو کل اللہ گھر بھی دے دے گا ، آج گاڑی نہیں ہے تو گاڑی بھی اللہ دے دے گا مگر یہ سارا انتظام شوہر نے کرنا ہے ، یہ لڑکی والوں کے ذِمّہ ہرگز نہیں ہے ۔ بدقسمتی سے آج گھر اور گاڑی کے مطالبات بھی جہیز میں شامل کر لیے گئے ہیں ۔ یہ خرافات دین میں نہیں ہیں ۔اسی طرح لڑکی والوں کی طرف سے بھی یہ مطالبات درست نہیں ہیں کہ بڑا فلیٹ ہوگا ، بڑا گھر ہو گا تو شادی ہوگی ورنہ نہیں ۔ اللہ کے دین میں یہ مطالبات شامل نہیں ہیں ۔ جو کچھ رزق اور مال اللہ نے بندے کی قسمت میں لکھا ہے وہ اس دنیا میں حاصل کر کے رہے گا ، اِس سے زیادہ یا کم حاصل نہیں کرسکتا ۔ امتحان صرف یہ ہے کہ وہ حلال ذرائع سے کماتا ہے یا حرام سے ۔ اصل میں دیکھنا یہ چاہیے کہ بندے کی کمائی حلال سے ہے یا حرام سے ۔ اگر حلال سے کماتا ہوگا تو امید ہے کہ اُس کی بیوی اور بچے بھی اُس کے ساتھ دائمی جنت میں ہوں گے ۔ اس کے برعکس اگر حرام کے محل بھی ہوں ، سونے کی گاڑیاں بھی ہوں تو وہ اسی دنیا میں رہ جائیں گی ، آخرت کی دائمی زندگی میں ناکامی ہے تو یہ سب سے بڑا خسارہ ہے ۔ اسی طرح سنت میں دلہا دلہن کو مبارک باد دینا اور دعائیں دینا شامل تھا ۔ لیکن آج ایک اور فضول رسم دکھاوے کے لیے اپنالی گئی ہے کہ دلہا دلہن کو مہنگے سے مہنگے گفٹ دینے ہیں ۔ دولت مند تو اپنی دولت کے اظہار کے لیے یہ کرلیتے ہیں لیکن غریب رشتہ دار قرض ادھار کرکے یہ رسم پوری کرتے ہیں کہ بھرم رہے ۔ یہ بوجھ بھی دین نے نہیں بلکہ ہم خود اپنے اوپر لاد لیے ہیں ۔ کہا جاتاہے کہ یہی تو موقع ہے ۔ لیکن ہم کہتے ہیں کہ آج یہ بڑا موقع ہے کہ ان فرسودہ رسومات کو روکا جائے ۔ جس کے ہاں زیادہ وسائل ہیں وہ طے کر لے کہ میری بیٹی اللہ کے گھر سے رخصت ہوگی اور میں سادگی کے ساتھ رخصت کروں گا ۔ اسی طرح لڑکے والے طے کرلیں کہ لڑکی والوں سے جہیز نہیں لیا جائے گا ، بارات نہیں نکالی جائے گی اور سادگی کے ساتھ ولیمہ کیا جائے گا ۔ دین کے مطابق نکاح کے موقع پر کرنے کے کام یہ تھوڑے سے ہیں کیونکہ دین اس معاملے میں بندوں کے لیے آسانی چاہتا ہے ۔ جو دولت مند ہونے کے باوجود اس سادگی کے ساتھ نکاح کی سنت کو زندہ کریں گے تو یہ بہت بڑی خدمت خلق ہوگی اور اُن کا یہ عمل اُن کے لیے    صدقہ جاریہ بنے گا۔ حکومتی رپورٹس کے مطابق ملک میں  کم و بیش  70 فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے ۔  وہ جب دیکھیں گے کہ فلاں کے پاس اتنی دولت ہے لیکن شادی سادگی سے کی ہے تووہ بھی اس طریقے کو اپنانے میں حرج نہیں سمجھیں گے اور اس طرح مزید غربت کی چکی میں پسنے سے بچ جائیں گے ، کروڑوں بچیاں اور بچے جو شادی کی عمر کو پہنچ چکے ہیں اور لاکھوں ایسے بھی ہیں جن کی عمریں گزر رہی ہیں مگر شادی کی فضول رسومات شادی میں رکاوٹ ہیں ۔ لہٰذا یہ کروڑوں لوگوں کی خدمت ہوگی ۔ ہم خدمت خلق کے لیے پیسے خرچ کرتے ہیں، مساجد میں دیتے ہیں ، رفاعی اداروں میں دیتے ہیں، غرباء میں  تقسیم کرتے ہیں ، یہ بھی صدقہ ہے لیکن نکاح کے موقع پر آپ زیادہ خرچ کرنے کی بجائے خرچ کو روکنے سے اتنی بڑی خدمت کر سکتے ہیں ۔ ہم نے حدیث میں عبدالرحمٰن بن عوف؄ کے نکاح کے بارے میں پڑھا ، اتنے بڑے صحابی اور دولت مند تھے لیکن کتنی سادگی سے نکاح  کیا ۔ خود رسول اللہ ﷺ کے متعدد نکاح تھے لیکن بالکل سادگی سے ہوئے ۔ ہمارے لیے اللہ کے پیغمبر ﷺ   کی زندگی میں نمونہ ہے ۔ پیغمبر ﷺ کی زندگی میں دعوتِ دین کا فریضہ بھی ہے،اقامتِ دین کی جدوجہد بھی ہے،اللہ کے دین کے لیے طائف اور اُحد میں خون بھی بہا ہے ، بدر کا میدان بھی ہے ،اُس عظیم مشن کے لیے بے انتہا قربانیاں بھی جس کے لیے اللہ نے بھیجا تھا:
{لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ} (الصف:9) ’’ تاکہ غالب کر دے اس کو پورے نظامِ زندگی پر۔‘‘
جن کے سامنے اتنا بڑا مشن تھا، اُن کے ہاں نکاح آسانی سے ہو رہے تھے اور ایک نہیں کئی نکاح ہو رہے تھے۔ اللہ کے رسولﷺ کو تو اللہ نے متعدد نکاح کرنے کی اجازت دے رکھی تھی مگر اکثر صحابہ؇ کے بھی 4 تک نکاح ہو رہے تھے ، مشن اتنا بڑا تھا اور نکاح مشکل نہیں تھا، آج ہمارے ہاں نکاح ہی مشن بن گیا اوراُس کو اتنا مشکل بنا لیا گیا ہے کہ عام آدمی کے لیے ناممکن ہو گیا ہے ۔ چند سال  پہلے کے اعدادوشمار ہیں کہ اس وقت ملک میں  2.5 کروڑ بچیوں کی عمر 35 سال سے اوپر ہو چکی ہے مگر ان کی شادی نہیں ہورہی ۔ یعنی کل آبادی کا 10 فیصد اس مصیبت کا شکار ہے ۔ مسئلہ کیا ہے ؟ جہیز کے لیے پیسے نہیں ہیں ، شادی کے اخراجات کے لیے پیسے نہیں ہیں ۔ ارمان بڑے بڑے ہیں مگر جیب خالی ہے ۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ بحیثیت اُمتی جو اصل مشن تھا اس کو فراموش کر دیا گیا اور صرف شادی کو مشن سمجھ لیا گیا ۔ 
تنظیم اسلامی کا ڈاکٹر اسراراحمدؒ کے دور سے ہی یہ مشن ہے کہ نکاح کے عمل کو آسان بنایا جائے ۔ کیونکہ نکاح کو جتنا مشکل بنایا جائے گا ، برائی ، بے حیائی اور زنا کا راستہ کھلے گا ۔ مسلم شریف میں حدیث ہے کہ انسان کی آنکھ بھی زنا کرتی ہے ، کان بھی زنا کرتا ہے ، دل بھی زنا کرتاہے ،  زبان بھی زناکرتی ہے ، ہاتھ زنا کرتے ہیں ، پیر زنا کرتے ہیں ۔ روز قیامت یہ سب اعضاء انسان کے خلاف گواہی دیں گے ۔ نکاح آسان ہو گا تو یہ سب برائیاں کم ہوں گی ، لوگوں کی آخرت بھی بچے گی ، حیاء اور ایمان بھی محفوظ رہے گا ۔ اسی لیے دین نے نکاح کو آسان بنایا ہے لیکن ہم نے   اپنے پاس سے لمبے چوڑے خرچے ، چھوٹی منگنی ،درمیانی منگنی، بڑی منگنی، گرینڈ سلام منگنی ،مہندی، مائیوں ،ابٹن ،   میوزک نائٹ اور یہ نائٹ اور وہ نائٹ ایجاد کرکے اپنے لیے کروڑوں لوگوں کے لیے مصیبت بنالی ۔ان میں اکثر رسومات ہندوانہ ہیں ، پھر عیدالاضحی پر لڑکے والوں  کے لیے بکرے جارے ہیں ، عیدالفطر کے موقع پر ٹوکرے جارہے ہیں، لڑکی کا والد لڑکے کے پورے خاندان کے لیے سوٹ سلوا کر بھیج رہا ہے ۔ خدا کے بندو! جس باپ نے اپنی بیٹی کو پال پوس کر جوان کر کے تمہارے حوالے کر دیا ، اب اُس سے اور کیاکیا تقاضے کرو گے ۔ کسی غیرت مند انسان کی غیرت اس کو گوارا ہی نہیں کر سکتی اور نہ ہی اخلاقیات اِس کی اجازت دیتی ہے ۔ خداراہ ! ان امور پر غورکیجئے ! ورنہ ایمان بھی جارہا ہے ، غیرت بھی جارہی ہے ، حیاء بھی جارہی ہے ، اور دنیا اور آخرت دونوں برباد ہورہی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں سچا اُمتی بننے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین !