دین کا جامع تصور
(قرآن و حدیث کی روشنی میں )
مسجد جامع القرآن ، قرآن اکیڈمی لاہور میں امیر تنظیم اسلامی محترم شجاع الدین شیخ حفظ اللہ کے07فروری 2025ء کے خطاب جمعہ کی تلخیص
خطبہ ٔمسنونہ اور تلاوتِ آیاتِ قرآنی کے بعد!
آج جس سبق کی یاددہانی مقصود ہے وہ دینِ اسلام کے جامع تصور کے متعلق ہے ۔ ویسے تو یہ موضوع برسوں سے بیان ہورہا ہے لیکن بہرحال انسان بھول جاتاہے ۔ ایک رائے کے مطابق لفظ انسان نسیان سے بنا ہے جس کے معنی کمزوری ہیں اور نسیان یا کمزوری کا علاج یہ ہے کہ یاددہانی کروائی جائے ۔ خود اللہ کے رسول ﷺجمعہ کی گفتگو میں یاددہانی کروایا کرتے تھے ۔ حدیث میں ہے کہ:((کان یقراء القرآن ویذکر الناس))’’اللہ کے رسولﷺ خطاب جمعہ میں قرآن پڑھتے تھے اور اس کے ذریعے لوگوں کو یاددہانی کروایا کرتے تھے ۔ ‘‘
دین اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور یہ زندگی کے تمام گوشوں کے لیے رہنمائی بھی عطا کرتا ہے اور یہ اپنا غلبہ و نفاذ بھی چاہتاہے ۔ اللہ کے رسولﷺ کا مشن ہی اس دین کو بطور ضابطۂ حیات اور نظامِ زندگی غالب اور نافذ کرنا تھا اور آپ ﷺنے بالفعل اس دین کو غالب کر کےایک نمونہ بھی پیش کیا ۔ رسول اللہ ﷺکی بعثت تمام انسانوں کے لیے ہے اور قیامت تک کے لیے ہے لہٰذا اسلام کے غلبہ اور نفاذ کی جدوجہد بھی قیامت تک فرض ہے۔ صحابہ کرام؇ نے اسی مشن کے لیے اپنے گھر بار چھوڑے اور پوری زندگیاں وقف کردیں اور ان کے بعد بھی 14 صدیوں تک اِس بارے میں کوئی اختلاف نہیں رہا، لیکن آج کچھ فتنہ پرور لوگ یونیورسٹیوں میں ، میڈیا ٹاک شوز میں ، کبھی سوشل میڈیا پر یہ پروپیگنڈا پھیلارہے ہیں کہ دین کا تو ریاست سے کوئی تعلق نہیں ہے ، مذہب انسان کا ذاتی معاملہ ہے ،اجتماعی سطح پر سیکولر نظام ہونا چاہیے وغیرہ ۔ یہ فتنہ مزید آگے بڑھ کر احادیث رسول ﷺ کا بھی انکار کرتاہے ۔ اِس طرح لوگوں کے ذہنوں کو خراب کرنے والے مختلف اصطلاحیں استعمال کرتے ہیں، جیسا کہ پولیٹیکل اسلام نہیں ہونا چاہیے ۔ ریڈیکل اسلام نہیں ہونا چاہیے ، مولویوں کا اسلام نہیں ہونا چاہیے وغیرہ ۔
آج اِسی موضوع پر یاددہانی مقصود ہے کہ اصل میں دین اسلام کیا ہے اور اس کے تقاضے کیا ہیں ؟بنیادی بات یہ ہے کہ دینِ اسلام اللہ کا دین ہے لہٰذا اس کی تشریح بھی اللہ کے پیغمبروں ، اُس کی کتابوں اور احادیث رسول ﷺ میں ملے گی ، نہ کہ مغرب کی ڈکشنریوں ، یونیورسٹیوں اور یونانی فلسفہ میں۔ اِسی طرح سیکولر ازم انگریزی زبان کا لفظ ہے تو اس کی تشریح بھی انگریزی میں ملے گی نہ کہ قرآن و حدیث میں۔ مغرب کی ڈکشنریوں میں تو لفظ ریلیجن(religion) ملے گا جوکہ نہ احادیث میں ہے اورنہ قرآن میں ہے۔لہٰذا مغربی اصطلاح کے مطابق عیسائیت ریلجن ہو سکتی ہے ، بدھ مت ، ہندو مت ، جین مت ریلیجن ہو سکتے ہیں لیکن اگر ہم نے اسلام کی تشریح تلاش کرنی ہے تو پھر وہ قرآن واحادیث میں ہی ملے گی۔ قرآن کریم میں کئی پیرایوں میں لفظ دین کو بیان کیا گیا ہے۔ مثلاً سورۃ الفاتحہ میں ہم پڑھتے ہیں :
{ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ(0)}’’بدلے کے دن کا مالک ۔‘‘
لہٰذا دین کا ایک مفہوم بدلہ بھی ہے ۔ اسی طرح یہ لفظ قرآن میں قانون کے معنی میں بھی آتاہے ۔ مثلاً سورہ یوسف میں فرمایا :
{مَا کَانَ لِیَاْخُذَ اَخَاہُ فِیْ دِیْنِ الْمَلِکِ اِلَّآ اَنْ یَّشَآئَ اللہُ ط}(آیت:76) ’’آپؑ کے لیے ممکن نہیں تھا کہ اپنے بھائی کو روکتے بادشاہ کے قانون کے مطابق سوائے اس کے کہ اللہ چاہے۔‘‘
لفظ دین قرآن کریم میں اطاعت کے مفہوم میں بھی آتا ہے ۔مثلا ًسورہ زمر میں فرمایا :
{اَلَا لِلّٰہِ الدِّیْنُ الْخَالِصُ ط} (آیت :3)
’’آگاہ ہو جائو کہ اطاعت ِخالص اللہ ہی کا حق ہے۔‘‘
بعض نے یہاں اطاعت کو بندگی کے معنی میں لیا ہے کہ بندگی صرف اللہ تعالیٰ کے لیے ہے ۔
اسی طرح لفظ دین نظام کے معنوں میں بھی آتاہے جیسا کہ سورۃ الانفال میں فرمایا :
{ وَقَاتِلُوْہُمْ حَتّٰی لَا تَـکُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّیَکُوْنَ الدِّیْنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ ج} (آیت :39)
’’اور (اے مسلمانو!)ان سے جنگ کرتے رہویہاں تک کہ فتنہ (کفر) باقی نہ رہے اور دین کل کا کل اللہ ہی کا ہو جائے۔‘‘
یہاں غزوۂ بدر کے تناظر میں بیان ہے۔ جن حالات میں بندے کے لیے اپنا ایمان بچانا مشکل ہو ، اللہ کے احکام پرعمل کرنا مشکل ہو یا اللہ کے احکام کا اجتماعی سطح پر نفاذ مشکل ہو، اِن حالات کو بھی فتنہ کہا گیا ہے ۔ اس صورتحال سے نکلنے کے لیے اگر باطل نظام سے جنگ بھی کرنا پڑے تو ہمارے دین نے اس کا حکم دیا ہے۔15 لاکھ مسلمانوں کو عراق میں اور 15 لاکھ مسلمانوں کو افغانستان میں شہید کرنے کی امریکہ ، برطانیہ اور ان کے اتحادیوں اور ساتھ دینے والوں کو کھلی چھوٹ مل گئی تو مسلمانوں کو کیوں اجازت نہیں ہے کہ وہ اللہ کے دین کو قائم کریں ؟ گریٹر اسرائیل کے قیام کے لیے صہیونیوں نے غزہ میں 18 ہزار بچوں سمیت 50 ہزار مسلمانوں کو شہید کردیا، 90 فیصد غزہ شہر کو کھنڈر بنا دیا اور سلامتی کونسل میں اس ظلم کے خلاف قرارداد کو ویٹو کرنے کا کفار کو حق حاصل ہے تو ظالموں کا ہاتھ روکنے کے لیے ، مظلوموں کی داد رسی کے لیے ، انسانیت کو ظلم سے نجات دلانے اور عادلانہ نظام قائم کرنے کے لیےمسلمانوں کو اجازت کیوں نہیں ہونی چاہیے ؟ بالکل اللہ تعالیٰ نے اس کا حکم دیا ہے :
{وَقَاتِلُوْہُمْ حَتّٰی لَا تَـکُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّیَکُوْنَ الدِّیْنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ ج}(آیت :39) ’’اور (اے مسلمانو!)ان سے جنگ کرتے رہویہاں تک کہ فتنہ (کفر) باقی نہ رہے اور دین کُل کا کُل اللہ ہی کا ہو جائے۔‘‘
آج بدقسمتی سے عالم اسلام کے حکمران معذرت خواہانہ رویہ اپنائے ہوئے ہیں اور مغربی تشریحات کو قبول کرتے ہوئے اسلام کی جدید تعبیر پیش کرنا چاہتے ہیں کہ اسلام تو امن کی بات کرتا ہے ۔ بالکل اسلام امن کا دین ہے مگر اس امن کے قیام کے لیے اللہ حکم دے رہاہے کہ ظلم ، جبر ، استحصال اور ناانصافی کے خاتمہ کے لیے باطل نظام کے خلاف جنگ کرو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہےاور کل کا کل نظام اللہ کے لیے ہو جائے ۔
یہاں دین کے چار مفاہیم واضح ہو گئے: بدلہ، قانون ، اطاعت اور نظام ۔ بدلہ بھی کسی نظام کے تحت دیا یا لیا جاسکتا ہے۔ مثال کے طور پر طالب علم 33 فیصد نمبر حاصل کرے گا تو پاس ہوگا ۔ اس قانون کے اطلاق کے لیے بھی پور انظام ہے ، سکول ، کالجز ، اساتذہ ، نصاب ، امتحان وغیرہ یہ تمام چیزیں مل کرتعلیم کا نظام بناتی ہیں ۔ معلوم ہوا کہ قانون صرف لکھا ہوا کافی نہیں ہوتا بلکہ اس کا نفاذ ہوگا تو بدلہ ملے گا اور نفاذ کے لیے نظام کی ضرورت ہوگی ۔ آخر ت میں بدلے کے لیے بھی اللہ تعالیٰ کا پورا نظام ہے اور وہ نظام کیا ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے واضح فرما دیا :
{اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلَامُ قف}(آل عمران :19) ’’یقیناً دین تو اللہ کے نزدیک صرف اسلام ہی ہے۔‘‘
اللہ کے ہاں قابل قبول دین (نظام ) صرف اسلام ہے ۔ اسی سورہ میں آگے چل کر فرمایا :
{وَمَنْ یَّــبْـتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّــقْبَـلَ مِنْہُ ج}(آیت :85) ’’اور جو کوئی اسلام کے سوا کوئی اور دین اختیار کرنا چاہے گا تو وہ اس کی جانب سے قبول نہیں کیا جائے گا۔‘‘
بنیادی طور پر دنیا میں دو ہی پارٹیاں ہیں : حزب اللہ اور حزب الشیطان اور دو ہی دعوتیں ہیں ۔ اللہ تعالیٰ اپنے نظام (اسلام ) کو قائم کرنے کاحکم دیتاہے :
{اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِیْتَآیِٔ ذِی الْقُرْبٰی وَیَنْہٰی عَنِ الْفَحْشَآئِ وَالْمُنْکَرِ وَالْبَغْیِ ج } (النحل :90) ’’یقیناً اللہ حکم دیتا ہے عدل کا‘ احسان کا اور قرابت داروں کو (ان کے حقوق) ادا کرنے کا‘اور وہ روکتا ہے بے حیائی ‘ برائی اور سرکشی سے۔‘‘
اِس کے برعکس شیطان اپنے باطل نظام کو قائم کرنے کی دعوت دیتاہے ۔
{اِنَّمَا یَاْمُرُکُمْ بِالسُّوْٓئِ وَالْفَحْشَآئِ وَاَنْ تَقُـوْلُــوْا عَلَی اللّٰہِ مَا لَا تَـعْلَمُوْنَ(169)} (البقرہ:169) ’’وہ (شیطان) تو بس تمہیں بدی اور بے حیائی کا حکم دیتا ہے‘اور اس کا کہ تم اللہ کی طرف وہ باتیں منسوب کرو جن کے بارے میں تمہیں کوئی علم نہیں ہے۔‘‘
دوہی جماعتیں ، دو ہی دعوتیں اور نظام بھی دو ہی ہوں گے ۔ تیسر اکوئی نظام نہیں ۔ ہم یا تو اللہ کے نظام کے ساتھ ہو سکتے ہیں یا شیطان کے نظام کے ساتھ ۔ نیوٹرل نہیں ہو سکتے اور نہ ہی نیوٹرل ہونا قابل قبول ہے ۔ جیسے نائن الیون کے بعد بش نے پرویز مشرف کو فون کرکے تحکمانہ طور پر پوچھا تھا : ؟"Are you with us or against us"? ـتیسرا کوئی آپشن نہیں تھا۔ جب باطل کو نیوٹرل ہونا قبول نہیں ہے تو وہ رب جو پوری کائنات کا بادشاہ ، خالق اور مالک ہے اس کے نظام میں ہم کیوں رخصتیں تلاش کر رہے ہیں کہ اسلام کا ریاست سے ، اجتماعی زندگی سے ، نظام سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے ، ریڈیکل اسلام نہیں چاہیے وغیرہ ؟یہ مغرب کا تصور ہے کہ انفرادی طور پر چاہیے کوئی بھی مذہب اختیار کرے مگر اجتماعی نظام سے مذہب کا کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے ۔ جبکہ اسلام صرف نماز ، روزہ ، زکوٰۃ اور جج جیسی انفرادی عبادات تک محدود کوئی مذہب نہیں ہے بلکہ اسلام مکمل نظام ِزندگی ہے ۔ لہٰذا یا تو آپ اللہ کے نظام کے ساتھ کھڑے ہوں گے یا پھر شیطان کے نظام کے ساتھ ، درمیانی راستہ کوئی نہیں ہے ۔ مثال کے طور پر اسلام نے نکاح کا حکم دیا ، جب نکاح ہوگا تو اولا د ہوگی اور وراثت کی تقسیم کا مرحلہ بھی آئے گا جو کہ کسی قانون اور نظام کے تحت تقسیم ہوگی ۔ اِسی طرح زکوٰۃ کا حکم دیا تو بعض زکوٰۃ دینے والے ہوں گے ، بعض لینے والے ہوں گے اوریہ سلسلہ کسی نظام کے تحت جاری رہے گا ۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے چور کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا ، قاتل کی سزا بتائی ہےتو ان سزاؤں پر عمل درآمد کسی نظام کے تحت ہوگا ۔ ورنہ نسل درنسل قتل و غارت گری کا سلسلہ شروع ہو جائے گا ۔ اس نظام کے قیام کا جب مرحلہ شروع ہوتا ہے تو پھر معرکۂ حق و باطل بھی سجتا ہے ۔ جب ریاست ِمدینہ کا آغاز ہو رہا تھا اور حضورﷺ ابھی ہجرت کے دوران راستے میں ہی تھے کہ آپ ﷺنے دعا مانگی :
{وَقُلْ رَّبِّ اَدْخِلْنِیْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَّاَخْرِجْنِیْ مُخْرَجَ صِدْقٍ وَّاجْعَلْ لِّیْ مِنْ لَّدُنْکَ سُلْطٰنًا نَّصِیْرًا(80)}(بنی اسرائیل) ’’اور دعاکیجیے کہ اے میرے رب مجھے داخل کر عزت کا داخل کرنا اور مجھے نکال عزت کا نکالنااور مجھے خاص اپنے پاس سے مددگار قوت عطا فرما۔‘‘
اسی دور ان اللہ تعالیٰ کی طرف سے قتال کا حکم بھی آگیا ہے اور مدد اور نصرت کا وعدہ بھی آگیا ۔ فرمایا :
{اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّہُمْ ظُلِمُوْاط وَاِنَّ اللّٰہَ عَلٰی نَصْرِہِمْ لَقَدِیْرُ (39)}(الحج:39)
’’اب اجازت دی جا رہی ہے (قتال کی) ان لوگوں کو جن پر جنگ مسلط کی گئی ہے ‘اس لیے کہ ان پر ظلم کیا گیاہے اور یقیناً اللہ ان کی نصرت پر قادر ہے۔‘‘
جب نظام قائم ہو گیا تو اس کے بعد چوروں کے ہاتھ بھی کاٹے گئے ، قاتل کے لیے قصاص کی سزا پر بھی عمل درآمد ہوا اور تمام شرعی سزائیں نافذ ہوگئیں۔ جب اسلامی معاشرہ قائم ہو جائے تو وہاں اسلامی نظام کا نفاذ ضروری ہوجاتاہے اور اس صورت میں اگر اللہ کے احکامات کا نفاذ نہیں ہوتا تو اللہ تعالیٰ کے بڑے سخت فتوے اس ضمن میں موجود ہیں :
{وَمَنْ لَّــمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْکٰفِرُوْنَ(44)} ’’اور جو اللہ کی اُتاری ہوئی شریعت کے مطابق فیصلے نہیں کرتے وہی تو کافر ہیں۔‘‘ (المائدہ:44)
{وَمَنْ لَّـمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الظّٰلِمُوْنَ(45)}(المائدہ:45)’’ اور جو فیصلے نہیں کرتے اللہ کی اُتاری ہوئی شریعت کے مطابق وہی تو ظالم ہیں۔‘‘
{وَمَنْ لَّـمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْفٰسِقُوْنَ(47)}(المائدہ:47)’’اور جو لوگ نہیں فیصلے کرتے اللہ کے اُتارے ہوئے احکامات و قوانین کے مطابق‘ وہی تو فاسق ہیں۔‘‘
آج ہم مطمئن ہو کر بیٹھ جائیں کہ جمعہ کی دو رکعت پڑھ کر ہمارا ایمان مکمل ہوگیا ، یا زیادہ سے زیادہ پنج وقتہ نماز پڑھ لی ، حج کرلیا ، عمرہ کرلیا ، داڑھی رکھ لی ، سر پر ٹوپی سجا لی تو بس دین مکمل ہوگیا تو یہ المیہ ہے ۔ پیغمبرﷺ تو طائف میں لہو لہان ہوئے ، ہجرت کی صبر آزما تکالیف سے گزرے ، جنگ اُحد میں زخمی ہوئے اور 70 پیارے صحابہ؇ شہید ہوگئے ۔ یہ ساری مشقتیں اُٹھانے کی وجہ یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺکو اسلام کے غلبہ کا مشن دے کر بھیجا تھا ۔
{ہُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ}(الصف:9)’’وہی ہے (اللہ) جس نے بھیجا اپنے رسولؐ کو الہدیٰ اور دین حق کے ساتھ تاکہ غالب کر دے اس کو پورے نظامِ زندگی پر‘‘
حضور ﷺکی بعثت کا مقصد صرف یہ نہیں تھا کہ لوگوں کے عقیدے درست ہوجائیں، عبادات درست ہو جائیں، چنداصلاحی کام ہو جائیں بلکہ پورے کے پورے نظام کو تبدیل کرنا آپﷺ کی بعثت کا مقصد تھا اور آپ ﷺ کی 23 برس کی محنت گواہ ہےکہ یہی آپﷺ کی زندگی کا سب سے بڑا مشن تھا ۔ یہ مشن صرف عرب تک محدود نہیں تھا ۔ اگر ایسا ہوتا تو آپﷺ غزہ تبوک میں تشریف نہ لے جاتے ۔ معلوم ہوا کہ اسلام اپنا غلبہ پوری دنیا پر چاہتا ہے ۔ صحابہ ؇نے اسی مشن کے لیے دور دراز کے علاقوں میں جاکر جہاد کیا ۔ آج یہ ذِمّہ داری اُمّت کے کندھوں پر ہے ۔
وقت فرصت ہے کہاں، کام ابھی باقی ہیں
نور توحید کا اتمام ابھی باقی ہے
لیکن بدقسمتی سے مغربی پروپیگنڈاکے زیر اثر آج اُمّت کا ایک طبقہ کہتا ہے کہ ریڈیکل اسلام نہیں چاہیے۔ یہ طبقہ خود قرض لے لے کر بچوں کو مہنگی تعلیم دلوائے ، 50 ہزار مہینے کی آمدن ہے جبکہ اڑھائی کروڑ یونیورسٹی کی فیس بھر ے ، اس قدر دنیا کے پیچھے پڑ جائے کہ ماں باپ کو بھی بھول جائے ، انہیں اولڈ ہاؤسز میں پھینک کر دنیا کی عیاشیوں میں لگ جائے تو کیا یہ ریڈیکل ازم نہیں ہے ؟اگر مسلمان کتاب و سنت پر عمل پیرا ہونے کی بات کرے ، ظلم و استحصال پر مبنی باطل نظام کی جگہ عدل اجتماعی کے نظام کے قیام کی بات کرے تو وہ ریڈیکل ،ایکسٹریمسٹ وغیرہ وغیرہ ہے؟ دہشت گردی ایک الگ موضوع ہے جس کی ہم بھی مذمت کرتے ہیں لیکن یہ مملکتِ خداداد جس کی بنیادوں میں ہمارے باپ دادا کا خون شامل ہے ،ان سب کے پیش نظرایک ایسا خطۂ زمین تھا جہاں واقعتاً اسلام نافذ ہو لیکن 77 سال ہوگئے ہماری پارلیمنٹ ، سول اور فوجی حکمران اس معاملے میں سنجیدہ نہیں ہیں ، سودی نظام کی صورت میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے ساتھ جنگ آج تک جاری ہے ، کوئی بھی سیاسی جماعت اس پر بات نہیں کر رہی ، ٹرانسجینڈر ایکٹ یہاں بن گیا ، زیادہ تر سیاسی پارٹیاں اس میں ملوث رہیں ، بعض نے خاموشی اختیار کی ، اسلامی نظریاتی کونسل کی رپورٹس موجود ہیں ، وہ ایک آئینی ادارہ ہے مگر اس کی سفارشات پر کوئی عمل درآمد نہیں ہورہا ، نفاذِ شریعت کی طرف کوئی پیش قدمی نہیں ہے۔ اس کے باوجود فتاویٰ آگئے کہ جو اسلامی ریاست کے خلاف بغاوت کرے گا وہ مجرم ہے ، کچھ دینی حلقوں نے اس پر دستخط بھی کردئیے ، کچھ نے مجبوراً خاموشی اختیار کرلی ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلامی ریاست کے خلاف بغاوت جرم ہے لیکن یہ بھی تو بتایا جائے کہ اسلامی ریاست کہاں ہے ؟ 5 فروری کو ہم نے چھٹی منا لی ۔ کشمیری تو کہتے ہیں کہ ’’پاکستان سے رشتہ کیا : لاالٰہ الا اللہ‘‘ ۔ لیکن ہمارے ہاں لاالٰہ الا اللہ کہاں نافذ ہے؟ اگر یہاں کلمے کا نفاذ ہوتا تو کشمیریوں کی تحریک کو تقویت ملتی اور یہاں سے بھی اُن کو فطری سپورٹ ملتی ۔ اسی طرح پڑوس میں امارتِ اسلامیہ افغانستان ہے ، اس کے ساتھ بھی ہمارے تعلقات اچھے نہیں ہیں ۔ ان کے ساتھ بھی ہم اپنے تعلقات کو سدھاریں اور اس پورے خطہ میں اسلام کا بول بالا کریں کیونکہ احادیث کے مطابق اسی خطہ سے اسلامی لشکر امام مہدی کی نصرت کے لیے جائیں گے ۔ اگر یہاں اسلام نافذ ہوگا تو ہم اسلامی لشکر میں شامل ہو سکیں گے ۔ بجائے اس کے ہمارے ہاں جو ظلم اور ناانصافی کا بازار گرم ہے، لوگوں کو ملک سے بھاگنے پر مجبور کیا جارہا ہے، چادر اور چاردیواری کے تقدس کو پامال کیا جارہا ہے ، کوئٹہ میں ہر سال100،200لاپتہ افرادکی تصاویر پریس کلب کے باہر لگی ہوتی ہیں اور وہاں کی پڑھی لکھی بچیاںخودکش بمبار بن رہی ہیں ۔ ان حالات میں ہم کشمیریوں کو کیا پیغام دے رہے ہیں اور غزہ کے مسلمانوں کو کیا پیغام دے رہے ہیں ۔ وہاں کے مجاہدین تو اللہ پر توکل کرکے لڑ رہے ہیں اور اللہ کی مدد سے انہوں نے پوری دنیا کی طاقتوں کو شکست دے دی ہے ۔لیکن بحیثیت پاکستانی قوم ہم اپنا جائزہ لیں کہ ہم حق و باطل کی جنگ میں کہاں کھڑے ہیں ؟ٹرمپ نے بیان دیا ہے کہ ہم غزہ کی تعمیرِ نوکریں گے اور نیا عالی شان شہر بنائیں گے ۔ ان کا پلان اہلِ غزہ کو وہاں سے نکال دینے کا ہے ۔ اس پر پاکستان اور سعودی عرب سمیت بعض ممالک نے احتجاج اور مذمت بھی کی ہے لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلم ممالک متحد ہو کر اُمّتِ مسلمہ کے مفادات کا دفاع کریں اور اس کے لیے کوئی مشترکہ حکمت ِعملی اپنائیں ۔ امریکہ اور دیگر عالمی طاقتوں کی منافقت تو کھل کر سامنے آچکی ہے۔ مسلم ممالک اب چہروں سے نقاب اُترنے کا کتنا انتظار کریں گے ۔ لہٰذا اللہ کےدین کی طرف پلٹنے میں ہی عالمِ اسلام کی نجات ہے ، اسلام سے وفاداری کی صورت میں ہی ہمیں عزت مل سکتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اسلام کے ساتھ مخلص ہونے کی توفیق عطافرمائے ۔ آمین !